Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پرندوں کے بارے میں نہیں ، شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے ہیں جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں سے شکاری کتے نے کھا لیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری پرند کھا لے اس میں دو وجوہات ہیں ۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے ۔ کیونکہ امام شافعی نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ متردیہ وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر مر گیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے ، ابن عباس یہی فرماتے ہیں ۔ قتادہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گر پڑے ، نطیحہ وہ ہے جسے دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس صدمہ سے مر جائے ، گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے خون بھی نکلا ہو ، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا ، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے ہے ، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلتہ اور خضیبتہ نہی کہتے ، اس جگہ تے اس لئے لایا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے ہے ، جیسے عرب کا یہ کلام طریقتہ طویلتہ ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر دلالت ہو جائے بخلاف کحیل اور خضیب کے کہ وہاں تانیث کلام کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی ہے ۔ آیت ( ما اکل اسبع ) سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر ، بھیڑیا ، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کھا جائے اور اس سبب سے مر جائے تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے ، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے ۔ اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھا لیا کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جسے تم ذبح کر لو ، یعنی گلا گھونٹا ، لٹھ مارا ہوا ، اوپر سے گر پڑا ہو ، سینگ اور ٹکر لگا ہو ، درندوں کا کھایا ہو ، اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حلال ہو جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر ، حسن اور سدی یہی فرماتے ہیں ، حضرت علی سے مروی ہے اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے کھا لو ، ابن جریر میں آپ سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا سکتے ہو ۔ حضرت طاؤس ، حسن ، قتادہ ، عبید بن عمیر ، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے ۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے ۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے ، امام مالک اس بکری کے بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے کس چیز کا ذبیحہ ہوگا ؟ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کر کے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان نکلنے سے پہلے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہئے اور اگر اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں ، سائل نے کہا درندے نے اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا ، جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کا کھانا پسند نہیں کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی ، آپ سے پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا حکم ہے ، فرمایا میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے ۔ یہ ہے امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لئے امام صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص دلیل چاہئے ، واللہ اعلم ۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمن سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں آپ نے فرمایا جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے ، اسے کھا لو ، سوائے دانت اور ناخن کے ، یہ اس لئے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں مسند احمد اور سنن میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے اردگرد تھیں ، ابن جریج فرماتے ہیں یہ تین سو ساٹھ بت تھے ، جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا ، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کر دیا ۔ اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے ، اور اسی لائق ہے ، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں ۔ ( ازلام ) سے تقسیم کرنا حرام ہے ، یہ جاہلیت کے عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے ، ایک پر لکھا ہوا تھا افعل یعنی کر ، دوسرے پر لکھا ہوا تھا لاتعفل یعنی نہ کر ، تیسرا خالی تھا ۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا حکم ہے ، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا ۔ بطور قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے ، اگر حکم کر نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے ، ازلام جمع ہے زلم کی اور بعض زلم بھی کہتے ہیں ۔ استسقام کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے ، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے کنوئیں پر نصب تھا ، جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے ، اس بت کے پاس سات تیر تھے ، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آکر ان تیروں میں سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے مجسمے گڑے ہوئے پائے ، جن کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے ، انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے خلاف تھا میں نے پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا ، میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں ہوا تھا ، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے ، یا تیر اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے حضرت مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب ان تیروں کے ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام ہے ۔ ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے ۔ واللہ اعلم ۔ اسی سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا ایمان والو شراب ، جواء ، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں ، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے ، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے ، اس کام کا کرنا فسق ، گمراہی ، جہالت اور شرک ہے ۔ اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر لو ، اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو ۔ مسند احمد ، بخاری اور سنن میں مروی ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے ، اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے ، آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم اولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبتہ امری فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی دینی ونیای ومعاشی وعاقبتہ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ ۔ یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب ہوں ، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں ، تو تمام علم والا ہے اور میں مطلق بےعلم ہوں ، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے والا ہے ، اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے میرے لئے آسان بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لئے خیرو برکت جہاں کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و ضا مند کر دے ۔ دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ھذا الامر جہاں ہے وہاں اپنے کام کا نام لے مثلاً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ ۔ بعض روایتوں میں خیر لی فی دینی سے امری تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں ۔ دعا ( خیر لی فی عاجل امری و اجلہ ) ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے ہیں ، پھر فرماتا ہے آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں کچھ خلط ملط کر سکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل کرلیں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں ، ہاں وہ اس کوشش میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہو گئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں ، کیونکہ احکام اسلام نے ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا ، اسی لئے حکم ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں ، ثابت قدم رہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہ ڈریں ، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں ، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں ، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں انہیں بلند و بالا رکھے گا ۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ میں نے تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کر دیا ، تمہیں اس دین کے سوا کسی دین کی احتیاج نہیں ، نہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی بنی کی تمہیں حاجت ہے ، اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء کیا ہے ، انہیں تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے ، حلال وہی ہے جسے وہ حلال کہیں ، حرام وہی ہے جسے وہ حرام کہیں ، دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں ، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی ، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہیں ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا ) 6 ۔ الانعام:1145 ) یعنی تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا ، جو خبریں دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل والا ہے ۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے اس دین اسلام پر خوش ہوں ، اس لئے تم بھی اسی پر راضی رہو ، یہی دین اللہ کا پسندیدہ ، اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے کلام میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے اللہ نے پورا کیا ہے جو قیامت تک ناقص نہیں ہوگا ۔ اس سے اللہ خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش نہیں ہونے والا ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عرفہ کے دن نازل ہوئی ، اس کے بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا ، اس حج سے لوٹ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ، حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں اس آخری حج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھی ، ہم جا رہے تھے اتنے میں حضرت جبرائیل کی تجلی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی ، اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی ۔ میں نے اسی وقت اپنی چادر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اڑھا دی ۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات رہے ، حج اکبر والے دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ) 5 ۔ المائدہ:3 ) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا ، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب نے حضرت عمر سے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا یہ آیت ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے ۔ حضرت ابن عباس کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا کہ جس پر آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن اتری ہے ، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے ۔ حضرت سمرہ فرماتے ہیں اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم موقف میں کھڑے ہوئے تھے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ، پیر والے دن ہی مکہ سے نکلے اور پیر والے دن ہی مدینے میں تشریف لائے ، یہ اثر غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ، پیر والے دن نبی بنائے گئے ، پیر والے دن ہجرت کے ارادے سے نکلے ، پیر کے روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے ، حجر اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا ، اس میں سورہ مائدہ کا پیر کے دن اترنا مذکور نہیں ، میرا خیال یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا ہو گا دو عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے ، اور پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لئے راوی کو شبہ سا ہو گیا واللہ اعلم ۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل ہوئی ہے جس دن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا مولیٰ میں ہوں ، اس کا مولیٰ علی ہے گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی ، جبکہ آپ حجتہ الوداع سے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں ۔ بالکل صحیح اور بیشک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے ، امیر المومنین عمر بن خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے یہی مروی ہے اور اسی کو حضرت شعبی ، حضرت قتادہ ، حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء نے کہا ہے ، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے ، پھر فرماتا ہے جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بےبس ہو جائے تو وہ ایسے اضطرار کی حالت میں انہیں کام لا سکتا ہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ، وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن بےبسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو اللہ سے معاف فرما دے گا ۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک جانا ۔ مسند احمد میں ہے جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے ، اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے ، اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو جاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے اور کبھی مباح ، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے ، اس کے تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں ۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے ، مردار اور دوسرے کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا وہ مردار کھا لے؟ یہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کر لے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے یا دوسرے کی چیز بلا اجازت کھا لے اور اپنی آسانی کے وقت اسے وہ واپس کر دے ، اس میں دو قول ہیں امام شافعی سے دونوں مروی ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے تو حلال ہوتا ہے یہ بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار ، بےقراری اور مجبوری حالت میں ہو ، اس کیلئے مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم ایسی جگہ رہتے ہیں کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے ، تو ہمارے لئے مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب صبح شام نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے ۔ اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے ، لیکن مسند والی مرفع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے ۔ ابن عون فرماتے ہیں حضرت حسن کے پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی ، جسے میں ان کے سامنے پڑھتا تھا ، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے ، ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حرام کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تک کہ تو اپنے بچوں کو دودھ سے شکم سیر نہ کر سکے اور جب تک ان کا سامان نہ آ جائے ۔ ایک اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حلال حرام کا سوال کیا ، آپ نے جواب دیا کہ کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہو جائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ ہو جائے اس نے پھر دریافت کیا کہ وہ محتاجی کونسی جس میں میرے لئے وہ حرام چیز حلال ہوئے اور وہ غنی ہونا کونسا جس میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے فرمایا ۔ جبکہ تو صرف رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ کر سکتا ہو تو تو حرام چیز سے پرہیز کر ۔ ابو داؤد میں ہے حضرت نجیع عامری نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہمارے لئے مردار کا کھانا کب حلال ہو جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا تمہیں کھانے کو کیا ملتا ہے؟ اس نے کہا صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ آپ نے کہا یہی ہے اور کونسی بھوک ہو گی؟ پس اس حالت میں آپ نے انہیں مردار کھانے کی اجازت عطا فرمائی ۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا ، بھوک باقی رہتی تھی ، اس لئے ان پر مردہ حلال کر دیا گیا ، تا کہ وہ پیٹ بھر لیا کریں ، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے ، صرف جان بچ جائے اتنا ہی کھانا جائز ہو ، یہ حد ٹھیک نہیں واللہ اعلم ۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں ٹھہرا ، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہو گئی تھی ، اس نے ان سے کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا ۔ اتفاق سے یہ اونٹنی اسے مل گئی ، اب یہ اس کے مالک کو تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑ گئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں ، تم اسے ذبح کر ڈالو لیکن اس نے انکار کر دیا ، آخر اونٹنی مر گئی تو پھر بیوی صاحبہ نے کہا ، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور چربی کو ٹکڑے کر کے سلکھا لو ، ہم بھوکوں کو کام آ جائیگا ، اس بزرگ نے جواب دیا ، میں تو یہ بھی نہیں کرونگا ، ہاں اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیں تو اور بات ہے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے تمام قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اور کچھ کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا پھر تم کھا سکتے ہو ۔ اس کے بعد اونٹنی والے سے ملاقات ہوئی اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر کے کھا کیوں نہ لیا ؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی ۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوا ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو ، اس کیلئے اسے مباح کر کے دوسرے سے خاموشی ہے ، جیسے سورہ بقرہ میں ہے آیت ( فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ:173 ) یعنی وہ شخص بےقرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والے کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے ، اسے شریعت کی رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں ، اس لئے کہ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں و اللہ تعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر 173۔ 3۔ 2 گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ 3۔ 3 کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مرگیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مرگیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ 3۔ 4 چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ 3۔ 5 نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مرگیا۔ 3۔ 6 یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مرگیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھالیا جاتا تھا۔ 3۔ 7 جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ 3۔ 8 مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔ 3۔ 9 وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ 3۔ 10 یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] حلت وحرمت کی علت :۔ حلت و حرمت کے قانون میں شریعت نے صرف اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ حرام چیزوں کے طبی لحاظ سے جسم انسانی پر کیا مفید یا مضر اثرات پڑتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو سب سے پہلے سنکھیا اور دوسرے زہروں کا نام لیا جاتا، بلکہ زیادہ تر اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان حرام اشیاء کے انسان کے اخلاق پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طہارت اور پاکیزگی سے ان کا کس قدر تعلق ہے نیز ایسی تمام چیزیں بھی حرام قرار دی گئیں جنہیں نیت کی گندگی اور عقیدہ کی خباثت حلال سے حرام بنا دیتی ہے۔ لہذا یہ ضروری نہیں کہ جو چیز اللہ نے حرام کی ہے اس کی حکمت بہرحال انسان کی سمجھ میں آجائے۔- [١٢] اس آیت میں جن حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلی چار چیزوں کا ذکر پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٧٣ میں آچکا ہے اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔- [١٣] چونکہ خون حرام ہے اس لیے موت کی ہر وہ صورت جس میں خون جسم سے نکل نہ سکے وہ بدرجہ اولیٰ حرام ہوئی۔ ایسی ہی چار صورتوں کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ پہلی صورت اختناق یا گلا گھونٹ کر مرنے کی ہے پھر اسی کی آگے کئی صورتیں ہیں جیسے کوئی گلا دبا کر یا مروڑ کر مار ڈالے۔ یا اسی رسی کا پھندا لگ جائے یا گردن کسی درخت کی شاخوں میں پھنس جائے اور جانور مرجائے۔ دوسری صورت چوٹ یا ضرب سے مرنے کی ہے۔ یہ چوٹ کسی پتھر وغیرہ کی بھی ہوسکتی ہے اور لاٹھی وغیرہ کی بھی۔ تیسری صورت گر کر مرنا ہے خواہ کسی پہاڑی یا درخت سے گر کر مرجائے یا کسی کھڈ یا کنوئیں یا ندی نالے میں گر کر مرجائے۔ اور چوتھی صورت یہ ہے کہ سینگ دار جانور اپنے سینگوں سے لڑیں اور ان میں سے کوئی مرجائے ایسے سب مردار حرام ہیں۔- [١٤] شکار کے احکام :۔ عدی (رض) بن حاتم کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں بسم اللہ پڑھ کر سکھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑوں اور وہ میرے لیے شکار روکے تو آپ نے فرمایا وہ تم کھا سکتے ہو۔ میں نے کہا اگر کتے نے اسے مار ڈالا ہو مگر کھایا نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمایا کھا سکتے ہو۔ اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی ہو اور شکار مرچکا ہو تو مت کھاؤ۔ کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ کس کتے نے اسے مارا ہے۔ پھر میں نے پوچھا اگر شکار چوڑائی میں لگنے والی کسی چیز سے مرجائے تو ؟ آپ نے فرمایا۔ اگر پھٹ جائے یعنی خون نکل آئے تو کھا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ نیز آپ نے (ایک دوسری روایت کے مطابق) فرمایا۔ اگر بسم اللہ پڑھ کر سکھائے ہوئے کتے نے شکار سے خود بھی کچھ کھالیا ہو تو پھر مت کھاؤ کیونکہ اس کتے نے یہ شکار اپنے لیے کیا تھا تمہارے لیے نہیں۔ (مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب الصید بالکلاب المعلمۃ) - [١٥] ایسا مقام جسکی نسبت عوام میں مشہور ہو کہ وہاں جا کر قربانی دینے سے یا ایسی نذر ماننے سے انسانوں کی فلاں تکلیف رفع ہوجاتی ہے یا اسے فلاں فائدہ پہنچتا ہے اور لوگ اسے مقدس سمجھتے ہوں خواہ وہاں کوئی بت موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اگر کسی درخت یا کسی پتھر سے ایسے ہی فوائد منسوب کیے گئے ہوں تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا چناچہ درج ذیل حدیث اسکی پوری وضاحت کرتی ہے۔- آستانے کی تعریف اور ان پر قربانی کا حکم :۔ سیدنا ثابت بن ضحاک فرماتے ہیں کہ دور نبوی میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ قربانی کرے گا پھر وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ میں نے بوانہ کے مقام پر ایک اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی تھی۔ آپ نے پوچھا کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی رہی ہو۔ لوگوں نے کہا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں مشرکوں کی عیدوں میں سے کوئی عید (میلہ، عرس) تو نہیں لگتا تھا ؟ لوگوں نے کہا نہیں تب آپ نے اس شخص سے کہا، اپنی نذر پوری کرو۔ البتہ اللہ کی نافرمانی میں نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ ایسی چیز میں جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو۔ (ابو داؤد کتاب الایمان والنذور۔ باب۔ مایومر بہ من الوفاء عن النذر) - [١٦] قسمت کے تیروں کے ذریعہ غیب کی خبریں یا اپنی اچھی یا بری قسمت کا حال معلوم کرنا محض توہم پرستی ہے اور ایمان بالجبت میں داخل ہے۔ یہ تیر عموماً کسی بت خانہ میں یا کافروں کے گمان کے مطابق کسی مقدس مقام پر پڑے رہتے تھے۔ جب کوئی اہم کام یا سفر درپیش ہوتا تو پہلے ان تیروں سے حالات معلوم کرتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے۔- ١۔ عرب میں فال گیری کا رواج :۔ سیدہ عائشہ (رض) واقعہ ہجرت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپ کا تعاقب کرنا چاہا۔ سراقہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنا گھوڑا دوڑایا تاکہ جلد از جلد انہیں جا پکڑوں جب میں ان کے قریب پہنچ گیا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گرگیا ۔ میں نے اٹھ کر اپنا ہاتھ اپنے ترکش میں ڈالا۔ اس سے تیر نکال کر یہ فال نکالی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤں یا نہ پہنچاؤں۔ مگر فال میں وہ چیز نکلی جو مجھے پسند نہ تھی۔ تاہم میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اور فال کی کوئی پروا نہ کی۔ (بخاری باب بنیان الکعبہ۔ باب ھجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ)- ٢۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ (فتح مکہ کے موقع پر) جب آپ نے کعبہ کے اندر تصویریں دیکھیں تو آپ اندر داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ جب آپ نے ابراہیم اور اسماعیل کی تصویروں کو دیکھا، ان کے ہاتھوں میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں نکالی تھی۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا )- [١٧] یعنی اب اسلام کو اتنا عروج حاصل ہوچکا ہے کہ کافر اب اپنی پوری کوشش کے باوجود اس کی راہ نہیں روک سکتے۔ نہ ہی اب کفر کے غالب آنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔- [١٨] تکمیل دین کا مطلب :۔ دین سے مراد شریعت کے تمام اصول اور جزئی احکام و ہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ اور نمونہ بھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو زندگی کے کسی بھی پہلو میں خواہ وہ معاشرتی پہلو ہو یا معاشی ہو یا سیاسی ہو۔ باہر سے کوئی بھی اصول اسلام میں درآمد کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اس لحاظ سے اسلام میں موجودہ مغربی جمہوریت، اشتراکیت، کمیونزم، سوشلزم یا اور کسی ازم کو داخل کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ یہی صورت حال بدعات کی ہے۔- [١٩] اسلام بہت بڑی نعمت ہے :۔ اللہ کی انسان پر اور بالخصوص مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ایسی جامع ہدایات و احکام عطا فرما دیئے ہیں۔ جن سے دنیا کی زندگی بھی کامیاب اور خوشگوار ہوجاتی ہے اور اخروی نجات بھی حاصل ہوجاتی ہے اور دوسروں کا دست نگر بھی نہیں بننا پڑتا۔- [٢٠] یعنی جس طرح کائنات کی تمام اشیاء اللہ کے حکم کے سامنے بلا چون و چرا سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں اسی طرح انسان بھی اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور کائنات سے ہم آہنگ ہوجائے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اسی بات کو اپنا ضابطہ حیات بنا لے۔ ان معنوں میں سیدنا آدم سے لے کر نبی آخر الزماں تک تمام انبیاء کا یہی دین یعنی اسلام ہی دین رہا ہے۔ اور اسی کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔ یہ آیت ٩ ذی الحجہ ١٠ ھ کو عرفہ کے دن نازل ہوئی تھی اور اس دن جمعہ کا دن تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ تکمیل دین کا دن :۔ یہودی لوگ (کعب احبار) سیدنا عمر (رض) سے کہنے لگے : تم ایک ایسی آیت پڑھتے ہو کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اسے عید (جشن) کا دن مقرر کرلیتے۔ سیدنا عمر (رض) نے کہا کہ یہ آیت کب اور کہاں اتری اور اس وقت آپ کہاں تشریف رکھتے تھے۔ یہ آیت عرفہ کے دن اتری اور ہم اس وقت عرفات میں تھے۔ سفیان (ایک راوی) نے کہا۔ مجھے شک ہے اس دن جمعہ تھا یا کوئی اور دن۔ (بخاری کتاب التفسیر) اور بخاری کی دوسری روایات مثلاً کتاب الایمان۔ باب زیادۃ الایمان و نقصانہ) اور کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ نیز مسلم۔ کتاب التفسیر میں وضاحت ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا۔- ٢۔ سیدنا (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نو سال تک (مدینہ میں) رہے مگر حج نہیں کیا۔ پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ آپ حج کرنے جا رہے ہیں۔ چناچہ بہت سے لوگ آپکی ہمراہی کے لئے مدینہ آگئے۔ (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) - [٢١] سورة بقرہ کی آیت ١٧٣ میں یہی مضمون آچکا ہے۔ یہاں ( غیر متجانف لاثم) کے الفاظ ہیں اور وہاں غیر باغ ولا عاد کے اور مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے تفصیل مذکورہ آیت میں دیکھ لی جائے۔ سابقہ آیت میں حرام کردہ اشیاء مذکور ہوئی تھیں اس آیت کا یہ جملہ انہیں اشیاء سے متعلق ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ) شروع کی آیت میں جن جانوروں کے حرام ہونے کے بیان کا وعدہ ” سوائے ان کے جو تم پر پڑھے جائیں گے “ کے ساتھ کیا گیا تھا اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔ - الْمَيْتَةُ : مردار میں سے مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کردیے گئے ہیں، مردار تو مچھلی اور ٹڈی ہیں (کیونکہ ان میں دم مسفوح نہیں ہوتا) اور خون جگر اور تلی ہیں۔ “ [ أحمد : ٢؍٩٧ ح : ٥٧٢٥۔ ابن ماجہ : ٣٣١٤، و صححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ١١١٨ ] حرام خون اور لحم خنزیر کی تفصیل سورة انعام (١٤٥) میں ہے۔- وَالْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھٹنے والا جانور، خواہ خود بخود رسی وغیرہ سے گھٹ کر مرجائے یا کوئی گلا گھونٹ کر مار دے۔ - وَالْمَوْقُوْذَةُ : جسے کسی لاٹھی یا پتھر وغیرہ کی چوٹ سے مارا جائے۔ - اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ: اس کا تعلق اس سے پہلے مذکور پانچ چیزوں کے ساتھ ہے کہ ان پانچوں چیزوں میں سے کسی کے اندر اگر جان باقی ہو اور مرنے سے پہلے اسے ذبح کرلو تو وہ حلال ہے۔ شرعی ذبح یہ ہے کہ حلال جانور کو ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَر “ کہہ کر کسی تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی شرعی طریقہ ہے کہ کھڑے اونٹ کے حلق کے گڑھے میں چھری وغیرہ ماری جائے۔ ذبح اور نحر حلق یا لبہ ( حلق کے گڑھے) ہی میں ہوتا ہے، البتہ اگر مجبوری ہو، مثلاً جانور قابو نہیں آ رہا، یا ایسی جگہ ہے جہاں پکڑ کر ذبح کرنا مشکل ہے تو ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ “ پڑھ کر جہاں سے بھی ہو سکے چھری یا نیزے سے خون بہا کر ذبح کیا جاسکتا ہے۔ اگر ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر نہیں بلکہ اتفاقاً گردن الگ ہوجائے تو وہ بھی حلال ہے۔ - اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ: مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے لیے جو جگہیں مقرر کرتے انھیں نصب کہا جاتا تھا، کیونکہ عموماً وہاں کوئی نشان نصب ہوتا، مثلاً بت، درخت، قبر یا دریا وغیرہ۔ پھر اس کے پاس ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ ایسی جگہوں کو استھان، تھان اور آستانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ ایسے جانور بھی حرام ہیں خواہ ان پر ” بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَر “ بھی پڑھا جائے، اگرچہ ان کا ذکر ( وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) کے ضمن میں آچکا تھا مگر مزید تاکید کے لیے ان کو الگ بھی ذکر فرمایا۔ ثابت بن ضحاک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ” بوانہ “ مقام پر اونٹ نحر کرے گا، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ” بوانہ “ مقام پر ایک اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیا وہاں ایام جاہلیت کے (انصاب) استھانوں میں سے کوئی استھان تھا ؟ “ لوگوں نے کہا : ” نہیں “ آپ نے مزید پوچھا : ” کیا وہاں مشرکین کی عیدوں (میلوں) میں سے کوئی عید تھی ؟ “ لوگوں نے کہا :” نہیں “ آپ نے فرمایا : ” اپنی نذر پوری کرو۔ “ [ أبو داوٗد، الأیمان والنذور، باب ما یؤمر بہ من وفاء النذر : ٣٣١٣ ] - وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭ: ” اَزْلاَمٌ“ یہ ” زَلَمٌ“ کی جمع ہے، یہ وہ تیر تھے جو قسمت معلوم کرنے کے لیے ہبل بت کے پاس رکھے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی تصویروں کے ہاتھوں میں بھی تھمائے ہوئے تھے، بلکہ لوگ اپنے ساتھ بھی قسمت آزمائی کے یہ تھیلے رکھ لیتے تھے، جیسا کہ سراقہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعاقب کرتے ہوئے ان تیروں سے فال نکالی تھی۔ ان میں سے کسی پر ” اِفْعَلْ “ ( کرلو) لکھا ہوتا، کسی پر ” لَا تَفْعَلْ “ (مت کرو) لکھا ہوتا اور کوئی خالی ہوتا۔ قسمت معلوم کرنے والا تیر نکالتا، جو حکم نکلتا اس پر عمل کرتا، اگر خالی تیر نکلتا تو دوبارہ تیر نکالتا۔ اس قسم کے تمام کام، خواہ انھیں فال نامہ کہا جائے یا استخارہ یا کسی نجومی سے پوچھا جائے حرام ہیں، شرک ہیں کیونکہ غیب تو اللہ کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں، مسنون استخارے میں اس چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ ( َاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭ ) کا ایک اور مطلب بھی ہے، یعنی جوئے کے تیروں کے ذریعے سے ذبح شدہ گوشت کے حصے تقسیم کرنا، اس میں کسی کا حصہ نکل آتا، کوئی محروم رہ جاتا، یہ وہی چیز ہے جسے آج کل لاٹری کہا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ (قرطبی) - اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۔۔ : یعنی اب تمہاری طاقت اس قدر مستحکم ہوگئی ہے کہ تمہارے دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ اس چیز سے قطعی مایوس ہوگئے ہیں کہ تمہارے دین کو نیچا دکھا سکیں۔ - اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ۔۔ : طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب (رض) سے کہا : ” آپ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر ہم یہودیوں کی کتاب میں یہ آیت نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنا لیتے۔ “ آپ نے فرمایا : ” کون سی آیت ؟ “ اس نے یہ آیت پڑھی : ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ) [ المائدۃ : ٣ ] یہ سن کر عمر (رض) نے فرمایا : ” ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جب یہ (آیت) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تھی، آپ (٩ ذوالحجہ کو) عرفہ میں تھے (پچھلے پہر کا وقت تھا) اور جمعۃ المبارک کا دن۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب زیادۃ الإیمان و نقصانہ : ٤٥ ]- دین کو مکمل کردینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے تمام ارکان، فرائض، سنن، حدود اور احکام بیان کردیے گئے ہیں اور کفر و شرک کا خاتمہ کر کے اس نعمت کو مکمل کردیا گیا ہے۔ اب دین میں جو حرام ہونا تھا یا حلال ہونا تھا وہ ہوچکا، اب اگر کوئی اس میں تبدیلی یا اضافہ کرے گا، یا نئی چیز نکالے گا وہ دین نہیں ہوسکتی بلکہ دین میں بدعت ہے، جو سراسر گمراہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ )” جو ہمارے اس امر ( دین) میں کوئی نئی چیز شروع کرے گا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔ “ [ بخاری، الصلح، باب إذا اصطلحوا۔۔ : ٢٦٩٧ ]- فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ ۔۔ : یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور اور لاچار آدمی اگر حرام چیزوں میں سے کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ حرام کھانے کا شوق نہ ہو اور اسے جائز نہ سمجھنے لگے اور دوسرا بقدر ضرورت کھائے، حد سے نہ گزرے۔ معلوم ہوا حرام کھانے کا تعلق بھوک اور حقیقی مجبوری سے ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے اضطرار کا بہانہ بنا کر سود کھانا شروع کر دے، یہ مراد نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - تم پر (یہ جانور وغیرہ) حرام کئے گئے ہیں مردار (جانور جو کہ باوجود واجب الذبح ہونے کے بلاوجہ شرعی مر جاوے) اور خون (جو بہتا ہو) اور خنزیر کا گوشت (اسی طرح اس کے سب اجزاء) اور جو جانور کہ (بقصد قربت) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مر جاوے اور جو اونچے سے گر کر مر جاوے (مثلاً پہاڑ سے یا کنوئیں میں) اور جو کسی کی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ (پکڑ کر) کھانے لگے (اور اس کے صدمہ سے مرجاوے) لیکن (منخنقہ سے ما اکل السبع تک جن کا ذکر ہے ان میں سے) جس کو تم (دم نکلنے سے پہلے قاعدہ شرعیہ کے مطابق) ذبح کر ڈالو (وہ اس حرمت سے مستثنیٰ ہے) ۔ اور (نیز) جو جانور (غیر اللہ کی) پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے (حرام ہے گو زبان سے غیر اللہ کے نامزد نہ کرے۔ کیونکہ مدار حرمت کا نیت خبیثہ پر ہے۔ اس کا ظہور کبھی قول سے ہوتا ہے کہ نامزد کرے کبھی فعل سے ہوتا ہے کہ ایسے مقامات پر ذبح کرے) اور یہ (بھی حرام ہے) کہ (گوشت وغیرہ) تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ (اور حرام) ہیں آج کے دن (یعنی اب) ناامید ہوگئے کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب و گم ہوجانے) سے (کیونکہ ماشاء اللہ اسلام کا خوب شیوع ہوگیا) سو ان (کفار) سے مت ڈرنا (کہ تمہارے دین کو گم کرسکیں) اور مجھ سے ڈرتے رہنا (یعنی میرے احکام کی مخالفت مت کرنا) آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے (ہر طرح) کامل کردیا (قوت میں بھی جس سے کفار کو مایوسی ہوئی اور احکام و قواعد میں بھی) اور (اس کمال سے) میں نے تم پر اپنا انعام تمام کردیا (دینی انعام بھی کہ احکام کی تکمیل ہوئی اور دنیوی انعام بھی کہ قوت حاصل ہوئی اور اکمال دین میں دونوں آگئے) اور میں نے اسلام کو تمہارا دین بننے کے لئے (ہمیشہ کو) پسند کرلیا (یعنی قیامت تک تمہارا یہی دین رہے گا۔ اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین تجویز نہ کیا جاوے گا۔ پس تم کو چاہیے کہ میری نعمت کا شکر کرکے اس دین پر پورے پورے قائم رہو) پھر (اشیائے مذکورہ بالا کی حرمت دریافت کرلینے کے بعد یہ بھی معلوم کر لو کہ) جو شخص شدت کی بھوک میں بیتاب ہوجاوے (اور اس وجہ سے اشیائے بالا کو کھالے) بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو (یعنی نہ قدر ضرورت سے زیادہ کھاوے اور نہ لذت مقصود ہو جس کو سورة بقرہ میں، غیر باغ ولا عاد، سے تعبیر فرمایا ہے) تو یقینا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں (اگر قدر ضرورت کا پورا اندازہ نہ ہوا اور ایک آدھ لقمہ زیادہ بھی کھا گیا اور) رحمت والے ہیں (کہ ایسی حالت میں اجازت دے دی) ۔- معارف و مسائل - یہ سورة مائدہ کی تیسری آیت ہے۔ جس میں بہت سے اصول اور فروعی احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا مسئلہ حلال و حرام جانوروں کا ہے۔ جن جانوروں کا گوشت انسان کے لئے مضر ہے، خواہ جسمانی طور پر کہ اس سے انسان کے بدن میں بیماری کا خطرہ ہے، یا روحانی طور پر کہ اس سے انسان کے اخلاق اور قلبی کیفیات خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کو قرآن نے خبائث قرار دیا اور حرام کردیا، اور جن جانوروں میں کوئی جسمانی یا روحانی مضرت نہیں ہے، ان کو طیب اور حلال قرار دیا۔ - اس آیت میں فرمایا ہے کہ حرام کئے گئے تم پر مردار جانور۔ مردار سے مراد وہ جانور ہیں جو بغیر ذبح کے کسی بیماری کے سبب یا طبعی موت سے مر جائیں۔ ایسے مردار جانور کا گوشت ” طبعی “ طور پر بھی انسان کے لئے سخت مضر ہے اور روحانی طور پر بھی۔- البتہ حدیث شریف میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو چیزوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ایک ” مچھلی “ دوسرے ٹڈی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی، بیہقی وغیرہ نے روایت کی ہے۔- دوسری چیز جس کو اس آیت نے حرام قرار دیا ہے وہ خون ہے، اور قرآن کریم کی دوسری آیت میں اودما مسفوحا فرما کر یہ بتلا دیا گیا، کہ خون سے مراد بہنے والا خون ہے۔ اس لئے جگر اور تلی باوجود خون ہونے کے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ حدیث مذکور میں جہاں ” میتہ “ سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ فرمایا ہے۔ اسی میں جگر اور طحال کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ - تیسری چیز ” لحم خنزیر “ ہے۔ جس کو حرام فرمایا ہے۔ لحم سے مراد اس کا پورا بدن ہے۔ جس میں چربی، پٹھے وغیرہ سب ہی داخل ہیں۔ - چوتھے وہ جانور جو غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر اگر ذبح کے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام لیا ہے تو وہ کھلا شرک ہے۔ اور یہ جانور باتفاق مردار کے حکم میں ہے۔- جیسا کہ مشرکین عرب اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔ یا بعض جاہل کسی پیر فقیر کے نام پر، اور اگر بوقت ذبح نام تو اللہ تعالیٰ کا لیا، مگر جانور کسی غیر اللہ کے نام پر نذر کیا ہو اور اس کی رضامندی کے لئے قربان کیا ہے تو جمہور فقہاء نے اس کو بھی ما اھل لغیر اللہ بہ، کے تحت حرام قرار دیا ہے۔- پانچویں۔ منخنقة۔ یعنی وہ جانور حرام ہے جو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہو ہو یا خود ہی کسی جال وغیرہ میں پھنس کر دم گھٹ گیا ہو۔ اگرچہ منخنقہ، اور موقوذة بھی میتہ کے اندر داخل ہیں، مگر اہل جاہلیت ان کو جائز سمجھتے تھے۔ اس لئے خصوصی ذکر کیا گیا۔ - چھٹے۔ موقوذة، یعنی وہ جانور جو ضرب شدید کے ذریعہ ہلاک ہوا ہو۔ جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ سے مارا گیا ہو۔ اور جو تیر کسی شکار کو اس طرح قتل کر دے کہ دھار کی طرف سے نہ لگے ویسے ہی ضرب سے مر جائے وہ بھی موقوذة میں داخل ہو کر حرام ہے۔- حضرت عدی بن حاتم (رض) نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات ” معراض “ تیر سے شکار کرتا ہوں۔ اگر شکار اس سے مر جائے تو کیا کھا سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ جانور عرض تیر کی چوٹ سے مرا ہے تو وہ موقوذة میں داخل ہے اس کو مت کھا (اور اگر دھار کی طرف سے لگا ہے اور اس نے زخم کردیا ہے تو کھا سکتے ہو۔ یہ روایت جصاص نے ” احکام القرآن “ میں اپنی اسناد سے نقل کی ہے۔ اس میں شرط یہ ہے کہ تیر پھینکنے کے وقت بسم اللہ کہہ کر پھینکا گیا ہو۔ - جو شکار بندوق کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اس کو بھی فقہاء نے موقوذہ میں داخل اور حرام قرار دیا ہے۔ امام جصاص رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے : المقتولة بالبندقة تلک الموقوذہ۔ یعنی بندوق کے ذریعہ جو جانور قتل کیا گیا ہے وہ ہی موقوذہ ہے اس لئے حرام ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ (رض) ، شافعی، مالک وغیرہ سب اس پر متفق ہیں۔ (قرطبی) ساتویں متردیہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی پہاڑ، ٹیلہ یا اونچی عمارت یا کنوئیں وغیرہ میں گر کر مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ اگر کوئی شکار پہاڑ پر کھڑا ہے، اور تم نے تیر بسم اللہ پڑھ کر اس پر پھینکا اور وہ تیر کی زد سے نیچے گر کر مر گیا تو اس کو نہ کھاؤ۔- کیونکہ اس میں بھی احتمال ہے کہ اس کی موت تیر کی زد سے نہ ہو گرنے کے صدمہ سے ہو تو وہ متردّیہ میں داخل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی پرندہ پر تیر پھینکا، وہ پانی میں گرگیا تو اس کے کھانے کو بھی اسی بناء پر منع فرمایا ہے کہ وہ بھی احتمال ہے کہ اس کی موت ڈوبنے سے واقع ہوئی ہو۔ (جصاص) ۔- آٹھویں۔ نطیحہ۔ یعنی وہ جانور جو کسی ٹکر اور تصادم سے ہلاک ہوگیا ہو۔ جیسے ریل، موٹر وغیرہ کی زد میں آکر مر جائے یا کسی دوسرے جانور کی ٹکر سے مرجائے۔- نویں۔ وہ جانور جس کو کسی درندہ جانور نے پھاڑ دیا ہو اس سے مر گیا ہو۔ - ان نو اقسام کی حرمت بیان فرمانے کے بعد ایک استثناء ذکر کیا گیا۔ فرمایا : الا ما ذکیتم۔ یعنی اگر ان جانوروں میں سے تم نے کسی کو زندہ پالیا اور ذبح کرلیا تو وہ حلال ہوگیا۔ اس کا کھانا جائز ہے۔- یہ استثناء شروع کی چار قسموں سے متعلق نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ میتہ اور دم میں تو اس کا امکان ہی نہیں۔ اور خنزیر اور ما اھل لغیر اللہ۔ اپنی ذات سے حرام ہیں، ذبح کرنا نہ کرنا ان میں برابر ہے۔ اسی لئے حضرت علی (رض) ، ابن عباس (رض) ، حسن بصری، قتادہ وغیرہ سلف صالحین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ استثناء ابتدائی چار کے بعد، یعنی منخنقہ اور اس کے مابعد سے متعلق ہے۔ اس لئے مطلب اس کا یہ ہوگیا کہ ان تمام صورتوں میں اگر جانور زندہ پایا گیا، زندگی کی علامتیں محسوس کی گئیں اور اسی حالت میں اس کو اللہ کے نام پر ذبح کردیا گیا تو وہ حلال ہے۔ خواہ وہ منخنقہ ہو، یا موقوذہ یا متردیہ اور نطیحہ یا جس کو درندے نے پھاڑ ڈالا ہے۔ ان میں سے جس کو بھی آثار زندگی محسوس کرتے ہوئے ذبح کرلیا وہ حلال ہوگیا۔- دسویں : وہ جانور حرام ہے جو نصب پر ذبح کیا گیا ہو۔ نصب وہ پتھر ہیں جو کعبہ کے گرد کھڑے کئے ہوئے تھے۔ اور اہل جاہلیت ان کی پرستش کرتے اور ان کے پاس لاکر جانوروں کی قربانی ان کے لئے کرتے تھے۔ اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔ - اہل جاہلیت ان سب قسم کے جانوروں کو کھانے کے عادی تھے جو خبائث میں داخل ہیں۔ قرآن کریم نے ان سب کو حرام قرار دیا۔- گیارہویں چیز جس کو اس آیت میں حرام قرار دیا ہے۔ وہ استقسام بالازلام ہے ازلام، زلم کی جمع ہے۔ زلم اس تیر کو کہتے ہیں جو جاہلیت عرب میں اس کام کے لئے مقرر تھا کہ اس کے ذریعہ قسمت آزمائی کی جاتی تھی اور یہ سات تیر تھے۔ جن میں سے ایک پر نعم ایک پر لا۔ اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ لکھے ہوتے تھے۔ اور یہ تیر بیت اللہ کے خادم کے پاس رہتے تھے۔ - جب کسی شخص کو اپنی قسمت یا آئندہ کسی کام کا مفید ہونا یا مضر ہونا معلوم کرنا ہوتا، تو خادم کعبہ کے پاس جاتے اور سو روپے اس کو نذرانہ دیتے وہ ان تیروں کو ترکش سے ایک ایک کر کے نکالتا۔ اگر اس پر لفظ نعم نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام مفید ہے، اور اگر لا نکل آیا تو سمجھتے تھے کہ یہ کام نہ کرنا چاہیے۔ حرام جانوروں کے سلسلہ میں اس کا ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے، کہ عرب کی یہ بھی عادت تھی کہ چند آدمی شریک ہو کر کوئی اونٹ وغیرہ ذبح کرتے مگر گوشت کی تقسیم ہر ایک کے حصہ شراکت کے مطابق کرنے کے بجائے ان جوئے کے تیروں سے کرتے تھے۔ جس میں کوئی بالکل محروم رہتا، کسی کو بہت زیادہ، کسی کو حق سے کم ملتا تھا۔ اس لئے جانوروں کی حرمت کے ساتھ اس طریقہ کار کی حرمت کو بیان کردیا گیا۔- علماء نے فرمایا کہ آئندہ کے حالات اور غیب کی چیزیں معلوم کرنے کے جتنے طریقے رائج ہیں، خواہ اہل جفر کے ذریعہ یا ہاتھ کے نقوش دیکھ کر یا فال وغیرہ نکال کر یہ سب طریقے استقسام بالازلام کے حکم میں ہیں۔- اور استقسام بالازلام کا لفظ کبھی قمار یعنی جوئے کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ جس میں قرعہ اندازی یا لاٹری کے طریقوں سے حقوق کی تعیین کی جائے۔ یہ بھی بنص قرآن حرام ہے۔ جس کو قرآن کریم نے میسر کے نام سے ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی لئے حضرت سعید بن جبیر، مجاہد اور شعبی نے فرمایا کہ جس طرح عرب ازلام کے ذریعہ حصے نکالتے اسی طرح فارس و روم میں شطرنج، چوسر وغیرہ کے مہروں سے یہ کام لیا جاتا ہے۔ وہ ازلام کے حکم میں ہیں (مظہری) ۔- استقسام بالازلام کی حرمت کے ساتھ ارشاد فرمایا :۔- ذلکم فسق۔ یعنی یہ طریقہ قسمت معلوم کرنے یا حصہ مقررر کرنے کا فسق اور گمراہی ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا :۔- الیوم یئس الذین کفرو من دینکم فلا تخشوھم واخشون۔ آج کے دن کفار تمہارے دین پر (غالب آنے) سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اس لئے تم ان سے کوئی خوف نہ رکھو البتہ مجھ سے ڈرتے رہو۔ - یہ آیت ہجرت کے دسویں سال حجة الوداع کے یوم عرفہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ جبکہ مکہ اور تقریباً سارا عرب فتح ہوچکا تھا۔ پورے جزیرة العرب پر اسلامی قانون جاری تھا۔ اس پر فرمایا کہ آپ سے پہلے جو کفار یہ منصوبے بنایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی جماعت ہمارے مقابلہ میں کم بھی ہے اور کمزور بھی ان کو ختم کردیا جائے۔ اب نہ ان میں یہ حوصلے باقی رہے، نہ ان کی وہ طاقت رہی۔ اس لئے مسلمان ان سے مطمئن ہو کر اپنے رب کی اطاعت و عبادت میں لگ جائیں۔ - اس آیت کے نزول کی خاص شان ہے، عرفہ کا دن ہے جو تمام سال کے دنوں میں سید الایام ہے اور اتفاق سے یہ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہوا۔ جس کے فضائل معروف ہیں۔ مقام میدان عرفات کا جبل رحمت کے قریب ہے، جو عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزول رحمت کا خاص مقام ہے۔ وقت عصر کے بعد کا ہے، جو عام دنوں میں بھی مبارک وقت ہے۔ اور خصوصاً یوم جمعہ میں کہ قبولیت دعا کی گھڑی بہت سی روایات کے مطابق اسی وقت آتی ہے اور عرفہ کے روز اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول ہونے کا خاص وقت ہے۔- حج کے لئے مسلمانوں کا سب سے بڑا پہلا عظیم اجتماع ہے۔ جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام (رض) شریک ہیں۔ رحمة للعالمین صحابہ کرام (رض) کے ساتھ جبل رحمت کے نیچے اپنی ناقہ ” عضباء پر سوار ہیں۔ اور حج کے اب بڑے رکن یعنی وقوف عرفات میں مشغول ہیں۔- ان فضائل و برکات اور رحمتوں کے سایہ میں یہ آیت کریمہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام کا بیان ہے کہ جب آپ پر یہ آیت بذریعہ وحی نازل ہوئی تو حسب دستور وحی کا ثقل اور بوجھ اتنا محسوس ہوا کہ اونٹنی اس سے دبی جا رہی تھی یہاں تک کہ مجبور ہو کر بیٹھ گئی۔- حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقریباً قرآن کی آخری آیت ہے۔ اس کے بعد کوئی آیت احکام سے متعلق نازل نہیں ہوئی۔ صرف ترغیب و ترہیب کی چند آیتیں ہیں۔ جن کا نزول اس آیت کے بعد بتلایا گیا ہے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں صرف اکیاسی روز بقیدحیات رہے، کیونکہ 10 ہجری کی نویں ذی الحجہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ١١ ہجری کی بارہویں ربیع الاول کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔- یہ آیت جو اس خاص شان اور اہتمام سے نازل ہوئی اس کا مفہوم بھی ملت اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری اور بھاری انعام اور اسلام کا طرائے امتیاز ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین حق اور نعمت الہیٰ کا انتہائی معیار جو اس عالم میں بنی نوع انسان کو عطا ہونے والا تھا، آج وہ مکمل کردیا گیا۔ گویا حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے جو دین اور نعمت الہیہ کا نزول اور ترویج شروع کی گئی تھی اور ہر زمانہ اور ہر خطہ کے مناسب حال اس نعمت کا ایک حصہ اولاد آدم کو عطا ہوتا رہا آج وہ دین اور نعمت مکمل صورت میں خاتم الانبیاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو عطا کردی گئی۔- اس میں تمام انبیاء و رسل کے زمرہ میں سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سعادت اور امتیازی شان کا تو اظہار ہے ہی اس کے ساتھ تمام امتوں کے مقابلہ میں امت مرحومہ کی بھی ایک خاص امتیازی شان کا واضح ثبوت ہے۔- یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ چند علماء یہود، حضرت فاروق اعظم (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تمہارے قرآن میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر یہود پر نازل ہوئی تو وہ اس کے نزول کا ایک جشن عید مناتے فاروق اعظم (رض) نے سوال کیا کہ وہ کونسی آیت ہے۔ انہوں نے یہی آیت الیوم اکملت لکم دینکم پڑھ دی۔- حضرت فاروق اعظم (رض) نے ان کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ آیت کسی جگہ اور کسی دن نازل ہوئی۔ اشارہ اسی بات کی طرف تھا کہ وہ دن ہمارے لئے دوہری عید کا دن تھا ایک عرفہ دوسرے جمعہ۔ - عید اور تہوار منانے کا اسلامی اصول - فاروق اعظم (رض) کے اس جواب میں ایک اسلامی اصول کی طرف بھی اشارہ ہے۔ جو تمام دنیا کی اقوام و مذاہب میں صرف اسلام ہی کا طغرائے امتیاز ہے۔ وہ یہ کہ دنیا میں ہر قوم اور ہر مذہب و ملت کے لوگ اپنے اپنے حالات و خصوصیات کے ماتحت اپنے خاص خاص تاریخی واقعات کے دنوں کی یادگاریں مناتے ہیں۔ اور ان ایام کو ان کے یہاں ایک عید یا تہوار کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔- کہیں قوم کے بڑے آدمی کی پیدائش یا موت کا یا تخت نشینی کا دن منایا جاتا ہے اور کہیں کسی خاص ملک یا شہر کی فتح یا اور کسی عظیم تاریخی واقعہ کا جس کا حاصل اشخاص خاص کی عزت افزائی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام اشخاص پرستی کا قائل نہیں ہے۔ اس نے ان تمام رسوم جاہلیت اور شخصی یادگاروں کو چھوڑ کر اصول اور مقاصد کی یادگاریں قائم کرنے کا اصول بنادیا۔- حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو ” خلیل اللہ “ کا خطاب دیا گیا اور قرآن کریم میں ان کے امتحانات اور ان سب میں مکمل کامیابی کو سراہا گیا۔ واذابتلی ابراہیم ربہ بکلمٰتٍ فاتمھن۔ کا یہی مفہوم ہے۔ لیکن نہ ان کی پیدائش یا موت کا دن منایا گیا۔ نہ ان کے صاحبزادے اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی پیدائش و موت یا دوسرے حالات کی کوئی یادگار قائم کی گئی۔- ہاں ان کے اعمال میں جو چیزیں مقاصد دین سے متعلق تھیں، ان کی یادگاروں کو نہ صرف محفوظ رکھا گیا، بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے دین و مذہب کا جز اور فرض و واجب قرار دے دیا گیا۔ قربانی، ختنہ، صفاو مروہ کے درمیان دوڑنا، منیٰ میں تین جگہ کنکریاں مارنا۔ یہ سب انھیں بزرگوں کے ایسے افعال کی یادگار ہیں جو انہوں نے اپنے نفسانی جذبات اور انسان کے طبعی تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے مقابلے میں کچلتے ہوئے ادا کئے۔ اور جن میں ہر قرن اور ہر زمانے کے لوگوں کو اس کا سبق ملتا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے اپنی محبوب سے محبوب چیز کو قربان کردینا چاہیے۔- اسی طرح اسلام میں کسی بڑے بڑے آدمی کی موت وحیات یا شخصی حالات کا کوئی دن منانے کے بجائے ان کے اعمال کے دن منائے گئے۔ جو کسی خاص عبادت سے متعلق ہیں جیسے شب براءت، رمضان المبارک، شب قدر، یوم عرفہ، یوم عاشورہ وغیرہ، عیدین صرف دو رکھی گئیں، وہ بھی خالص دینی لحاظ سے۔ پہلی عید رمضان المبارک کے اختتام اور اشہر حج کے شروع ہونے پر رکھی گئی۔ اور دوسری عید عبادتِ حج سے فراغت کے بعد رکھی گئی۔- خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کے اس جواب نے یہ بتلا دیا کہ یہود و نصاریٰ کی طرح ہماری عیدیں تاریخی وقائع کے تابع نہیں۔ کہ جس تاریخ میں کوئی اہم واقعہ پیش آگیا اس کو عید منادیں۔ جیسا کہ جاہلیت اولیٰ کی رسم تھی۔ اور آج کل کی جاہلیت جدیدہ نے تو اس کو بہت ہی پھیلا دیا ہے۔ یہاں تک کہ دوسری قوموں کی نقل کرکے مسلمان بھی اس میں مبتلا ہونے لگے۔- عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے یوم پیدائش کی عید میلاد منائی۔ ان کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش پر عید میلاد النبی کے نام سے ایک عید بنادی۔ اسی روز بازاروں میں جلوس نکالنے اور اس میں طرح طرح کی خرافات کو اور رات میں چراغاں کو عبادت سمجھ کر کرنے لگے۔ جس کی کوئی اصل صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہ اور اسلاف امت کے عمل میں نہیں ملتی۔- اور یہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن منانے کا طریقہ ان قوموں میں تو چل سکتا ہے کہ جو باکمال افراد اور ان کے حیرت انگیز کارناموں کے لحاظ سے مفلس ہیں۔ دو چار شخصیتیں کل قوم میں اس قابل ہوتی ہیں، اور ان کے بھی کچھ مخصوص کام ایسے ہوتے ہیں، جن کی یادگار منانے کو قومی فخر سمجھتے ہیں۔- اسلام میں یہ دن منانے کی رسم چلے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد تو انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کی نہ صرف پیدائش بلکہ ان کی حیرت انگیز کارناموں کی طویل فہرست ہے جن کے دن منانے چاہئیں۔ انبیاء (علیہم السلام) کے بعد خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کو دیکھا جائے تو آپ کی زندگی کا شاید کوئی دن بھی ایسے کارناموں سے خالی نہیں جن کا دن منانا چاہئیے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک کے وہ کمالات جنہوں نے پورے عرب میں آپ کو امین کا لقب دیا تھا۔ کیا وہ ایسے نہیں ہیں کہ مسلمان ان کی یادگار منائیں پھر نزول قرآن، ہجرت، غزوہ بدر، احد، خندق، فتح مکہ، حنین، تبوک اور تمام غزوات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ایک بھی ایسا نہیں کہ جس کی یادگار نہ منائی جائے۔ اسی طرح آپ کے ہزاروں معجزات یادگار منانے کی چیزیں ہیں۔ اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ کی حیات طیبہ کا ہر دن نہیں ہر گھنٹہ ایک یادگار منانے کا داعیہ رکھتا ہے۔ - آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کرام (رض) وہ ہیں جن میں سے ہر ایک دو حقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زندہ معجزہ ہے کیا یہ بےانصافی نہیں ہوگی کہ ان کی یادگاریں نہ منائی جائیں۔ اور یہ رسم چل پڑے تو پھر صحابہ کرام کے بعد امت کے اکابر، اولیاء اللہ اور علماء و مشائخ پر نظر ڈالو، جو کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے۔ اگر یادگاری دن منائے جائیں تو ان کو چھوڑ دینا کیا ان کے حق میں بےانصافی اور قدر شناسی نہیں ہوگی۔ اور اگر یہ طے کرلیا جائے کہ سبھی کے یادگاری دن منائے جائیں تو سال بھر میں ایک دن بھی ہمارا یادگار منانے سے خالی نہیں رہے۔ بلکہ ہر دن کے ہر گھنٹہ میں کئی کئی یادگاریں اور کئی کئی عیدیں منانی پڑیں گی۔- یہی وجہ ہے کہ ” رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ اور صحابہ کرام (رض) نے اس رسم کو جاہلیت کی رسم قرار دے کر نظر اندا کیا ہے حضرت فاروق اعظم (رض) کے اس فرمان میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔- اب اس آیت کے معنی و مطالب کی تفصیل سنئے۔ اس میں حق تعالیٰ شانہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت مرحومہ کو تین خصوصی انعام عطا فرمانے کی بشارت دی ہے۔ ایک اکمال دین، دوسرے اتمام نعمت، تیسرے شریعت اسلام کا اس امت کے لئے انتخاب۔- اکمال دین کے معنی ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) وغیرہ نے یہ بیان فرمائے ہیں کہ آج دین حق کے تمام حدود و فرائض اور احکام و آداب مکمل کردیے گئے ہیں۔ اب اس میں نہ کسی اضافہ اور زیادتی کی ضرورت باقی ہے اور نہ کمی کا احتمال (روح) ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد احکام اسلام میں سے کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوا جو چند آیتیں اس کے بعد نازل ہوئیں، ان میں یا تو ترغیب و ترہیب کے مضامین ہیں، اور یا انھیں احکام کی تاکید جن کا بیان پہلے ہوچکا تھا۔- اور یہ بات اس کے منافی نہیں کہ اصول و اجتہاد کے ماتحت ائمہ مجتہدین نئے نئے پیش آنے والے واقعات و حالات کے متعلق اپنے اجتہاد سے احکام شرعیہ بیان کریں کیونکہ قرآن کریم نے جس طرح احکام شرعیہ کے حدود و فرائض وغیرہ بیان فرمائے ہیں اسی طرح اصول اجتہاد بھی قرآن ہی نے متعین فرما دئے ہیں۔ ان کے ذریعہ جو احکام قیامت تک نکالے جائیں وہ سب ایک حیثیت سے قرآن ہی کے بیان کئے ہوئے احکام ہیں۔ کیونکہ ان اصول کے ماتحت ہیں جو قرآن نے بیان کئے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اکمال دین کا مطلب۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق یہ ہے کہ دین کے تمام احکام کو مکمل کردیا گیا۔ اب نہ اس میں کسی زیادتی کی ضرورت باقی ہے نہ منسوخ ہو کر کمی کا احتمال۔ کیونکہ اس کے بعد ہی متصل سلسلہ وحی وفات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منقطع ہونے والا تھا اور بغیر وحی الہٰی کے قرآن کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اور جو بظاہر زیادتی احکام کی اصول اجتہاد کے تحت فقہاء و مجتہدین کی طرف سے ہوئی۔ وہ در حقیقت زیادتی نہیں بلکہ احکام قرآنی کی توضیح وبیان ہے۔- اور اتمام نعمت سے مراد مسلمانوں کا غلبہ اور عروج اور ان کے مخالفین کا مغلوب و مفتوح ہونا ہے، جس کا ظہور مکہ مکرمہ کی فتح اور رسوم جاہلیت کے مٹانے سے اور اس سال حج میں کسی مشرک کے شریک نہ ہونے کے ذریعہ ہوا۔ - یہاں الفاظ قرآن میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ دین کے ساتھ لفظ اکمال استعمال فرمایا گیا اور نعمت کے ساتھ لفظ اتمام، حالانکہ یہ دونوں لفظ بظاہر ایک دوسرے کے ہم معنی اور مرادف سمجھے جاتے ہیں۔- لیکن در حقیقت ان دونوں کے مفہوم میں ایک فرق ہے جس کو مفردات القرآن میں امام راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ کسی چیز کا ” اکمال “ اور ” تکمیل “ اس کو کہتے ہیں کہ اس چیز سے جو غرض اور مقصود تھا وہ پورا ہوگیا۔ اور لفظ اتمام کے معنی یہ ہیں کہ اب دوسری چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں رہی۔ اسی لئے ” اکمال دین “ کا حاصل یہ ہوا کہ قانون الہٰی اور احکام دین کے اس دنیا میں بھیجنے کا جو مقصد تھا وہ آج پورا کردیا گیا۔ اور اتمام نعمت کا مطلب یہ ہوا کہ اب مسلمان کسی کے محتاج نہیں۔ ان کو خود حق تعالیٰ جل شانہ نے غلبہ، قوت اور اقتدار عطاء فرما دیا جس کے ذریعہ وہ اس دین حق کے احکام کو جاری اور نافذ کرسکیں۔ - یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس آیت میں نسبت تو مسلمانوں کی طرف فرمائی گئی ہے اور نعمت کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف، وجہ یہ ہے کہ دین کا ظہور ان اعمال و افعال کے ذریعہ ہوتا ہے جو امت کے افراد کرتے ہیں اور نعمت کی تکمیل براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (ابن قیم، تفسیر القیم) ۔- اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اکمال دین آج ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے انبیاء (علیہم السلام) کا دین ناقص تھا۔ بلکہ جیسا تفسیر محیط میں بحوالہ قفال مروزی رحمة اللہ علیہ نقل کیا ہے کہ دین تو ہر نبی و رسول کا اس کے زمانہ کے اعتبار سے کامل و مکمل تھا۔ یعنی جس زمانہ میں جس پیغمبر پر کوئی شریعت و دین اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا اس زمانہ اور اس قوم کے لحاظ سے وہی کامل و مکمل تھا۔ لیکن اللہ جل شانہ کے علم میں یہ تفصیل پہلے سے تھی کہ جو دین اس زمانہ اور اس قوم کے لئے مکمل ہے وہ اگلے زمانہ اور آنے والی قوموں کے لئے مکمل نہ ہوگا، بلکہ اس کو منسوخ کرکے دوسرا دین و شریعت نافذ کی جائے گی۔ بخلاف شریعت اسلام کے جو سب سے آخر میں نازل کی گئی کہ وہ ہر جہت اور ہر لحاظ سے کامل و مکمل ہے۔ نہ وہ کسی خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص ہے اور نہ کسی خاص خطہ، ملک یا قوم کے ساتھ۔ بلکہ قیامت تک ہر زمانہ اور ہر خطہ اور ہر قوم کے لئے یہ شریعت کامل و مکمل ہے۔- تیسرا انعام جو اس امت مرحومہ کے لئے اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس امت کے لئے اللہ جل شانہ نے اپنے تکوینی انتخاب کے ذریعہ دین اسلام کو منتخب فرمایا جو ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہے۔ اور جس پر نجات کا انحصار ہے۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت نے یہ بتلا دیا کہ امت مرحومہ کے لئے دین اسلام ایک بڑی نعمت ہے جو ان کو بخشی گئی ہے۔ اور یہی دین ہے جو ہر حیثیت اور جہت سے کامل و مکمل ہے، نہ اس کے بعد کوئی دین آئے گا اور نہ اس میں کوئی کمی بیشی کی جائے گی۔- یہی وجہ تھی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عام مسلمان اس کو سن کر خوش ہو رہے تھے مگر حضرت فاروق (رض) پر گریہ طاری تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ اس آیت سے اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کا قیام اس دنیا میں بہت کم ہے۔ کیونکہ تکمیل کے ساتھ ارسال رسول کی ضرورت بھی پوری ہوچکی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تصدیق فرمائی (تفسیر ابن کثیر و بحر محیط وغیرہ) چناچہ آنے والے وقت نے بتلا دیا کہ اس کے صرف اکیاسی (81) روز بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔- آخر آیت میں فمن اضطر فی مخمصة کا تعلق ان جانوروں سے ہے، جن کی حرمت کا بیان شروع آیت میں آیا ہے۔ اور اس جملہ کا مطلب ایک خاص حالت کو عام قاعدہ سے مستثنیٰ کرنا ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک کی شدت سے بیتاب ہوجاوے اور خطرہ موت کا لاحق ہوجائے۔ ایسی حالت میں اگر وہ مذکورہ بالا حرام جانوروں میں سے کچھ کھالے تو اس کے لئے گناہ نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ پیٹ بھرنا اور لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو، بلکہ صرف اتنا کھالے جس سے اضطرار کی کیفیت رفع ہوجاوے۔- آیت میں غیر متجانف لاثم کا یہی مطلب ہے کہ اس کھانے میں اس کا میلان گناہ کی طرف نہ ہو بلکہ صرف اضطرار کا رفع کرنا ہو۔ آخر میں فان اللہ غفور رحیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ محرمات اس وقت بھی اپنی جگہ حرام و ناجائز ہی ہیں، صرف اس شخص کو اضطرار کی وجہ سے معاف کردیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَيْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۝ ٠ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ۝ ٠ۭ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ۝ ٠ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ۝ ٠ۭ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝ ٠ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَۃٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ۝ ٠ۙ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٣- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع - وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل .- ( ح ر م ) الحرام - ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔- ميتة- وَالمَيْتةُ من الحَيوان : ما زال روحه بغیر تذكية، قال : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145]- المیتہ - اس حیوان کو کہتے ہیں جس کی روح بغیر تذکیہ کے زائل ہوگئی ہو قرآن میں ہے : ۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [ المائدة 3] تم پر مرا ہوا جانور حرام ہے ۔ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً [ الأنعام 145] بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو ۔ - دم - أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية .- ( د م ی ) الدم - ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔- لحم - اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو :- لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ:- اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم :- قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ.- ( ل ح م ) اللحم - ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ - خنزیر - قوله تعالی: وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] ، قيل : عنی الحیوان المخصوص، وقیل : عنی من أخلاقه وأفعاله مشابهة لأخلاقها، لا من خلقته خلقتها، والأمران مرادان بالآية، فقد روي «أنّ قوما مسخوا خلقة» «1» ، وکذا أيضا في الناس قوم إذا اعتبرت أخلاقهم وجدوا کالقردة والخنازیر، وإن کانت صورهم صور الناس .- ( خ ن ز ر ) الخنزیر - ۔ کے معنی سور کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة 60] اور ( جن کو ) ان میں سے بندر اور سور بنادیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ خاص کر سور ہی مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں َ جن کے افعال و عادات بندر اور سور جیسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ بلحاظ صورت کے بندر اور سور بن گئے تھے ۔ مگر زیر بحث آیت میں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ مروی ہے کہ ایک قوم کی صورتیں مسخ ہوگئی تھیں اور وہ بندر سور بن گئے تھے ۔ اسی طرح انسانوں میں ایسے لوگوں بھی موجود ہیں جو شکل و صورت کے لحاظ سے گو انسان نظر آتے ہیں ۔ لیکن اخلاق و عادات کے اعتبار سے بندر اور سور بنے ہوئے ہیں ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

تین چیزیں صریحاً حرام ہیں - قول باری ہے حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر، تم پر مردار خون اور سور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے) تا آخر آیت ۔ میتہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کی روح ذبح کے عمل کے بغیر نکل چکی ہو کیونکہ حلال جانور کے گوشت کی اباحت کے لئے ہم پر ذبح کی شرط عائد کی گئی ہے۔ خون اگر بہایا گیا ہو تو وہ حرام ہوگا کیونکہ قول باری ہے قل لااجدفیما اوحی الی محرماً علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ اودماً مفوحاً ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسے کہہ دیں کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو الایہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو) تا آخر آیت۔- جگر اور تلی یہ دو خون مستثنیٰ ہیں - ہم نے اس پر سورة بقرہ میں روشنی ڈالی ہے بہائے ہوئے خون کے حرام ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ تمام اہل اسلام کا جگر اور تلی کی اباحت پر اتفاق ہے حالانکہ یہ دونوں خون ہیں۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی ارشاد ہے احلت لی میتتان ودمان، میرے لئے دو مردار اور دو خون حلال کردیئے گئے ہیں ) دو خون سے آپ کی مراد جگر اور تلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مباح کردیا کیونکہ یہ بہائے ہوئے خون نہیں ہیں یہ چیز ہر اس خون کی اباحت پر دلالت کرتی ہے جو بہایا ہوا نہ ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گن کر دو خون کو مباح قرار دیا تو یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے ماسوا کی ممانعت ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ کسی چیز کو تعداد پر منحصر کردینا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کے ماسوا کا حکم اس کے برعکس ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ان دونوں کے ماسوا ایسا خون بھی ہے جس کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ وہ خون ہے جو جانور کو ذبح کرنے کے بعداس کے گوشت کے درمیان باقی رہ جائے اس طرح وہ خون بھی مباح ہے جو جانور کی رگوں میں رہ جائے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ دو خون کو عدد کے ندر محصور کردینا اور خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر کردینا اس کا مقتضی نہیں ہے کہ ا ن کے علاوہ خون کی بقیہ تمام صورتوں کی ممانعت ہے نیز اللہ تعالیٰ نے جب اودماً مسفوحا فرمایا پھر ارشاد ہوا والدم تو اس میں الف اور لام معہود کے لئے ہوگا اور یہ وہ خون ہوگا جو ایک خاص صفت کے ساتھ موصوف ہوگا اور وہ صفت یہ ہے کہ بہایا ہوا خون ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد احلت لی میتتان ودمان قول باری قل لالجدفیما اوحی الی محرما علی طاعم بطعمہ الا انیکون میتۃ اودما مسفوحا کے مقتضی کی تاکید کے طور پر وارد ہوا کیونکہ یہ دونوں خون بہائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر حدیث کا ورود اس معنی میں نہ ہوتا توبہائے ہوئے خون تک تحریم کی تحدید پر آیت کی دلالت ہی کافی ہوتی دوسرا کوئی خون اس میں داخل نہ ہوتا اور اس طرح جگر اور تلی غیر محرم رہتے۔- قول باری ولحم الخنزیر سور کی چربی ، اس کی ہڈیوں اور اس کے جسم کے سارے اجزاء کی تحریم کو شامل ہے آپ نہیں دیکھتے کہ گوشت کے ساتھ ملی ہوئی چربی کو بھی لفظ کا اقتضاء شامل ہے کیونکہ لحم کا اسم اسے بھی شامل ہوتا ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے صرف گوشت کا ذکر کیا ہے اس لئے کہ گوشت ہی سب سے زیادہ فائدے کی چیز ہوتا ہے نیز جب سور کی تحریم مبہم تھی تو یہ بات اس کے تمام اجزاء کی تحریم کی مقتضی ہے جس طرح مردار اور خون کا معاملہ ہے ہم نے سور کے بال اور اس کی ہڈیوں کا حکم پہلے بیان کردیا ہے۔- غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام ہے - قول باری ہے ومااھل لغیر اللہ بہ وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو) ظاہر آیت ہر اس جانور کی تحریم کا مقتضی ہے جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس لئے اہلال اظہار ذکر اور نام لینے کو کہتے ہیں اس کی اصل نومولود کا استہلال ہے یعنی رونے کی آواز جو پیدائش کے وقت پیدا ہونے والے کے منہ سے نکلتی ہے۔ اسی سے اہلال الحرم (احرام باندھنے والے کا تلبیہ کے ساتھ آواز بلند کرنا) بھی ہے اس لئے یہ لفظ اس جانور کی تحریم کو شامل ہوگا جس پر ذبح کرتے وقت بتوں کے نام لئے گئے ہوں جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا طریقہ تھا نیز یہ اس جانور کی تحریم کو بھی شامل ہوگا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو خواہ وہ کوئی نام ہو۔ یہ بات اس کی موجب ہے کہ اگر کسی جانور کو زید یا عمرو کے نام سے ذبح کیا جائے تو وہ ذبیحہ نہیں کہلائے گا یہ چیز اس بات کی بھی موجب ہے کہ بسم اللہ نہ پڑھنا بھی جانور کی تحریم کو واجب کردیتا ہے اس لئے کہ ذبیحہ پر زید کا نام لینے اور سرے سے بسم اللہ چھوڑ دینے کے درمیان کسی نے فرق نہیں کیا۔ قول باری ہے والمنخقۃ اور وہ جو گلاگھٹ کر مرگیا ہو) حسن، قتادہ، سدی اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو شکاری کے لگائے ہوئے پھندے میں گھٹ کر مرجائے اس معنی میں عبایہ بن رفاعہ کی حدیث ہے جو انہوں نے حضرت رافع بن خدیج (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذکوابکل شئی الاالسن والظفر ، دانت اور ناخن کے سوا ہر چیز سے جانور کو ذبح کرسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ دانت اور ناخن ہیں جو اپنی جگہ قائم ہوں۔ اکھڑے ہوئے نہ ہوں اپنی جگہ قائم دانت اور ناخن کے ذریعے ذبح کی صورت میں جانور گھٹ کر مرجانے والے جانور کے معنی میں ہوجائے گا۔ قول باری ہے والموقودۃ۔ وہ جانور جو چوٹ کھا کر مراہو) حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، قتادہ ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جسے لکڑی وغیرہ سے ضرب لگائی گئی ہو حتی کہ اس کی موت واقع ہوجائے کہا جاتا ہ یکہ وقذہ نقدہ وقذاً جب کسی کو کوئی ایسی ضرب لگائی جائے کہ ہلاکت کے قریب پہنچ جائے) ۔ موقوذہ میں ہر وہ جانور بھی داخل ہے جسے ذبح کے علاوہ کسی اور صورت سے ہلاک کردیا گیا ہو ابوعامر عقدی نے زبیر بن محمد سے روایت کی ہے انہوں نے زید بن اسلم سے انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ جو جانور بندق درخت کے پھل کے ذریعے ہلاک کردیا گیا ہو وہ موقوذہ ہے۔ شعبہ نے قتادہ سے انہوں نے عقبہ بن صہبان سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خذف یعنی انگلیوں یا گوپھن کے ذریعے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے آپ نے فرمایا انھالاتنکا العدو ولاتصیدالصیدولکنھا تکسو السن وتفقاء العین، یہ نہ تو دشمن کو زخمی کرتا ہے نہ ہی کسی جانور کا شکار کرتا ہے لیکن دانت کو توڑ دیتا ہے اور آنکھ کو پھوڑ دیتا ہے) اس کی نظیر وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی انہیں ابودائود ، انہیں محمد بن عیسیٰ نے انہیں جریر نے منصور سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے ہمام سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اگر میں کسی جانور پر معراض بغیر پر کے تیر جس کا درمیانی حصہ موٹا ہو چلائوں اور وہ شکار کو لگ جائے تو کیا میں اس کا گوشت کھا سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا ” جب تم معراض چلائو اور اس پر بسم اللہ پڑھ لو ، وہ شکار کو لگ جائے اور اس کے جسم کو پھاڑ دے تو اس کا گوشت کھالو لیکن اگر وہ عرضاً شکار کو لگ جائے اور شکار مرجائے تو اس کا گوشت نہ کھائو “۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں عبداللہ بن احمد نے انہیں ہشیم نے مجالد، زکریا اور ان کے علاوہ دوسروں سے ان سب نے شعبی سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معراض کے ذریعے شکار کئے ہوئے جانور کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا ” اگر شکار کو اس کی دھار لگ گئی ہو اور اس کے جسم کو پھاڑ گئی ہو تو اسے کھالو، اگر عرضاً لگی ہو اور جانور مرگیا ہو تو یہ وقیذ یعنی چوٹ کھا کر مرجانے والا جانور ہے اس کا گوشت نہ کھائو “۔ آپ نے اس جانور کو جسے بےپر کا تیر عرضاً لگا ہو اور زخم نہ ہوا ہو، موقوذہ قرار دیا خواہ اسے ذبح کرنے کی قدرت نہ بھی حاصل ہوئی ہو۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ شکار کے ذبح کی شرط زخم ہونا اور اس سے خون جاری ہونا ہے خواہ اسے اس کے ذبح کی قدرت حاصل نہ بھی ہوئی ہو اور ذبیحہ کی تمام شرطیں پوری نہ بھی کرسکا ہو۔ قول باری والموقوذۃ کا عموم ان دونوں صورتوں کے لئے عام ہے یعنی پہلی صورت جس میں ایسے جانور کو ذبح کرنے کی قدرت حاصل ہوجائے اور دوسری صورت میں جس میں ذبح کرنے کی قدرت حاصل نہ ہو سکے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں احمد بن محمد بن النصر نے انہیں معاویہ بن عمر نے انہیں زائدہ نے انہیں عاصم بن ابی النجود نے زربن جیش سے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو ہجرت کرو اور اخلاص نیت کے ساتھ ہجرت کرو، نیت کی درستی کے بغیر صرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو، خرگوش کو لاٹھی یا پتھر مارکر شکار کرنے اور ذبح کئے بغیر کھا لینے سے بچو، البتہ اسے ذبح کرلو، تمہارے پاس ایسا کرنے کے لئے نیزے اور تیر ہیں “۔ قول باری ہے والمتردیۃ وہ جانور جو بلندی سے گر کر مرا ہو) حضرت ابن عباس (رض) حسن ضحاک اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہیں جو کسی پہاڑ کی چوٹی سے یا کسی کنویں میں گر کر مرگیا ہو۔ مسروق نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ اگر تم پہاڑ پر موجود کسی جانور کو تیر مارو اور پھر وہ مرجائے تو اسے نہ کھائو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ شاید اوپر سے نیچے لڑھکنے کی بنا پر وہ مرگیا ہو۔ اسی طرح اگر کسی پرندے پر تیر چلائو اور وہ تیر لگنے سے کسی کنویں میں گرپڑے تو اسے نہ کھائو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ ڈوب کر مرگیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب حضرت ابن مسعود (رض) کی بیان کردہ پہلی صورت میں تیر لگنے کے علاوہ ایک اور سبب یعنی اوپر سے نیچے کی طرف لڑھکنا بھی پایا گیا تھا اس لئے اس کا گوشت کھانے سے ممانعت کردی گئی۔ دوسری صورت یعنی پانی میں ڈوب جانے کی بھی یہی کیفیت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس قسم کی روایت موجود ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں احمد بن محمد بن اسماعیل نے انہیں ابن عرفہ نے انہیں ابن المبارک نے عاصم الاحول سے انہوں نے شعبی سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم (رض) سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکار کے متعلق پوچھا تھا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا تھا اذارمیت بسھک وسمیت فکل ان قتل الاان تصیبہ فی الماء فالاتدری ایما قتلہ۔ جب تم نے شکار پر تیر برساتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا ہو اور پھر وہ تیر اسے لگا ہو جس کی وجہ سے وہ شکار ہلاک ہوگیا ہو تو اس کا گوشت کھالو لیکن اگر تمہیں تمہارا یہ شکار پانی میں پڑا ہوا ملا ہو تو اس کا گوشت نہ کھائو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے تیر اور پانی میں سے کون سی چیز اس کی ہلاکت کا سبب بنی ہے) اس کی نظیر وہ روایت ہے جو کتے کے ذریعے شکار کئے ہوئے جانور کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے فرمایا اذا ارسلت کلبک المعلم وسمیت فکل وان خالطہ کلب اخرفلاتا کل۔ جب تم شکار پر اپنے سدھائے کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لو تو ایسے شکار کا گوشت کھالو، اگر تمہارے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی اس شکار کو پکڑنے میں شریک ہوگیا تو پھر شکار کا گوشت نہ کھائو) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شکار کے گوشت کی ممانعت کردی جس کی ہلاکت میں تیر کے ساتھ ایک اور سبب بھی شامل ہوگیا تھا جس سے ذبح کے سوا اور ذریعے سے موت واقع ہونا عین ممکن تھا یعنی شکار کا پانی میں گر جانا یا شکاری کتے کے ساتھ کسی اور کتے کا شریک ہوجانا وغیرہ۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے پہاڑ پر سے نیچے کی طرف لڑھک کر آنے والے شکار کو کھانے کی ممانعت کی ہے کیونکہ اس کی ہلاکت کے اندر اباحت اور ممانعت کے دونوں اسباب اکٹھے ہوگئے تھے حضرت ابن مسعود (رض) نے ممانعت کے سبب کا اعتبار کر کے اس کے مطابق حکم لگا دیا اباحت کے سبب کا اعتبار نہیں کیا۔ اسی طرح اگر ایک مسلمان کسی مجوسی کے ساتھ مل کر کوئی شکار ہلاک کرتا یا ذبح کرلیتا ہے تو اس کا گوشت نہیں کھایاجائے گا۔- اباحت و ممانعت جمع ہوجائیں تو ممانعت کو پیش نظر رکھ کر حکم لگایا جائے گا - جن تمام صورتوں کا ہم نے اوپر بیان کیا ہے وہ اس فقہی اصول کی بنیاد ہیں کہ جب اباحت اور ممانعت دونوں کے اسباب کسی صورت کے اندر اکٹھے ہوجائیں گے تو ممانعت کے سبب کو سامنے رکھ کر اس صورت کے متعلق حکم لگایا جائے گا اباحت کے سبب کو نظر انداز کردیا جائے گا۔ قول باری ہے والنطیحۃ، اور وہ جانور جو ٹکڑ کھا کر مرا ہو) حسن ، ضحاک ، قتادہ اور سدی سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جسے کسی دوسرے جانور نے سینگ یا ٹکر ماری ہو جس کی بنا پر اس کی موت واقع ہوگئی ہو۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد ٹکر مارنے والا جانور ہے جو ٹکر مارنے کے بعد خود مرجائے۔ ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ اس لفظ کا اطلاق دونوں پر ہوسکتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک جانور دوسرے کو ٹکر مار کر خود ہلاک ہوجائے یا دوسرے کی ٹکر لگنے سے اس کی موت واقع ہوجائے۔ قول باری ہے وما اکل السبح، اور جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو) اس کے معنی ہیں ایسا جانور جس میں سے درندے نے کھالیا ہو اور اس بنا پر اس کی موت واقع ہوگئی ہو یہاں گویا لفظ حق یموت محذوف ہے جس جانور کو کوئی درندہ ہلاک کر کے اس کا کچھ حصہ کھا جاتا عرب کے لوگ اسے اکیلۃ السبح، (درندے کا کھایا ہوا کہتے ہیں) اس کے ڈھر کے باقی رہ جانے والے حصے کو بھی یہی نام دیا جاتا تھا۔- ابوعبیدہ کا قول ہے کہ مااکل السبح کے معنی یہ ہیں ” ایسا جانور جسے درندہ کھاجائے اور اس کا کچھ حصہ باقی رہنے دے۔ ایسا جانور اس درندے کا شکار یعنی فریسہ کہلاتا ہے۔ اس آیت میں جن تمام صورتوں میں متعلقہ جانور کا گوشت کھانے سے روک دیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اس جانور کی اس کی بنا پر موت واقع ہوگئی ہو۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ اس قسم کے تمام جانوروں کا گوشت کھالیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے یہ تمام جانور حرام کردیئے اور اس کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ ان اسباب کی بنا پر موت واقع ہوجانے کی صورت میں مرنے والے جانور کا گوشت حرام ہوجاتا ہے بشرطیکہ اس کی موت سے پہلے انسان نے ذبح کا عمل اس پر جاری نہ کیا ہو۔ قول باری ہے الاماذکیتم، سوائے اس جانور کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ہو) یہ بات تو واضح ہے کہ آیت میں مذکور استثناء بعض صورتوں کی طرف سے تمام صورتوں کی طرف نہیں اس لئے کہ قول باری ۔ حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ) کی طرف استثناء کے راجع نہ ہونے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ یہ صورتیں ایسی ہیں کہ شرعی ذبح کا عمل ان پر جاری نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ استثناء کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اس کا رجوع اس امر کی طرف ہوتا ہے جو اس سے متصل ہوتا ہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ آیت میں وارد لفظ المنخنقۃ سے قبل کے حصے کی طرف یہ راجع نہیں ہے اس لئے ماقبل کے حصے میں عموم کا لفظ بحالہ باقی رہے گا اور استثناء اس حکم کی طرف راجع ہوگا جس کا ذکر قول باری (والمنختقۃ) سے شروع ہوا ہے کیونکہ حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) حسن اور قتادہ سب سے مروی ہے کہ اگر آیت کے اس حصے میں مذکورہ کوئی جانور اس حالت میں مل جائے کہ اس کی آنکھوں کی پتلیاں حرکت کرتی ہوں نیز اس کی دم بھی ہل رہی ہو اور پھر اسے ذبح کردیا جائے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہوگا۔ بعض کا یہ قول بھی مروی ہے کہ استثناء قول باری وما اکل السبح کی طرف راجع ہے اس سے قبل کی طرف راجع نہیں ہے کیونکہ استثناء کے متصل یہی قول ہے لیکن یہ تاویل بےمعنی ہے اس لئے کہ سلف کا جس بات پر اتفاق ہے وہ اس کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اگر درندہ کسی چوپائے کے جسم کا ایک ٹکڑا نکال کر کھاجائے یا کوئی بکری پہاڑ سے نیچے کی طرف لڑھک جائے لیکن اس سے وہ قریب الموت نہ ہو پھر اس کا مالک اسے ذبح کرلے تو اس کے گوشت کی حلت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہی حکم ٹکڑ مارنے یا کھانے والے جانور کا ہے اور اس کا بھی جس کا آیت میں اس کے ساتھ ذکر آیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ استثناء ان تمام چیزوں کی طرف راجع ہے جن کا ذکر قول باری والمنخنقۃ سے شروع ہوا ہے۔ قول باری الاماذکیتم، استثناء منقطع ہے جس کے معنی ہیں لکن ماذکیتم، لیکن وہ جانور جنہیں تم نے ذبح کرلیا ہو) جس طرح یہ قول باری ہے فلولا کانت قریۃ امنت فنفعھا ایمانھا الا قوم یونس، چناچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ اس کا ایمان لانا اسے نفع پہنچاتا بجز قوم یونس (علیہ السلام) کے ) اس کے معنی ہیں لکن قوم یونس (لیکن قوم یونس (علیہ السلام) ) ۔- اسی طرح قول باری ہے (طہ ماانزلنا علیک القران لتشقی الاتذکرۃ لمن یخشی، طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ تکلیفیں اٹھائیں بلکہ یہ تو نصیحت ہے اس کے لئے جو ڈرتا ہو) اس کے معنی ہیں لکن تذکرۃ لمن یخشی (لیکن یہ تو نصیحت ہے اس کے لئے جو ڈرتا ہو) قرآن مجید میں اس کے بہت سے نظائر ہیں۔- خیالات ائمہ۔- چوٹ کھا کر مرجانے والے جانور کی ذبح کے مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے اما م محمد نے اصل یعنی مبسوط کے اندر لڑھک کر نیچے آجانے والے جانور کے متعلق لکھا ہے کہ اگر مرنے سے پہلے ذیح کرلیا گیا ہو تو اس کا کھاناجائز ہوگا موقوذہ، نطیحہ اور اس جانور کا بھی یہی حکم ہے جسے درندے نے پھاڑ دیا ہو۔ امام ابویوسف سے املا کے طور پر منقول ہے کہ جب جانور اس حال کو پہنچ جائے کہ اس میں وہ زندہ بچ نہیں سکتا تو موت سے پہلے ذبح کے باوجود بھی اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ ابن ستماعہ نے امام محمد سے ذکر کیا ہے کہ اگر جانور ایک آدھ دن زندہ رہ جائے اور پھر اسے ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت حلال ہوگا لیکن اگر وہ اتنی دیر تک زندہ رہا جتنی دیر تک ایک ذبح شدہ جانور زندہ رہتا ہے تو ذبح ہوجانے کے باوجود بھی اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ ابولولو کے ہاتھوں حضرت عمر (رض) کو مہلک زخم آئے تھے لیکن اس حالت میں بھی آپ کے تمام عہود اور احکامات درست تسلیم کئے گئے۔ اگر کوئی شخص حضرت عمر (رض) کو اس حالت میں قتل کردیا تو اس پر قصاص واجب ہوجاتا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر جانور کو ایسی حالت میں ذبح کرلیا جائے کہ اس کی سانس آ جا رہی ہو اور آنکھوں سے دیکھ بھی رہا ہو تو اس کا گوشت کھایا جائے گا حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر اس کی حالت ایسی ہو جس کے ساتھ زندہ رہنے کا ہرگز کوئی امکان نہ ہو تو ذبح کئے جانے کے باوجود ا س کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ جب اس میں زندگی کی رمق باقی ہو اور پھر اسے ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت کھایا جائے گا اگر شکار کیا ہوا جانور ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ لیث کا قول ہے کہ جب جانور زندہ ہو لیکن درندے نے اس کا پیٹ پھاڑ کر آنتیں وغیرہ باہر نکال دی ہوں تو اس کا گوشت کھایا جائے گا البتہ جو حصے اس کے دھڑ سے جدا ہوچکے ہوں وہ نہیں کھائے جائیں گے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ درندے نے جب بکری کا پیٹ پھاڑ دیا ہو اور ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ اگر اسے ذبح نہ کیا جائے تو یہ مرجائے گی پھر اسے ذبح کرلیا جائے تو اس کا گوشت حلال ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری الاماذکیتم اس کی ذبح کا مقتضی ہے جب تک اس کے اندر زندگی باقی رہے اس لئے اس جیسے زخمی جانور کے زندہ رہنے یا نہ رہنے کی صورت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا یا زیادہ عرصے یا کم عرصے تک زندگی کے امکان کے لحاظ سے بھی کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اس طرح حضرت عمر (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اگر ایسے جانور کے جسم کے کسی حصے میں حرکت موجود ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو اس کو ذبح کرنا درست ہوگا پھر فقہاء کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ چوپایوں کو جب مہلک امراض لاحق ہوجائیں جن کی وجہ سے وہ لمبی یا مختصر مدت تک زندہ رہیں تو ان کی ذبح ان کا گوشت حلال کر دے گی اسی طرح اوپر سے نیچے لڑھک جانے والے جانور اور اسی قسم کے دوسرے جانوروں کا بھی یہی حکم ہوگا۔ واللہ اعلم۔- ذکاۃ یعنی شرعی ذبح کی شرط - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری الاماذکیتم ایک اسم شرعی ہے جس پر کئی معانی کا ورود ہوتا ہے۔ ایک تو ذبح کا مقام اور کٹ جانے والے حصے اور رگیں، دوسرا ذبح کا آلہ۔ تیسرا مذہب چوتھا یاد ہونے کی صورت میں بسم اللہ پڑھنا، یہ تمام معانی اس وقت مراد ہوں گے جب جانور پر قابو ہونے کی صورت میں اسے ذبح کیا جا رہا ہو۔- مچھلی کا تذکیہ - مچھلی کی شرعی ذبح کسی خارجی سبب کی بنا پر موت واقع ہونے کے ساتھ ہوجاتی ہے لیکن جو مچھلی اپنی موت آپ مرجائے تو وہ مذ کی نہیں ہوتی یعنی اسے کھانا درست نہیں ہم نے سورة بقرہ میں مر کر پانی کی سطح پر آجانے والی مچھلی کے بارے میں بحث کرتے ہوئے اس پر روشنی ڈالی ہے جس جانور کو ذبح کرنا مقدور میں ہو اس کے ذبح کا مقام سینے کے اوپر کے حصے سے لے کر دونوں جبڑوں تک ہے۔ امام ابوحنیفہ نے جامع صغیر میں کہا ہے کہ حلق کے پورے حصے یعنی اوپر نیچے اور درمیان کے مقام پر ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔- ذبح کی چار رگیں ہیں - جن حصوں اور رگوں کا کٹ جانا واجب ہے وہ اوداج کہلاتے ہیں یہ چار ہیں حلقوم نرخرہ، اور وہ دو رگیں جن کے درمیان حلقوم اور نرخرہ ہوتے ہیں جب ذبح کرنے والا یہ چاروں اجزاء کاٹ دے گا تو ذکاۃ کا عمل سنت کے مطابق مکمل ہوجائے گا۔ لیکن اگر یہ عمل اس سے کم ہو اور اس نے ان چار اجزاء میں تین کو قطع کردیا تو اس سلسلے میں بشر بن الولید نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ” جب اکثر اوداج یعنی گردن کی اکثر رگیں کٹ جائیں تو اس کا گوشت کھایا جائے گا لیکن اگر تین کٹ جائیں تو بھی اس کا گوشت حلال ہوگا خواہ کسی جانب سے یہ قطع ہوجائیں۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا بھی یہی قول ہے پھر امام ابویوسف نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ جب تک حلقوم نرخرہ اور دو میں سے ایک رگ کٹ نہ جائے اس وقت تک اس کا گوشت نہ کھائو۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ شرعی ذکاۃ کے لئے گردن کی رگوں اور حلقوم کے کٹ جانے کی ضرورت ہوتی ہے اگر ان میں سے کوئی چیز کٹنے سے رہ جائے تو اس کا گوشت جائز نہیں ہوگا امام مالک نے نرخر سے کا ذکر نہیں کیا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر گردن کی رگیں کٹ جائیں اور حلقوم رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ شرعی ذبح میں کم سے کم جس کا جواز ہے وہ حلقوم اور نرخرے کی قطع ہے دونوں رگیں بھی کٹ جانی چاہئیں کبھی انسان اور چوپائے کی یہ دونوں رگیں کھینچ لی جاتی ہیں لیکن پھر بھی یہ دونوں زندہ رہتے ہیں اس لئے اگر یہ دونوں نہ کٹیں اور نرخرہ نیز حلقوم کٹ جائے تو ذبح جائز ہوجائے گی۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ ذکاۃ یعنی شرعی ذبح کا مقام سینے کا بالائی حصہ لبہ ہے تو اس کی وجہ وہ روایت ہے جو ابو قتادہ الحرانی نے حماد بن سلمہ سے انہوں نے ابوالعشراء سے انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکاۃ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا فی اللبۃ والحلق، سینے کے بالائی حصے اور حلق میں) پھر فرمایا ولوطعنت فی فخذھا اجزا عنک اگر تم اس کی ران میں نیزہ مارو تو بھی کافی ہوگا۔ ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد سے یہ مراد لیا ہے ران میں نیزہ مارنا اس وقت کافی ہوگا جب جانور کی ذبح کے مقام پر قدرت نہ ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ ذبح کرنے والے کو ان چار اجزاء کا قطع کردینا جائز ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذکاۃ شرعی میں ان کا قطع ہونا شرط ہے اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو ان کو قطع کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ان چاروں کو قطع کرنے میں جانور کو زیادہ الم ہوتا ہے جس کی وجہ ایسی چیز ہے جو شرعی ذبح کی صحت کے لئے شرط نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کرنے والے پر ان چاروں کو قطع کرنا ضروری ہے تاہم امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر ان میں سے اکثر قطع ہوگئے تو ذبح جائز ہوجائے گی اگرچہ واجب کی حد تک پہنچنے میں کوتاہی لازم آئے گی۔ اس کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اکثر کو قطع کردیا اور اس جیسے امور میں اکثر کو کل کے قائم مقام سمجھ لیا جاتا ہے جس طرح اگر جانور کی دم اور اس کے کان کا اکثر حصہ کٹا ہوا ہو تو اسے قربانی کے لئے ناقابل قرار دینے کے مسئلے میں پوری دم اور کان کٹا سمجھ لیا جاتا ہے۔ امام ابویوسف نے ایک رگ حلقوم اور نرخرہ کے قطع کو ذکاۃ کی صحت کی شرط قرار دیا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ نے ایک رگ حلقوم اور نرخرہ میں سے ایک کو قطع کرنے اور حلقوم اور نرخرہ اور ایک رگ کو قطع کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے کیونکہ ذکاۃ کی صحت کے لئے ان چاروں کو قطع کرنے کا حکم ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں ابودائود نے انہیں ہنا دبن السری نے اور ابن المبارک کے آزاد کردہ غلام حسن بن عیسیٰ نے ان دونوں نے ابن المبار ک سے انہوں نے معمر سے انہوں نے عمر و بن عبداللہ سے انہوں نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے (ابن عیسیٰ نے سند میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے نام کا بھی اضافہ کیا ہے) دونوں صحابیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے شریطۃ الشیطان سے منع فرمایا ہے۔ (ابن عیسیٰ نے اپنی روایت میں ان الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے ، وھی التی تذبح فیقطع الجلد ولایفری الاوداج ثم تترک حتی تموت، یہ وہ جانور ہے جسے ذبح کرتے وقت صرف کھال کاٹ لی جائے لیکن اوداج قطع نہ کی جائیں پھر اسے چھوڑ دیا جائے کہ وہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے) ۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذبح کرنے والے کے لئے اوداج یعنی حلقوم، نرخرہ اور دو رگیں قطع کرنا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ نے سعیدبن مسروق سے روایت کی ہے انہوں نے عبایہ بن رفاعہ سے اور انہوں نے حضرت رافع بن خدیج (رض) سے اور آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ کل ماانھرالدم وافری الاوداج ماخلا السن والظفر، دانت اور ناخن کے سوا ہر اس چیز سے جو خون بہادے اور اوداج کو قطع کر دے یا پھاڑ دے) ۔ ابراہیم نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذبحوابکل ماافری الاوداج وھراق الدم ما خلا السن والظفر، دانت اور ناخن کے سوا ہر اس چیز سے ذبح کرو جو اوداج کو قطع کر دے اور خون بہا دے) ۔- یہ تمام روایات اس بات کی موجب ہیں کہ اوداج کو قطع کرنا ذکاۃ میں شرط ہے۔ اوداج کے اسم کا حلقوم، نرخرہ اور ان دونوں کے پہلو میں واقع دورگوں پر اطلاق ہوتا ہے۔- فصل - جو جانور مقدور میں ہوں ان کا آلہ ذبح - آلہ ذبح ہر وہ چیز ہے جو اوداج کو قطع کردے اور خون بہا دے، ایسے آلہ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، اس کے ذریعے ذکاۃ یعنی شرعی ذبح درست ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے اصحاب نے اکھڑے ہوئے ناخن، ہڈی، سینگ اور دانت سے ذبح کرنے کو مکروہ کہا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے واما غیر ذلک فلا باس بہ، ان کے سوا دوسرے آلات کے ذریعے ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں) یہ روایت جامع صغیر میں مذکور ہے۔ امام ابویوسف نے املاء میں کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چھال کے ذریعے ذبح کرے اور اوداج کو قطع کر کے خون بہا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح اگر کسی لکڑی کے ذریعے یا میخ کے ذریعے یا چری ہوئی لکڑی کے ذریعے یا سخت قسم کے پتھر کے ذریعے ذبح کرلے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن ہڈی، دانت اور ناخن کے ذریعے ذبح کرنا منع ہے۔ اس بارے میں احادیث اور آثار موجود ہیں۔ اگر کسی شخص نے اپنے دانت یا ناخن کے ذریعے ذبح کیا تو ایسا ذبیحہ مردار ہوگا اور اس کا کھانا حلال نہیں ہوگا۔ کتب اصول کے اندر ان کا قول ہے کہ اگر کسی نے اپنے دانت یا ناخن سے ذبح کیا تو وہ قاتل ہوگا ذبح نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ ہر ایسی چیز جو خواہ ہڈی ہو یا کچھ اور جانور کے گلے پر رکھ کر پھیرے اور اوداج کو قطع کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ دانت اور ناخن کے سوا ہر وہ چیز جو اوداج کو پھاڑ دے اور قطع کر دے اس کے ساتھ ذکاۃ عمل مکمل ہوجائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ سمندر کی سیپ سے جانور ذبح نہیں کیا جائے گا حسن بن صالح سینگ، دانت، ناخن اور ہڈی کے ذریعے ذبح کو مکروہ کہتے تھے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ہڈی دانت اور ناخن کے سوا ہر وہ چیز جو خون بہا دے اس کے ساتھ ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام شافعی نے ناخن اور دانت کو اس سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ناخن اور دانت سے ذبح کرنے کی ممانعت اس وقت ہوگی جب یہ دونوں چیزیں اپنے فطری مقامات پر قائم ہوں۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناخنوں کے متعلق فرمایا ہے کہ حبشیوں کی چھریاں ہیں حبشہ کے لوگ ایسے ناخن کے ساتھ ذبح کرتے ہیں جو اپنے اصلی مقام پر موجود ہوتا ہے اور اکھڑا ہوا نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس قسم کی ذبح دراصل گلا گھونٹنا ہے ابوبشر کہتے ہیں کہ میں نے عکرمہ سے سخت پتھر کے ذریعے ذبح کرنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر پتھر دھاردار ہو لیکن اوداج کو پھاڑ تو نہ سکے بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو ایسے ذبح کا گوشت کھالو، عکرمہ نے اس میں یہ شرط عائد کردی کہ دھاردار پتھر اوداج کو پھاڑ نہ سکے لیکن اس کے ٹکڑے ٹکڑے ضرور کر دے۔ دانت اور ناخن جو اکھڑے ہوئے نہ ہوں ان کے ذریعے ذبح کی صورت میں اوداج کے نہ تو ٹکڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں پھاڑا جاتا ہے اس لئے ان کے ذریعے ذبح درست نہیں ہوتی لیکن دانت اور ناخن اگر اپنی جگہوں سے اکھڑ چکے ہوں اور پھر یہ اوداج کو پھاڑ دیں تو کوئی حرج نہیں ہے تاہم ہمارے اصحاب نے ان کے ذریعے ذبح کو مکروہ کہا ہے کیونکہ یہ کند چھری کی طرح ہوتے ہیں اسی بنا پر انہوں نے سینگ اور ہڈی کے ذریعے ذبح کو مکروہ سمجھا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں مسلم بن ابراہیم نے انہیں شعبہ نے خالد الخداء سے انہوں نے ابوقلابہ سے انہوں نے ابوالاشعث سے انہوں نے حضرت شداد بن اوس (رض) سے انہوں نے فرمایا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو خصلتوں کے متعلق سنا ہے آپ نے فرمایا ” ان اللہ کتب الاحسان علی کل شئی فاذا فلتم فاحستوا، قال غیر مسلم فاحسنوا القتلۃ واذا ذبحتم فاحسنوا الذبح ولیحداحد کم شفرتہ والیرح ذبیحتہ، اللہ تعالیٰ نے ہر کام احسن طریقے سے سرانجام دینا لازم کردیا ہے اس لئے جب تم کسی کو قتل کرو تو احسن طریقے سے کرو۔ مسلم کے سوا دوسروں نے اس لفظ کا اضافہ کیا ہے احسن طریقے سے قتل کرو جب تم ذبح کرو تو احسن طریقے سے ذبح کرو ذبح کرنے والا اپنی چھری تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو راحت دے دے) ۔ ہمارے اصحاب نے اکھڑے ہوئے دانت یا ہڈی یا سینگ یا اس جیسی کسی اور چیز سے ذبح کو اس لئے مکروہ سمجھا ہے کہ یہ کند چھری کی طرح ہوتی ہے اور اس سے جانور کو جو تکلیف ہوتی ہے ذکاۃ کی صحت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے انہوں نے مری بن قطری سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ہم سے کسی شخص کو کوئی شکار ہاتھ آجائے اور اسے ذبح کرنے کے لئے اس کے پاس چھری نہ ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا خیال ہے کہ کسی سخت پتھر سے یا لاٹھی کے کنارے سے اسے ذبح کرلے “۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جس چیز سے چاہو خون کو بہنے دو اور اللہ کا نام لے لو “۔ نافع کی روایت ہے جو انہوں نے کعب بن مالک سے اور انہوں نے اپنے مالک سے کی اور انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک سیاہ رنگ لونڈی نے سخت پتھر کے ذریعے بکری ذبح کرلی۔ حضرت کعب (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا تذکرہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا گوشت کھا لینے کی اجازت دے دی۔ سلیمان بن یسار نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے اور انہوںں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ہی روایت کی ہے حضرت رافع بن خدیج (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا مانھرالدم ہذکر اسم اللہ علیۃ فکلوا الاماکان من سن وظفر، ہر ایسا آلہ جو خون بہا دے اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس ذبیحہ کا گوشت کھالو، مگر جس جانور کو دانت یا ناخن کے ذریعے ذبح کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو۔- فصل - جو جانور مقدور سے باہر ہوں ان کا حکم - اوپر جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے وہ ایسے جانور کے متعلق ہے جس کے ذبح کی قدرت ہو اس کی ذکاۃ میں ذبح کے مقام اور آلہ ذبح کے سلسلے میں ان باتوں کا اعتبار کیا جائے گا جو ہم نے بیان کئے ہیں۔ لیکن جس جانور کی ذبح مقدور میں نہ ہو تو اس کی ذکاۃ اسے ایسی چیز مارنے کے ذریعے ہوگی جو اسے زخمی کر دے اور خون بہا دے یا اس پر شکاری کتا یا پرندہ چھوڑ کر ہوگی جو اسے زخمی کر دے ایسی چیز سے اس کی ذبح نہیں ہوگی جو اس سے ٹکڑائے یا اس کی ہڈی توڑ دے۔ لیکن اس چیز کی دھار نہ ہو اور دھار کے بغیر ہی وہ چیز اسے زخمی کر دے۔ اس بارے میں ہمارے نزدیک اس جانور کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے جو اصل کے اعتبار سے شکار کی طرح محفو ظ اور ہمارے قابو سے باہر ہو یا اصل کے اعتبار سے چوپایا ہو اور پھر اس میں جنگلی جانوروں والی عادات پیدا ہوگئی ہوں اور بدک کر ہمارے قابو سے باہر ہوگیا ہو یا ایسی جگہ گرگیا ہو جہاں اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو۔ البتہ اس سلسلے میں فقہاء کے اندر دو باتوں میں اختلاف رائے ہے ایک تو اس شکار کے بارے میں جسے کسی ایسی چیز سے مارا جائے جو اسے زخمی نہ کرسکے اور وہ مرجائے۔ ہمارے اصحاب امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر بےپروں والا تیر اسے عرضاً لگا ہو تو ذبح کئے بغیر اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ سفیان ثوری نے کہا ہے کہ اگر تم شکار کو پتھر یابندوق یا درخت کا پھل مارو تو میں اسے مکروہ سمجھوں گا مگر یہ کہ تم اسے ذبح کرلو۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک پتھر اور بندوق کے پھل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اوزاعی کا بےپروں والے تیر سے کئے ہوئے شکار کے متعلق قول ہے کہ اس کا گوشت کھالیا جائے گا خواہ وہ تیر اس شکار کے جسم میں گھس جائے اور گڑھا بن جائے یا نہ بنے۔ ثوری کا قول ہے کہ حضرت ابوالدرداء، فضالہ بن عبید، ابن عمر (رض) کا قول اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر پتھر شکار کے جسم میں گھس جائے تو اس کا گوشت کھالو بندوق درخت کا پھل ایسا نہیں کرسکتا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر تیر شکار کے جسم میں گھس جائے یا اس کی دھار سے اس کا جسم کٹ جائے تو شکار کا گوشت کھالیا جائے گا اگر بےپروں کے تیر کے بوجھ سے شکار زخمی ہوگیا تو وہ دقیذ یعنی چوٹ کھا کر مرنے والا جانور شمار ہوگا۔ اگر شکاری جانوروں کے شکار کو پکڑ کر ہلاک کردیا تو اس کے متعلق دو قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب تک شکارزخمی نہ ہوگیا اس وقت تک اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ قول باری ہے من الحوارح مکلبین، ان شکاری جانوروں میں سے جنہیں تم نے سدھایا ہو) دوسرا قول یہ ہے کہ ایسا شکار حلال ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب امام مالک اور امام شافعی کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ شکاری کتا اگر شکار کو ٹکر مار کر ہلاک کر دے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ دوسری بات جس کے اندر فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے کہ ایسا جانور جو اصل کے اعتبار سے ہمارے قابو سے باہر اور محفوظ نہ ہو مثلا کوئی اونٹ یا بیل گائے وغیرہ بد ک کر جنگلی جانوروں کی طرح ہوجائے یا کوئی جانور کنویں میں گرجائے تو اس صورت میں ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اس کی ذبح ممکن نہ ہو اور قابو سے باہر ہو تو اسے شکار کی طرح ہلاک کردیا جائے گا اور وہ درست ذبیحہ ہوگا۔ سفیان ثوری اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایسے جانور کا گوشت اسی وقت حلال ہوگا جب اسے ذکاۃ کی تمام شرائط کے تحت ذبح کردیا جائے گا۔- حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، علمقہ، اسود اور مسروق سے ہمارے اصحاب کے قول کی طرح اقوال منقول ہیں۔ اس سے پہلے ان آثار کا تذکرہ ہوچکا ہے جو ہمارے اصحاب کے قول کی تائید میں ہیں کہ شکار کی ذکاۃ کی شرط یہ ہے کہ اسے دھار دار چیز سے زخمی کردیا گیا ہو اسی طرح معراض یعنی بےپر کے تیر کے متعلق آثار کا ذکر ہوا ہے کہ اگر اس کی دھار شکار کو لگ جائے گی تو اس کا گوشت حلال ہوگا اور اگر عرضاً لگے گا تو گوشت کھایا نہیں جائے گا۔ کیونکہ اس صورت میں یہ شکار و قیذ ہوگا یعنی اس کی موت چوٹ کھا کر واقع ہوئی ہوگی۔ کیونکہ قول باری ہے والموقودۃ اس لئے ہر ایسا شکار جو زخمی نہ کیا جاسکے وہ دقیذ ہے اور ظاہر کتاب اور سنت کی رو سے اس کا گوشت حرام ہے۔ قتادہ کی روایت میں ہے جو انہوں نے عقبہ بن صہبان سے کی ہے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خذف یعنی گوپھن یا انگلیوں کے درمیان کنکر رکھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اس طرح پھینکا ہوا کنکر نہ تو دشمن کو زخمی کرسکتا ہے نہ شکار کرسکتا ہے البتہ دانت کو توڑ سکتا اور آنکھ کو پھوڑ سکتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس جیسی چیز سے لگا ہوا زخم ذکاۃ کا ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اس میں دھار نہیں ہوتی ہے وہ زخم جو ذکاۃ کے حکم میں ہوتا ہے وہ صرف کسی دھار دار چیز سے لگتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےپروں والے تیر کے متعلق فرمایا کہ اگر اس کی دھار شکار کو لگے اور شکار کے جسم میں گھس جائے تو اس کا گوشت کھالو اور اگر عرضاً لگے تو اس کا گوشت نہ کھائو۔ آپ نے اس حکم میں زخمی کرنے یا نہ کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس حکم میں آلے کا اعتبار کیا جائے گا اور ذکاۃ کی صحت کے حکم کے سلسلے میں آلے کا دھار دار ہونا ہی معیار ہے۔ اس طرح گوپھن یا انگلیوں کے ذریعے پھینکے ہوئے کنکر کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد کہ ” یہ شکار نہیں کرسکتا “ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر آلہ شکار میں دھار نہیں ہوگی تو ذکاۃ کی صحت کا اعتبار ساقط ہوجائے گا۔ اگر کوئی اونٹ یا اس جیسا اور کوئی جانور بدک جائے اور جنگلی جانوروں والی عادات پیدا کرلے یا کوئی جانور کنویں میں گرجائے تو اس کی حیثیت شکار کی طرح ہوجاتی ہے اور اس کی ذکاۃ کی وہی صورت ہوتی ہے جو شکار کی ہے۔ اس پر یہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں بشر بن موسیٰ نے انہیں سفیان نے عمرو بن سعید بن مسروق سے انہوں نے اپنے والد انہوں نے عبایہ بن رفاعہ سے انہوں نے حضرت رافع بن خدیج (رض) سے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا ایک اونٹ بدک گیا اور بھاگ کر ہمارے قابو سے باہر ہوگیا ہم نے اس پر تیر چلائے پھر ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔” ان اونٹوں میں اوابد یعنی وحشی اور بدک جانے والے ہوتے ہیں جس طرح جنگلی جانوروں میں ہوتے ہیں اس لئے اگر کوئی اونٹ بدک جائے اور بھاگ کر قابو سے باہر ہوجائے تو اسے ذبح کرنے کا یہی طریقہ اختیار کرو اور اس کا گوشت کھالو “۔ سفیان کہتے ہیں کہ اس روایت میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم نے ان الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے کہ ” ہم نے اس پر اس قدر تیز چلائے کہ اسے نڈھال کردیا “ یہ بات تیروں کے ذریعے ہلاک ہونے کی صورت میں اس کے گوشت کی اباحت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکاۃ کی شرط کے بغیر اس کی اباحت کردی تھی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن یونس نے انہیں حماد بن سلمہ نے ابوالعشرآء سے انہوں نے اپنے والد سے وہ کہتے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا ” اللہ کے رسول کیا ذکاۃ بالائی حصے یعنی لبہ کے بغیر اور کسی جگہ نہیں ہوتی ؟ “ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اگر تم اس کی ران پر نیزہ مارو گے تو یہ بھی کافی ہوگا “۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے جبکہ اسے ذبح کرنا مقدور میں نہ ہو کیونکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جس جانور کی ذبح مقدور کے اندر ہوتی ہے اس کی ران پر نیزہ مارنے سے ذبح کا عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ عقلی نقطہ نظر سے ہمارے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ شکار پر تیر چلا کر اسے ہلاک کردینا سب کے نزدیک اس کی ذکاۃ ہے اس صورت کو ذکاۃ قرار دینے والا سبب دو باتوں میں سے ایک ہوگا یا تو وہ ذبیحہ شکار کی جنس سے ہوگا یا اس کی ذبح مقدور سے باہر ہوگی۔ اب جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ شکار جب زندہ ہاتھ آجائے تو اس کی ذکاۃ ذبح کے سوا اور کسی صورت کے ذریعے نہیں ہوسکتی جس طرح اس جانور کی ذکاۃ کا مسئلہ جو شکار کی جنس میں سے نہ ہو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اس حکم کا تعلق اس جانور کی ذکاۃ سے نہیں ہے جو شکار کی جنس میں سے ہوتا ہے بلکہ حکم کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی ذبح کا اس صورت میں مقدور نہیں ہوتا جب وہ بدکا ہوا اور بھاگا ہوا ہو۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا یہی حکم شکار کے سوا دوسرے جانوروں کی ذبح کو بھی لاحق ہوجائے جب وہ جانور اس حال کو پہنچ جائے اس لئے کہ دونوں میں مشترکہ علت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر شکار کے جانور کو ہلاک کرنے کا یہ طریقہ ذکاۃ قرار پایا تھا۔ ایسا شکار جس کے جسم کا ایک حصہ قطع ہو کر الگ ہوجائے اس کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے ہمارے اصحاب اور ثوری کا قول ہے کہ اگر اس کے دو برابر ٹکڑے ہوگئے ہوں تو دونوں ٹکڑے حلال ہوں گے اگر سر کی طرف سے تیسرا حصہ قطع ہوگیا ہو تو یہ حلال ہوگا لیکن اگر سر بن کی طرف سے ایک تہائی کٹ کر علیحدہ ہوگیا ہو تو اسے نہیں کھایا جائے گا البتہ سر کی طرف باقیماندہ دوتہائی حصہ حلال ہوگا یہی ابراہیم نخعی اور مجاہد کا قول ہے۔ ابن ابی لیلیٰ اور لیث کا قول ہے کہ اگر شکار کا ایک حصہ قطع ہوگیا اور اسی ضرب سے شکار مرگیا تو دونوں حصے حلال ہوں گے امام مالک کا قول ہے کہ جب شکار کی کمر کاٹ دے یا اس کی گردن مار دے تو اس شکار کا سارا گوشت حلال ہوگا لیکن اگر ران الگ کر دے تو ران نہیں کھائی جائیگی باقی حصہ کھایا جائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر اس کی سرین علیحدہ کر دے تو علیحدہ کیا ہوا حصہ نہیں کھایا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ حلال ہوگا اور اگر درمیان سے اسے دو حصوں میں قطع کر دے تو سارا گوشت کھایا جائیگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر اس کے دو ٹکڑے ہوگئے ہوں تو سارا گوشت کھایا جاسکے گا خواہ ایک ٹکڑا چھوٹا اور دوسرا بڑا ہو۔ اگر ایک ٹانگ یا ایک دست یا ایسا حصہ کاٹ کر علیحدہ کردیا ہو جس کے بعد اس جانور کے لئے ایک گھنٹہ یا اس سے زائد وقت زندہ رہنا ممکن ہو اس کے بعد پھر اسے ہلاک کردے تو اس صورت میں جسم سے علیحدہ ہوجانے والا حصہ جبکہ جانور ابھی زندہ ہو نہیں کھایاجائے گا اور جو حصے علیحدہ نہیں ہوئے ان کو استعمال میں لایا جائے گا اگر پہلی دفعہ قطع ہونے کے وقت جانور مرگیا ہو تو دونوں حصے کھائے جاسکیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے انہیں ہاشم بن القاسم نے انہیں عبدالرحمن بن دینار نے زید بن اسلم سے انہوں نے عطاء بن یسار سے انہوں نے ابو واقد (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ماقطع من البھیمۃ وھی حیۃ فھی میتۃ، چوپائے کا جو حصہ اس سے علیحدہ کردیا گیا ہو جبکہ چوپایہ ابھی زندہ ہو تو اس کا یہ حصہ مردار ہوگا) آپ کا یہ حکم صرف اس قلیل حصے کو شامل ہوگا جو ذبح کے مقام کے علاوہ جسم کے کسی اور مقام سے علیحدہ ہوگیا ہو۔ اس لئے کہ اگر کسی نے شکار کی گردن میں ضرب لگا کر سر علیحدہ کردیا ہو تو سارا شکار حلال ہوگا اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جسم سے علیحدہ ہونے والا حصہ ذبح کے مقام کے علاوہ کسی اور جگہ سے علیحدہ ہوا ہو۔ اور یہ بات اس کے کم تر حصے کو شامل ہوتی ہے اس لئے کہ اگر اس نے آدھا حصہ کاٹ دیا ہو یا سر کی طرف سے تہائی حصہ الگ کردیا ہو تو ان صورتوں میں وہ رگیں کٹ جائیں گی جنہیں ذبح کی صورت میں کاٹنے کی ضرورت ہوتی ہے یہ گلے کی رگیں حلقوم اور نرخرہ ہیں اس لئے سارا جانور ذبیحہ ہوجائے گا۔ لیکن اگر اس نے سرین کی طرف سے ایک تہائی حصہ الگ کردیا ہو تو اس صورت میں وہ رگیں نہیں کٹیں گی جن کا کٹ جانا ذکاۃ میں شرط ہے اس لئے جو حصہ علیحدہ ہوگیا ہوگا وہ مردار کے حکم میں ہوگا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے مابان من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ ) سر کے ساتھ متصل حصہ سارے کا سارا مذ کی ہوتا ہے جس طرح اگر اس کی ٹانگ قطع کر دے یا ذبح کے مقام کے علاوہ کسی اور جگہ سے اسے زخمی کر دے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ الگ نہ ہو تو ذبح کے مقام پر ذکاۃ کا عمل متعذر ہونے کی بنا پر ان صورتوں میں ذکاۃ کا عمل مکمل ہوجائے گا۔- فصل - مذہب کا جہاں تک تعلق ہے تیر چلانے والے یا شکار پکڑنے والے کا مسلمان یا اہل کتاب میں سے ہونا ضروری ہے ہم اس پر آگے چل کر مزید روشنی ڈالیں گے۔ تسمیہ کا مفہوم یہ ہے کہ ذبح کے وقت یا تیر چلاتے وقت یا شکار پر کتے اور شکاری جانور چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا جائے بشرطیکہ شکاری کو اللہ کا نام لینا یاد ہو۔ لیکن اگر بھول جائے تو بسم اللہ نہ کہنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اس پر بھی ہم اس کے مقام پر پہنچ کر مزید روشنی ڈالیں گے۔ قول باری ہے وما ذبح علی النصب۔ اور وہ جانور جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو) مجاہد، قتادہ اور ابن جریج سے منقول ہے کہ نصب سے مراد وہ پتھر ہیں جو کھڑے کردیئے جاتے اور ان کی پوجا شروع کردی جاتی اور چڑھاوے چڑھنے لگتے اور جانور قربان کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آستانوں پر ذبح شدہ جانور کو کھانے سے منع فرما دیا اس لئے کہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ نصب اور صنم یعنی بت میں یہ فرق ہے کہ صنم کی صورت اور نقش و نگار ہوتے ہیں نصب میں ایسا نہیں ہوتا یہ تو کھڑے کئے ہوئے پتھر ہوتے ہیں وثن بھی نصب کی طرح ہوتے تھے۔ جس بت کی کوئی شکل نہ بنی ہو اس پر وثن کا اطلاق ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی (رض) بن حاتم سے فرمایا تھا جب یہ گلے میں صلیب لٹکا کر آپ کی خدمت میں آئے تھے کہ اس وثن کو گلے سے اتار کر پھینک دو آپ نے صلیب کو وثن کا نام دیا یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ نصب اور وثن کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جسے پوجا کی غرض سے نصب کردیا گیا ہو اگرچہ اس کی کوئی صورت نہ ہو اور نہ ہی کوئی نقش و نگار بنا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے بت پرست ان آستانوں پر ذبح ہونے والے جانوروں کا گوشت کھالیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مردار خنزیر اور آیت میں مذکورہ دوسری چیزوں کی تحریم کے ساتھ جنہیں عرب کے لوگ مباح سمجھتے تھے ان جانوروں کو بھی حرام قرا ردیا۔ ایک قول ہے کہ آیت احلت لکم بھیمۃ الانعام الامایتلی علیکم۔ میں استثناء سے آستانوں پر ذبح ہونے والے یہی جانور مراد ہیں۔ قول باری ہے وان تستقسموا بالازلام، نیز یہ بھی تمہارے لئے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرو) استقسام کی تشریح و تفسیر میں دو قول ہیں : اول یہ کہ پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنا، دوم، یہ کہ پانسوں کے ذریعے نکلنے والی بات کو اپنے اوپر حلف اور قسم کی طرح لازم کرلینا۔ استقسام بالازلام کی صورت یہ تھی کہ اہل جاہلیت کا دستور تھا کہ اگر ان میں سے کوئی سفر یا جنگ یا تجارت یا اسی طرح کے کسی کام پر جانے کا ارادہ کرتا تو پانسے پھیرتا یہ تین طرح کے ہوتے تھے بعض پر یہ لکھا ہوتا ” مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے “۔ بعض پر میرے رب نے مجھے روکا ہے “۔ لکھا ہوتا اور بعض پر کچھ نہ لکھا ہوتا ایسے پانسے کو منیج کا نام دیا جاتا۔ اگر پہلی قسم کا پانسہ نکل آتا تو پانسہ پھیرنے والا اپنی ضرورت کی طرف چل پڑتا اگر دوسری قسم کا پانسہ نکل آتا تو رک جاتا اگر تیسری قسم کا پانسہ نکلتا تو دوبارہ پانسے پھیرتا حسن کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ تین قسم کے پانسے استعمال کرتے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے تمام اہل علم نے اس کی تاویل میں یہی کہا ہے ازلام کی واحد زلم ہے جس کے معنی پانسے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی ممانعت کردی زمانہ جاہلیت کے لوگ یہ کام کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسے فسق قرار دیا۔ چناچہ ارشاد ہوا ذلکم فسق، یہ سب افعال فسق ہیں) یہ بات غلاموں کو آزاد کرنے کی خاطر ان میں قرعہ اندازی کے بطلان پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ بعینہ استقسام بالازلام کے معنوں میں ہے اس لئے کہ اس میں قرعہ کے ذریعے نکلنے والی صورت کی پیروی کی جاتی ہے اور استحقاق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اس لئے کہ جو شخص اپنی موت کے وقت اپنے غلاموں میں سے دو یا چند غلاموں کو آزادی دے دیتا ہے اور یہ غلام اس کے تہائی ترکہ سے نہ نکل سکتے ہوں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ آزادی کے استحقاق میں یہ سب مساوی ہیں۔ اب اگر قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس سے استحقاق کے بغیر بعض غلاموں کے لئے آزادی کا اثبات ہوجائے گا اور اس آزادی کے استحقاق میں ہم پلہ غلام کی محرومیت لازم آئے گی جس طرح پانسے پھیرنے والا ان کے ذریعے نکلنے والے اوامرونہی کی صرف اس وجہ سے پیروی کرتا تھا کہ پانسے میں ایسا نکلا ہے اس پیروی کی اور کوئی وجہ نہ ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ غنائم کی تقسیم اور بیویوں میں سے غیر متعین مطلقہ بیوی کے اخراج کے سلسلے میں قرعہ اندازی جائز ہوتی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا مال غنیمت کی تقسیم میں قرعہ اندازی جنگ میں شریک مجاہدین کے دلوں کو خوش کرنے اور ان میں کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک کی تہمت کو زائل کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اگر سب لوگ قرعہ اندازی کے بغیر تقسیم غنائم پر مصالحت کرلیں تو پھر قرعہ اندازی کے بغیر یہ تقسیم جائز ہوتی ہے جہاں تک آزادی دینے کا مسئلہ ہے اس میں ایک غلام کو ملنے والی آزادی کو دوسرے غلام کی طرف منتقل کردینا جائز نہیں ہوتا۔ قرعہ اندازی کی صورت میں ایک غلام کو ملنے والی آزادی کو دوسرے غلام کی طرف منتقل کردینا لازم آتا ہے جبکہ آزادی کے استحقاق میں پہلا غلام دوسرے کے ہم پلہ ہوتا ہے۔ قول باری ہے الیوم یئس الذین کفروا من دینکم، آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے) حضرت ابن عباس اور سدی کا قول ہے کہ کافروں کو تمہارے مرتد ہو کر ان کے دین کی طرف لوٹ جانے کے معاملے میں مایوسی ہوگئی ہے لفظ الیوم کی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے حجتہ الوداع کا یوم عرفہ مراد ہے فلاتخشوھم لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو) یعنی تمہیں اب اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ کافر تم پر غالب آ جائیں گے۔ ابن جریج (رض) سے مروی ہے کہ حسن کا قول ہے ” الیوم سے وہ دن مراد ہے جو قول باری الیوم اکملت لکم دینکم، آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے) میں مذکور ہے یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پورا مبارک زمانہ “۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ آیت یوم عرفہ کو نازل ہوئی یہ جمعہ کا دن تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یوم کے اسم کا اطلاق زمان یعنی وقت پر ہوتا ہے جیسا کہ یہ قول باری ہے ومن یولھم یومیذدبرہ اور جو شخص اس دن انہیں اپنی پیٹھ دکھائے گا) اس سے مراد یوم عرفہ اور یوم جمعہ کا کوئی وقت مراد ہے۔ قول باری ہے فمن اضطرنی مخمصۃ غیر متجانف لاتم۔ البتہ کوئی شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو) اضطرار اس تکلیف اور مضرت کو کہتے ہیں جو انسان کو بھوک وغیرہ کی بنا پر پہنچتی ہے اور اس مضرت سے بچنا ممکن ہوتا ہے یہاں یہ مفہوم ہے کہ جس شخص کو بھوک کی مضرت پہنچے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب کسی انسان کو اپنی جان جانے یا کسی عضو کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوجائے تو اس کے لئے ان حرام چیزوں کے استعمال کی اباحت ہوجاتی ہے۔ یہ بات قول باری فی مخمصۃ میں بیان کردی گئی ہے حضرت ابن عباس سدی اور قتادہ کا قول ہے کہ مخمصہ بھوک کو کہتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے وقت ان چیزوں کے استعمال کی اباحت کردی ہے جن کی تحریم اس آیت میں منصوص کردی گئی ہے۔ قول باری الیوم اکملت لکم دینکم اور اس کے ساتھ ذکر شدہ قول کا مفہوم آیت میں مذکورہ محرکات کی طرف تخصیص کے راجع ہونے میں مانع نہیں ہوا۔ سورت کی ابتداء میں قول باری احلت لکم بھیمۃ الانعام کا خطاب مویشی قسم کے چوپایوں کی اباحت کو متضمن ہے۔ جبکہ قول باری الامایتلی علیکم غیر محلی الصید وانتم حرم) میں احلال کی حالت میں شکار کی اباحت بیان ہے اور یہ احلت لکم بھیمۃ الانعام) میں داخل نہیں ہے پھر اللہ نے اپنے قول حرمت علیکم المیتۃ تا آخر آیت کے اندر ہم پر حرام کردہ چیزوں کو بیان فرمایا پھر اس سے ضرورت کی حالت کی تخصیص کردی اور یہ واضح فرما دیا کہ ضرورت کی حالت تحریم میں داخل نہیں ہے۔ رخصت کا یہ حکم حالت احرام میں شکار اور دوسری تمام محرکات کے لئے عام ہے۔ اس لئے مقتضائے آیت کے مطابق کسی شخص پر کبھی اضطراری حالت طاری ہوگی اور وہ ان محرکات میں سے کسی چیز کے لئے مجبور ہوجائے گا وہ چیز اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔ قول باری غیر متجانف لاثم۔ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) حسن قتادہ سدی اور مجاہد کا قول ہے ” غیر معتمد علیہ “ یعنی گناہ کا سہارا لئے بغیر، گویا یوں فرمایا :” گناہ کی طرف اپنی خواہش اور میلان کا سہارا لئے بغیر “ وہ اس طرح کہ ضرورت باقی نہ رہنے کے بعد بھی ان محرکات میں کسی چیز کو اپنے استعمال میں لے آئے۔ قول باری ہے یسئلونک ماذا اجل لھم، قل احل لکم الطیبات، لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے کہو تمہارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں) طیبات کا اسم دو معنوں کو شامل ہے اول لذید پاک چیز ۔ دوم حلال چیز۔ یہ اس لئے کہ طیب کی ضد خبیث ہے اور خبیث حرام ہے اس لئے طیب حلال ہے اس کی اصلیت لذت اندوزی ہے اس لئے حلال کو اس کے مشابہ قرار دیا گیا اور وجہ شبہ یہ ہے کہ حلال اور طیب دونوں سے مضرت اور نقصان منتفی ہے۔ قول باری ہے یایھا الرسل کلوامن الطیبات، اے رسول پاک چیزوں میں سے کھائو) یعنی حلال چیزوں میں سے، نیز قول باری ہے ویحل لھم الطیبات ویحرم علیھم الخبائث۔ اور وہ رسول ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور خبائث کو ان پر حرام کرتا ہے) اس آیت میں طیبات کو خبائث کے مقابلے میں لایا گیا اور خبائث اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ قول باری ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو) ۔ اس آیت میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہوں جو حلال کردی ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ عورتیں ہوں جو تمہیں اچھی لگیں۔ قول باری قل احل لکم الطیبات، میں یہ گنجائش ہے کہ اس سے مراد وہ چیزیں لی جائیں جنہیں تم پاک اور لذیذ سمجھو اور جن کے استعمال سے تمہیں دینی لحاظ سے کوئی ضرر نہ پہنچے اس صورت میں یہ ان حلال اشیاء کی طرف راجع ہوگا جن کے استعمال سے متعلقہ شخص پر کوئی گناہ اور کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ اس میں یہ بھی گنجائش ہے اس کے ظاہر سے تمام لذیذ اشیاء کی اباحت پر استدلال کیا جائے اور ان سے صرف وہی چیزیں خارج ہوں جن کی تحریم کی دلالت موجود ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اللہ کی طرف سے جو جانور حلال کیے گئے ہیں، ان میں سے مردار جانوروں کا گوشت کھانا تم پر حرام کردیا گیا ہے اور بہتا ہوا خون بھی اور جو جانور دانستہ (ارادے سے) غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور وہ جانور جو گلا گھٹنے سے مرجائے اور وہ جانور جو لکڑی کی زد سے مرجائے اور وہ جانور جو پہاڑ سے گر کر یا کنوئیں میں گر کر مرجائے اور وہ جانور جو کسی کی ٹکر سے مرجائے اور جو کسی جانور کے پکڑنے سے مرجائے البتہ جن کو دم نکلنے سے پہلے شریعت کے مطابق ذبح کرڈالو اور جو جانور غیر اللہ کے مقامات پر ذبح کیا جائے اور وہ گوشت بھی حرام ہے جو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے تقسیم کیا جائے اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ ان تیروں سے فال نکالنا حرام دیا گیا ہے۔ کیونکہ انکی اک طرف لکھا ہوا تھا، کہ میرے پروردگار نے اس چیز کا حکم دیا اور دوسری طرف اس کی ممانعت تھی، یہ کفار اپنے کاموں میں ان تیروں سے فال نکالا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمادیا کہ ان گناہ کے کاموں اور حرام چیز کا ارتکاب اللہ کی نافرمانی ہے اور ان امور شرک کو حلال سمجھنا کفر ہے۔- حج اکبر یعنی حجۃ الوداع کے دن کفار مکہ تمہارے دین (اسلام) کے مغلوب ہو کر ان کے دین (کفر وشرک) کی طرف لوٹ آنے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مایوس اور ناامید ہوگئے۔- لہذا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور کفار کی مخالفت میں ان سے مت ڈرو بلکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور آپ کی اتباع کے ترک کرنے اور کفار کی موافقت کرنے میں مجھ (اللہ ہی) سے ڈرو۔- حج اکبر کے دن میں نے تمہارے دین کے تمام احکامات حلال و حرام اوامرونواہی کو ہر ایک طریقہ سے کامل کردیا، آج کے بعد تمہارے ساتھ میدان عرفات، منی، اور طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں کوئی مشرک نہیں ہوگا، اور اسلام کو تمہارے لیے منتخب کرلیا۔- (اب اس حوالے سے ضمنا حلال و حرام کا بیان ہورہا ہے) البتہ جو بھوک کی شدت میں ضرورت کی وجہ سے مردار کھانے پر مجبور ہوجائے اس حال میں کہ گناہ کی طرف یا بغیر مجبوری کے کھانے کی طرف اس کا ارادہ نہ ہو اور وہ اس حالت اضطراب میں کچھ کھالے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے ہیں اور رحیم ہیں کہ اس نے ضرورت کے مطابق کھانے کی اجازت دی ہے۔- شان نزول : (آیت) ” حرمت علیکم المیتۃ “۔ (الخ)- ابن مندہ (رح) نے ” کتاب الصحابہ “ میں بواسطہ عبدللہ، جبلہ، جان بن ججر (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا جس میں مردار کا گوشت تھا، اللہ تعالیٰ نے مردار کے گوشت کی حرمت نازل فرمائی تو، میں نے فورا ہانڈی پھینک دی، (یہ تھا صحابہ کرام (رض) کا اطاعت الہی کا والہانہ جذبہ) ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ ) - وہ جانور جو خود اپنی موت مرگیا ہو وہ حرام ہے۔ - (وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ) (وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ) - یعنی وہ جانور جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے نامزد ہے ‘ اور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ - (وَالْمُنْخَنِقَۃُ ) ُ (وَالْمَوْقُوْذَۃُ ) (وَالْمُتَرَدِّیَۃُ ) (وَالنَّطِیْحَۃُ ) (وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ ) - یعنی اَلْمَیْتَۃکی یہ پانچ قسمیں ہیں۔ کوئی جانور ان میں سے کسی سبب سے مرگیا ‘ ذبح ہونے کی نوبت نہیں آئی ‘ اس کے جسم سے خون نکلنے کا امکان نہ رہا ‘ بلکہ خون اس کے جسم کے اندر ہی جم گیا اور اس کے گوشت کا حصہ بن گیا تو وہ مردار کے حکم میں ہوگا۔ - (اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ قف) ۔ - یعنی مذکورہ بالا اقسام میں سے جو جانور ابھی مرا نہ ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو اسے کھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً شیر نے ہرن کا شکار کیا ‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہرن مرتا شیر نے کسی سبب سے اسے چھوڑ دیا۔ اس حالت میں اگر اسے ذبح کرلیا گیا اور اس میں سے خون بھی نکلا تو وہ حلال جانا جائے گا۔ جہاں جہاں شیر کا منہ لگا ہو وہ حصہ کاٹ کر پھینک دیا جائے تو باقی گوشت کھانا جائز ہے۔ - (وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ ) - یعنی کسی خاص آستانے پر ‘ خواہ وہ کسی ولی اللہ کا مزار ہو یا دیوتا ‘ دیوی کا کوئی استھان ہو ‘ ایسی جگہوں پر جاکر ذبح کیا گیا جانور بھی حرام ہے۔ - (وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بالْاَزْلاَمِ ط) اور یہ کہ جوئے کے تیروں کے ذریعے سے تقسیم کرو۔- یہ بھی جوئے کی ایک قسم تھی۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ قربانی کے بعد گوشت کے ڈھیر لگا دیتے تھے اور تیروں کے ذریعے گوشت پر جوا کھیلتے تھے۔ - (ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط ) (اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ ) - یعنی یہ لوگ اب یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اللہ کا دین غالب ہوا چاہتا ہے اور اس کا راستہ روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ‘ سورة المائدۃ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عرب میں اسلام کے غلبہ کے آثار صاف نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ - (فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ط) (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ) (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ) (وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط) - میرے ہاں پسندیدہ اور مقبول دین ہمیشہ ہمیش کے لیے صرف اسلام ہے۔- (فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ) - شدید فاقہ کی کیفیت ہو ‘ بھوک سے جان نکل رہی ہو تو ان حرام کردہ چیزوں میں سے جان بچانے کے بقدر کھا سکتا ہے۔- (غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِثْمٍ لا) - نیت میں کوئی فتور نہ ہو ‘ بلکہ حقیقت میں جان پر بنی ہو اور دل میں نافرمانی کا کوئی خیال نہ ہو

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :10 یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۱ ) ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :11 یعنی جو جانور مذکورہ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثار زندگی اس میں پائےجاتے ہوں ، اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اسے کھایا جا سکتا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے ، کوئی دوسرا طریقہ اس کو ہلاک کر نے کا صحیح نہیں ہے ۔ یہ ”ذبح“ اور ”ذکاۃ“ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں ۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے ۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ۔ ۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خون کھنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پورے جسم کا گوشت خون سے صاف ہوجاتا ہے ۔ خون کے متعلق ابھی اوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے ، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خون اس سے جدا ہو جائے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :12 اصل میں لفظ” نُصُب“ استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیر اللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصوص کر رکھا ہو ، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورت ہو یا نہ ہو ۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے ، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :13 اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں ان کی اصل بنیاد ان اشیاء کے طبی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے ، بلکہ ان کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں ۔ جہاں تک طبیعی امور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے ۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غزائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں ۔ شریعت ان امور میں اس کی رہنمائی کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لیتی ۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا ۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا ، یا ان دوسرے مفردات و مرکبات کا ، جو انسان کے لیے سخت مہلک ہیں ، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے ، اور کونسی غذائیں طہارت نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں ۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسر ہی نہیں ہیں ، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر ان امور میں غلطیاں کی ہیں ، اس لیے شریعت صرف انہی امور میں ، اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا برا اثر پڑتا ہے ، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں ، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے ۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حلت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان برائیوں میں سے کوئی برائی اپنے اندر نہیں رکھتیں ۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تا کہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ۔ مثلاً یہ بات کہ خون ، یا سور کے گوشت یا مردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رونما ہوتی ہیں ، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں ، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو ناپنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں ۔ اگر بالفرض ان کے برے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے ، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدم صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حدود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے ۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور اللہ علیم و حکیم ہے ، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرے گا ، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ اور جو شخص اس بنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو ، اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آگئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے اور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ مشق بنتا رہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :14 اس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حکم ان تینوں پر حاوی ہے: ( ۱ ) مشرکانہ فال گیری ، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے ، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے ۔ مشرکین مکہ نے اس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہبل دیوتا کے بت کو مخصوص کر رکھا تھا ۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے ۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو ، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پوچھنا ہو ، یا خون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو ، غرض کوئی کام بھی ہو ، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحب القداح ) کے پاس پہنچ جاتے ، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے ۔ پھر پانسہ دار ان تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نکل آتا اس پر لکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا ۔ ( ۲ ) توہم پرستانہ فال گیری ، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے ۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ علم غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے ۔ رمل ، نجوم ، جفر ، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر ، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں ۔ ( ۳ ) جوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے ۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے ۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں ، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے ۔ ان تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو ۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے ، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ اس صورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے ۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے ۔ اس صورت میں ضرورت ہو تو قرعہ اندازی کی جاسکتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دوسرے کو ملال ہو گا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :15 ”آج“ سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں ۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانہ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے ۔ ”کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے“ ، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خود اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے ۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں ، اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیت کی طرف واپس لے جا سکیں گے ۔ ”لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو“ ، یعنی اس دین کے احکام اور اس کی ہدایات پر عمل کر نے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے ۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی ۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے ۔ اب شریعت الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دوسرے کے اثر سے مجبور ہو ، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :16 دین کو مکمل کر دینے سے مراد ُس کو ایک مستقل نظام فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظام تہذیب و تمدن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ نعمت تمام کرنے سے مراد نعمت ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے ۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو ، اس لیے میں نے اسے درجہ قبولیت عطا فرمایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کا جوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا ۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے ۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر انداز کلام سے خود بخود یہ بات نکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہیں تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حدود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو ۔ مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلہ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ ( سن ٦ ہجری ) کا ہے اور سیاق عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلہ کلام ان فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا ۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللہ ، کہ ابتداءً یہ آیت اسی سیاق کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیت لوگ نہ سمجھ سکے ۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :17 ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۲ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: جاہلیت کے زمانے میں ایک طریقہ یہ تھا کہ ایک مشترک اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کرتے تھے اور قرعہ اندازی کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مختلف تیروں پر حصوں کے نام لکھ کر ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے، پھر جس شخص کے نام جو حصہ نکل آیا، اسے گوشت میں سے اتنا حصہ دے دیا جاتا تھا، اور کسی کے نام پر کوئی ایسا تیر نکل آیا جس پر کوئی حصہ مقرر نہیں ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ اسی طرح ایک اور طریقہ یہ تھا کہ جب کسی اہم معاملے کا فیصلہ کرنا ہوتا تو تیروں کے ذریعے فال نکالتے تھے۔ اور اس فال میں جو بات نکل آئے اس کی پیروی لازم سمجھتے تھے۔ ان تمام طریقوں کو آیت کریمہ نے ناجائز قرار دیا ہے، کیونکہ پہلی صورت میں یہ جوا ہے، اور دوسری صورت میں یا علم غیب کا دعویٰ ہے، یا کسی معقول وجہ کے بغیر کسی بات کو لازم سمجھنے کی خرابی ہے۔ بعض حضرات نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ : اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرو۔ یہ دوسرے طریقے کی طرف اشارہ ہے اور آیت کے الفاظ میں اس ترجمے کی بھی گنجائش ہے۔ 7: صحیح احادیث میں آیا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔