آیت نمبر۳ کی تفسیر حلال و حرام کی وضاحتیں ان آیتوں میں اللہ ان کا بیان فرما رہا ہے جن کا کھانا اس نے حرام کیا ہے ، یہ خبر ان چیزوں کے نہ کھانے کے حکم میں شامل ہے میتہ وہ ہے جو از خود اپنے آپ مر جائے ، نہ تو اسے ذبح کیا جائے ، نہ شکار کیا جائے ۔ اس کا کھانا اس لئے حرام کیا گیا کہ اس کا وہ خون جو مضر ہے اسی میں وہ جاتا ہے ، ذبں کرنے سے توبہ جاتا ہے اور یہ خون دین اور بدن کو مضر ہے ، ہاں یہ یاد رہے ہر مردار حرام ہے مگر مچھلی نہیں ۔ کیونکہ موطا مالک ، مسند شافعی ، مسند احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجو ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے اور اسی طرح ، مڈی بھی گو خود ہی مر گئی ہو ، حلال ہے ۔ اس کی دلیل کی حدیث آ رہی ہے ۔ دم سے مراد دم مسفوح یعنی وہ خون ہے جو بوقت ذبح بہتا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ آیا تلی کھا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہاں ، لوگوں نے کہا وہ تو خون ہے ، آپ نے فرمایا ہاں صرف وہ خون حرام ہے جو بوقت ذبح بہا ہو ۔ حضرت عائشہ بھی یہی فرماتی ہیں کہ صرف بہا ہوا خون حرام ہے ۔ امام شافعی حدیث لائے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے لئے دو قسم کے مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں ، مچھلی ، ٹڈی ، کلیجی اور تلی ۔ یہ حدیث مسند احمد ، ابن ماجہ ، دار قطنی اور بیہقی میں بھی بروایت عبد الرحمن بن زید بن اسلم مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں ، حافظ بیہقی فرماتے ہیں عبد الرحمان کے ساتھ ہی اسے اسماعیل بن ادریس اور عبداللہ بھی روایت کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں یہ دونوں بھی ضعیف ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے ضعف میں کمی بیشی ہے ۔ لیمان بن بلال نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور وہ ہیں بھی ثقہ لیکن اس روایت کو بعض نے ابن عمر پر موقوف رکھا ہے ۔ حافظ ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت سدی بن عجلان سے مروی ہے کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی طرف بھیجا کہ میں انہیں اللہ کی طرف بلاؤں اور احکام اسلام ان کے سامنے پیش کروں ۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا ، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بھر کر میرے سامنے آ بیٹھے اور حلقہ باندھ کر کھانے کے ارادے سے بیٹھے اور مجھے سے کہنے لگے آؤ سدی تم بھی کھالو میں نے کہا ۔ تم غضب کر رہے ہو میں تو ان کے پاس سے آ رہا ہوں جو اس کا کھانا ہم سب پر حرام کرتے ہیں ، تب تو وہ سب کے سب میری طرف متوجہ ہو گئے اور کہا پوری بات کہو تو میں نے یہی آیت حرمت علیکم المیتتہ والدم الخ ، پڑھ کر سنا دی ، یہ روایت ابن مردویہ میں بھی ہے اس میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ میں وہاں بہت دنوں تک رہا اور انہیں پیغام اسلام پہنچاتا رہا لیکن وہ ایمان نہ لائے ، ایک دن جبکہ میں سخت پیاسا ہوا اور پانی بالکل نہ ملا تو میں نے ان سے پانی مانگا اور کہا کہ پیاس کے مارے میرا برا حال ہے ، تھوڑا سا پانی پلا دو ، لیکن کسی نے مجھے پانی نہ دیا ، بلکہ کہا ہم تو تجھے یونہی پیاسا ہی تڑپا تڑپا کر مار ڈالیں گے ، میں غمناک ہو کر دھوپ میں تپتے ہوئے انگاروں جیسے سنگریزوں پر اپنا کھردرا کمبل منہ پر ڈال کر اسی سخت گرمی میں میدان میں پڑا رہا ، اتفاقاً میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہترین جام لئے ہوئے اور اس میں بہترین خوش ذائقہ مزیدار پینے کی چیز لئے ہوئے میرے پاس آیا اور جام میرے ہاتھ میں دے دیا ، میں نے خوب پیٹ بھر کر اس میں سے پیا ، وہیں آنکھ کھل گئی تو اللہ کی قسم مجھے مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے بعد سے لے کر آج تک مجھے کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں ہوئی ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پیاس ہی نہیں لگی ۔ یہ لوگ میرے جاگنے کے بعد آپس میں کہنے لگے کہ آخر تو یہ تمہاری قوم کا سردار ہے ، تمہارا مہمان بن کر آیا ہے ، اتنی بےرخی بھی ٹھیک نہیں کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے نہ دیں ، چنانچہ اب یہ لوگ میرے پاس کچھ لے کر آئے ، میں نے کہا اب تو مجھے کوئی حاجت نہیں ، مجھے میرے رب نے کھلا پلا دیا ، یہ کہہ کر میں نے انہیں اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھا دیا ، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے اعشی نے اپنے قصیدے میں کیا ہی خواب کہا ہے کہ مردار کے قریب بھی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھا ہوا نہ کھا اور اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کر ، صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کر لحکم الحنزیر حرام ہے خواہ وہ جنگلی ہو ، لفظ لحکم شامل ہے اس کے تمام اجزاء کو ، جس میں چربی بھی داخل ہے پس ظاہر یہ کی طرح تکلفات کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ دوسری آیت میں سے فانہ رجس لے کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے ہیں تاکہ اس کے تمام اجزاء حرمت میں آ جائیں ۔ در حقیقت یہ لغت سے بعید ہے مضاف الیہ کی طرف سے ایسے موقعوں پر ضمیر پھرتی ہی نہیں ، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے ۔ صاف ظاہر بات یہی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو ۔ لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق شطرنج کھیلنے والا اپنے اتھوں کو سور کے گوشت و خون میں رنگنے والا ہے ۔ خیال کیجئے کہ صرف چھونا بھی شرعاً کس قدر نفرت کے قابل ہے ، تو پھر کھانے کیلئے بیحد برا ہونے میں کیا شک رہا ؟ اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور بخاری و مسلم میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شراب ، مردار ، خنزیر بتوں کی تجارت کی ممانعت کر دی ہے ، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے ، کھالوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے ۔ آپ نے فرمایا نہیں وہ حرام ہے صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابو سفیان نے ہر قل سے کہا وہ ( نبی ) ہمیں مردار سے اور خون سے روکتا ہے ۔ وہ جانور بھی حرام ہے جس کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام لیا جائے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اسے فرض کر دیا وہ اسی کا نام لے کر جانور کو ذبح کرے ، پس اگر کوئی اس سے ہٹ جائے اور اس کے نام پاک کے بدلے کسی بت وغیرہ کا نام لے ، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو تو یقینا وہ جانور بالا جماع حرام ہو جائے گا ، ہاں جس جانور کے ذبیحہ کے وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے ، خواہ جان بوجھ کر خواہ بھولے چوکے سے وہ حرام ہے یا حلال؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کا بیان سورہئ انعام میں آئیگا ۔ حضرت ابو الطفیل فرماتے ہیں حضرت آدم کے وقت سے لے کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں ، کس وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی ( ١ ) مردار ( ٢ ) خون ( ٣ ) سور کا گوشت ( ٤ ) اور اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی چیز ۔ البتہ بنو اسرائیل کے گناہگاوں کے گناہوں کی وجہ سے بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئی تھیں ۔ پھر حضرت عیسیٰ کے ذریعہ وہ دوبارہ حلال کر دی گئیں ، لیکن بنو اسرائیل نے آپ کو سچا نہ جانا اور آپ کی مخالفت کی ( ابن ابی حاتم ) یہ اثر غرب ہے ۔ حضرت علی جب کوفے کے حاکم تھے اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تھا ، فرزوق کے دادا غالب کے مقابل ہوا اور یہ شرط ٹھہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹوں کی کوچیں کاٹیں گے ، چنانچہ کوفے کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلواریں لے کر کھڑے ہو گئے اور اونٹوں کی کوچیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے ، سناوے اور فخریہ ریاکاری کیلئے دونوں اس میں مشغول ہو گئے کوفیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے کیلئے آنا شروع ہوئے ، اتنے میں جناب علی مرتضیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ لوگو یہ گوشت نہ کھانا یہ جانور مااہل بھالغیر اللہ میں شامل ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم ) یہ اثر بھی غریب ہے ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے جو ابو داؤد میں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراب کی طرف مقابلہ میں کوچیں کاٹنے سے ممانعت فرما دی ، پھر ابو داؤد نے فرمایا کہ محمد بن جعفر نے اسے ابن عباس پر وقف کیا ہے ۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں شخصوں کا کھانا کھانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا اور ریا کاری کرنا چاہتے ہوں ۔ مخنقہ جس کا گلا گھٹ جائے خواہ کسی نے عمداگلا گھونٹ کر گلا مروڑ کر اسے مار ڈالا ہو ، خواہ از خود اس کا گلا گھٹ گیا ہو ۔ مثلاً اپنے کھوٹنے میں بندھا ہوا ہے اور بھاگنے لگا ، پھندا گلے میں پڑ گیا اور کھچ کھچاؤ کرتا ہوا مر گیا پس یہ حرام ہے ۔ موقودہ وہ ہے جس جانور کو کسی نے ضرب لگائی ، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے جو دھاری دار نہیں لیکن اسی سے وہ مر گیا ، تو وہ بھی حرام ہے ، جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ جانور کو لٹھ سے مار ڈالتے اور پھر کھاتے ۔ لیکن قرآن نے ایسے جانور کو حرام بتایا ۔ صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں معراض سے شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے؟ فرمایا جب تو اسے پھینکے اور وہ جانور کو زخم لگائے تو کھا سکتا ہے اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگے تو وہ جانور کی جانب سے لگا ہو فرق کیا ۔ اول کو حلال اور دوسرے کو حرام ۔ فقہا کے نزدیک بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے ۔ ہاں اختلاف اس میں ہے کہ جب کسی زخم کرنے والی چیز نے شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے اس کے بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے تو آیا یہ جانور حلال ہے یا حرام ۔ امام شافعی کے اس میں دونوں قول ہیں ، ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے رکھ کر ۔ دوسرے حلال کرنا کتے کے شکار کی حلت کو مدنظر رکھ کر ۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل ملا حظہ ہو ۔ ( فصل ) علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور کتے نے اسے اپنی مار سے اور بوجھ سے مار ڈالا ، زخمی نہیں کیا تو وہ حلال ہے یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں فکلوا مما امسکن علیکم یعنی وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں کھا سکتے ہو ۔ اسی طرح حضرت عدی وغیرہ کی صحیح حدیثیں بھی عام ہی ہیں ۔ امام شافعی کے ساتھیوں نے امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے اور متاخرین نے اس کی صحت کی ہے ، جیسے نووی اور رافعی مگر میں کہتا ہوں کہ گو یوں کہا جاتا ہے لیکن امام صاحب کے کلام سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ۔ ملاحظہ ہو کتا الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے ۔ پس دونوں فریقوں نے اس کی توجیہہ کرکے دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا ۔ ہم تو بصد مشکل صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بحث میں حلال ہونے کے قول کی حکایت کچھ قدرے قلیل زخم کا ہونا بھی ہے ۔ گو ان دونوں میں سے کسی کی تصریح نہیں ، اور وہ کسی کی مضبوط رائے ، ابن الصباح نے امام ابو حنیفہ سے حلال ہونے کا قول نقل کیا ہے اور دوسرا کوئی قول ان سے نقل نہیں کیا اور امام ابن جریر ابن اپنی تفسیر میں اس قوت کو حضرت سلمان فارسی ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت ابن عمر نے نقل کیا ہے لیکن یہ بہت غریب ہے اور دراصل ان بزرگوں سے صراحت کے ساتھ یہ اقوال نہیں پائے جاتے ۔ یہ صرف اپنا تصرف ہے واللہ اعلم ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال نہیں ، حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے ، مزنی نے روایت کیا ہے اور یہی مشہور ہے امام احمد بن حنبل سے اور یہی قول ٹھیک ہونے سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے واللہ اعلم ۔ اس لئے کہ اصولی قواعد اور احکام شرعی کے مطابق یہی جاری ہے ۔ ابن الصباغ نے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کل دشمنوں سے بھڑنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں تو کیا ہم تیز بانس سے ذبح کر لیا کریں؟ آپ نے فرمایا جو چیز خون بہائے اور اس کے اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے اسے کھا لیا کرو ( بخاری مسلم ) یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کیلئے ہے لیکن عام الفاظ کا حکم ہوگا ، جیسے کہ جمہور علماء اصول و فروغ کا فرمان ہے ۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ تبع جوشہد کی نبیذ سے ہے ، اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا ہر وہ پینے کی چیز جو نشہ لائے حرام ہے ، پس یہاں سوال ہے شہد کی نبیذ سے لیکن جو اب کے الفاظ عام ہیں اور مسئلہ بھی ان سے عام سمجھا گیا ، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے کا ہے لیکن جواب کے الفاظ اسی اور اس کے سوا کی عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ایک خاص معجزہ ہے کہ الفاظ تھوڑے اور معافی بہت ، اسے ذہن میں رکھنے کے بعد اب غور کیجئے کہ کتے کے صدمے سے جو شکار مر جائے یا اس کے بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے شکار کا دم نکل جائے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا خون کسی چیز سے نہیں بہا ، پس اس حدیث کے مفہوم کی بناء پر وہ حلال نہیں ہو سکتا ، اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کو کتے کے شکار کے مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں ، اس لئے کہ سائل نے ذبح کرنے کے ایک آلے کی نسبت سوال کیا تھا ۔ ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا ، جس سے ذبح کیا جائے ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے ، ورنہ متصل نہیں مانا جا سکتا ، پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تھا تو اب کوئی دلالت تمہارے قول پر باقی نہیں رہی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے جملے کو دیکھو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ جو چیز خون بہا دے اور اس پر نام اللہ بھی لیا گیا ہو ، اسے کھالو ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ذبح کر لو ۔ پس اس جملہ سے دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتا ہیں ، ذبح کرنے کے آلہ کا حکم بھی اور خود ذبیحہ کا حکم بھی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے بہانا ضروری ہے ، جو دانت اور ناخن کے سوا ہو ۔ ایک مسلک تو یہ ہے ۔ دوسرا مسلم جو مزنی کا ہے وہ یہ کہ تیر کے بارے میں صاف لفظ آچکے کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہے اور جانور مر گیا ہے تو نہ کھاؤ اور اگر اس نے اپنی دھار اور انی سے زخم کیا ہے پھر مرا ہے تو کھالو اور کتے کے بارے میں علی الاطلاق احکام ہیں پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے تو مطلق کا حکم بھی مقید پر محمول ہوگا گو سبب الگ الگ ہوں ۔ جیسے کہ ظہار کے وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے محمول کی جاتی ہے قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے ایمان کے ساتھ ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت شکار کے اس مسئلہ میں ہے یہ دلیل ان لوگوں پر یقینا بہت بڑی حجت ہے جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے ہیں اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے کے مسلم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو وہ اسے تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں ۔ علاوہ ازیں فریق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس شکار کو کتے نے بوجہ اپنے ثقل کے مار ڈالا ہے اور یہ ثابت ہے کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے لگ کر شکار کو مار ڈالے تو وہ حرام ہو جاتا ہے پس اس پر قیاس کر کے کتے کا یہ شکار بھی حرام ہو گیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں شکار کے آلات ہیں اور دونوں نے اپنے بوجھ اور زور سے شکار کی جان لی ہے اور آیت کا عموم اس کے معارض نہیں ہو سکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مذہب ہے ۔ یہ مسلک بھی بہت اچھا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) یعنی شکار کتے جس جانور کو روک رکھیں اس کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے ، یہ عام نوعیت پر یعنی اسے بھی جسے زخم کیا ہو اور اس کے سوا کو بھی ، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے یا اس کے حکم پر یا گلا گھونٹا ہوا ہے یا اس کے حکم میں ، بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہو گی ۔ اولاً تو یہ کہ شارع نے اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے ۔ کیونکہ حضرت عدی بن حاتم سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگا ہے تو وہ لٹھ مارا ہوا ہے اسے نہ کھاؤ ۔ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ لٹھ سے اور مار سے مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہ ہو ۔ پس جس صورت میں اس وقت بحث ہو رہی ہے اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہوگا ، جسے کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے ممنوع بتاتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) اپنے عموم پر باقی نہیں اور اس پر اجتماع ہے ، بلکہ آیت سے مراد صرف حلال حیوان ہیں ۔ تو اس کے عام الفاظ سے وہ حیوان جن کا کھانا حرام ہے بالاتفاق نکل گئے اور یہ قاعدہ ہے کہ عموم محفوظ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے ۔ ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کر لیجئے کہ اس طرح کا شکار میتہ کے حکم میں ہے ، پس جس وجہ سے مردار حرام ہے ، وہی وجہ یہاں بھی ہے تو یہ بھی اسی قیاس سے حلال نہیں ۔ ایک اور وجہ بھی سنئے کہ حرمت کی آیت ( حرمت ) الخ ، بالکل محکم ہے ، اس میں کسی طرح نسخ کا دخل نہیں ، نہ کوئی تخصیص ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح آیت تحلیل بھی محکم ہی ہونی چاہئے ۔ یعنی فرمان باری تعالیٰ آیت ( يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کیلئے حلال کیا ہے تو کہدے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لئے حلال ہیبں ۔ جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں تو یقینا ان میں تعارض نہ ہونا چاہئے لہذا حدیث کو اس کی وضاحت کیلئے سمجھنا چاہئے اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے ، جس میں یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے کہ آنی اور دھار تیزی کی طرف سے زخم کرے تو جانور حلال ہوگا ، کیونکہ وہ ( طیبات ) میں آ گیا ۔ ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ آیت تحریم میں کونسی صورت شامل ہے ۔ یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے ہوئی ہے ، وہ حرام ہو گیا جسے کھایا نہیں جائیگا ۔ اس لئے کہ وہ وقیذ ہے اور وقیذ آیت تحریم کا ایک فرد ہے ، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے نے جانور کو اپنے دباؤ زور بوجہ اور سخت پکڑ کی وجہ سے مار ڈالا ہے تو وہ نطیح ہے یا فطیح یعنی ٹکر اور سینگ لگے ہوئے کے حکم میں ہے اور حلال نہیں ، ہاں اگر اسے مجروح کیا ہے تو وہ آیت تحلیل کے حکم میں ہے اور یقینا حلال ہے ۔ اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے کے شکار میں بھی تفصیل بیان کر دی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیرے پھاڑے ، زخمی کرے تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے تو حرام ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کتے کا بغیر زخمی کئے قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ اس کی عادت یہ نہیں بلکہ عادت تو یہ ہے کہ اپنے پنجوں یا کچلیوں سے ہی شکار کو مارے یا دونوں سے ، بہت کم کبھی کبھی شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دباؤ اور بوجھ سے شکار کو مار ڈالے ، اس لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آیت تحریم میں میتہ ، موقوذہ ، متردیہ ، نطیحہ کی حرمت موجود ہے تو اس کے جاننے والے کے سامنے اس قسم کے شکار کا حکم بالکل ظاہر ، تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لئے الگ بیان کر دیا کہ وہ عموماً خطا کر جاتا ہے بالخصوص اس شخص کے ہاتھ سے جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے میں خطا کرتا ہو ، اس لئے اس کے دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دیئے واللہ اعلم ۔ دیکھئے چونکہ کتے کے شکار میں یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے وہ اپنے کئے ہوئے شکار میں سے کچھ کھا لے ، اس لئے یہ حکم صراحت کے ساتھ الگ بیان فرما دیا اور ارشاد ہوا کہ اگر وہ خود کھا لے تو تم اسے نہ کھاؤ ، ممکن ہے کہ اس نے خود اپنے لئے ہی شکار کو روکا ہو ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ صورت اکثر حضرات کے نزدیک آیت تحلیل کے عموم سے مخصوص ہے اور ان کا قول ہے کہ جس شکار کو کتا کھا لے اس کا کھانا حلال نہیں ، حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن عباس سے یہی روایت کیا جاتا ہے ۔ حضرت حسن ، شعبی اور نخعی کا قول بھی یہی ہے اور اسی کی طرف ابو حنیفہ ، ان کے دونوں اصحاب ، احمد بن حنبل اور مشہور روایت میں شافعی بھی گئے ہیں ۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں علی ، سعد ، سلمان ، ابو ہریرہ ، ابن عمر اور ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ گو کتے نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تاہم اسے کھا لینا جائز ہے ، بلکہ حضرت سعد ، حضرت سلمان ، حضرت ابو ہریرہ وغیرہ فرماتے ہیں گو کتا آدھا حصہ کھا گیا ہو تاہم اس شکار کا کھا لینا جائز ہے ۔ امام مالک اور شافعی بھی اپنے قدیم قول میں اسی طرف گئے ہیں اور قول جدید میں دونوں قولوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، جیسے کہ امام ابو منصور بن صباغ وغیرہ نے کہا ہے ۔ ابو داؤد میں قوی سند سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اللہ کا نام تو نے لے لیا ہو تو کھا لے ، گو اس نے بھی اس میں سے کھا لیا ہو اور کھا لے اس چیز کو جسے تیرا ہاتھ تیری طرف لوٹا لائے نسائی میں بھی یہ روایت ہے ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا ، اس نے شکار کو پکڑا اور اس کا کچھ گوشت کھا لیا تو اسے اختیار ہے کہ باقی جانور یہ اپنے کھانے کے کام میں لے ۔ اس میں اتنی علت ہے کہ یہ موقوفاً حضرت سلمان کے قول سے مروی ہے ، جمہور نے عدی والی حدیث کو اس پر مقدم کیا ہے اور ابو عجلہ وغیرہ کی حدیث کو ضعیف بتایا ہے ۔ بعض علماء کرام نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے ، جب کتے نے شکار پکڑا اور دیر تک اپنے مالک کا انتظار کیا ، جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے باعث اس نے کچھ کھا لیا اس صورت میں یہ حکم ہے کہ باقی کا گوشت مالک کھا لے کیونکہ ایسی حالت میں یہ ڈر باقی نہیں رہتا کہ شاید کتا ابھی شکار کا سدھارا ہوا نہیں ، ممکن ہے اس نے اپنے لئے ہی شکار کیا ہو ، بخلاف اس کے کہ کتے نے پکڑتے ہی کھانا شروع کر دیا تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے لئے ہی شکار دبوچا ہے واللہ اعلم ۔ اب رہے شکاری پرند تو امام شافعی نے صاف کہا ہے کہ یہ کتے کے حکم میں ہیں ۔ تو اگر یہ شکار میں سے کچھ کھا لیں تو شکار کا کھانا جمہور کے نزدیک تو حرام ہے اور دیگر کے نزدیک حلال ہے ، ہاں مزنی کا مختار یہ ہے کہ گوشکاری پرندوں نے شکار کا گوشت کھا لیا ہو تاہم وہ حرام نہیں ۔ یہی مذہب ابو حنیفہ اور احمد کا ہے ۔ اس لئے کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھا بھی نہیں سکتے اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اسے کھائے نہیں ، یہاں بات معاف ہے اور اس لئے بھی کہ نص کتے کے بارے میں وارد ہوئی ہے
2۔ 1 شعائر شعیرۃ کی جمع ہے اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو، کہ یہ بےحرمتی ہے۔ 2۔ 2 (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔ 2۔ 3 ھَدی ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے اور گلے میں پٹہ باندھتے تھے جو کے نشانی کے طور پر ہوتا تھا، مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ 2۔ 4 یعی حج عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انہیں تنگ کرو، بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکھٹے حج عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت انما المشرکون نجس الخ نازل ہوئی تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ 2۔ 5 یہاں مراد اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ 2۔ 6 یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے 6 ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔ 2۔ 7 یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے، کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں۔
[٦] شعائر کا مفہوم :۔ شعائر، شعیرہ کی جمع ہے۔ یعنی امتیازی علامت۔ ہر مذہب اور ہر نظام کی امتیازی علامات کو شعائر کہا جاتا ہے۔ مثلاً اذان نماز باجماعت اور مساجد مسلمانوں کے، گرجا اور صلیب عیسائیوں کے، تلک، زنار، چوٹی اور مندر ہندوؤں کے کیس۔ کڑا اور کرپان سکھوں کے۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کے اور سرکاری جھنڈے، قومی ترانے، فوج اور پولیس کے یونیفارم وغیرہ حکومتوں کے امتیازی نشان ہوتے ہیں۔ جن کا احترام ضروری سمجھا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بھی کئی شعائر ہیں۔- [٧] حرمت کے مہینے :۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر بیشمار ہیں جن میں سے چند ایک کے نام اس آیت میں آگئے ہیں۔ ان کی توہین یا بےحرمتی سے انسان گنہگار ہوجاتا ہے۔ ان میں سے سرفہرست حرمت والے مہینہ کا ذکر فرمایا۔ حرمت والے مہینے چار ہیں۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔ اور ان کی حرمت کا مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں اہل عرب لوٹ مار اور لڑائی وغیرہ سے باز رہتے تھے۔ دور جاہلیت میں پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور یہ قبیلے آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے انہوں نے آپس میں یہ طے کیا ہوا تھا کہ ان مہینوں میں کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ پر چڑھ کر نہ آئے گا۔ دوسرے عرب قبائل ایک دوسرے کو بھی لوٹا کرتے تھے اور تجارتی قافلوں کو بھی۔ ان حرمت والے مہینوں میں وہ اس کام سے بھی باز رہتے تھے اور ان چار مہینوں میں سے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم کو حرمت والے مہینے قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ ان ایام میں لوگ دور دور سے حج کرنے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے اور رجب حرمت والا مہینہ قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس مہینہ میں لوگ بیت اللہ کے لیے نذرانے لایا کرتے تھے اور متولیان کعبہ یہ نذرانے وصول کیا کرتے تھے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ سب کچھ کعبہ شریف کے اعزاز کی وجہ سے تھا اور متولیان کعبہ، کعبہ کی وجہ سے کئی قسم کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی فائدے اٹھا رہے تھے اور قریش مکہ کے قافلے تو سارا سال ہی بےخوف و خطر سفر کرسکتے تھے۔ ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہ تھا۔- اللہ کے شعائر :۔ یہ سب کچھ چونکہ کعبہ کے اعزاز کی وجہ سے تھا اسی لیے اسلام نے اس جاہلی دستور کو بحال رکھا اور اس لیے بھی کہ یہ ایک باہمی معاہدہ امن تھا جسے اسلام پسند کرتا ہے۔ اسلام میں جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو اس کی وصولی کے لیے عمال کو ماہ رجب میں روانہ کیا جایا کرتا تھا۔ اس کی وجہ بھی غالباً یہ ہو کہ اس مہینہ میں لوگ کعبہ کے لیے نذرانہ دینے کے پہلے سے عادی تھے۔ دوسرے نمبر پر ہدی کا ذکر فرمایا یعنی وہ قربانی کے جانور جو قربانی کے لیے کعبہ بھیجے جائیں اور تیسرے نمبر پر قلائد کا ذکر فرمایا۔ یہ سب چیزیں اللہ کے شعائر ہیں قلائد سے مراد وہ پٹے ہیں جو کعبہ بھیجے جانے والے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ڈال دیئے جاتے تھے ان کے علاوہ تمام مناسک حج بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ ان میں سے بالخصوص قربانی کے جانوروں کے ذکر کی مناسبت سے یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔- ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قربانی کے اونٹوں کے پٹے بٹے پھر آپ نے وہ پٹے اونٹوں کے گلے میں ڈال دیئے اور ان کے کوہانوں سے خون نکالا۔ پھر انہیں بیت اللہ روانہ کردیا۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ من اشعر وقلد بذی الحلیفۃ ثم احرم۔ مسلم۔ کتاب الحج۔ باب استحباب بعث الھدی الی الحرم )- ٢۔ سیدنا زویب (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم میرے ساتھ قربانی کے اونٹ بھیجتے اور فرماتے اگر ان میں سے کوئی اونٹ چل نہ سکے اور اس کے مرنے کا خطرہ ہو تو اسے ذبح کردو پھر اپنی جوتی اس کے خون میں آلودہ کر کے اس کے پہلو میں مارو۔ پھر اسے نہ تم کھاؤ اور نہ تمہارا کوئی ساتھی کھائے (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب مایفعل بالہدی اذاعطب فی الطریق) اور ترمذی میں یہ اضافہ ہے کہ دوسرے لوگ ایسے ذبح شدہ قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ (ترمذی۔ ابو اب الحج۔ باب ماجاء اذا عطب بالھدی - ٣۔ قربانی کے جانور پر سواری کی اجازت :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جو قربانی کا اونٹ ہانکے جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجا۔ وہ کہنے لگا یہ قربانی کا جانور ہے۔ آپ نے پھر فرمایا اس پر سوار ہوجا۔ اس نے پھر کہہ دیا کہ یہ تو قربانی کا اونٹ ہے پھر آپ نے دوسری یا تیسری بار اسے فرمایا تجھ پر افسوس اس پر سوار ہوجا۔ (بخاری، کتاب المناسک۔ باب رکوب البدن) (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب جواز رکوب البدنۃ المھداۃ) اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ آپ نے اسے فرمایا۔ معروف طریقہ سے سوار ہوسکتے ہو۔ بشرطیکہ تم سوار ہونے پر مجبور ہو تاآنکہ تمہیں کوئی دوسری سواری مل جائے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً )- [٨] احرام خود بھی شعائر اللہ میں سے ہے۔ لہذا اگر تم انہیں تنگ کرو گے۔ تو شعائر اللہ کی توہین کے مرتکب ہوگے۔ اگرچہ یہاں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے آتا ہے لیکن یہاں یہ صیغہ اجازت اور رخصت کے معنوں میں ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جب تم احرام کھولو تو ضرور شکار کرو یا کیا کرو۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ امر کا صیغہ رخصت اور اجازت کے معنی میں بھی آسکتا ہے۔- [٩] کفار مکہ نے مسلمانوں کو حج وعمرہ اور طواف کعبہ سے روک دیا تھا اور یہ رکاوٹ فتح مکہ تک بدستور قائم رہی ماسوائے عمرہ قضا کے۔ پھر جب کافروں اور مسلمانوں میں کوئی جنگ چھڑتی تو کافر قبیلے کافروں ہی کا ساتھ دیتے تھے۔ اور حدیبیہ کے موقع پر ان تمام شعائر اللہ کی توہین کی تھی جن کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے بیت اللہ جانے کی راہ روکی۔ حرمت والے مہینہ میں لڑائی پر آمادہ ہوئے اور قربانی اور پٹے والے جانوروں کی مطلق پروا نہ کی لہذا مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آسکتا تھا کہ جو کافر قبیلے قافلوں کی شکل میں حج وعمرہ کرنے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ بھی مشتعل ہو کر ان کو حج وعمرہ سے روک دیں اور ان کے مال اسباب لوٹ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ایسے خیالات سے بھی منع فرما دیا۔- [١٠] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس جملہ کا یہ مطلب ہے کہ جو کافر حج وعمرہ کو جاتے ہیں۔ اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہیں تاہم اس وقت وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرنے جا رہے ہیں تو ان کی زندگی میں نیکی اور تقویٰ کا جو حصہ ہے اس میں تمہیں ان کی راہ روکنے کی بجائے ان سے تعاون کرنا چاہیے۔- خ حرف فجار اور حلف الفضول میں آپ کی شمولیت :۔ اہم اس آیت کا حکم عام ہے یعنی کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم اگر وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرتا ہے تو تمہیں اس کا ساتھ دینا چاہیے اور گناہ یا سرکشی کا کام خواہ کوئی مسلمان کر رہا ہو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہیے چناچہ آپ کی بعثت سے پہلے کی بات ہے کہ اہل مکہ بری طرح قبائلی خانہ جنگی کی زد میں آگئے۔ لڑائیوں کے اس لامتناہی سلسلہ نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے۔ حرب فجار جو قیس اور قریش کے قبیلوں کے درمیان چھڑی تھی اس میں آپ نے بھی حصہ لیا اور قریش کا ساتھ دیا تھا تاہم آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہ لڑائی حرب فجار کے نام سے اس لیے موسوم ہوئی کہ یہ حرمت والے مہینوں میں بھی جاری رہی۔ اس جنگ کے خاتمہ پر بعض صلح پسند طبیعتوں میں اصلاح کی تحریک پیدا ہوئی۔ قریش کے چند معززین عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہوئے اور معاہدہ ہوا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں نہ رہنے دیا جائے گا۔ اس معاہدہ کو حلف الفضول کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو ایسے معاہدہ کا خیال آیا تھا ان کے ناموں میں فضل کا مادہ بطور قدر مشترک شامل تھا۔ اس معاہدہ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت کوئی ایسی قوت موجود نہ تھی جو قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ کرسکتی۔ آپ اپنے عہد نبوت میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس معاہدہ کے مقابلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو میں نہ لیتا۔ اور اگر آج بھی مجھے کوئی ایسے معاہدہ کے لیے بلائے تو میں حاضر ہوں۔ (سیرۃ النبی۔ ج ١ ص ١٨٤، ١٨٥ شبلی نعمانی)
لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ : ” شَعَائرِ “ یہ ” شَعِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے جو ” فَعِیْلَۃٌ“ بمعنی ” مُفْعَلَۃٌ“ ہے، یعنی ہر وہ چیز جس پر نشان لگایا گیا ہو یا جو بطور علامت مقرر کی گئی ہو، مراد وہ چیزیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص تعلق ہو اور اس خاص تعلق کی بنا پر ان کی تعظیم کی جاتی ہو۔ بعض نے اسے عام رکھا ہے کہ اس سے مراد اللہ کے تمام اوامرو نواہی ہیں اور بعض نے حج و عمرہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں مراد لی ہیں۔ ” لَا تُحِلُّوْا “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ترک نہ کرو اور ان کی بےحرمتی نہ کرو۔ - وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ : ابو بکرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا : ” سال کے بارہ مہینے ہیں، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین مسلسل ہیں، ذوالقعدہ، ذو الحجہ اور محرم اور ایک رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( إن عدۃ الشہور۔۔ ) : ٤٦٦٢ ] مطلب یہ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ کر کے ان کی بےحرمتی نہ کرو۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة توبہ (٣٦) ۔ - وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕدَ ” الھدیَ “ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لیے ساتھ لے جاتے تھے۔ اونٹوں کی کوہان کی دائیں طرف تھوڑا سا زخم کر کے مل دیتے، اسے اشعار کہتے ہیں اور گلے میں ایک جوتا یا پٹا ڈال دیتے۔ ” القلائد “ یہ ” قِلاَدَۃٌ“ کی جمع ہے، جس سے مراد وہ پٹا یا رسی وغیرہ ہے جو پرو کر ہدی ( قربانی) کے گلے میں بطور علامت باندھ دی جاتی تھی۔ چھوٹے جانوروں کا اشعار نہیں کرتے تھے۔ ” اَلْقَلاَئدَ “ کا معنی اگرچہ پٹے ہیں مگر مراد وہ جانور ہیں جن کے گلے میں وہ پٹا ڈالا گیا ہو۔ ان سب چیزوں کا ذکر اگرچہ ” شعائر اللہ “ کے ضمن میں آچکا ہے مگر ان کے مزید احترام کی خاطر ان کو الگ بیان کیا ہے۔ - وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَام۔ : یعنی وہ لوگ جو مسجد حرام کا قصد کر کے جا رہے ہیں۔ رب کے فضل سے مراد رزق ہے جو تجارت وغیرہ سے کمایا جاتا ہے اور اللہ کی رضا مندی سے مراد حج یا عمرہ ہے جو طلب ثواب کے لیے کیا جاتا ہے۔ بعض نے فضل سے ثواب ہی مراد لیا ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ سے ثواب اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مکہ جا رہے ہیں۔ اگر اس کے تحت مشرک بھی داخل ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ بھی اپنے گمان میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں، لہٰذا ان کو تکلیف مت دو ۔ مگر یہ حکم سورة توبہ کی آیت (٢٨) سے منسوخ ہوگا۔ اب مشرکین کو حدود حرم میں داخلے کی اجازت نہیں۔ (ابن کثیر، قرطبی) - وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ۭ: یعنی احرام کھولنے کے بعد شکار کرو۔ یہ حکم بیان جواز کے لیے ہے، یعنی اب شکار جائز ہے، یہ معنی نہیں کہ اب ضرور ہی شکار کرو، کیونکہ وہ احرام سے پہلے بھی ضروری نہ تھا۔ (ابن کثیر) - وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ ۔ : یعنی اگرچہ ان مشرکین نے تمہیں ٦ ہجری میں اور اس سے پہلے مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کی دشمنی کی بنا پر حد سے مت بڑھو۔ - وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ ۔۔ : ہر قسم کا نیک کام کرنے کا نام ” اَلْبِرّ “ اور برائی کو ترک کرنے کا نام ” التَقْویٰ “ ہے۔ ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور نہ کرنے کے لیے ایک اصول مقرر فرما دیا ہے جس سے اسلامی معاشرے میں برائی کا سدباب ہوسکتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ “ ایک آدمی نے عرض کی : ” اے اللہ کے رسول جب وہ مظلوم ہو، میں اس کی مدد کروں گا لیکن اگر وہ ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کس طرح کروں ؟ “ فرمایا : ” اس وقت اس کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکو۔ “ [ بخاری، الإکراہ، باب یمین الرجل۔۔ : ٦٩٥٢۔ مسلم : ٢٥٨٤ ]
آیت نمبر ٢- ربط آیات - سورة مائدہ کی پہلی آیت میں معاہدات کے پورا کرنے کی تاکید تھی۔ ان معاہدات میں سے ایک معاہدہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حلال و حرام کی پابندی کی جائے۔ اس دوسری آیت میں اس معاہدہ کی دو اہم دفعات کا بیان ہے۔ ایک شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بیحرمتی سے بچنے کی ہدایت، دوسرے اپنے اور غیر دوست اور دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور ظلم کا بدلہ ظلم سے لینے کی ممانعت۔ - اس آیت کے نزول کا سبب چند واقعات ہیں۔ پہلے ان کو سن لیجئے تاکہ آیت کا مضمون پوری طرح دلنشیں ہوسکے۔ ایک واقعہ حدیبیہ کا ہے جس کی تفصیل قرآن نے دوسری جگہ بیان فرمائی ہے۔ وہ یہ کہ ہجرت کے چھٹے سال میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے ارادہ کیا کہ عمرہ کریں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ساتھ احرام عمرہ باندھ کر بقصد مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب مقام حدیبیہ میں پہنچ کر مکہ والوں کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یا جنگی مقصد کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ ہمیں اس کی اجازت دو ۔ مشرکین مکہ نے اجازت نہ دی۔ اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس جائیں۔ آئندہ سال عمرہ کے لئے اس طرح آئیں کہ ہتھیار ساتھ نہ ہوں۔ صرف تین روز ٹھہریں۔ اور عمرہ کرکے چلے جائیں۔ اور بھی بہت سی ایسی شرائط تھیں جن کا تسلیم کرلینا بظاہر مسلمانوں کے وقار و عزت کے منافی تھا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر سب مطمئن ہو کر واپس ہوگئے۔ پھر ٧ ھ میں دوبارہ ماہ ذی قعدہ میں انہیں شرائط کی پابندی کے ساتھ یہ عمرہ قضا کیا گیا۔ بہر حال واقعہ حدیبیہ اور ان توہین آمیز شرائط نے صحابہ کے قلوب میں مشرکین مکہ کی طرف سے انتہائی نفرت و بغض کا بیج بو دیا تھا۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مشرکین مکہ میں سے حطیم بن ہند اپنا مال تجارت لے کر مدینہ طیبہ آیا اور مال فروخت کرنے کے بعد اپنا سامان اور آدمی مدینہ سے باہر چھوڑ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور منافقانہ طور پر اپنا ارادہ اسلام لانے کا ظاہر کیا تاکہ مسلمان اس سے مطمئن ہوجائیں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے آنے سے پہلے ہی بذریعہ وحی خبر پاکر صحابہ کرام کو بتلا دیا تھا کہ ہمارے پاس ایک شخص آنے والا ہے جو شیطان کی زبان سے کلام کرے گا۔ اور جب یہ واپس گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کفر سے آیا اور دھوکہ و غداری کے ساتھ لوٹا ہے، یہ شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے نکل کر سیدھا مدینہ سے باہر پہنچا۔ جہاں اہل مدینہ کے جانور چر رہے تھے ان کو ہنکا کر ساتھ لے گیا۔ صحابہ کرام کو اس کی اطلاع کچھ دیر میں ہوئی۔ تعاقب کے لئے نکلے تو وہ ان کی زد سے باہر جا چکا تھا۔ پھر جب ہجرت کے ساتویں سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ حدیبیہ کی قضا کے لئے جا رہے تھے تو دور سے تلبیہ کی آواز سنی اور دیکھا کہ یہی حطیم بن ہند اہل مدینہ کے ان جانوروں کو جو مدینہ سے لایا تھا بطور قربانی کے اپنے ساتھ لئے ہوئے عمرہ کرنے جا رہا ہے۔ اس وقت صحابہ کرام کا قصد ہوا کہ اس پر حملہ کرکے اپنے جانور چھین لیں اور اس کو یہیں ختم کردیں۔- تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور تقریباً پورے عرب پر اسلامی قبضہ ہوگیا۔ اور مشرکین مکہ کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر کسی انتقام کے آزاد فرما دیا۔ وہ آزادی کے ساتھ اپنے سب کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے جاہلانہ طرز پر حج وعمرہ کی رسوم بھی ادا کرتے رہے۔ اس وقت بعض صحابہ کرام کے دلوں میں واقعہ حدیبہ کا انتقام لینے کا خیال آیا کہ انہوں نے ہمیں جائز اور حق طریقہ پر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، ہم ان کو ناجائز اور غلط طریق کے عمرہ و حج کو کیوں آزاد چھوڑیں، ان پر حملہ کریں، ان کے جانور چھین لیں اور ان کو ختم کردیں۔- یہ واقعات ابن جریر نے بروایت عکرمہ و سدّی نقل کئے ہیں۔ یہ چند واقعات تھے کہ جن کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ شعائر اللہ کی تعظیم تمہارا اپنا فرض ہے۔ کسی دشمن کے بغض و عداوت کی وجہ سے اس میں خلل ڈالنے کی قطعاً اجازت نہیں۔ اشہر حرم میں قتل و قتال بھی جائز نہیں۔ قربانی کے جانوروں کو حرم تک جانے سے روکنا یا ان کا چھین لینا بھی جائز نہیں اور جو مشرکین احرام باندھ کر اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل و رضا حاصل کرنے کے قصد سے چلے ہیں۔ (اگرچہ بوجہ کفر ان کا یہ خیال خام ہے تاہم، شعائر اللہ کی حفاظت و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ نیز وہ لوگ جنہوں نے تمہیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ان کے بغض و عداوت کا انتقام اس طرح لینا جائز نہیں کہ مسلمان ان کو مکہ میں داخل ہونے یا شعائر حج ادا کرنے سے روک دیں۔ کیونکہ یہ ان کے ظلم کے بدلہ میں ہماری طرف سے ظلم ہوجائے گا، جو اسلام میں روا نہیں۔ اب آیت کی پوری تفسیر دیکھئے۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو بےحرمتی نہ کرو خدا تعالیٰ (کے دین) کی نشانیوں کی (یعنی جن چیزوں کے ادب کی حفاظت کے واسطے خدا تعالیٰ نے کچھ احکام مقرر کئے ہیں۔ ان احکام کے خلاف کرکے ان کی بےادبی نہ کرو، مثلاً حرم اور احرام کا یہ ادب مقرر کیا ہے کہ اس میں شکار نہ کرو تو شکار کرنا بےادبی اور حرام ہوگا) اور نہ حرمت والے مہینے کی (بےادبی کرو کہ اس میں کافروں سے لڑنے لگو) اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کی (بےادبی کرو کہ اس سے تعرض کرنے لگو) اور نہ ان جانوروں کی (بےادبی کرو) جن کے گلے میں (اس نشانی کے لئے) پٹے پڑے ہوں (کہ یہ اللہ کی نیاز ہیں حرم میں ذبح ہوں گے) اور نہ ان لوگوں کی (بےحرمتی کرو) جو کہ بیت الحرام (یعنی بیت اللہ) کے قصد سے جا رہے ہوں (اور) اپنے رب کے فضل اور رضا مندی کے طالب ہوں (یعنی ان چیزوں کے ادب سے کافروں کے ساتھ بھی تعرض مت کرو) اور (اوپر کی آیت میں جو احرام کے ادب سے شکار کو حرام فرمایا گیا ہے وہ احرام ہی تک ہے ورنہ) جس وقت تم احرام سے باہر آجاو تو (اجازت ہے کہ) شکار کیا کرو (بشرطیکہ وہ شکار حرم میں نہ ہو) اور (اوپر جن چیزوں کے تعرض سے منع کیا گیا ہے اس میں) ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم سے جو اس سبب سے بغض ہے کہ انہوں نے (تم کو سال حدیبیہ میں) مسجد حرام (میں جانے) سے روک دیا تھا (مراد کفار قریش ہیں) وہ (بغض) تمہارے لئے اس کا باعث ہوجاوے کہ تم (شرع کی) حد سے نکل جاو۔ (یعنی احکام مذکورہ کے خلاف کر بیٹھو، ایسا نہ کرنا) اور نیکی اور تقویٰ (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو (مثلاً یہ احکام ہیں کہ ان میں دوسروں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دو ) اور گناہ اور زیادتی (کی باتوں میں) ایک دوسرے کی اعانت مت کرو (مثلاً یہی احکام ہیں اگر کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو تم اس کی اعانت مت کرو) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو (کہ اس سے سب احکام کی پابندی سہل ہوجاتی ہے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ (احکام کی مخالفت کرنے والے کو) سخت سزا دینے والے ہیں۔- معارف و مسائل - آیت کے پہلے جملے میں ارشاد ہے یا ایھا الذین آمنوا لاتحلوا شعائر اللہ یعنی اے ایمان والو اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی نہ کرو۔ اس میں شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت، اسی لئے شعائر اور شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو۔ شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔ شعائر اللہ کی تفسیر اس آیت میں مختلف الفاظ سے منقول ہے مگر صاف بات وہ ہے جو بحر محیط اور روح المعانی میں حضرت حسن بصری اور عطاء رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے اور امام جصاص نے اس کو تمام اقوال کے لئے جامع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ شعائر اللہ سے مراد تمام شرائع اور دین کے مقرر کردہ واجبات و فرائض اور ان کی حدود ہیں۔ اس آیت میں لا تحلوا شعائر اللہ کے ارشاد کا یہی حاصل ہے کہ اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو۔ اور شعائر اللہ کی بےحرمتی ایک تو یہ ہے کہ سرے سے ان احکام کو نظر انداز کردیا جائے۔ دوسرے یہ ہے کہ ان پر عمل تو کریں مگر ادھورا کریں، پورا نہ کریں۔ تیسرے یہ کہ مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرکے آگے بڑھنے لگیں۔ لا تحلوا شعائر اللہ میں ان تینوں صورتوں سے منع فرمایا گیا ہے۔- یہی ہدایت قرآن کریم نے دوسرے عنوان سے اس طرح ارشاد فرمائی ہے ومن یعظم تقوی القلوب۔ یعنی جو شخص اللہ کی حرمات کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کے تقویٰ کا اثر ہے۔ آیت کے دوسرے جملہ میں شعائر اللہ کی ایک خاص قسم یعنی شعائر حج کی کچھ تفصیلات بتائی گئی ہیں۔- ارشاد ہے : ولا الشھر الحرام ورضواناً ۔ یعنی شہر حرام میں قتل و قتال کرکے اس کی بےحرمتی نہ کرو۔ اشہر حُرُم وہ چار مہینے ہیں جن میں باہمی جنگ کرنا شرعاً حرام تھا۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب بعد میں یہ حکم جمہور علماء کے نزدیک منسوخ ہوگیا، نیز حرم مکہ میں قربان ہونے والے جانور اور خصوصاً وہ جن کے گلے قربانی کی علامت کے طور پر قلادہ ڈالا گیا ہے، ان کی بےحرمتی نہ کرو۔ ان جانوروں کی بےحرمتی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ان کو حرام تک پہنچنے سے روک دیا جائے یا چھین لیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان سے قربانی کے علاوہ کوئی دوسرا کام سواری یا دودھ حاصل کرنے وغیرہ کا لیا جائے۔ آیت نے ان سب صورتوں کو ناجائز قرار دے دیا۔- پھر فرمایا : ولا امین البیت ورضواناً یعنی ان لوگوں کی بےحرمتی نہ کرو جو حج کے لئے مسجد الحرام کا قصد کرکے گھر سے نکلے ہیں۔ اور اس سفر سے ان کا مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا فضل اور رضا حاصل کریں۔ ان لوگوں کی بےحرمتی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سفر میں ان سے مزاحمت نہ کی جائے۔ نہ کوئی تکلیف پہنچائی جائے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : واذا حللتم فاصطادوا یعنی پہلی آیت میں بحالت احرام شکار کی جو ممانعت کی گئی ہے، اس کی حد بتلا دی گئی کہ جب تم احرام سے فارغ ہوجاؤ تو شکار کرنے کی ممانعت ختم ہوگئی۔ اب شکار کرسکتے ہو۔ - آیت متذکرہ میں اس معاہدہ کے اہم جزء کا بیان ہو رہا ہے جو ہر انسان اور رب العالمین کے درمیان ہے۔ اس کے چند اجزاء کا یہاں تک بیان ہوا ہے۔ جس میں اول مطلقاً شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت ہے اور پھر خاص طور پر ان شعائر اللہ کی کچھ تفصیلات ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ ان میں بقصد حج آنے والے مسافروں اور ان کے ساتھ آنے والے قربانی کے جانوروں سے کسی قسم کی مزاحمت نہ کرنے اور ان کی بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔- اس کے بعد معاہدہ کا دوسرا جز اس طرح ارشاد فرمایا : ولا یجر منکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجدالحرام۔ یعنی جس قوم نے تم کو واقعہ حدیبیہ کے وقت مکہ میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ اور تم سخت غم و غصہ کے ساتھ ناکام واپس آرہے تھے۔ اب جبکہ تم کو قوت اور قدرت حاصل ہے تو ایسا نہ ہونا چاہیے کہ پچھلے واقعہ کے غم و غصہ اور بغض کا انتقام اس طرح لیا جائے کہ تم ان کو بیت اللہ اور مسجد حرام میں داخل ہونے اور حج کرنے سے روکنے لگو۔ کیونکہ یہ ظلم ہے۔ اور اسلام ظلم کا انتقام ظلم سے لینا نہیں چاہتا۔ بلکہ ظلم کے بدلہ میں انصاف کرنا اور انصاف پر قائم رہنا سکھلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوت و اقتدار کے وقت مسلمانوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے ظلماً روک دیا تھا۔ تو اس کا جواب یہ نہ ہونا چاہیے کہ اب مسلمان اپنے اقتدار کے وقت ان کو ان افعال حج سے روک دیں۔- قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ عدل و انصاف میں دوست و دشمن سب برابر ہونے چاہئیں تمہارا دشمن کیسا ہی سخت ہو اور اس نے تمہیں کیسی ہی ایذا پہنچائی ہو اس کا معاملہ بھی انصاف ہی کرنا تمہارا فرض ہے۔- یہ اسلام ہی کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ دشمنوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور ان کے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دینا سکھاتا ہے۔- باہمی تعاون و تناصر کا قرآنی اصول - ولا تعاونوا علی البر تا واللہ شدید العقاب۔ یہ سورة مائدہ کی دوسری آیت کا آخری جملہ ہے۔ اس میں قرآن حکیم نے ایک ایسے اصولی اور بنیادی مسئلہ کے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ دیا ہے جو پورے نظام عالم کی روح ہے۔ اور جس پر انسان کی ہر اصلاح و فلاح بلکہ خود اس کی زندگی اور بقا موقوف ہے وہ مسئلہ ہے باہمی تعاون و تناصر کا۔ ہر ذی ہوش انسان جانتا ہے کہ اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعاون و تناصر پر قائم ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہ کرے تو کوئی اکیلا انسان خواہ وہ کتنا ہی عقلمند یا کتنا ہی زور آور یا مالدار ہو، اپنی ضرورت زندگی کو تنہا حاصل نہیں کرسکتا۔ اکیلا انسان نہ اپنی غذا کے لئے غلہ اگانے سے لے کر کھانے کے قابل بنانے تک کے تمام مراحل کو طے کرسکتا ہے۔ نہ لباس وغیرہ کے لئے روئی کی کاشت سے لے کر اپنے بدن کے موافق کپڑا تیار کرنے تک بیشمار مسائل کا حل کرسکتا ہے اور نہ اپنے بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ غرض ہر انسان اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں دوسرے ہزاروں، لاکھوں انسانوں کا محتاج ہے۔ ان کے باہمی تعاون و تناصر سے ہی سارا دنیا کا نظام چلتا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ تعاون دنیوی زندگی ہی میں ضروری نہیں۔ مرنے سے لے کر قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں۔ بلکہ اس کے بعد بھی اپنے پیچھے رہنے والوں کی دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا محتاج رہتا ہے۔- حق جل شانہ، نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے اس جہان کا ایسا محکم نظام بنایا ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا محتاج بنادیا۔ غریب آدمی پیسوں کے لئے مالدار کا محتاج ہے تو بڑے سے بڑا مالدار بھی محنت و مشقت کے لئے غریب مزدور کا محتاج ہے۔ سوداگر گاہکوں کا محتاج ہے۔ اور گاہک سوداگروں کا۔ مکان بنانے والا معمار، لوہار، بڑھئی کا محتاج ہے اور یہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر یہ ہمہ گیر احتیاج نہ ہوئی اور تعاون محض اخلاقی برتری پر رہ جاتا تو کون کس کا کام کرتا۔ اس کا وہی حشر ہوتا جو عام اخلاقی قدروں کا اس دنیا میں ہو رہا ہے اور اگر یہ تقسیم کار کسی حکومت یا بین الاقوامی ادارہ کی طرف سے بصورت قانون کر بھی دی جاتی تو اس کا بھی وہی انجام ہوتا جو آج پوری دنیا کے قانون کا ہو رہا ہے کہ قانون ایکٹیوں میں محفوظ ہے۔ اور بازار اور دفاتر میں رشوت، بےجا رعایت، فرض ناشناسی اور بےعملی کا قانون چل رہا ہے۔ یہ محض حکیم الحکماء، قادر مطلق کا الہیٰ نظام ہے کہ مختلف لوگوں کے دلوں میں مختلف کاروبار کی امنگ اور صلاحیت پیدا کردی۔ انہوں نے اپنی اپنی زندگی کا محور اسی کام کو بنا لیا - ہر یکے رابہر کارے ساختند - میل اور ادریش انداختند - ورنہ اگر کوئی بین الاقوامی ادارہ یا کوئی حکومت لوگوں میں تقسیم کار کرتی اور کسی جماعت کو بڑھئی کے کام کے لئے، کسی کو لوہار کے کام کے لئے، کسی کو خاکروب کے کام کے لئے، کسی کو پانی کے لئے، کسی کو خوراک کے لئے مقرر کرتی، تو کون اس کے حکم کی ایسی اطاعت کرتا کہ دن کا چین اور رات کی نیند خراب کرکے اس کام میں لگ جاتا۔- اللہ تعالیٰ جل شانہ، نے ہر انسان کو جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اس کام کی رغبت اس کے دل میں ڈال دی۔ وہ بغیر کسی قانونی مجبوری کے اس خدمت ہی کو اپنی زندگی کا کام سمجھتا ہے اس کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ اس نظام محکم کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کی ساری ضروریات چند ٹکے خرچ کرنے سے بآسانی حاصل ہوجاتی ہے۔ پکا پکایا کھانا، سلا سلایا کپڑا، بنا بنایا فرنیچر، تیار شدہ مکان سب کچھ ایک انسان کچھ پیسے خرچ کرکے حاصل کرلیتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہوتا تو ایک کروڑ پتی انسان اپنی پوری دولت لٹا کر بھی گندم کا ایک دانہ حاصل نہ کرسکتا۔ اسی قانونی نظام کا نتیجہ ہے کہ آپ ہوٹل میں قیام پذیر ہو کر جس جس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آٹا امریکہ کا، گھی پنجاب کا، گوشت سندھ کا، مصالحے مختلف ملکوں کے، برتن اور فرنیچر مختلف ملکوں کا، کام کرنے والے بیرے باورچی مختلف شہروں کے آپ کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ایک لقمہ جو آپ کے منہ تک پہنچا ہے اس میں لاکھوں مشینوں، جانوروں اور انسانوں نے کام کیا ہے۔ تب یہ آپ کے ذائقہ کو سنوار سکا ہے۔ آپ صبح گھر سے نکلے تین چار میل جانا ہے جس کی طاقت یا فرصت آپ کو نہیں۔ آپ کو اپنے کسی قریبی مقام میں ٹیکسی اور رکشہ یا بس کھڑی ہوئی ملے گی۔ جس کا لوہا آسٹریلیا کا، لکڑی برما کی، مشینری امریکہ کی، ڈرائیور فرنٹیر کا، کنڈکٹر یوپی کا۔ یہ کہاں کہاں کے سامان اور کہاں کہاں کی مخلوق آپ کی خدمت کے لئے کھڑی ہے کہ صرف چند پیسے دے کر آپ ان سب سے خدمت لے لیں۔ ان کو کس حکومت نے مجبور کیا ہے یا کس نے پابند کیا ہے کہ یہ ساری چیزیں آپ کے لئے مہیا کردیں۔ سوائے اس قانون قدرت کے جو قلوب کے مالک نے تکوینی طور پر ہر ایک کے دل پر جاری فرما دیا ہے۔- آج کل سوشلسٹ ممالک نے اس قدرتی نظام کو بدل کر ان چیزوں کو حکومت کی ذمہ داری بنا لیا۔ کہ کون انسان کیا کام کرے۔ اس کے لئے ان کو سب سے پہلے جبرو ظلم کے ذریعہ انسانی آزادی سلب کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں ہزاروں انسانوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں کو قید کیا گیا۔ باقی ماندہ انسانوں کو شدید جبروظلم کے ذریعہ مشین کے پرزوں کی طرح استعمال کیا۔ جس کے نتیجہ میں اگر کسی جگہ کچھ اشیاء کی پیداوار بڑھ بھی گئی تو انسانوں کی انسانیت ختم کرکے بڑھی۔ تو یہ سودا سستا نہیں پڑا۔ قدرتی نظام میں ہر انسان آزاد بھی ہے اور قدرتی تقسیم طبائع کی بنا پر خاص خاص کاموں کے لئے مجبور بھی اور وہ مجبوری بھی چونکہ اپنی طبیعت سے ہے۔ اس لئے اس کو کوئی بھی جبر محسوس نہیں کرتا۔ سخت سے سخت محنت اور ذلیل سے ذلیل کام کے لئے خود آگے بڑھنے والے اور کوشش کرکے حاصل کرنے والے ہر جگہ ہر زمانے میں ملتے ہیں۔ اور اگر کوئی حکومت ان کو اس کام کے لئے مجبور کرنے لگے تو یہ سب اس سے بھاگنے لگیں گے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا کا نظام باہمی تعلق پر قائم ہے۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ اگر جرائم، چوری، ڈاکہ، قتل و غاریگری وغیرہ کے لئے یہ باہمی تعاون ہونے لگے۔ چور اور ڈاکوؤں کی بڑی بڑی اور منظم قوی جماعتیں بن جائیں تو یہی تعاون و تناصر اس عالم کے سارے نظام کو درہم برہم بھی کرسکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ باہمی تعاون ایک دو دھاری تلوار ہے جو اپنے اوپر بھی چل سکتی ہے۔ اور نظام عالم کو برباد بھی کرسکتی ہے۔ اور یہ عالم چونکہ خیروشر اور اچھے برے، نیک و بد کا ایک مرکب معجون ہے۔ اس لئے اس میں ایسا ہونا کچھ بعید بھی نہیں تھا کہ جرائم اور قتل و غارت یا نقصان رسانی کے لئے باہمی تعاون کی قوت استعمال کرنے لگیں۔ اور یہ صرف احتمال نہیں بلکہ واقعہ بن کر دنیا کے سامنے آگیا۔ تو اس کے رد عمل کے طور پر عقلائے دنیا نے اپنے تحفظ کے لئے مختلف نظریوں پر خاص خاص جماعتوں یا قوموں کی بنیاد ڈالی۔ کہ ایک جماعت یا ایک قوم کے خلاف جب کوئی دوسری جماعت یا قوم حملہ آور ہو تو یہ سب ان کے مقابلہ میں باہمی تعاون کی قوت کو استعمال کرکے مدافعت کرسکیں۔- قومیتوں کی تقسیم - عبد الکریم شہرستانی کی ملل و نحل میں ہے کہ شروع میں جب تک انسانی آبادی زیادہ نہیں تھی تو دنیا کے چار سمتوں کے اعتبار سے چار قومیں بن گئیں۔ مشرقی، مغربی، جنوبی، شمالی۔ ان میں سے ہر ایک سمت کے لوگ اپنے آپ کو ایک قوم اور دوسروں کو دوسری قوم سمجھنے لگے۔ اور اسی بنیاد پر تعاون و تناصر قائم کرلیا۔ اس کے بعد جب آبادی زیادہ پھیلی تو ہر سمت کے لوگوں میں نسبی اور خاندانی بنیادوں پر قومیت اور اجتماعیت کا تصور ایک اصول بن گیا۔ عرب کا سارا نظام اسی نسبی اور قبائلی بنیاد پر تھا۔ اسی پر جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ بنوہاشم ایک قوم، بنو تمیم دوسری قوم، بنو خزاعہ تیسری قوم۔ ہندوستان کے ہندوؤں میں تو آج تک اونچی ذات اور نیچی ذات کی تفریق اسی طرح چل رہی ہے۔- یورپین اقوام کے دور جدید نے نہ کوئی اپنا نسب باقی رکھا۔ نہ دنیا کے انساب کو کچھ سمجھا، جب دنیا میں ان کا عروج ہوا تو نسبی اور قبائلی قومیتیں اور تقسیمیں ختم کرکے پھر علاقائی اور صوبائی، وطنی اور لسانی بنیادوں پر انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے الگ الگ قومیں کھڑی کردی گئیں۔ اور آج یہی سکہ تقریباً ساری دنیا میں چل رہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ جادو مسلمانوں پر بھی چل گیا۔ عربی، ترکی، عراقی، سندھی کی تقسیمیں ہی نہیں بلکہ ان میں بھی تقسیم در تقسیم ہو کر مصری، شامی، حجازی، نجدی اور پنچابی، بنگالی، سندھی، ہندی وغیرہ کی الگ الگ قوم بن گئی۔ حکومت کے سب کاروبار انھیں بنیادوں پر چلائے گئے۔ یہاں تک کہ یہ صوبائی عصبیت ان کے رگ و پے میں سرایت کرگئی۔ اور ہر صوبہ کے لوگوں کا تعاون و تناصر اسی بنیاد پر ہونے لگا۔- قومیت اور اجتماعیت کے لئے قرآنی تعلیم - قرآن کریم نے انسان کو پھر بھولا ہوا سبق یار دلایا۔ سورة نساء کی شروع آیات میں یہ واضح کردیا کہ تم سب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہو۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تشریح کرتے ہوئے حجة الوداع کے خطبہ میں اعلان کردیا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار صرف تقویٰ اور اطاعت خدائے تعالیٰ پر ہے۔ اس قرآنی تعلیم نے انما المؤ منون اخوة کا اعلان کرکے حبشہ کے کالے بھجنگ کو سرخ ترکی اور رومی کا، عجم کی نچلی ذات کے انسانوں کو عرب کے قریشی اور ہاشمی کا بھائی بنادیا۔ قومیت اور برادری اس بنیاد پر قائم کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ماننے والے ایک قوم۔ اور نہ ماننے والے دوسری قوم ہیں۔ یہی وہ بنیاد تھی جس نے ابوجہل اور ابولہب کے خاندانی رشتوں کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توڑ دیا۔ اور بلال حبشی اور صہیب رومی کا رشتہ جوڑ دیا۔- حسن زبصرہ بلال زحبش صہیب ازروم - زخاک مکہ ابو جہل ایں چہ بوابعجی ست - حتی کہ قرآن کریم نے اعلان کردیا خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤ من۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سب کو پیدا کیا۔ پھر تم دو حصوں میں بٹ گئے۔ کچھ کافر ہوگئے۔ کچھ مؤ من، بدر واحد اور احزاب و حنین کے معرکوں میں اسی قرآنی تقسیم کا عملی مظاہرہ ہوا تھا کہ نسبی بھائی جب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے باہر ہوا تو مسلمان بھائی کا رشتہ اخوت و تعاون اس سے کٹ گیا اور وہ اس کی تلوار کی زد میں آگیا۔ نسبی بھائی تلوار لے کر مقابلہ پر آیا تو اسلامی بھائی امداد کے لئے پہنچا۔ غزوہ بدر واحد اور خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں - ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد - فدائی یک تن بیگانہ کہ آشنا باشد - آیت مذکورہ میں قرآن حکیم نے تعاون و تناصر کا یہی معقول اور صحیح اصول بتلایا ہے۔ وتعاونوا علی البر والعدوان۔ یعنی نیکی اور خدا ترسی پر تعاون کرو۔ بدی اور ظلم پر تعاون نہ کرو۔ - غور کیجئے کہ اس میں قرآن کریم نے یہ عنوان بھی اختیار نہیں فرمایا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ نہ کرو۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے کی جو اصل بنیاد ہے، یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا۔ - جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم و جور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی بھی مدد نہ کرو۔ بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو۔ کیونکہ در حقیقت یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم وجور سے اس کی دنیا اور آخرت تباہ نہ ہو۔ - صحیح بخاری و مسلم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انصراخاک ظالماً اومظلوماً ۔ یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرام (رض) جو قرآنی تعلیم میں رنگے جا چکے تھے، انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مظلوم بھائی کی امداد تو ہم سمجھ گئے مگر ظالم کی امداد کا کیا مطلب ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو ظلم سے روکو۔ یہی اس کی امداد ہے۔- قرآن کریم کی اس تعلیم نے برّ وتقویٰ یعنی نیکی اور خدا ترسی کو اصل معیار بنایا۔ اسی پر مسلم قومیت کی تعمیر کھڑی کی۔ اس پر تعاون و تناصر کی دعوت دی۔ اس کے بالمقابل اثم وعدوان کو سخت جرم قرار دیا۔ اس پر تعاون کرنے سے روکا۔ بر وتقوی کے دو لفظ اختیار فرمائے۔ جمہور مفسرین نے برّ کے معنی اس جگہ فعل الخیرات یعنی نیک عمل قرار دیے ہیں اور تقویٰ کے معنی ترک المنکرات یعنی برائیوں کا ترک بتلائے ہیں۔ اور لفظ اثم مطلق گناہ اور معصیت کے معنی میں ہے۔ خواہ وہ حقوق سے متعلق ہو یا عبادات سے اور عدوان کے لفظی معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ مراد اس سے ظلم و جور ہے۔- برّ وتقویٰ پر تعاون اور امداد کرنے کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : الدال علی الخیر کفاعلہ۔ یعنی جو شخص کسی کو نیکی کا راستہ بتادے تو اس کا ثواب ایسا ہی ہے جیسے اس نیکی کو اس نے خود کیا ہو۔ یہ حدیث ابن کثیر نے بحوالہ بزار نقل فرمائی ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کو ہدایت اور نیکی کی طرف دعوت دے تو جتنے آدمی اس کی دعوت پر نیک عمل کریں گے، ان سب کی برابر اس کو بھی ثواب ملے گا۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔ اور جس شخص نے لوگوں کو کسی گمراہی یا گناہ کی طرف بلایا۔ تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے گناہ میں مبتلا ہوئے ان سب کے گناہوں کی برابر اس کو بھی گناہ ہوگا۔ بغیر اس کے کہ ان گناہوں میں کچھ کمی کی جائے۔- اور ابن کثیر نے بروایت طبرانی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا وہ اسلام سے نکل گیا۔ اسی پر سلف صالحین نے ظالم بادشاہوں کی ملازمت اور کوئی عہدہ قبول کرنے سے سخت احتراز کیا ہے۔ کہ اس میں ان کے ظلم کی امداد و اعانت ہے۔ تفسیر روح المعانی میں آیت کریمہ فلن اکون ظہیرا للمجرمین کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز آواز دی جائے گی کہ کہاں ہیں ظالم لوگ اور ان کے مددگار یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے ظالموں کے دوات، قلم کو درست کیا ہے۔ وہ بھی سب ایک لوہے کے تابوت میں جمع کر کے جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔- یہ ہے قرآن و سنت کی وہ تعلیم جس نے دنیا میں نیکی، انصاف، ہمدردی اور خوشی خلقی پھیلانے کے لئے ملت کے ہر فرد کو ایک داعی بنا کر کھڑا کردیا تھا۔ اور جرائم و ظلم و جور کے انسداد کے لئے ہر فرد ملت کو ایک ایک ایسا سپاہی بنادیا تھا جو خفیہ اور علانیہ اپنی ڈیوٹی بجا لانے پر خوف خدا تعالیٰ کی وجہ سے مجبور تھا۔ اسی حکیمانہ تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا جو دنیا نے صحابہ وتابعین کے قرن میں دیکھا۔ آج بھی جب کسی ملک میں جنگ کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو شہری دفاع کے محکمے قائم کرکے ہر فرد قوم کو کچھ فنون کی تعلیم کا تو اہتمام کیا جاتا ہے مگر جرائم کے انسداد کے لئے اس کا کہیں اہتمام نہیں ہے کہ لوگوں کو خیرکا داعی اور شر کو روکنے والا سپاہی بنانے کی کوشش کریں۔ اور ظاہر ہے کہ اس کی مشق نہ فوجی پریڈ سے ہوتی ہے نہ شہری دفاع کے طریقوں سے۔ یہ ہنر تو تعلیم گاہوں میں سیکھنے سکھانے کا ہے جو آج کل بدقسمتی سے ان چیزوں کے نام سے ناآشنا ہے۔ برّ وتقویٰ اور ان کی تعلیمات کا داخلہ آج کل کی عام تعلیم گاہوں میں ممنوع ہے۔ اور اثم وعدوان کا ہر راستہ کھلا ہوا ہے۔ پھر یہ بیچاری پولیس کہاں تک جرائم کی روک تھام کرے۔ جب ساری قوم حلال و حرام اور حق و ناحق سے بیگانہ ہو کر جرائم پیشہ بن جائے۔ آج جو جرائم کی کثرت چوری، ڈاکہ، فحاشی، قتل و غارت گری کی فراوانی ہر جگہ اور ہر ملک میں روزبروز زیادہ تر ہوتی جاتی ہیں اور قانونی مشینری ان کے انسداد سے عاجز ہے۔- اس کے یہی دو سبب ہیں کہ ایک طرف تو حکومتیں اس قرآنی نظام سے دور ہیں، ان کے ارباب اقتدار اپنی زندگی کو برّ وتقویٰ کے اصول پر ڈالتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں ہزاروں تلخیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ کاش وہ اس تلخ گھونٹ کو ایک دفعہ تجربہ کے لئے ہی پی جائیں، اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشہ دیکھیں کہ کس طرح ان کو اور عوام کو امن و سکون اور چین و راحت کی حیات طیبہ عطا ہوتی ہے۔- دوسری طرف عوام نے یہ سمجھ لیا کہ انسداد جرائم صرف حکومت کا کام ہے۔ وہ ہر جرائم پیشہ کے جرائم پر پردہ ڈالنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ محض احقاق حق اور انسداد جرائم کے لئے سچی شہادت سے گریز کرنا جرم کی اعانت ہے جو ازروئے قرآن کریم حرام اور سخت گناہ ہے۔ اور ولا تعاونوا والعدوان کے حکم سے بغاوت ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللہِ وَلَا الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْہَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕدَ وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا ٠ۭ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ٠ۭ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ٠ۘ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ٠۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ٠۠ وَاتَّقُوا اللہَ ٠ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ٢- شَعَاۗىِٕرَ- ومَشَاعِرُ الحَجِّ : معالمه الظاهرة للحواسّ ، والواحد مشعر، ويقال : شَعَائِرُ الحجّ ، الواحد :- شَعِيرَةٌ ، قال تعالی: ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] ، وقال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] ، لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] ، أي : ما يهدى إلى بيت الله، وسمّي بذلک لأنها تُشْعَرُ ، أي : تُعَلَّمُ بأن تُدمی بِشَعِيرَةٍ ، أي : حدیدة يُشعر بها .- اور مشاعر الحج کے معنی رسوم حج ادا کرنے کی جگہ کے ہیں اس کا واحد مشعر ہے اور انہیں شعائر الحج بھی کہا جاتا ہے اس کا واحد شعیرۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج 32] اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة 198] مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں ۔ اور آیت کریمہ : لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة 2] خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا ۔ میں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے وہ جانور ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے تھے ۔ اور قربانی کو شعیرۃ اس لئے کہا گیا ہے ۔ کہ شعیرۃ ( یعنی تیز لوہے ) سے اس کا خون بہا کر اس پر نشان لگادیا جاتا تھا ۔- شهر - الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185] ، - ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ - حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ - هَدْيُ قرباني - والهَدْيُ مختصّ بما يُهْدَى إلى البیت . قال الأخفش : والواحدة هَدْيَةٌ ، قال : ويقال للأنثی هَدْيٌ كأنه مصدر وصف به، قال اللہ تعالی: فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ البقرة 196] - اور ھدی کا لفظ خاص کر اس جانور پر بولا جاتا ہے جو بیت اللہ کی طرف ذبح کے لئے بھیجا جائے اخفش نے اس کا وحد ھدیۃ لکھا ہے نر کی طرح مادہ جانور پر بھی ہدی کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے جو بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة 196] اور اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قر بانی میسر ہو کردو ۔ - قلد - الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها .- ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور تلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔- أَمُّ ( قصد)- : القصد المستقیم، وهو التوجه نحو مقصود، وعلی ذلك : وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرامَ [ المائدة 2]- الام ( ن) کے معنی ہیں سیدھا مقصد کی جانب متوجہ ہونا ( اور کسی طرف مائل نہ ہونا ) اور آیت کریمہ :۔ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ( سورة المائدة 2) اور نہ ان لوگوں کی جو عزت والے گھر یعنی بیت اللہ ) کو جا رہے ہوں ۔ میں اٰمین اسی پر محمول ہے - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- رِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم .- واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔ - شنأ - شَنِئْتُهُ : تقذّرته بغضا له . ومنه اشتقّ : أزد شَنُوءَةَ ، وقوله تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ [ المائدة 8] ، أي : بغضهم، وقرئ : شَنْأَنُ فمن خفّف أراد : بغیض قوم، ومن ثقّل جعله مصدرا، ومنه : إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ [ الکوثر 3] .- ( ش ن ء ) شنیئۃ ( ف س ) کے معنی بغض کی وجہ سے کسی چیز سے نفرت کرنے کے ہیں ۔ اسی سے أزدشَنُوءَةَ مشتق ہے جو ایک قبیلہ کا نام ہے اور آیت کریمہ : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ [ المائدة 8] لوگوں کی دشمنی ۔ میں شنان کے معنی بغض اور دشمنی کے ہیں ایک قرات میں شنان بسکون نون ہے پس تخفیف ( یعنی سکون نون ) کی صورت میں اسم اور فتح نون کی صورت میں مصدر ہوگا اور اسی سے فرمایا : إِنَّ شانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ [ الکوثر 3] کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - مَسْجِدُ- : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔- حَرَمُ ( محترم)- والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام،- عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔ - عون - الْعَوْنُ : المُعَاوَنَةُ والمظاهرة، يقال : فلان عَوْنِي، أي : مُعِينِي، وقد أَعَنْتُهُ. قال تعالی:- فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ [ الكهف 95] ، وَأَعانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ [ الفرقان 4] . والتَّعَاوُنُ :- التّظاهر . قال تعالی: وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 2] . والْاستِعَانَةُ : طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] ، والعَوَانُ : المتوسّط بين السّنين، وجعل کناية عن المسنّة من النّساء اعتبارا بنحو قول الشاعر : فإن أتوک فقالوا : إنها نصف ... فإنّ أمثل نصفيها الذي ذهباقال : عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة 68] ، واستعیر للحرب التي قد تكرّرت وقدّمت . وقیل العَوَانَةُ للنّخلة القدیمة، والعَانَةُ : قطیع من حمر الوحش، وجمع علی عَانَاتٍ وعُونٍ ، وعَانَةُ الرّجل : شعره النابت علی فرجه، وتصغیره : عُوَيْنَةٌ.- ( ع و ن ) العون کے معنی کسی کی مدد اور پشت پناہی کرنا کے ہیں ( نیز عون مدد گار ) کہا جاتا ہے ۔ فلان عونی یعنی فلاں میرا مدد گار ہے قد اعنتہ ( افعال ) میں نے اس کی مدد کی قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ [ الكهف 95] تم مجھے توت ( بازو) سے مدد دو ۔ وَأَعانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ [ الفرقان 4] اور دوسرے لوگوں نے اس میں اس کی مدد کی ۔ التعاون ایک دو سے کی مدد کرنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو ۔ الا ستعانہ مدد طلب کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔ العوان ادھیڑ عمر کو کہتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عَوانٌ بَيْنَ ذلِكَ [ البقرة 68] بلکہ ان کے بین بین یعنی ادھیڑ عمر کی ۔ اور کبھی بطور کنایہ کے عمر رسیدہ عورت کو بھی عوان کہہ دیا جا تا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( فان اتوک فقالوا انھا نصف فان امثل نصفیھا الذی ذھبا اگر تمہارے پاس آکر کہیں کہ ادھیڑ عمرے ہے تو تم کہو اس کی عمر کا بہترین حصہ تو گزرچکا ہے ۔ اور استعارہ جو جنگ کئی سال تک جاری رہے اور پرانی ہوجائے اسے بھی عوان کہا جاتا ہے نیز پرانی کھجور کو بھی عوارتۃ کہہ دیتے ہیں ۔ العانۃ گور خر اس کی جمع عانات وعون ہے العانۃ موئے زہار اس کی تصغیر عوینۃ ہے ۔- برَّ- ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان :- ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8]- ( ب رر)- البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بر کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] - اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔
قول باری ہے یایھا الذین امنوالاتجلواشعائر اللہ۔ اے ایمان والو خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو) اس آیت کی تفسیر میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ شعائر سے مراد مناسک حج ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ صفاء مروہ قربانی کے جانور سب شعائر میں داخل ہیں۔ عطاء کا قول ہے کہ اس سے مراد اللہ کے فرائض ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کئے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ کا سارا دین شعائر اللہ ہے کیونکہ قول باری ہے ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ تعظیم دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے) آیت میں شعائر اللہ سے اللہ کا دین مراد ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے حرم کے نشانات مراد ہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو احرام کے بغیر ان سے آگے جانے کی ممانعت کردی جب وہ مکہ میں داخل ہونا چاہئیں یہ تمام وجوہ آیت کے اندر محتمل ہیں۔ شعائر کی اصل یہ ہے کہ یہ اشعار سے ماخوذ ہے یعنی احساس کی جہت سے معلوم کرانا۔ مشاعر البدن یعنی حواس اسی سے ماخوذ ہے۔ مشاعر ان مقامات کو کہتے ہیں جنہیں علامتوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہو آپ کہتے ہیں ’ قد شعرت بہ ‘ میں نے اسے معلوم کرلیا) قول باری لایشعرون کے معنی لایعلمون کے ہیں یعنی وہ نہیں جانتے ہیں۔ شاعر کا لفظ بھی اسی سے ماخوذ ہے اس لئے کہ وہ اپنی فطانت سے ان چیزوں کا احساس کرلیتا ہے جو دوسرے نہیں کرسکتے جب اس کی اصل وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے تو ھپر شعائر علامات کو کہیں گے اس کا واحد شعیرہ ہے جو اس علامت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کا احساس کیا جاتا ہے اور اس کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے قول باری لاتحلواشعائر اللہ اللہ کے دین کے تمام معالم نشانات پر مشتمل ہیں یعنی وہ باتیں جو ہمیں اللہ وحدہ نے بتائی ہیں جن کا تعلق دین کے فرائض اور اس کے نشانات سے ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان سے نہ تو تجاوز کریں نہ ان سے پیچھے رک جائیں اور نہ ہی انہیں ضائع ہونے دیں۔ یہ مفہوم ان تمام معانی کو سمیٹ لے گا جو شعائر کی تاویل میں سلف سے منقول ہیں یہ مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ احرام کے بغیر حرم میں داخل ہونے کی ممانعت ہے نیز حرم میں قتال کے ذریعے اس کے استحلال کی بھی ممانعت ہے اور یہاں پناہ لینے والوں کو قتل کرنا بھی ممنوع ہے۔ یہ چیز صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں مقامات شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ مجاہد سے روایت کے مطابق ان دونوں مقامات کا طواف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں داخل تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کا اطواف کیا تھا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ قول باری ہے ولاالشھرالحرام نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو) حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ سے مروی ہے حرام مہینے کو حلال کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان مہینوں میں سے کسی کے اندر قتال کیا جائے کیونکہ قول باری ہے یسئلونک عن الشھرالحرام قتال فیہ، لوگ آپ سے حرام مہینے کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے) ۔ پھر فرمایا قل قتال فیہ کبیرہ، کہہ دو کہ اس میں جنگ کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے) ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور ہم نے اس کے نسخ کے قائلین کے اقوال بھی بیان کردیئے ہیں نیز یہ کہ قول باری اقتلوا المشرکین حیت وجدتموھم۔ مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کر دو ) نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔- لیکن عطاء کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے اور اب بھی اشہر حرم میں قتال کی ممانعت ہے۔ قول باری ہے ولاالشھرالحرام کے معنی مراد کے بارے میں اختلاف رائے ہے قتادہ کا قول ہے کہ اس سے اشہر حرم مراد ہیں عکرمہ کا قول ہے کہ اس سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب مراد ہیں۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ اس سے یہ تمام مہینے مراد ہوں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ لفظ کے اقتضاء کی رو سے صرف ایک مہینہ مراد ہو اور لفظ کی دلالت کی جہت سے بقیہ مہینوں کا حکم ازخود معلوم ہوجائے کیونکہ اشہر حرم سب کے سب ایک ہی حکم کے حامل ہیں۔ اس لئے جب ایک کا حکم بیان ہوجائے گا تو سب کے حکم پر ازخود دلالت ہوجائے گی۔ قول باری ہے ولاالھدی ولاالقلائد، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو اور نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردن میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہیں۔ ہدی ہر اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح صدقات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے المبتکرالی الجمعۃ کا لمھدی بدنۃ جمعہ کی نماز کے لئے اول وقت پر جانے والا شخص ایک اونٹ قربانی کرنے والے کی طرح ہے) ۔ پھر فرمایا ” اس کے بعد جانے والے کا درجہ گائے قربانی کرنے والے کی طرح ہے اس کے بعد والے کا درجہ بکری اس کے بعد والے کا مرغی اور اس کے بعد والے کا درجہ انڈا قربانی کرنے والے کی طرح ہے “۔ اس حدیث میں آپ نے مرغی اور انڈے کو ہدی کا نام دیا اور اس سے صدقہ مرا دلیا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرا یہ کپڑا ہدی ہے “۔ تو اس پر اس کپڑے کو صدقہ کردینا لازم ہوگا تاہم ہدی کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکریوں کی تینوں اصناف پر ہوتا ہے جنہیں حرم میں لے جا کر ذبح کیا جائے۔ قول باری ہے فاذا احصرتم فما استیسر من الھدی، اور اگر کہیں گھر جائو تو جو قربنی میسر آئے اللہ کی جناب میں پیش کرو) سلف سے لے کر خلف تک اہل علم کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہدی کا کم سے کم درجہ بکری ہے۔ قول باری ہے من النعم یحکم بہ ذولعدل منکم ھدیاً بالغ الکعبۃ مویشیوں میں سے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا) اسی طرح ارشاد ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسرمن الھدی، جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدور قربانی دے۔ تمام فقہاء کے نزدیک اس کا کم سے کم درجہ بکری ہے ہدی کے اسم کا جب اطلاق ہوتا ہے تو اس کا مفہوم حرم کے اندر درج بالا اصناف ثلاثہ یعنی اونٹ گائے اور بھیڑ بکریوں کے ذبح کو شامل ہوتا ہے۔ قول باری ہے ولاالھدی سے مراد اس ہدی پر دست دراز ی کرنے کی ممانعت ہے جسے حرم میں ذبح کے لئے متعین کرلیا ہو۔ حلال یعنی دست درازی سے مراد یہ ہے کہ قربانی کے سوا اسے کسی اور مصرف میں لایا جائے۔ اس میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ جب ہدی کا مالک اسے بیت اللہ کی طرف لے چلے یا نذر وغیرہ کی صورت میں اس نے اس کی ذبح اپنے اوپر واجب کرلی ہو تو اب اس سے انتفاع کی ممانعت ہوجائے گی۔ اسی طرح اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ ہدی کے جانور کا گوشت کھانا ممنوع ہے خواہ یہ ہدی نذر کا ہو یا احصار کی بنا پر واجب ہوا ہو یا شکار کے بدلے میں دیا جا رہا ہو ظاہر آیت تو تمتع اور قران کے ہدی کے گوشت کی بھی ممانعت کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ہدی کا اسم ان دو نوں قربانیوں کو بھی شامل ہے لیکن چونکہ ان کے گوشت کے جواز پر دلالت قائم ہوگئی ہے اس بنا پر ان کا گوشت کھانا جائز ہے۔ قول باری ولاالقلائد کے معنی ہیں ” اور ان جانوروں پر بھی ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں پٹے پڑے ہوئے ہیں “۔ قلائد کی تاویل میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ ہدی ہے یعنی قربانی کا جانور ہے جس کے گلے میں پٹہ پڑا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہدی کے بعض جانوروں کی گردنوں میں پٹے ڈالے جاتے ہیں اور بعض کو نہیں ڈالتے جاتے۔ اونٹ اور گائے بیل کو پٹے ڈالے جاتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کو نہیں ڈالے جاتے۔- اللہ تعالیٰ نے ہدی یعنی قربانی کے جانور پر دست درازی کی ممانعت کردی خواہ اس کے گلے میں پٹہ پڑا ہوا ہو یا نہ پڑا ہو۔ مجاہد کا قول ہے کہ جب لوگ احرام باندھ لیتے تو حرم کے درختوں کی چھال کا پتہ بنا کر اپنی اور اپنے ہدی کی گردنوں میں ڈال لیتے تھے یہ چیز ان کے لئے امن کا پروانہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص یا جانور پر ہاتھ ڈالنے کی ممانعت کردی جس کی گردن میں اس طرح کا پٹہ پڑا ہو تاہم انسانوں اور ہدی کے سوا دوسرے جانوروں کے بارے میں یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ قتادہ سے بھی حرم کے درختوں کی چھال کو پٹہ بنا کر انسانوں اور جانوروں کے گلے میں ڈالنے کے سلسلے میں اس قسم کی روایت ہے بعض اہل علم کا قول ہے کہ ولاالقلائد سے مراد یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں پڑے ہوئے پٹے صدقہ کردیئے جائیں اور ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ حسن سے مروی ہے کہ ہدی کے جانور کے گلے میں جوتوں کا پتہ ڈال دیا جائے گا اگر یہ نہ ملے تو پرانی مشک کے وسط میں سوراخ کر کے اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور پھر اس کا صدقہ کردیا جائے گا ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ اون ہے جسے بٹ کر ہدی کے جانور کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہدی کے جانور کو پٹہ ڈالنا بھی قربت اور بندگی ہے اور اس کے ساتھ اس جانور کے ہدی بننے کا حکم متعلق ہوتا ہے وہ اس طرح کہ جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے حرم کی طرف لے جانے کا ارادہ کرے تو اس سے وہ جانور ہدی بن جاتا ہے اگرچہ اس نے الفاظ کے ذریعے اسے واجب نہ بھی کیا ہو۔ اس بنا پر جو جانور بھی اس صفت پر پایا جائے گا وہ ہدی کہلائے گا اور اب نہ اس پر دست درازی ہوگی اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوگی۔ اسے صرف ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کردینے کا عمل باقی رہ جائے گا۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایسے جانوروں کے پٹوں کا بھی صدقہ کردیا جائے کیونکہ لفظ میں اس کا احتمال موجود ہے۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے قربانی کے جو اونٹ یمن سے منگوائے تھے ان میں سے بعض کو آپ نے مکہ میں نحر یعنی ذبح کیا تھا اور بقیہ کو ذبح کرنے کے لئے آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا تھا۔ حضرت علی (رض) نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ ان پر پڑے ہوئے کپڑوں اور ان کی مہاروں کو صدقہ میں دے دیا جائے نیز ان میں سے کوئی چیز قصاب کو دینے سے بھی منع فرما دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ ہم خود انپے پاس سے قصاب کو اس کی اجرت دیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہدی کی سواری اس کا دودھ دوہنا اور اس کے دودھ کو استعمال میں لانا منع ہے اس لئے کہ قول باری ولاالھدی ولاالقلائد ان تمام باتوں کو متضمن ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور مقام پر بھی قلائد کا ذکر اس انداز سے فرمایا ہے جو اس کی قربت یعنی قربانی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہونے پر دلالت کرتا ہے نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ احکام متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس و الشھرالحرام والھدی والقلائد اللہ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی اس کا م میں معاون بنادیا) ۔ اگر قربانی کے جانوروں اور قلادوں یعنی پٹوں کے ساتھ حرمتوں اور ان حقوق کا تعلق نہ ہوتا جو صرف اللہ کے لئے ہیں جس طرح کہ ماہ حرام اور کعبۃ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ماہ حرام اور کعبہ کے ساتھ یکجا کر کے ان امور کی اطلاع نہ دیتا جو لوگوں کے مفادات ان کی بھلائیوں اور ان کی اجتماعی زندگی کے قیام کے سلسلے میں ان شعائر میں موجود ہیں۔- حکم نے مجاہد سے روایت کی ہے سورة مائدہ میں سے صرف دو آیتیں منسوخ ہوئی ہیں ایک تو یہ آیت لاتحلواشعائر اللہ ولاالشھرالحرام ولاالھدی ولاالقلائد۔ اسے اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم۔ کی آیت نے منسوخ کردیا ہے اور دوسری آیت وان جائوک فاحکم بینھم۔ جسے ۔ وان الحکم بینھم بما انزل اللہ۔ نے منسوخ کردیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے ماہ حرام میں قتال کی تحریم اور ان قلادوں کی منسوخی مراد ہے جو لو گ حرم کے درختوں کی چھال سے پٹے بنا کر اپنے اور اپنے جانوروں کے گلوں میں لٹکا لیتے تھے تاکہ انہیں امن حاصل ہوجائے۔ اس سے قربانی کے جانوروں کے قلادوں کی منسوخی مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام اور تابعین سے نقل متواتر کے ذریعے ثابت اور باقی ہے۔ مالک بن مغول نے عطاء سے قول باری ولاالقلائد کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ لوگ جب باہر جاتے تو حرم کے درختوں کی چھال کا قلادہ بنا کر گلے میں ڈال لیتے اور ا س پر یہ آیت نازل ہوئی لاتحلواشعائر اللہ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اہل جاہلیت کے عقائد کے مطابق جو لوگ ایسا کرتے اللہ تعالیٰ نے ان پر دست دراز ی کرنے سے منع فرما دیا ہو کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد بھی لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی ان باتوں پر برقرار رہنے دیا گیا تھا جو عقل کے خلاف نہیں تھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان میں سے جن باتوں کو منسوخ کرنے کا ارادہ فرما لیا گیا ان کی منسوخی کا حکم بھیج دیا گیا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے منع فرما دیا تھا جنہوں نے حرم کے درختوں کی چھال قلادہ بنا کر اپنے گلوں میں ڈال رکھی تھی پھر یہ حکم اس بنا پر منسوخ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی تھے امن عطا کردیا تھا اور مشرکین کے قتل کا حکم دے دیا تھا الا یہ کہ وہ مسلمان ہوجاتے۔ چناچہ ارشاد باری ہے اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم اس طرح مشرکین پر حرم کے درختوں کی چھال سے بنے ہوئے قلادوں کی بنا پر دست درازی کی ممانعت کا حکم منسوخ ہوگیا اور دوسری طر ف مسلمانوں کو پرسکون صورت حال کی بنا پر ان قلادوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس لئے اس حکم کے باقی رہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی اور صرف قربانی کے جانوروں کو قلائد پہنانے کا حکم باقی رہ گیا تھا۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی نے روایت بیان کی انہیں حسین بن ابی الربیع جرجانی نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں ثوری نے شعبی سے سورة مائدہ میں صرف ایک آیت منسوخ ہوئی ہے جو یہ ہے یایھا الذین امنو الاتحلواشعائر اللہ) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں حسین بن ابی اربیع جرجانی نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمر نے قتادہ سے قول باری لاتحلواشعائر اللہ تا آخر آیت کے متعلق بیان کیا کہ یہ منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک شخص جب حج کے ارادے سے گھر سے چل پڑتا تو گلے میں ببول کی چھال کا پٹہ ڈال لیتا پھر کوئی شخص اس سے تعرض نہ کرتا جب حج سے واپس ہوتا تو بال کا بٹا ہوا قلادہ ڈال لیتا جس کی بنا پر کوئی اسے کچھ نقصان نہ پہنچاتا اس زمانے میں مشرک کو بیت اللہ سے روکا نہیں جاتا تھا۔ چناچہ مسلمانوں کو ماہ حرام میں قتال کرنے نیز بیت اللہ کے آس پاس تلوار اٹھانے سے روک دیا گیا تھا پھر اس حکم کو قول باری اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم نے منسوخ کردیا۔- یزید بن زریع نے سعید سے انہوں نے قتادہ سے قول باری جعل الہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس والشھرالحرام والقلائد کی تفسیر کے سلسلے میں یہ روایت بیان کی ہے کہ آیت میں مذکورہ امور یعنی بیت اللہ ماہ حرام اور قلائد لو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے لئے ایک دوسرے کی زد سے بچنے کے لئے رکاوٹیں بناد ی تھیں۔ چناچہ حالت یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں ماہ حرام کے اندر ایک شخص کا اپنے باپ کے قاتل سے سامنا ہوجاتا تو وہ اس تے تعرض نہ کرتا اور نہ ہی اس کے قریب جاتا۔ اسی طرح اگر ایک شخص ہر قسم کے جرائم کر گزرتا اور پھر حرم میں آکر پناہ لے لیتا تو نہ اسے کوئی پکڑتا اور نہ ہی اس کے پاس جاتا۔ اس طرح ایک شخص بھوک کی بنا پر جانوروں کی ہڈیاں اور پٹھے کھا رہا ہوتا اور پھر اس حالت میں اس کے پاس سے پٹے والے قربانی کے جانور گزرتے تو وہ انہیں کچھ نہ کہتا اور نہ ہی ان کے قریب جاتا۔ جب کوئی شخص بیت اللہ کے ارادے سے گھر سے نکلتا تو بال کا بٹا ہوا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لینا جو اسے لوگوں کی دست درازیوں اور زیادتیوں سے محفوظ رکھتا اسی طرح جب اس کی واپسی ہوتی تو اذخر گھاس یا حرم کے درخت کی چھال اپنے گلے میں لٹکا لیتا اور اس طرح لوگوں کے ہاتھوں سے محفوظ ہوجاتا۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے راویت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابو عبیداللہ نے انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اللہ تاآخر آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مسلمان اور مشرکین اکٹھے بیت اللہ کا حج کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کسی بھی شخص کو بیت اللہ میں آنے سے روکنے اور اس سے تعرض کرنے سے خواہ وہ مومن ہو یا کافر، منع فرما دیا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی انما المشرکون تجس فلایقدبرالمسجد الحرام بعاعا مھم۔- بے شک مشرکین نجس ہیں اس لئے اس سال کے بعد وہ حرم کے قریب نہ آئیں) ۔ نیز فرمایا ماکان للمشرکین ان یعمروامساجد اللہ شاھدین علی انفسھم بالکفر۔ مشرکین اس لائق ہی نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جبکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کی گواہی دے رہے ہوں) ۔ اسحاق بن یوسف نے ابن عون سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حسن سے یہ بات پوچھی کہ آیا سورة مائدہ کی کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے انہوں نے اس کا جواب نفع میں دیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ولاامین البیعت الحرام۔ نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو مکان محترم کعبہ کی طرف جا رہے ہوں) میں حسن کے نزدیک اہل ایمان مراد ہیں کیونکہ اگر اس سے کفار مراد لئے جائیں تو درست نہیں ہوگا اس لئے کہ یہ بات قول باری فلایقرلوالمسجد الحرام بعد عامھم ھذا) سے منسوخ ہوچکی ہے۔ نیز قول باری ولاالشھرالحرام میں ماہ حرام کے اندر قتال کی تحریم بھی منسوخ ہوچکی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں البتہ حسن کے نزدیک یہ حکم باقی ہے جیسا کہ عطاء سے بھی روایت کی گئی ہے۔ قول باری ہے یبتغون فضلاً من ربھم ودضواناً جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں) حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ اس سے تجارت میں منافع مراد ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے لیس لیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنیرب کا فضل تلاش کرو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ سے حج کے اندر تجارت کے بارے میں پوچھا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہم نے پہلے اس امر کا ذکر کردیا ہے۔ مجاہد نے یبتغون فضلاً من ربھم ورضواناً ۔ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے اجرت اور تجارت مراد ہے۔ قول باری ہے واذاحلکتم فاصطادوا جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) مجاہد عطاء اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت میں شکار کرنے کا حکم نہیں بلکہ تعلیم یعنی معلوم کرانا ہے کہ اگر کوئی احرام کھولنے والا شکار کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے ذریعے شکار کرنے پر لگی ہوئی پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے فاذاقضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللہ۔ جب جمعہ کی نماز ادا کرلی جائے تو زمین میں بکھرجائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد وذروالبیع اور خرید و فروخت چھوڑ دو ) کے ذریعے بیع و شراپر پابندی عائد کردی تو پھر جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے اس ارشاد کے ذریعے یہ پابندی ختم کردی۔ قول باری واذا حللتم فاصطادوا۔ اس امرکو متضمن ہے کہ پہلے احرام موجود تھا کیونکہ احرام کھولنے کی بات اس وقت ہوسکتی ہے جب احرام پہلے موجود وہ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری ولاالھدی ولاالقلائد ولاامین البیت الحرام۔ اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کام کو سرانجام دینے والا شخص حالت احرام میں ہو۔ جس سے یہ دلالت ہوگئی کہ ہدی یعنی قربانی کے جانور کو ہانک کرلے چلنا اور اس کی گردن میں پٹہ ڈالنا احرام کا موجب ہے قول باری والاامین البیت الحرام اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی کے لئے احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ قول باری واذا حللتم ما صطادوا اس امر کو متضمن تھا کہ جو شخص بیت اللہ کا ارادہ کرے اس پر احرام باندھنا ضروری ہے پھر وہ احرام کھول دے گا اور اس کے بعد اس کے لئے شکار بھی جائز ہوجائے گا۔ قول باری واذا حللتم فاصطادو میں احرام کے بعد احلال یعنی احرام کھولنا مراد ہے ۔- اور حرم سے باہر آجانا بھی مراد ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدود حرم کے اندر شکار کی ممانعت کردی تھی۔ چناچہ آپ کا ارشاد ہے ولاینفرصیدھا اور حرم کے اندر شکار کو بھگایا نہیں جائے گا) اس بارے میں سلف اور حلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں احرام کھولنا اور حدود حرم سے باہر نکل آنا دونوں مراد ہیں۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص حلق کر کے احرام کھول دے اس کے لئے شکار کرنا جائز ہے اور طواف زیارت کا ابھی باقی ہونا شکار کے لئے مانع نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے واذاحللتم فاصطادوا اور حلق کرانے والا احرام کھول چکا ہے اس لئے کہ حلق یعنی سرمونڈنے کا یہ عمل احرام کھولنے کے لئے کیا گیا تھا۔ قول باری ہے ولایجرمنکم شنان قوم ان متدوکم عن المسجد الحرام ان تعدوا، اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں ناروازیادتیاں کرنے لگو) ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ لایحرمنکم کے معنی ” لایحملنکم “ کے ہیں یعنی تمہیں ابھارنہ دے “۔ اہل لغت کا کہنا ہے ” جرمنی زید علی بغضک کے معنی ہیں زید نے مجھے تمہاری عداوت پر ابھارا “۔ فراء کا قول ہے کہ اس کے معنی ” لایکسبنکم “ کے ہیں کہا جاتا ہے ” حرمت علی اھلی “ میں نے اپنے اہل و عیال کے لئے کمائی کی) نیز کہا جاتا ہے ” فلان جریمۃ اھلہ “ (فلاں) شخص اپنے اہل و عیال کے لئے کا سب یعنی کمائی کرنے والا ہے) شاعر کا قول ہے۔ جریمۃ ناھض فی راس نیق تری لعضام ماجمعت صلیبا۔- یہ عقاب اپنے بچے کو جو اڑنے کے لائق ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے شکار کئے ہوئے پرندوں کا گوشت کھلاتا ہے اور ان پرندوں کی ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں جن سے گودا بہہ رہا ہوتا ہے) جب کوئی شخص کاٹ ڈالنے کا عمل کرے تو کہا جاتا ہے جرم یجوم جرماً قول باری شنان قوم کو نون کے زبر اور سکون دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے جس نے زبر کے ساتھ اس کی قرات کی ہے اس نے اسے مصدر قراردیا ہے اور ماضی مضارع مصدر اس طرح ہوں گے شنئۃ اشناہ شناناً ۔ شنان بغض کو کہتے ہیں گویا یوں فرمایا گیا ” تمہیں کسی قوم کے ساتھ بغض اس پر نہ ابھارے…“ اسی طرح حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ سے مروی ہے کہ ’ کسی قوم کی عداوت ‘ جس نے نون کے سکون کے ساتھ اس کی قرات کی ہے اس کے نزدیک اس کے معنی بغیض یعنی سخت دشمنی رکھنے والے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کی زیادتی کی بنا پر جو انہوں نے بیت اللہ میں انہیں جانے سے روک کر کی تھی حق سے تجاوز کر کے ظلم و تعدی پر اتر آنے سے منع فرما دیا۔ اس کی مثال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے ادالاماتۃ الی من متمنک ولاتخن من اخنک جس شخص نے تمہارے پاس امانت رکھی اس کی امانت اسے واپس کر دو اور جو شخص تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو) ۔ قول باری ہے وتعاولواعلی المبروالتقوی۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو) ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ ہر اس کا م میں تعاون کرنا واجب ہے جس میں اللہ کی اطاعت ہو کیونکہ اللہ کی اطاعتوں کو برکہاجاتا ہے۔ قول باری ہے ولاتعاونوا علی الاثم والعدون۔ اور جو کام گناہ اور سرکشی کے ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو) آیت میں معاصی کے اندر دوسروں کے ساتھ تعاون کی نہی ہے۔
(٢) تمام آداب اور مناسک حج کو اپنے لئے حلال مت کرو اور نہ بےادبی کرو حرمت والے مہینے کی اور نہ اس قربانی کے جانور کو پکڑو جو بیت اللہ روانہ کیا جارہا ہے اور حرمت والے مہینے آنے کے لیے جن جانوروں کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہیں ان کو بھی مت پکڑو اور نہ ان لوگوں کو تنگ کرو جو بیت اللہ کے ارادہ سے جارہے ہوں اور وہ یمامہ کے حاجی بکر بن وائل کی قوم اور شرع بن ضہبہ کے تاجر ہیں اور وہ تجارت کے ذریعے روزی اور حج کی وجہ سے اپنے رب کی رضا کے طالب ہوں یا یہ کہ وہ تجارت کے ذریعے روزی اور حج کی وجہ سے اپنے رب کی رضا کے طالب ہوں یا یہ کہ وہ تجارت کے ذریعے اپنے رب کے فضل اور رضا کے طالب ہوں اور جس وقت تم ایام تشریق کے بعد حرم سے باہر آجاؤ تو اگر چاہو تو خشکی کے شکار کرلو اور ایسا نہ ہو کہ تمہیں مکہ والوں سے اس وجہ سے بغض ہو کہ تمہیں انہوں نے حدیبہ کے سال روک دیا تھا اگر اس طرح ہوا تو تمہارا یہ رویہ بکر بن وائل کے حاجیوں پر ظلم و زیادتی کا باعث نہ بن جائے، اطاعت خداوندی اور گناہ چھوڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور حد سے تجاوز کرنے پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور بکر بن وائل کے حاجیوں پر ظلم کرنے میں بھی کسی کا ساتھ نہ دو اور جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے اس میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ جو اوامر خداوندی کو نظر انداز کرے، اللہ تعالیٰ اس کو سخت سزا دیتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا الا تحلوا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ حاطم بن بکر ہندی مدینہ منورہ میں ایک قافلہ کے ساتھ غلہ لے کر آئے، اسے بیچ کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے بیعت کی اور اسلام قبول کیا جب وہ وہاں سے چلے تو آپ نے ان کی طرف دیکھا اور آپ کے پاس جو حضرات بیٹھے ہوئے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ یہ میرے پاساس فاجر کی صورت لے کر آیا اور عہد شکن کی پشت کے ساتھ واپس گیا، چناچہ جب وہ یمامہ پہنچا تو مرتد ہوگیا اس کے بعد ماہ ذی قعدہ میں ایک قافلہ کے ساتھ غلہ لے کر مکہ مکرمہ کے ارادہ سے نکلا، جب صحابہ کرام کو اس کی آمد کی اطلاع ملی تو مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے اس کے قافلہ پر چھاپہ مارنے کا ارادہ کیا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اے مومنو اللہ کی نشانیوں کی بےحرمتی مت کرو تو اس ہدایت کے آنے پر صحابہ کرام (رض) رک گئے کیونکہ صحابہ حکم الہی کے پابند تھے، نیز سدی سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- شان نزول : (آیت) ” ولا یجرمنکم “۔ الخ۔- ابن ابی حاتم (رح) نے زید بن اسلم (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو مشرکین مکہ نے بیت اللہ آنے روکا تھا، آپ مقام حدیبیہ میں تھے، سب پر یہ چیز بہت گراں گزری تھی ،- اتنے میں مشرق والوں کے مشرکین کا ایک گروہ عمرہ کے ارادہ سے ان کے پاس سے گزرا، اس پر صحابہ کرام (رض) بولے کہ ہم بھی ان لوگوں کو روکتے ہیں جیسا کہ ہمیں روک دیا گیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٢ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ وَلا الشَّہْرَ الْحَرَامَ - یعنی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق حلال مت کرلیا کرو۔ - (وَلاَ الْہَدْیَ ) - یعنی قربانی کے وہ جانور جو حج یا عمرے پر جاتے ہوئے لوگ ساتھ لے کر جاتے تھے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ حج یا عمرے پر جاتے وقت قربانی کے جانور ساتھ لے کر جاتے تھے۔ یہاں ان جانوروں کی بےحرمتی کی ممانعت بیان ہو رہی ہے۔- (وَلاَ الْقَلَآءِدَ ) اور نہ ( ان جانوروں کی بےحرمتی ہونے پائے ) جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیے گئے ہوں - یہ پٹے (قلادے) علامت کے طور پر ڈال دیے جاتے تھے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں اور کعبے کی طرف جا رہے ہیں۔ - (وَلَآ ا آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ ) - یعنی وہ لوگ جو بیت الحرام کی طرف چل پڑے ہوں ‘ حج یا عمرے کا قصد کر کے سفر کر رہے ہوں ‘ اب ان کی بھی اللہ کے گھر کے ساتھ ایک نسبت ہوگئی ہے ‘ وہ اللہ کے گھر کے مسافر ہیں ‘ جیسا کہ اہل عرب حجاج کرام کو کہتے ہیں : مَرْحَبًا بِضُیُوْفِ الرَّحْمٰن مرحبا ان لوگوں کو جو رحمن کے مہمان ہیں۔ یعنی تمام حجاجِّ کرام اصل میں اللہ کے مہمان ہیں ‘ اللہ ان تمام زائرین کعبہ کا میزبان ہے۔ تو اللہ کے ان تمام مہمانوں کی ہتک عزت اور بےحرمتی سے منع کردیا گیا۔ - (یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا ط) ۔ - یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں ‘ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہیں۔ - (وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط) ۔- حلال ہوجانا ایک اصطلاح ہے ‘ یعنی احرام کھول دینا ‘ حالت احرام سے باہر آجانا۔ اب تمہیں شکار کی آزادی ہے ‘ اس پر پابندی صرف احرام کی حالت میں تھی۔ - (وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ ) (اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) (اَنْ تَعْتَدُوْا ٧)- یعنی جیسے اہل مکہ نے تم لوگوں کو چھ سات برس تک حج وعمرہ سے روکے رکھا ‘ اب کہیں اس کے جواب میں تم لوگ بھی ان پر زیادتی نہ کرنا۔ - (وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ) (وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) (وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ )- دیکھئے یہ انداز بالکل وہی ہے جو سورة النساء کا تھا ‘ وہی معاشرتی معاملات اور ان کے بارے میں بنیادی اصول بیان ہو رہے ہیں۔ اب آ رہے ہیں وہ استثنائی احکام جن کا ذکر آغازسورۃ میں ہوا تھا کہ الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ۔ کھانے پینے کے لیے جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں ان کا ذکر یہاں آخری مرتبہ آ رہا ہے اور وہ بھی بہت وضاحت کے ساتھ :
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :5 ہر وہ چیز جو کسی مسلک یا عقیدے یا طرز فکر و عمل یا کسی نظام کی نمائندگی کرتی ہو وہ اس کا ”شعار“ کہلائے گی ، کیونکہ وہ اس کے لیے علامت یا نشانی کا کام دیتی ہے ۔ سرکاری جھنڈے ، فوج اور پولیس وغیرہ کے یونیفارم ، سکے ، نوٹ اور اسٹامپ حکومتوں کے شعائر ہیں اور وہ اپنے محکوموں سے ، بلکہ جن جن پر ان کا زور چلے ، سب سے ان کے احترام کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ گرجا اور قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں ۔ چوٹی اور زنار اور مندر برہمنیت کے شعائر ہیں ۔ کیس اور کڑا اور کرپان وغیرہ سکھ مذہب کے شعائر ہیں ۔ ہتھوڑا اور درانتی اشتراکیت کا شعار ہیں ۔ سواستیکا آریہ نسل پرستی کا شعار ہے ۔ یہ سب مسلک اپنے اپنے پیرووں سے اپنے ان شعائر کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی نظام کے شعائر میں سے کسی شعار کی توہین کرتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ دراصل اس نظام کے خلاف دشمنی رکھتا ہے ، اور اگر وہ توہین کرنے والا خود اسی نظام سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا یہ فعل اپنے نظام سے ارتداد اور بغاوت کا ہم معنی ہے ۔ ”شعائراللہ“ سے مراد وہ تمام علامات یا نشانیاں ہیں جو شرک و کفر اور دہریت کے بالمقابل خالص خدا پرستی کے مسلک کی نمائندگی کرتی ہوں ۔ ایسی علامات جہاں جس مسلک اور جس نظام میں بھی پائی جائیں مسلمان ان کے احترام پر مامور ہیں ، بشرطیکہ ان کا نفسیاتی پس منظر خالص خدا پرستانہ ہو ، کسی مشرکانہ یا کافرانہ تخیل کی آلودگی سے انہیں ناپاک نہ کر دیا گیا ہو ۔ کوئی شخص خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ، اگر اپنے عقیدہ و عمل میں خدائے واحد کی بندگی و عبادت کا کوئی جزء رکھتا ہے ، تو اس جزء کی حد تک مسلمان اس سے موافقت کریں گے اور ان شعائر کا بھی پورا احترام کریں گے جو اس کے مذہب میں خالص خدا پرستی کی علامت ہوں ۔ اس چیز میں ہمارے اور اس کے درمیان نزاع نہیں بلکہ موافقت ہے ۔ نزاع اگر ہے تو اس امر میں نہیں کہ وہ خدا کی بندگی کیوں کرتا ہے ، بلکہ اس امر میں ہے کہ وہ خدا کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیوں کی آمیزش کیوں کرتا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ شعائر اللہ کے احترام کا یہ حکم اس زمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں اور مشرکین عرب کے درمیان جنگ برپا تھی ، مکہ پر مشرکین قابض تھے ، عرب کے ہر حصے سے مشرک قبائل کے لوگ حج و زیارت کے لیے کعبہ کی طرف جاتے تھے اور بہت سے قبیلوں کے راستے مسلمانوں کی زد میں تھے ۔ اس وقت حکم دیا گیا کہ یہ لوگ مشرک ہی سہی ، تمہارے اور ان کے درمیان جنگ ہی سہی ، مگر جب یہ خدا کے گھر کی طرف جاتے ہیں تو انہیں نہ چھیڑو ، حج کے مہینوں میں ان پر حملہ نہ کرو ، خدا کے دربار میں نذر کرنے کے لیے جانور یہ لیے جارہے ہوں ان پر ہاتھ نہ ڈالو ، کیونکہ ان کے بگڑے ہوئے مذہب میں خدا پرستی کا جتنا حصہ باقی ہے وہ بجائے خود احترام کا مستحق ہے نہ کہ بے احترامی کا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :6 ”شعائر اللہ “ کے احترام کا عام حکم دینے کے بعد چند شعائر کا نام لے کر ان کے احترام کا خاص طور پر حکم دیا گیا کیونکہ اس وقت جنگی حالات کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ کے جوش میں کہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی توہین نہ ہو جائے ۔ ان چند شعائر کو نام بنام بیان کرنے سے یہ مقصود نہیں ہے کہ صرف یہی احترام کے مستحق ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :7 احرام بھی من جملہ شعائر اللہ ہے ، اور اس کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کو توڑنا اس کی بے حرمتی کرنا ہے ۔ اس لیے شعائر اللہ ہی کے سلسلہ میں اس کا ذکر بھی کر دیا گیا کہ جب تک تم احرام بند ہو ، شکار کرنا خداپرستی کے شعائر میں سے ایک شعار کی توہین کرنا ہے ۔ البتہ جب شرعی قاعدہ کے مطابق احرام کی حد ختم ہو جائے تو شکار کرنے کی اجازت ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :8 چونکہ کفار نے اس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عرب کے قدیم دستور کے خلاف حج تک سے مسلمان محروم کر دیے گئے تھے ، اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گزرتے ہیں ، ان کو ہم بھی حج سے روک دیں اور زمانہ حج میں ان کے قافلوں پر چھاپے مارنے شروع کر دیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر ما کر انہیں اس ارادہ سے باز رکھا ۔
5: صلح حدیبیہ کے واقعے میں مکہ مکرمہ کے کافروں نے آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو حرم میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روکا تھا، مسلمانوں کو طبعی طور پر اس واقعے پر سخت غم وغصہ تھا اور یہ احتمال تھا کہ اس غم وغصہ کی وجہ سے کوئی مسلمان اپنے دشمن سے کوئی ایسی زیادتی کر بیٹھے جو شریعت کے خلاف ہو، اس آیت نے متنبہ کردیا کہ اسلام میں ہر چیز کی حدود مقرر ہیں اور دشمن کے ساتھ بھی کوئی زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔