Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ایک بےدلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا آپ مجھے خاص نصیحت کیجئے ۔ آپ نے فرمایا جب تو قرآن میں لفظ آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) سن لے تو فوراً کان لگا کر دل سے متوجہ ہو جا ، کیونکہ اس کے بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی نہ کسی برائی سے ممانعت ہو گی ۔ حضرت زہری فرماتے ہیں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے اس حکم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں ۔ حضرت فیثمہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بجائے ( یا ایھا الذین امنوا ) کے ( یا ایھا المساکین ) ہے ۔ ایک روایت ابن عباس کے نام سے بیان کی جاتی ہے کہ جہاں کہیں لفظ آیت ( یا ایھا الذین امنوا ) ہے ، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے سردار و شریف اور امیر حضرت علی ہیں ، اصحاب رسول میں سے ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے بجز حضرت علی بن ابو طالب کے کہ انہیں کسی امر میں نہیں ڈانٹا گیا ، یاد رہے کہ یہ اثر بالکل بےدلیل ہے ۔ اس کے الفاظ منکر ہیں اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے ، اس کی روایت منکر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے ۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے اپنے خاص خیالات کی تائید میں ہو ، کیسے قبول کی جا سکے گی؟ یقینا وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے گا ، اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ تمام صحابہ کو بجز حضرت علی کے ڈانٹا گیا ، اس سے مراد ان کی وہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ نکالنے کا حکم دیا تھا ، پس ایک سے زیادہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس پر عمل صرف حضرت علی ہی نے کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت ( ءَاَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقٰتٍ ) 58 ۔ المجادلہ:13 ) لیکن یہ غلط ہے کہ اس آیت میں صحابہ کو ڈانٹا گیا ، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے تھا ہی نہیں ، اختیاری امر تھا ۔ پھر اس پر عمل ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کر دیا ۔ پس حقیقتاً کسی سے اس کے خلاف عمل سرزد ہی نہیں ہوا ۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے کہ حضرت علی کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں گیا ۔ سورہ انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کو ڈانٹا گیا ہے ۔ جنہوں نے بدری قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تھا ، دراصل سوائے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باقی تمام صحابہ کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر کے باقی سب کو ہے ، جن میں حضرت علی بھی شامل ہیں ، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے ، واللہ اعلم ۔ ابن جریر میں حضرت محمد بن سلمہ فرماتے ہیں جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھوا کر دی تھی جبکہ انہیں نجران بھیجا تھا ، اس کتاب کو میں نے ابو بکر بن حزم کے پاس دیکھا تھا اور اسے پڑھا تھا ، اس میں اللہ اور رسول کے بہت سے احکام تھے ، اس میں آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ) 5 ۔ المائدہ:1 ) سے آیت ( يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ:4 ) تک بھی لکھا ہوا تھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت عمرو بن حزم کے پوتے حضرت ابو بکر بن محمد نے فرمایا ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کتاب ہے جسے آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھ کر دی تھی جبکہ انہیں یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے کے لئے اور ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے یمن بھیجا تھا ، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی ، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ ۔ اس میں آیت ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) کے بعد لکھا ہے یہ کتاب ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو ، یہ عہد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرو بن حزم کے لئے ہے جبکہ انہیں یمن بھیجا انہیں اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے رہیں اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں عقود سے مراد عہد ہیں ۔ ابن جریر اس پر اجماع بتاتے ہیں ۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے ہوں ، سب کو پورا کرنا فرض ہے ۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ عہد کو پورا کرنے میں اللہ کے حلال کو حلال جاننا ، اس کے حرام کو حرام جاننا ، اس کے فرائض کی پابندی کرنا ، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے ، کسی بات کا خلاف نہ کرو ، حد کو نہ توڑو ، کسی حرام کام کو نہ کرو ، اس پر سختی بہت ہے ۔ پڑھو آیت ( وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ ) 13 ۔ الرعد:25 ) ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد یہ کہ اللہ کے حلال کو ، اس کے حرام کو ، اس کے وعدوں کو ، جو ایمان کے بعد ہر مومن کے ذمہ آ جاتے ہیں پورا کرنا اللہ کی طرف سے فرض ہے ، فرائض کی پابندی ، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں یہ چھ عہد ہیں ، اللہ کا عہد ، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد ، شرکت کا عہد ، تجارت کا عہد ، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ محمد بن کعب کہتے ہیں پانچ ہیں ، جن میں جاہلیت کے زمانہ کی قسمیں ہیں اور شرکت تجارت کے عہد و پیمان ہیں ، جو لوگ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے کے بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے والے ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے ہوں تاہم واپس لوٹانے کا اختیار نہیں وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے ، لیکن امام شافعی اور امام احمد اس کے خلاف ہیں اور جمہور علماء کرام بھی اس کے مخالف ہیں ، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جو صحیح بخاری مسلم میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو سودے کے واپس لینے دینے کا اختیار ہے جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ جب وہ شخصوں نے خرید و فروخت کر لی تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے علیحدہ ہونے تک اختیار باقی ہے ۔ یہ حدیث صاف اور صریح ہے کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے ہو چکنے کے بعد کا ہے ۔ ہاں اسے بیع کے لازم ہو جانے کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے ، پس اسے نبھانا بھی اسی آیت کے ماتحت ضروری ہے ۔ پھر فرماتا ہے مویشی چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ہیں یعنی اونٹ ، گائے ، بکری ۔ ابو الحسن ، قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں عرب میں ان کے لغت کے مطابق بھی یہی ہے حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے بزرگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے اور اس کے پیٹ میں سے بچہ نکلے گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے ۔ ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اونٹنی ، گائے ، بکری ذبح کی جاتی ہے ، ان کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے تو ہم اسے کھا لیں یا پھینک دیں ۔ آپ نے فرمایا اگر چاہو کھا لو ، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ، ابو داؤد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پیٹ کے اندر والے بچے کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جن کا بیان تمہارے سامنے کیا جائے گا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مطلب مردار ، خون اور خنزیر کا گوشت ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مراد اس سے از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوے جس کے ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد اللہ کا فرمان آیت ( حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيْحَةُ وَمَآ اَ كَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ۭذٰلِكُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 5 ۔ المائدہ:3 ) ہے یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر منسوب و مشہور کی جائے اور جو گلا گھونٹنے سے مر جائے ، کسی ضرب سے مر جائے ، اونچی جگہ سے گر کر مر جائے اور کسی ٹکر لگنے سے مر جائے ، جسے درندہ کھانے لگے پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے ہیں لیکن ان وجوہ سے وہ حرام ہو جاتے ہیں اسی لئے اس کے بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو ۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے ، وہ بھی حرام ہے اور ایسا حرام کہ اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ، اسی لئے اس سے استدراک نہیں کیا گیا اور حلال کے ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں گیا ، پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے کہ چوپائے مویشی تم پر حلال ہیں لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے گا ۔ بعض احوال میں حرام ہیں ، اس کے بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے ۔ مراد انعام سے عام ہے بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے پلتے ہیں ، جیسے اونٹ ، گائے ، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں جیسے ہرن ، نیل گائے اور جنگلی گدھے ، پس پالتو جانوروں میں سے تو ان کو مخصوص کر لیا جو بیان ہوئے اور وحشی جانوروں میں سے احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے ہم نے تمہارے لئے چوپائے جانور ہر حال میں حلال کئے ہیں پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے سے رک جاؤ اور اسے حرام جانو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے جس طرح اس کے تمام احکام سراسر حکمت سے پر ہیں ، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے ، اللہ وہ حکم فرماتا ہے جو ارادہ کرتا ہے ۔ ایماندار رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو ، یعنی مناسک حج ، صفا ، مروہ ، قربانی کے جانور ، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز ، حرمت والے مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو ، ان کا ادب کرو ، ان کا لحاظ رکھو ، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے دشمنوں سے از خود لڑائی نہ چھیڑو ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:217 ) اے نبی لوگ تم سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کا حکم پوچھتے ہیں تم ان سے کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے اور آیت میں ہے مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الودع میں فرمایا زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آ گیا ہے جس پر وہ اس وقت تھا ، جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا ۔ سال بارہ ماہ کا ہے ، جن میں سے چار ماہ حرمت والے ہیں ۔ تین تو یکے بعد دیگرے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب ، جسے قبیلہ مضر رجب کہتا ہے جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان یہ ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے جیسے کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو ۔ لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے ۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے آیت ( فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ:5 ) یعنی جب حرمت والے مہینے گذر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گذر جانا ہے ، جب وہ چار مہینے گذر چکے جو اس وقت تھے ، تو اب ان کے بعد برابر جہاد جاری ہے اور قرآن نے پھر کوئی مہینہ خاص نہیں کیا ، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین سے جہاد کرنا ، ہر وقت اور ہر مہینے میں جاری ہی رکھا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر کوئی کافر حرم کے تمام درختوں کی چھال اپنے اوپر لپیٹ لے تب بھی اس کے لئے امن و امان نہ سمجھی جائے گی ۔ اگر مسلمانوں نے از خود اس سے پہلے اسے امن نہ دیا ہو ۔ اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں ہو سکتی ۔ پھر فرمایا کہ ھدی اور قلائد کی بےحرمتی بھی مت کرو ۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو ، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے اور قربانی کے لئے جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو ، ان کے گلے میں بطور نشان پٹا ڈالنے سے بھی نہ رکو ۔ تا کہ اس نشان سے ہر کوئی پہچان لے کہ یہ جانور اللہ کے لئے اللہ کی راہ کے لئے وقف ہو چکا ہے اب اسے کوئی برائی سے ہاتھ نہ لگائے گا بلکہ اسے دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں اس کی نیکی پر بھی اجر ملے گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے اسے بھی وہ اجر ملے گا ، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے والوں کو ملتا ہے ۔ یہ بھی خیال رہے اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو کم کر کے اسے نہیں دے گا بلکہ اسے اپنے پاس سے عطا فرمائے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب حج کے لئے نکلے تو آپ نے وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گذاری ، صبح اپنی نو بیویوں کے پاس گئے ، پھر غسل کر کے خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے جانور کے کوہان پر نشان کیا اور گلے میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے کا احرام باندھا ۔ قربانی کے لئے آپ نے بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے اوپر اوپر اپنے ساتھ لئے تھے ، جیسے کہ قرآن کا فرمان ہے جو شخص اللہ کے احکام کی تعظیم کرے اس کا دل تقوے والا ہے ۔ بعض سلف کا فرمان ہے کہ تعظیم یہ بھی ہے کہ قربانی کے جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے اور انہیں خوب کھلایا جائے اور مضبوط اور موٹا کیا جائے ۔ حضرت علی بن ابو طالب فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں ( رواہ اہل السنن ) مقاتل بن حیان فرماتے ہیں جاہلیت کے زمانے میں جب یہ لوگ اپنے وطن سے نکلتے تھے اور حرمت والے مہینے نہیں ہوتے تھے تو یہ اپنے اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے تھے اور حرم میں رہنے والے مشرک لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں اپنے جسم پر باندھ لیتے تھے ، اس سے عام لوگ انہیں امن دیتے تھے اور ان کو مارتے پیٹتے نہ تھے ۔ حضرت ابن عباس سے بروایت حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں آیت قلائد اور یہ آیت ( فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا ) 5 ۔ المائدہ:42 ) لیکن حضرت حسن سے جب سوال ہوتا ہے کہ کیا اس سورت میں سے کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو آپ فرماتے ہیں نہیں حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ وہ لوگ حرم کے درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے تھے اور اس سے انہیں امن ملتا تھا ، پس اللہ تعالیٰ نے حرم کے درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا ۔ پھر فرماتا ہے جو لوگ بیت اللہ کے ارادے سے نکلے ہوں ، ان سے لڑائی مت لڑو ۔ یہاں جو آئے وہ امن میں پہنچ گیا ، پس جو اس کے قصد سے چلا ہے اس کی نیت اللہ کے فضل کی تلاش اور اس کی رضامندی کی جستجو ہے تو اب اسے ڈر خوف کے دباؤ میں نہ رکھو ، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے بیت اللہ سے نہ روکو ۔ بعض کا قول ہے کہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مراد تجارت ہے ۔ جیسے اس آیت میں ہے ( لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:198 ) یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ رضوان سے مراد حج کرنے میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے ۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے ہیں یہ آیت خطیم بن ہند ، بکری کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس شخص نے مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے سال یہ عمرے کے ارادے سے آ رہا تھا تو بعض صحابہ کا ارادہ ہوا کہ اسے راستے میں روکیں ، اس پر یہ فرمان نازل ہوا ۔ امام ابن جرید نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے کہ جو مشرک مسلمانوں کی امان لئے ہوئے نہ ہو تو چاہے وہ بیت اللہ شریف کے ارادے سے جا رہا ہو یا بیت المقدس کے ارادے سے ، اسے قتل کرنا جائز ہے یہ حکم ان کے حق میں منسوخ ہے واللہ اعلم وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے کیلئے جا رہا ہے اور شرک و کفر کے ارادے کا قصد کرتا ہو تو اسے روکا جائے گا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پہلے مومن و مشرک سب حج کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے بعد یہ آیت اتری کہ ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ۚ وَاِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖٓ اِنْ شَاۗءَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ) 9 ۔ التوبہ:28 ) یعنی مشرکین سراسر نجس ہیں اور وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ آئیں گے اور فرمان ہے آیت ( اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ:18 ) یعنی مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے کے ہرگز اہل نہیں فرمان ہے آیت ( اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ) 9 ۔ التوبہ:18 ) یعنی اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ۔ پس مشرکین مسجدوں سے روک دیئے گئے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں منسوخ ہے ، جاہلیت کے زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے میں اسے کوئی نہ ستاتا ، پھر لوٹتے وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے روکے نہ جاتے تھے ، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے پاس لڑیں ، پھر اس حکم کو اس آیت نے منسوخ کر دیا کہ مشرکین سے لڑو جہاں کہیں انہیں پاؤ ۔ ابن جریر کا قول ہے کہ قلائد سے مراد یہی ہے جو ہار وہ حرم سے گلے میں ڈال لیتے تھے اور اس کی وجہ سے امن میں رہتے تھے ، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے خلاف کرتا تھا اسے بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے تھے پھر فرماتا ہے جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کر سکتے ہو احرام میں شکار کی ممانعت تھی ، اب احرام کے بعد پھر اس کی اباحت ہو گئی جو حکم ممانعت کے بعد ہو اس حکم سے وہی ثابت ہوتا ہے جو ممانعت سے پہلے اصل میں تھا ۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے بعد کا امر بھی وجوب کیلئے ہو گا ۔ اور اسی طرح مستحب و مباح کے بارے میں ۔ گو بعض نے کہا ہے کہ ایسا امر وجوب کیلئے ہی ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے ، صرف مباح ہونے کیلئے ہی ہوتا ہے لیکن دونوں جماعتوں کے خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں ۔ پس صحیح مذہب جس سے تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے بھی اسے ہی اختیار کیا واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے جس قوم نے تمہیں حدیبیہ والے سال مسجد حرام سے روکا تھا تو تم ان سے دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے حکم سے آگے بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا ، بلکہ تمہیں کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہئے ۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے جس میں فرمایا ہے تمہیں کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے ۔ عدل کیا کرو ، عدل ہی تقوے سے زیادہ قریب ہے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ گو کوئی تجھ سے تیرے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرے لیکن تجھے چاہئے کہ تو اس کے بارے میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے ۔ عدل ہی کی وجہ سے آسمان و زمین قائم ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے اصحاب کو جبکہ مشرکین نے بیت اللہ کی زیارت سے روکا اور حدیبیہ سے آگے بڑھنے ہی نہ دیا ، اسی رنج و غم میں صحابہ واپس آ رہے تھے جو مشرقی مشرک مکہ جاتے ہوئے انہیں ملے تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے ان کے گروہوں نے ہمیں روکا ہم بھی انہیں ان تک نہ جانے دیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ( شنان ) کے معنی بغض کے ہیں بعض عرب اسے شنان بھی کہتے ہیں لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں ، ہاں عربی شعروں میں شنتان بھی آیا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے ایمان والے بندوں کو نیکی کے کاموں پر ایک دوسرے کی تائید کرنے کو فرماتا ہے ، بر کہتے ہیں نیکیاں کرنے کو اور تقویٰ کہتے ہیں برائیوں کے چھوڑنے کو اور انہیں منع فرماتا ہے گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے کو ابن جریر فرماتے ہیں جس کام کے کرنے کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے نہ کرے ، یہ اثم ہے اور دین میں جو حدیں اللہ نے مقرر کر دی ہیں جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے بارے میں جناب باری نے مقرر فرمائے ہیں ، ان سے آگے نکل جانا عدوان ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اپنے بھائی کی مدد کر ، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مظلوم ہونے کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے لیکن ظالم ہونے کی صورت میں کیسے مدد کریں؟ فرمایا اسے ظلم نہ کرنے دو ، ظلم سے روک لو ، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ، مسند احمد میں ہے جو مسلمان لوگوں سے ملے جلے اور دین کے حوالے سے ان کی ایذاؤں پر صبر کرے وہ ان مسلمانوں سے بڑے اجر والا ہے ، جو نہ لوگوں سے ملے جلے ، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے مسند بزار میں ہے جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے کو ہدایت کرے وہ اس بھلائی کے کرنے والے جیسا ہی ہے امام ابو بکر بزار اسے بیان فرما کر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے مروی ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے ، اسے ان تمام کے بابر ثواب ملے گا جو قیامت تک آئیں گے اور اس کی تابعداری کریں گے ۔ لیکن ان کے ثواب میں سے گھٹا کر نہیں اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے تو قیامت تک جتنے لوگ اس برائی کو کریں گے ۔ ان سب کا جتنا گناہ ہو گا ، وہ سارا اس اکیلے کو ہو گا ۔ لیکن ان کے گناہ گھٹا کر نہیں ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص کسی ظالم کے ساتھ جائے تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے وہ یقینا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ ،

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 عقود عقد کی جمع ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہدوپیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی جن کا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عاقل و بالغ ٹھہرایا ہے اور عہد و پیماں کرنے پر معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ 1۔ 2 بھیمہ چوپائے (چار ٹانگوں والے) جانور کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بہم، ابہام ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل وفہم میں چونکہ ابہام ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا کہا جاتا ہے انعام اونٹ، گائے بکری بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے یہ بھیمتہ الانعام نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں جن کی تفصیل ( سورة الانعام آیت نمبر 143 میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلًا ہرن نیل گائے وغیرہ جن کا عمومًا شکار کیا جاتا ہے یہ بھی حلال ہیں۔ حالت احرام میں ان کا دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانور ذوناب اور جو پرندے ذومخلب نہیں ہیں وہ سب حلال ہیں جیسا کہ بقرہ آیت نمبر 173 کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذوناب کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنی کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہے اور چیرتا ہو مثلا شیر چیتا کتا بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو مثلًا شکرہ، باز، شاہیں، عقاب وغیرہ حرام ہیں۔ 1۔ 3 ان کی تفصیل آیت نمبر 3 میں آرہی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] ایفائے عہد :۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ صراحت موجود ہے کہ یہود کی بدعہدیوں اور عہد شکنیوں کے باعث ان پر کئی ایسی چیزیں حرام کردی گئی تھیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں لہذا اس سورة میں حلت و حرمت کے احکام بیان کرنے سے پیشتر بطور تمہید اپنے معاہدات کو پورا کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے خواہ یہ عہد اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے ہوں یا لوگوں سے، بیع و شرا سے متعلق ہوں یا نکاح اور منگنی وغیرہ سے، اپنوں سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر مسلموں سے، صلح سے متعلق ہوں یا جنگ سے غرض ہر طرح کے معاہدات کو پورا کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ عہد کو پورا نہ کرنا نفاق کی علامت ہے جیسا کہ پہلے اس ضمن میں صحیح احادیث درج کی جا چکی ہیں۔- [٢] حلال اور حرام جانور :۔ انعام سے اہل عرب کے ہاں اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ مراد لیے جاتے ہیں اور بہیمہ وہ جانور ہیں جن کا گزارا گھاس پات پر ہوتا ہو۔ اس طرح اس قبیل میں وہ جانور بھی شامل ہوجاتے ہیں جو نباتاتی غذاؤں پر پرورش پاتے ہوں اور عرب کے علاوہ دوسرے ممالک میں پائے جاتے ہوں مثلاً گائے کے ساتھ نیل گائے، بھینس اور بکری کے ساتھ ہرن اور بارہ سنگھا وغیرہ بھی حلال ہوں گے اور جو جانور حیوانی غذا پر پرورش پاتے ہیں بالفاظ دیگر جو جانور گوشت خور ہیں وہ سب حرام ہیں جنہیں عام زبان میں درندے کہا جاتا ہے چناچہ سیدنا ثعلبہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمیں ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا (بخاری۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب اکل کل ذی ناب من السباع۔ مسلم۔ کتاب الصید والذبائح۔ باب تحریم اکل ذی ناب) نیز آپ نے ہر شکاری پرندے کو حرام قرار دیا جو اپنے پنجوں سے شکار کرتا ہے (حوالہ ایضاً )- [٣] یعنی اس سورة کی تیسری آیت میں بیان ہوں گے۔- [٤] احرام کیا ہے ؟ احرام اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو حج اور عمرہ کرنے والے اپنے میقات سے باندھتے ہیں اور یہ مردوں کے لیے صرف ایک تہبند اور ایک چادر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور عورتوں کے لیے ان کا عام لباس ہی احرام کا بھی لباس ہوتا ہے۔ احرام کی حالت میں انہیں کوئی چیز چہرہ پر نہ ڈالنا چاہیے۔ احرام کی حالت میں چند پابندیاں ضروری ہیں مثلاً وہ خوشبو یا زیب وزینت کی چیزیں استعمال نہیں کرسکتا۔ نہ ہی اپنی بیوی سے صحبت کرسکتا ہے۔- محرم کو شکار کی ممانعت :۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود شکار کرسکتا ہے اور نہ ہی دوسرے کو شکار کرنے میں مدد دے سکتا ہے البتہ شکار کردہ جانور سے کچھ کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔ چناچہ سیدنا ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم (حدیبیہ کے سال) آپ کے ہمراہ روانہ ہوئے اور اپنے چند ساتھیوں سمیت جو احرام باندھے تھے، پیچھے رہ گئے لیکن ابو قتادہ نے احرام نہیں باندھا تھا۔ ان احرام باندھے ہوئے ہمراہیوں نے ایک گورخر دیکھا جس پر ابو قتادہ کی نظر نہ پڑی۔ انہوں نے بھی ابو قتادہ کو شکار کے متعلق کچھ نہ بتلایا، یہاں تک کہ ابو قتادہ کی خود اس شکار پر نظر پڑگئی۔ وہ اپنے گھوڑے پر جس کا نام جرادہ تھا سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا، ذرا میرا کوڑا مجھے پکڑا دو ۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ آخر ابو قتادہ نے خود اتر کر اپنا کوڑا لیا اور اس گورخر پر حملہ کیا اور اس کو زخمی کر کے اسے گرا دیا۔ پھر ابو قتادہ نے اس شکار میں سے خود بھی کھایا اور ان ساتھیوں نے بھی کھایا جو احرام باندھے ہوئے تھے۔ پھر جب یہ لوگ آپ سے جا کر ملے اور ان سے قصہ بیان کیا تو آپ نے پوچھا، کیا اس شکار کا کچھ گوشت باقی ہے ؟ ابو قتادہ نے کہا ہاں۔ ایک ران ہے۔ چناچہ آپ نے وہ ران لے لی اور اس میں سے گوشت کھایا۔ (بخاری کتاب الجہاد۔ باب اسم الفرس والحمار) پھر جس طرح احرام کی حالت میں شکار کرنا حرام ہے اسی طرح حرم مکہ میں بھی شکار کرنا حرام اور ممنوع ہے فرق صرف یہ ہے کہ حرم مکہ میں کسی وقت بھی شکار نہیں کیا جاسکتا خواہ کوئی احرام کی حالت میں ہو یا نہ ہو۔ جبکہ احرام باندھنے والا احرام کھولنے کے بعد حرم مکہ کے علاوہ دوسرے مقامات سے شکار کرسکتا ہے اور جس طرح احرام کی چند ایک پابندیاں ہیں اسی طرح حرم مکہ کی بھی ہیں۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة حج کی آیت نمبر ٢٥ کا حاشیہ۔- [٥] حلت وحرمت کے اختیارات :۔ یعنی حلت و حرمت کے یا بالفاظ دیگر قانون سازی کے جملہ اختیارات اللہ ہی کو ہیں۔ لہذا جس چیز کو وہ چاہے حلال قرار دے اور جس کو چاہے حرام کر دے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چند اشیاء کی حلت و حرمت کے احکام دیئے ہیں وہ یا تو اس اختیار کے تحت آپ نے ایسے احکام دیئے ہیں جو اللہ نے آپ کو بحیثیت اللہ کے رسول تفویض فرمائے یا پھر وحی خفی کے ذریعہ آپ کو مطلع کیا گیا تھا اہل ہنود تین چیزوں خدا، روح اور مادہ کو ازلی ابدی قرار دیتے ہیں۔ روح کو ازلی ابدی تسلیم کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ تمام ذی حیات یا جاندار اشیاء انسان کے ہم مرتبہ ہیں لہذا انسان کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی موذی جانور کو گزند پہنچائے یا اسے مار ڈالے یا اپنے ذاتی فائدے کی خاطر اسے ذبح کر کے اس کا گوشت پوست اپنے استعمال میں لائے۔ وحی الہیٰ تو وحدت انسان کا تصور پیش کرتی ہے۔ لیکن اس وحدت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انسان کو چار ذاتوں میں تقسیم کر ڈالا۔ اور یہ لوگ وحدت انسان کی بجائے وحدت حیات کا تصور پیش کرتے ہیں۔ موذی جانوروں کو دکھ نہ دینے کا نظریہ چونکہ غیر فطری ہے لہذا ان لوگوں نے اس نظریہ میں خاصی لچک پیدا کرلی۔ اور بعض دفعہ ایسے جانوروں کی کثرت کے عذاب سے بھی دو چار ہوئے۔ رہا ان کا یہ اعتراض کہ اسلام مسلمانوں کو بےزبان جانوروں کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مار ڈالنے کا حکم کیوں دیتا ہے تو اس کا نقلی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے۔ انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کی ہے اور انسان شریعت کے قوانین کے تحت ان چیزوں سے انتفاع کا حق رکھتا ہے اور یہی بات اس آیت سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہے حکم دیتا ہے اور عقلی جواب یہ ہے کہ روح اور جسم کے انفصال کے وقت ہر جاندار کو بہرحال تکلیف پہنچتی ہے۔ ایک جاندار جو طبعی موت مرتا ہے وہ بوڑھا ہو کر اور بیماری کے دکھ سہہ سہہ کر مرتا ہے اور ذبح یا شکار کی صورت میں غالباً اس سے کم عرصہ کے لیے تکلیف پہنچتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا۔۔ : اس آیت میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں : 1 عقود اور عہود کا پورا کرنا۔ 2 چوپاؤں کا حلال ہونا۔ 3 کچھ چوپاؤں کا حرام ہونا، جن کا ذکر اس سورت کی دوسری اور تیسری آیت میں ہے۔ 4 محرم کے لیے اور حرم میں شکار کا حرام ہونا۔ 5 غیر محرم کے لیے غیر حرم میں شکار کا حلال ہونا۔ - بِالْعُقُوْدِ ڛ : یہ ” عَقْدٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی گرہ لگانا ہے، عہد و پیمان کے معنی میں بھی آتا ہے، کیونکہ وہ بھی گرہ کی طرح پختہ کیا جاتا ہے، مراد شریعت کے احکام ہیں۔ دوسری جگہ عقد کو عہد سے بھی تعبیر کیا ہے، فرمایا : (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ) [ البقرۃ : ٤٠ ] ” اور تم میرا عہد پورا کرو۔ “ اس میں آپس کے عہد و پیمان بھی شامل ہیں۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے، اس کے بعد نیچے اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے۔ (کبیر، ابن کثیر)- اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيْمَةُ الْاَنْعَامِ : ” بَهِيْمَةُ “ سے مراد درندوں کو چھوڑ کر باقی چوپائے ہیں، وہ سب حلال ہیں، خواہ پالتو ہوں یا وحشی، مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، سوائے ان کے جن کا نام لے کر قرآن یا حدیث میں حرام کہا گیا ہے، مثلاً گدھا وغیرہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٧٣) ” الانعام “ سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (١٤٢ تا ١٤٤) ۔- اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : اس کی تفسیر اسی سورت کی آیت (٢، ٣) میں آرہی ہے۔ - غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ: ” حرم “ یہ ” حَرَامٌ“ کی جمع ہے، جس نے عمرہ یا حج کا احرام باندھا ہو، اسی طرح جو شخص مکہ کی حدود حرم میں ہو، خواہ احرام نہ باندھا ہو، اس حالت میں شکار بھی ممنوع ہے اور شکار کرنے والے کی کسی طریقے سے مدد کی بھی ممانعت آئی ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ (٩٥، ٩٦) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کو بھی حرم قرار دیا، اس کی حدود میں بھی شکار منع ہے۔ [ بخاری، فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ : ١٨٦٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سوت کا شان نزول اور خلاصہ مضامین :- یہ سورة مائدہ کی ابتدائی آیت ہے۔ سورة مائدہ بالاتفاق مدنی سورة ہے اور مدنی سورتوں میں بھی آخر کی سورت ہے، یہاں تک کہ بعض حضرات نے اس کو قرآن کی آخری سورت بھی کہا ہے۔ مسند احمد میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر (رض) و اسماء بنت یزید منقول ہے کہ سورة مائدہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل ہوئی جب کہ آپ سفر میں عضبا نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ نزول وحی کے وقت جو غیر معمولی ثقل اور بوجھ ہوا کرتا تھا حسب دستور اس وقت بھی ہوا۔ یہاں تک کہ اونٹنی عاجز ہوگئی۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نیچے اتر آئے۔ یہ سفر بظاہر حجة الوداع کا سفر ہے جیسا کہ بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حجة الوداع ہجرت کے دسویں سال میں ہوا، اور اس سے واپسی کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیوی حیات تقریباً اسی (80) دن رہی۔ ابن حبان نے بحر محیط میں فرمایا کہ سورة مائدہ کے بعض اجزاء سفر حدیبیہ میں اور بعض فتح مکہ کے سفر میں اور بعض حجة الوداع کے سفر میں نازل ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت نزول قرآن کے آخری مراحل میں نازل ہوئی ہے۔ خواہ بالکل آخری سورت نہ ہو۔ - روح المعانی میں بحوالہ ابو عبید حضرت حمزہ بن حبیب اور عطیہ بن قیس کی یہ روایت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ المائدة من اٰخر القراٰن تنزیلا فاحلو احلالہا وحترموا حرامھا۔ یعنی سورة مائدہ ان چیزوں میں سے ہے جو نزول قرآن کے آخری دور میں نازل کی گئی ہیں۔ اس میں جو چیز حلال کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حلال اور جو چیز حرام کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کے لئے حرام سمجھو۔ - اسی قسم کی ایک روایت ابن کثیر نے مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت جبیر بن نفیر (رض) سے نقل کی ہے کہ وہ حج کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا جبیر تم سورة مائدہ پڑھتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا ہاں پڑھتا ہوں۔ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ یہ قرآن پاک کی آخری سورة ہے اور اس میں جو احکام حلال و حرام کے آئے ہیں وہ محکم ہیں۔ ان میں نسخ کا احتمال نہیں ہے۔ ان کا خاص اہتمام کرو۔ سورة مائدہ میں بھی سورة نساء کی طرح فروعی احکام، معاملات، معاہدات وغیرہ کے زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔ اسی لئے روح المعانی نے فرمایا ہے کہ سورة بقرہ اور سورة آل عمران باعتبار مضامین کے متحد ہیں۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر احکام اصول عقائد، توحید، رسالت، قیامت وغیرہ کے آئے ہیں۔ فروعی احکام ضمنی ہیں اور سورة نساء اور مائدہ باعتبار مضامین کے متحد ہیں کہ ان دونوں میں بیشتر فروعی احکام کا بیان ہے، اصول کا بیان ضمنی ہے۔ سورة نساء میں باہمی معاملات اور حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے۔ شوہر بیوی کے حقوق، یتیموں کے حقوق، والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حقوق کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ سورة مائدہ کی پہلی آیت میں بھی ان تمام معاملات اور معاہدات کی پابندی اور ان کے پورا کرنے کی ہدایت آئی ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اوفوا بالعقود۔ اسی لئے سورة مائدہ کا دوسرا نام سورة عقود بھی ہے۔ (بحر محیط)- معاہدات اور معاملات کے بارے میں یہ سورة اور بالخصوص اس کی ابتدائی آیت ایک خاص حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عمرو بن حزم (رض) کو یمن کا عامل (گورنر) بنا کر بھیجا اور ایک فرمان لکھ کر ان کے حوالہ کیا۔ تو اس فرمان کے سرنامہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تحریر فرمائی تھی۔- خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (تمہارے ایمان کا مقتضا یہ ہے کہ) اپنے عہدوں کو (جو کہ ایمان کے ضمن میں تم نے خدا تعالیٰ سے کئے ہیں، پورا کرو (یعنی احکام شرعیہ کو بجا لاؤ کیونکہ ایمان لانے سے سب کا التزام ہوگیا اور التزام کا متقضی ایفاء ہے) تمہارے لئے تمام چوپائے جو مشابہ (ان) انعام (یعنی اونٹ، بکری، گائے) کے ہوں (جن کی حلت اس سے قبل سورة انعام میں جو کہ مکیہ ہے معلوم ہوچکی ہے، پس ان کے مشابہ جتنے چوپائے ہیں سب) حلال کئے گئے ہیں (جیسے ہرن، نیل گائے وغیرہ کہ اونٹ بکری گائے کے مشابہ ہیں اس بات میں کہ درندے اور شکاری نہیں بجز ان بہائم کے جو کہ دوسرے دلائل شرعیہ حدیث وغیرہ سے مخصوص و مستثنیٰ ہوچکے ہیں۔ جیسے گدھا، خچر وغیرہ۔ ان مستثنیات کے سوا اور سب بہائم اہلی و وحشی حلال ہیں) مگر جن کا ذکر آگے (آیت حرمت علیکم المیتة الخ میں) آتا ہے (کہ وہ باوجود بھیمة الانعام میں داخل ہونے اور مخصوص بالحدیث وغیرہ سے خارج ہونے کے بھی حرام ہیں۔ اور باقی تم کو حلال ہیں) لیکن (ان میں) جو شکار (ہیں ان) کو حلال مت سمجھنا جس حالت میں کہ تم احرام (یا حرم) میں ہو (مثلاً حج وعمرہ کا احرام باندھے ہو گو حرم سے خارج ہو یا یہ کہ حرم کے اندر ہو کہ غالباً شکار بھی حرم کے اندر ہوگا، کیونکہ اصل مدار حکم کا شکار کا حرم کے اندر ہونا ہے گو احرام نہ باندھے ہو، دونوں حالتوں میں شکار یعنی برّی و وحشی کا حرام ہے) بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہیں حکم کریں (یعنی وہی مصلحت ہوتا ہے، پس جس جانور کو چاہا ہمیشہ کے لئے فی نفسہ اوقات اضطرار میں حرام کردیا جس کو چاہا ہمیشہ کے لئے حلال کردیا۔ جس کو چاہا کسی حالت میں حلال کردیا کسی حالت میں حرام کردیا۔ تم کو ہر حالت میں امتثال واجب ہے۔ - معارف و مسائل - اس سورت کی پہلی آیت کا پہلا جملہ ایک ایسا جامع جملہ ہے کہ اس کی تشریح و تفسیر میں ہزاروں صفحات لکھے جاسکتے ہیں ارشاد ہے یا ایھا الذین بالعقود۔ یعنی اے ایمان والو اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔ اس میں پہلے یا ایھا الذین امنوا سے خطاب فرما کر مضمون کی اہمیت کی طرف متوجہ کردیا گیا کہ اس میں جو حکم ہے وہ عین ایمان کا تقاضا ہے۔ اس کے بعد حکم فرمایا اوفوا بالعقود۔ لفظ عقود عقد کی جمع ہے۔ جس کے لفظی معنی باندھنے کے ہیں۔ اور جو معاہدہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں بندھ جائے اس کو بھی عقد کہا جاتا ہے۔ اس لئے بمعنی عہود ہوگیا۔- امام تفسیر ابن جریر نے مفسرین صحابہ وتابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ امام جصاص نے فرمایا کہ عقد کہا جائے یا عہد و معاہدہ، اس کا اطلاق ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جس میں دو فریق نے آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی پابندی ایک دوسرے پر ڈالی ہو۔ اور دونوں متفق ہو کر اس کے پابند ہوگئے ہوں۔ ہمارے عرف میں اسی کا نام معاہدہ ہے اسی لئے خلاصہ مضمون اس جملہ کا یہ ہوگیا کہ باہمی معاہدات کا پورا کرنا لازم و ضروری سمجھو۔ - اب یہ دیکھنا ہے کہ ان معاہدات سے کون سے معاہدات مراد ہیں۔ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال بظاہر مختلف نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے اس سے مراد وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے متعلق لئے ہیں۔ یا وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کئے ہوئے احکام حلال و حرام سے متعلق اپنے بندوں سے لئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے اس جگہ وہ معاہدات مراد ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرلیا کرتے ہیں۔ جیسے معاہدہ نکاح، معاہدہ بیع و شراء وغیرہ۔ مفسرین میں سے ابن زید اور زید بن اسلم اسی طرف گئے ہیں۔ اور بعض نے فرمایا کہ معاہدات سے وہ حلف اور معاہدے مراد ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے باہمی امداد کے لئے لیا کرتے تھے۔ مجاہد، ربیع، قتادہ وغیرہ، مفسرین نے بھی یہی فرمایا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں۔ بلکہ یہ سب قسم کے معاہدات لفظ عقود کے تحت میں داخل ہیں اور سبھی پورے کرنے کے لئے قرآن کریم نے ہدایت دی ہے۔- اسی لئے امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ معاہدات کی جتنی قسمیں ہیں سب اس لفظ کے حکم میں داخل ہیں اور پھر فرمایا کہ اس کی ابتدائی تین قسمیں ہیں۔ ایک وہ معاہدہ جو انسان کا رب العالمین کے ساتھ ہے۔ مثلاً ایمان، اطاعت کا عہد یا حلال و حرام کی پابندی کا عہد۔ دوسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا خود اپنے نفس کے ساتھ ہے، جیسے کسی چیز کی نذر اپنے ذمہ مان لے، یا حلف کرکے کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کرلے، تیسرے وہ معاہدہ جو ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ ہے۔ اور تیسری قسم میں وہ تمام معاہدات شامل ہیں جو دو شخصوں یا دو جماعتوں یا دو حکمتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔- حکومتوں کے بین العالمی معاہدات۔ یا باہمی سمجھوتے۔ جماعتوں کے باہمی عہد و میثاق اور دو انسانوں کے درمیان ہر طرح کے معاملات نکاح، تجارت، شرکت، اجارہ، ہبہ وغیرہ ان تمام معاہدات میں جو جائز شرطیں باہم طے ہوجائیں اس آیت کی رو سے ان کی پابندی ہر فریق پر لازم و واجب ہے۔ اور جائز کی قید اس لئے لگائی کہ خلاف شرع شرط لگانا یا اس کا قبول کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔- اس کے بعد آیت کے دوسرے جملہ میں اس عام ضابطہ کی خاص جزئیات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے احلت لکم الانعام۔ لفظ بھیمة ان جانوروں کے لئے بولا جاتا ہے، جن کو عادةً غیر ذوی العقول سمجھا جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کی بولی کو عادةً نہیں سمجھتے تو ان کی مراد مبہم رہتی ہے۔ اور امام شعرانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کو عقل نہیں اور عقل کی باتیں اس پر مبہم رہتی ہیں۔ جیسا کہ لوگوں کا عام خیال ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عقل و ادراک سے کوئی جانور بلکہ کوئی شجر و حجر بھی خالی نہیں۔ ہاں درجات کا فرق ضرور ہے۔ ان چیزوں میں اتنی عقل نہیں ہے جتنی انسان میں اسی لئے انسان کو احکام کا مکلف بنایا گیا ہے۔ جانوروں کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ ورنہ اپنی ضروریات زندگی کی حد تک ہر جانور بلکہ ہر شجر و حجر کو حق تعالیٰ نے عقل و ادراک بخشا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ۔ عقل نہ ہوتی تو اپنے خالق ومالک کو کس طرح پہچانتی اور کس طرح تسبیح کرتی۔- امام شعرانی کے فرمانے کا خلاصہ یہ ہے کہ بہیمہ کو بہیمہ اس لئے نہیں کہتے کہ اس کی بےعقلی کے سبب معلومات اس پر مبہم رہتے ہیں بلکہ اس لئے کہ اس کی بولی لوگ نہیں سمجھتے۔ اس کا کلام لوگوں پر مبہم رہتا ہے۔ بہرحال لفظ بہیمہ ہر جاندار کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چوپایہ جانداروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔- اور لفظ انعام نعم کی جمع ہے۔ پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ جن کی آٹھ قسمیں سورة انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ان کو انعام کہا جاتا ہے۔ بہیمہ کا لفظ عام تھا۔ انعام کے لفظ نے اس کو خاص کردیا۔ مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ قسمیں تمہارے لئے حلال کردی گئیں۔ لفظ عقود کے تحت میں ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ تمام معاہدات داخل ہیں۔ ان میں سے ایک معاہدہ وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے حلال و حرام کی پابندی کے متعلق لیا ہے۔ اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کردیا ہے۔ ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کرکے کھا سکتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی ان حدود کے اندر رکھ کر پابندی کرو۔ نہ تو مجوسی اور بت پرستوں کی طرح مطلقاً ان جانوروں کے ذبح ہی کو حرام قرار دو کہ یہ حکمت حق جل شانہ، پر اعتراض اور اس کی نعمت کی ناشکری ہے۔ اور نہ دوسرے گوشت خور فرقوں کی طرح بےقید ہو کر ہر طرح کے جانور کو کھا جاو بلکہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے قانون کے تحت جن جانوروں کو اس نے حلال کیا ہے ان کو کھاو۔ اور جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے ان سے بچو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی خالق کائنات ہے۔ وہ ہر جانور کی حقیقت اور خواص سے اور انسان کے اندر ان سے پیدا ہونے والے اثرات سے واقف ہے۔ وہ طیبات یعنی پاک اور ستھری چیزوں کو انسان کے لئے حلال کردیتے ہیں۔ جن کے کھانے سے انسان کی جسمانی صحت پر یا روحانی اخلاق پر برا اثر نہ پڑے اور گندے ناپاک جانوروں سے منع فرماتے ہیں۔ جو انسانی صحت کے لئے مہلک ہیں یا ان کے اخلاق خراب کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اس حکم عام سے چند چیزوں کا استثناء فرمایا۔ - پہلا استثناء یہ ہے، الا ما یتلی علیکم۔ یعنی بجز ان جانوروں کے جن کی حرمت قرآن میں بیان کردی گئی ہے۔ مثلاً مردار جانور یا خنزیر وغیرہ۔ دوسرا استثناء : غیر محلی حرمت سے فرمایا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چوپائے جانور تمہارے لئے حلال ہیں، اور جنگل کا شکار بھی حلال ہے۔ مگر جبکہ تم نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا ہوا ہو، تو اس وقت شکار کرنا جرم و گناہ ہے اس سے بچو۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ ان اللہ یحکم ما یرید۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے کسی کو حق نہیں کہ اس کے ماننے میں چون و چرا کرے۔ اس میں شاید اس حکمت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کیلئے بعض جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کی اجازت کوئی ظلم نہیں۔ جس مالک نے یہ سب جانیں بنائی ہیں۔ اسی نے پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ یہ قانون بھی بنایا ہے کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کے لئے غذا بنایا ہے۔ زمین کی مٹی درختوں کی غذا ہے اور درخت جانوروں کی غذا۔ اور جانور انسان کی غذا۔ انسان سے اعلیٰ کوئی مخلوق اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس لئے انسان کسی کی غذا نہیں بن سکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۝ ٠ۥۭ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَہِيْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا يُتْلٰى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يَحْكُمُ مَا يُرِيْدُ۝ ١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- عقد - العَقْدُ : الجمع بين أطراف الشیء، ويستعمل ذلک في الأجسام الصّلبة کعقد الحبل وعقد البناء، ثم يستعار ذلک للمعاني نحو : عَقْدِ البیع، والعهد، وغیرهما، فيقال : عاقدته، وعَقَدْتُهُ ، وتَعَاقَدْنَا، وعَقَدْتُ يمينه . قال تعالی: عاقدت أيمانکم «5» وقرئ : عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6» ، وقال : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] ، وقرئ : بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ «1» ، ومنه قيل : لفلان عقیدة، وقیل للقلادة : عِقْدٌ. والعَقْدُ مصدر استعمل اسما فجمع، نحو : أَوْفُوا بِالْعُقُودِ- [ المائدة 1] ، - ( ع ق د ) العقد - کے معنی کسی چیز کے اطراف کو جمع کردینے یعنی گرہ باندھنے کے ہیں یہ اصل میں تو سخت اجسام کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے عقد الحبل ( رسی کی گرہ باندھنا عقد البناء وغیرہ محاورات ہیں ۔ پھر بطور استعارہ معانی پر ۔ بھی بولا جاتا ہے جیسے عقد البیع سودے کو پختہ کرنا عقد العھد محکم عہد باندھنا وغیرہ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے اس سے پختہ عہد وبیمان باندھا قرآن میں ہے : ۔ عَقَدَتْ أَيْمانُكُمْ «6»جن لوگوں سے تم نے پختہ عہد باندھ رکھے ہوں ۔ ایک قرات میں عقدت ایمانکم سے نیز فرمایا : ۔ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ [ المائدة 89] پختہ قسموں ہر ایک قرات میں ہے اسی سے لفلان عقیدۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی پختہ یقین کے ہیں العقد ( گلے کا ہار ) اور العقد یہ اصل میں مصدر ہیں اور بطور اسم کے استعمال ہوتے ہیں اس کی جمع عقود آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [ المائدة 1] اپنے اقراروں کو پورا کرو - حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - بهم - البُهْمَة : الحجر الصلب، وقیل للشجاع بهمة تشبيها به، وقیل لكلّ ما يصعب علی الحاسة إدراکه إن کان محسوسا، وعلی الفهم إن کان معقولا : مُبْهَم .- ويقال : أَبْهَمْتُ كذا فَاسْتَبْهَمَ ، وأَبْهَمْتُ الباب : أغلقته إغلاقا لا يهتدی لفتحه، والبَهيمةُ :- ما لا نطق له، وذلک لما في صوته من الإبهام، لکن خصّ في التعارف بما عدا السباع والطیر .- فقال تعالی: أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] ، ولیل بَهِيم، فعیل بمعنی مُفْعَل «3» ، قد أبهم أمره للظلمة، أو في معنی مفعل لأنه يبهم ما يعنّ فيه فلا يدرك، وفرس بَهِيم : إذا کان علی لون واحد لا يكاد تميّزه العین غاية التمييز، ومنه ما روي أنه : «يحشر الناس يوم القیامة بُهْماً» «4» أي : عراة، وقیل : معرّون مما يتوسّمون به في الدنیا ويتزینون به، والله أعلم .- والبَهْم : صغار الغنم، والبُهْمَى: نبات يستبهم منبته لشوکه، وقد أبهمت الأرض : كثر بهمها «5» ، نحو : أعشبت وأبقلت، أي : كثر عشبها .- ( ب ھ م ) البھمۃ کے معنی ٹھوس چنان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر بہادر آدمی کو بھمۃ کہا جاتا ہے نیز ہر وہ حسی یا عقلی چیز جسکا عقل و حواس سے ادراک نہ ہوسکے اسے مبھم کہا جاتا ہے ۔ ابھمت کذا مبہم کرنا اس کا مطاوع استبھم ہے ۔ ابھمت الباب دروازے کو اس طرح بند کرنا کہ کھل نہ سکے ۔ البھیمۃ چوپایہ جانور کیونکہ اس کی صورت مبہم ہوتی ہے ۔ مگر عرف میں درند اور پرند کے علاوہ باقی جانوروں کو بہیمہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعامِ [ المائدة 1] تمہارے لئے چار پاے جانور ( جو چرنے والے ہیں ) حلال کردیئے گئے ہیں ۔ سیاہ رات فعیل بمعنی مععل ہے اور تاریکی کے باعث اس کا معاملہ بھی چونکہ مبہم ہوتا ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے یا فعیل بمعنی مفعل ہے چونکہ وہ چیزوں کو اندر چھپا لیتی ہے اس لئے اسے بھیم کہا جاتا ہے فرس بھیم یک رنگ گھوڑا جس کی اچھی طرح پہچان نہ ہو سکے اسی سی ایک رایت میں ہے کے دن لوگ ننگے بدن اٹھیں گے بعض نے کہا ہے کہ دنیای زیب وزینت اور آرائش سے عاری ہوں گے واللہ اعلم "۔ البھم ۔ بھیڑ بکری کے بچے ۔ واحد بھمۃ البھمی ایک قسم کی گھاس میں جس کے پیچدار ہونے کی وجہ اس کی جڑیں معلوم نہیں ہوسکتیں کہ کہاں میں ابھمت الارج زمین میں بھمی گھاس کا بکثرت ہونا جیسا کہ کے معنی گھاس اور سبزی کے بکثرت ہونے کے ہیں ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - صيد - الصَّيْدُ : مصدرُ صَادَ ، وهو تناول ما يظفر بهممّا کان ممتنعا، وفي الشّرع : تناول الحیوانات الممتنعة ما لم يكن مملوکا، والمتناول منه ما کان حلالا، وقد يسمّى المَصِيدُ صَيْداً بقوله : أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] ، أي : اصْطِيَادُ ما في البحر، وأما قوله : لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] ، وقوله : وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] ، وقوله : غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] ، فإنّ الصَّيْدَ في هذه المواضع مختصّ بما يؤكل لحمه فيما قال بدلالة ما روي : «خمسة يقتلهنّ المحرم في الحلّ والحرم : الحيّة والعقرب والفأرة والذّئب والکلب العقور» - ( ص ی د ) الصید ( ض ) یہ صاد کا مصدر اور اس کے اصل معنی تو کسیمحفوظ چیز پر قدرت حاصل کر کے اسے پکڑا لینے کے ہیں مگر شرعا ان حیوانات کے پکڑنے پر بولا جاتا ہے جو اپنی حفاطت آپ کریں بشرطیکہ وہ جانور حلال ہوں اور کسی کی ملکیت نہ ہوں اور کبھی مصید یعنی شکار کئے ہوئے جانور کو بھی صید کہہ دیتے ہیں چناچہ آیت : ۔ أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ [ المائدة 96] کے معنی ہیں کہ ( احرام کی حالت میں ) تمہارے لئے سمندری جانوروں کا شکار حلال ہے اور آیت کریمہ : ۔ لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 95] جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا ۔ وَإِذا حَلَلْتُمْ فَاصْطادُوا[ المائدة 2] اور جب احرام اتاردو ۔ تو ( پھر اختیار ہے کہ ) شکار کرو ۔ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ [ المائدة 1] مگر احرام ( حج ) میں شکار کو حلال نہ جاننا ہیں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ یہاں الصید سے وہ جانور مراد ہیں جنکا گوشت کھایا جاتا ہے کیونکہ حدیث میں خمسۃ یقتلھن المحرام فی الحل والحرام الحیۃ والعقرب والفارۃ والذئب والکلب والعقور) پانچ جانور یعنی سانپ ، بچھو، چوہیا، بھٹیریا اور کاٹ کھانیوالے کتے یعنی درند ہ جانور کو محرم حرم کی حدود کے اندر اور باہر ہر جگہ قتل کرسکتا ہے ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

پابندی عہد و معاہدہ - ارشاد باری ہے یایھا الذین امنوا اوفوابالعقود۔ اے ایمان لانے والو بندشوں کی پوری پابندی کرو) حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، مظرف، ربیع، ضحاک، سدی، ابن جریج اور ثوری کا قول ہے کہ اس مقام پر عقود سے عہود مراد ہے۔ معمہ نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت میں کئے گئے معاہدے وغیرہ ہیں۔ حضرت جبیر بن مطعم (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے۔ لاحلف فی الاسلام داما حلف الجاھلیۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ۔ اسلام میں کوئی حلف ن ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں کئے گئے حلف کو اسلام نے اور مضبوط کردیا ہے) ۔ ابن عیینہ نے عاصم الاحوال سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت انس (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے گھر کے احاطے میں بیٹھ کر مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا معاہدہ کرایا تھا، ابن عیینہ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرات انصار و مہاجرین کے درمیان صرف بھائی چارے کا رشتہ قائم کردیا تھا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصییھم ، وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ) مفسرین کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ لوگ اسلام کے ابتدائی زمانے میں نسب کی بجائے حلف اور معاہدے کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث قرار پاتے تھے۔ درج بالا آیت کا یہی مفہوم ہے یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کو حلیف کے مقابلے میں اولیٰ قرار دیا اور فرمایا واولوالارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمھاجرین۔ اور کتاب اللہ میں رشتہ دار ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے) ۔ اس طرح ایک دوسرے کی مدد اور وراثت پر مبنی حلف یعنی دوستی کا معاہدہ زمانہ اسلام میں بھی باقی اور ثابت رہا۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ لاحلف فی الاسلام) تو اس میں یہ گنجائش ہے کہ آپ کے نزدیک شاید وہ معاہدہ مراد ہو جو زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی طرز کا ہو کیونکہ اس زمانے میں یہ معاہدے بہت سی ایسی باتوں پر مشتمل ہوتے تھے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نیز یہ کہ آپ نے شاید حلف کی بنا پر توارث کا حکم منسوخ ہوجانے کے بعدیہ فرمایا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی کئی صورتیں تھیں۔ ایک صورت یہ تھی کہ معاہدے کی بنیاد ایک دوسرے کی مدد ہو مثلا معاہدہ کرتے وقت ایک شخص دوسرے سے کہتا ” میرا خون تیرا خون ہے، مجھے گرانا تجھے گرانا ہے، تو میرا وارث ہوگا اور میں تیرا وارث ہوں گا “۔ اس طرح دو شخص اس بنیاد پر معاہدہ کرلیتے کہ ہر ایک دوسرے کی مدد کریگا۔ اس کا دفاع کرے گا اور حق و باطل ہر امر میں اس کی حمایت کرے گا۔ ایسی شرطیں اسلام میں جائز نہیں ہیں کیونکہ امر باطل میں بھی ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کا سرے سے جواز ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس امر کا اپنی جائیداد رشتہ داروں سے سمیٹ کر اور انہیں اس سے محروم رکھ کر وارثت کے طور پر حلیف کی جھولی میں ڈال دے۔- زمانہ جاہلیت میں ہونے والے معاہدوں کی ایک یہ صورت تھی جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کبھی یہ لوگ ایک دوسرے کی حمایت اور ایک دوسرے کے دفاع کی بنیاد پر بھی معاہدے کرتے تھے۔ یہ لوگ اس قسم کے معاہدے کرنے پر مجبور تھے کیونکہ ان لوگوں کی زندگیوں میں اجتماعیت کا رنگ نہیں تھا نہ کوئی ہیئت حاکمہ تھی جو مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلاتی اور طاقتور کو کمزور کی ایذارسانی سے باز رکھتی، اس لئے ضرورت کے تحت وہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور ا مداد کے معاہدے کرلیتے اور اس طرح ایک دوسرے کے شر سے محفوظ رہتے اور ایک دوسرے کی پناہ میں زندگی بسر کرتے۔ زمانہ جاہلیت کے معاہدوں میں یہی مقاصد کارفرما ہوتے۔ اسی بنا پر لوگوں کو جوار یعنی پڑوس کی ضرورت بھی پیش آتی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوتی کہ کوئی شخص یا گروہ یا کوئی قافلہ کسی قبیلے کے پڑوس میں آجاتا اور ان کی اجازت اور امان سے وہاں ڈیرے ڈال دیتا۔ اس صورت میں پھر اسے اس قبیلے کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ختم ہوجاتا۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس بات کا امکان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد لاحلف فی الاسلام سے اسی قسم کے معاہدے مراد لئے ہوں۔ اسلام کے ابتدائی زمانے میں بھی اس قسم کے معاہدوں کی ضرورت پیش آجاتی تھی کیونکہ مسلمانوں کے دشمنوں یعنی مشرکین مکہ یہود مدینہ اور منافقین کی تعداد بہت زیادہ تھی پھر جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت اور غلبہ عطا کردیا۔- اہل اسلام کی کثرت ہوگئی انہیں دشمنوں پر غلبہ نصیب ہوا اور وہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے قابل ہوگئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خبر دی کہ اب اس کے باہمی معاہدوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ تمام مسلمان اب یکجا ہوگئے تھے اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی حیثیت اب ایک فرد واحد کی بن گئی تھی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی حمایت واجب کردی تھی۔ چناچہ ارشاد باری ہے والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے حمایتی اور سرپرست ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں) ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے المومنون یدعلی من سواھم ۔ تمام اہل ایمان دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ یعنی ایک فرد واحد کی طرح ہیں) نیز آپ کا ارشاد ہے ثلاث لایغل علیھن قلب مومن اخلاص العمل للہ والنصیحۃ لولاۃ الامرونوم جماعۃ المسلمین فان دعوتھم تحیط من ورائھم ۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق مومن کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص عمل، حکمرانوں کے لئے خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی، مسلمانوں کی دعائیں ان کے پیچھے سے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہیں) ۔ اس طرح حلف کی بنا پر ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ جوار کا مسئلہ بھی اختتام کو پہنچ گیا۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا تھا لعلک ان تعیش حتی تری المراۃ تخرج من القادسیۃ الی الیمن بغیرجواد۔ شاید تمہاری عمر اتنی دراز ہوجائے کہ تم ایک عورت کو تنہا قادسیہ سے یمن تک جوار کے بغیرسفر کرتے ہوئے دیکھ سکو) اسی بنا پر آپ نے فرمایا تھا لاحلف فی ا لاسلام رہ گیا آپ کا یہ ارشاد (وماکان من حلف فی الجاھلیۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ) تو اس سے آپ کی مراد عہد کا پورا کرنا ہے۔ اس بات کو عقل انسانی بھی جائز قرار دیتی ہے اور اس کے نزدیک یہ ایک مستحسن امر ہے مثلاً وہ معاہدہ جو زبیر بن عبدالمطلب نے کیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ایک معاہدہ جو ابن جدعان کے گھر کے احاطے میں طے پایا تھا اور جس میں میں بھی موجود تھا مجھے یہ پسند نہیں کہ اس معاہدے سے غداری کے صلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں بنو ہاشم بنو زہرہ اور بنو تیم نے آپس میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ مظلوم کا اس وقت تک ساتھ دیتے رہیں گے جب تک گرمی کی وجہ سے اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوتا رہے گا۔ یعنی جب تک اس کی داد رسی نہیں ہوجائے گی اگر مجھے زمانہ اسلام میں اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو میں اسے قبول کرلیتا “۔ یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا ایک قول یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس معاہدے کا ذکر فرمایا ہے وہ مظلوم کی حمایت اور زندگی کے گزاران کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ایک دوسرے کی خبر گیری کے متعلق تھا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ آپ نبوت سے قبل اس معاہدے کے وقت موجود تھے اور اگر آپ کو زمانہ اسلام میں اس جیسے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو آپ ضرور اسے قبول کرلیتے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس کا حکم دیا ہے اور عقل انسانی کے نزدیک بھی یہ ایک مستحسن فعل ہے بلکہ شریعت کے درود سے قبل عقل انسانی کے نزدیک ایسا اقدام واجب تھا۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اس ارشاد لاحلف فی الاسلام سے آپ کی مرادیہ ہے کہ اسلام میں ایسا معاہدہ نہیں ہوسکتا جسے شریعت مباح سمجھتی نہ ہو اور نہ ہی عقل انسانی اس کی اجازت دیتی ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ” میں مطیبین کے معاہددے میں موجود تھا اس وقت میں نو عمر تھا اور مجھے یہ پسند نہیں کہ اگر میں اس معاہدے کو توڑ دوں تو مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ مل جائیں۔ حلف المطیبین اس معاہدے کا نام ہے جو قریش کے درمیان ہوا تھا اور اس میں یہ طے پایا تھا کہ جو لوگ حرم کے اندر قتال کر کے اس کی بےحرمتی کے مرتکب ہوں گے ان کے خلاف مشترکہ طور پر اقدام کیا جائے گا۔ اس لئے آپ کے ارشاد وماکان فی الجاھلیتۃ فلم یزدہ الاسلام الاشدۃ) سے مراد حلف المطیبین اور حلف الفضول جیسے معاہدے ہیں۔ نیز اس سے ہر ایسا معاہدہ اور باہمی عقد مراد ہے جسے پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔- اس سے وہ وعدہ مراد نہیں ہے جس کی بنیاد معصیت پر ہو اور شریعت میں جس کے جواز کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ لغت میں عقد کے معنی باندھنے اور بندھن کے ہیں جب آپ رسی باندھ دیں اور اس میں گرہ ڈال دیں تو آپ کہیں گے ” عقدت الجل “ (میں نے رسی باندھ دی) مستقبل کی قسم کو بھی عقد کا نام دیا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے لایواخذکم اللہ باللغوا فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان، تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمتیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ تم سے ضرور مواخذہ کرے گا) معاہدے اور حلف کو بھی عقد کہاجاتا ہے۔ ارشاد باری ہے والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم، جن لوگوں سے تمہارے عہد و پیمان ہیں انہیں ان کا حصہ دو ) ابوعبیدہ نے قول باری اوفوابالعقود۔ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد معاہدے اور قسمیں ہیں۔ حضرت جابر (رض) سے اوفوابالعقود۔ کے سلسلے میں مروی ہے کہ یہ نکاح بیع حلف اور عہد کے عقود ہیں۔ زید بن اسلم نے اس میں اپنی طرف سے عقد شراکت اور عقد یمین کا بھی اضافہ کیا ہے۔ وکیع نے موسیٰ بن عبیدہ سے اور انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عبیدہ سے روایت کی ہے کہ عقو کی چھ قسمیں ہیں۔- عقود کی چھ اقسام - عقدیمین یعنی مستقبل کی قسم عقد نکاح عقد عہد عقد بیع عقد شراء اور عقد حلف یعنی معاہدہ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عقد اس اقدام کو کہتے ہیں جس کے تحت عقد کرنے والا کسی ایسے کام کی گرہ ڈال دیتا ہے جسے وہ خود سرانجام دینا چاہتا ہے یا کسی اور کے ذمے اس طرح لگا دیتا ہے کہ اس پر اس کام کو انجام دینا لازم ہوجاتا ہے کیونکہ لغت میں عقد کے معنی باندھنے کے ہیں۔ پھر اس معنی کو قسم اور بیع و شراء کیعقود وغیرہ کی طرف منتقل کردیا گیا۔ اس لئے اس لفظ سے اس بات کو پورا کرنے کا لزوم اور اس کا ایجاب مراد ہوتا ہے جس کا عاقد نے ذکر کیا ہے یہ مفہوم عقد کی ان صورتوں کو شامل ہوتا ہے جن کے وقوع پذیر ہونے کا آنے والا وقت یعنی مستقبل میں انتظار کیا جاتا ہے اور انہیں نگاہ میں رکھا جاتا ہے۔ اس لئے بیع نکاح اجارہ اور معاوضوں پر مبنی تمام عقود کو عقود کا نام دیا جاتا ہے اس لئے کہ اس قسم کا عقد کرنے والے طرفین میں سے ہر ایک اسے پورا کرنے اور سرانجام دینے کا ذمہ اٹھاتا ہے ۔ مستقبل کی قسم کو اس لئے عقد کہاجاتا ہے کہ قسم کھانے والا جس کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے اسے پورا کرنے کی ذمہ داری بھی لیتا ہے۔ شراکت اور مضاربت کو عقد کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے جس طرح ذکر کیا ہے اس میں بھی اس شرط کو پورا کرنے کا اقتضاء ہوتا ہے جو آپس میں منافع تقسیم کرنے اور اپنے شریک کے لئے کام کرنے کے سلسلے میں فریقین میں سے ہر ایک کی طرف سے دوسرے کے لئے مقرر کی جاتی ہے اور ہر ایک اسے پورا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔ عہد اور امان کی بھی یہی صورت ہے اس لئے کہ عہد کرنے والا اور امان دینے والا اسے پورا کرنا اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شرط جسے کوئی انسان مستقبل میں کوئی کام کرنے کے سلسلے میں اپنے اوپر کرلیتا ہے عقد کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔- یہی کیفیت نذر کی صورتوں کی بھی ہے اسی طرح کوئی شخص اپنے اوپر کسی عبادت کی ادائیگی لازم کرلے یا اسی قسم کی کوئی اور صورت ہو تو یہ بھی عقد کہلائے گی لیکن اگر عقد کی کوئی ایسی صورت ہو جس کا مستقبل کے مفہوم سے کوئی تعلق نہ ہو یعنی اس کے وقوع کا انتظار نہ ہو بلکہ اس کا تعلق کسی ایسے امر سے ہو جو گزر چکا ہو اور وقوع پذیر ہوچکا ہو تو اسے عقد نہیں کہیں گے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اسے عقد کا نام نہیں دیا جائے گا لیکن اگر وہ اس سے یہ کہے کہ ” جب تو گھر میں داخل ہوگی تو تجھے طلاق ہوجائے گی “۔ تو اس کا یہ قول عقد یمین ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہے ” بخدا، میں گھر میں داخل ہوا تھا “۔ تو اس صورت میں یہ عاقد نہیں کہلائے گا لیکن اگر وہ یہ کہتا ” میں کل صبح گھر میں ضرور داخل ہوں گا “۔ تو اس صورت میں عاقد بن جاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ماضی میں کسی چیز کا ایجاب درست نہیں ہوتا مستقبل میں درست ہوجاتا ہے اگر وہ یہ کہتا ” مجھ پر گھر میں گزشتہ کل داخل ہونا لازم ہے “۔ تو یہ ایک لغو اور بےمعنی کلام ہوتا اور اس کا وقوع پذیر ہونا محال ہوتا لیکن اگر وہ یہ کہتا ” مجھ پر آنے والے کل میں گھر میں داخل ہونا لازم ہے “ تو یہ ایجاب ہوتا اور اس پر عملدرآمد ہوجاتا۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ عقد کسی کام کی اس صورت کا نام ہے جس کے ساتھ مستقبل میں کوئی حکم لازم ہوتا ہو۔ مستقبل کی قسم کو اس لئے عقد کا نام دیا جاتاے کہ قسم کھانے والا اپنے اوپر قسم پر عمل پیرا ہونے کی بات لازم کرلیتا ہے یہ مفہوم ماضی کی صورت میں معدوم ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے ” بخدا میں زید سے ضرور کلام کروں گا “۔ تو یہ کہہ کر وہ زید سے کلام کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے اسی طرح اگر وہ یہ کہتا ہے ” بخدا، میں زید سے کلام نہیں کروں گا “۔ تو اپنے اس قول کے ذریعے وہ کلام کرنے کی نفی کو اپنے اوپر لازم کرلیتا ہے اور قسم کے اندر جس کا م کی نفی یا اثبات کا ذکر کرتا ہے اپنے اوپر اسے موکد کردیتا ہے۔ اس تاکید کی بنا پر جو لفظ کے اندر موجود ہوتی ہے اس کے اس قول کو عقد کا نام دیا جاتا ہے اسے اس رسی کی گرہ کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جو اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ اس گرہ کے ذریعے بندھن کو مضبوط کردیتا ہے۔ اسی بنا پر نذر کو عقد اور قسم کا نام دیا گیا ہے کیونکہ نذر ماننے والا اس نذرکو اپنے اوپر لازم کردیتا ہے اور ایک کام کے کرنے یا نہ کرنے کی بات کی اپنے اوپر موکد کرلیتا ہے۔ لیکن جب خبر یعنی کہے ہوئے جملے کے مفہوم کو ماضی کی طرف موڑ دیا جائے گا تو اس صورت میں نہ یہ عقد کہلائے گا نہ اس میں ایجاب پایا جائے گا اور نہ ہی اس میں نذر کا مفہوم موجود ہوگا۔ یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مفہوم کو واضح کردیتی ہے کہ عقد وہی ہوتا ہے جو تاکید کی صورت میں ہو اور اپنے اوپر لازم کرلینے کے طور پر ہو۔ عقد کا تعلق مستقبل کے معنی اور مفہوم سے ہوتا ہے ماضی سے نہیں ہوتا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عقد یعنی باندھنے کی ضد حل یعنی کھولنا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جو بات وقوع پذیر ہوچکی ہے اسے اسے کی متعلقہ کیفیت سے کھول کر علیحدہ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسا کرنا ازقبیل محال ہے۔ اس لئے جب حل کھولنا ماضی میں وقوع پذیر چیز کی ضد نہیں ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ عقد نہیں ہے کیونکہ اگر یہ عقد ہوتا تو اس کی ضد حل کا بھی وجود ہوتا جس کے ساتھ اسے موصوف کیا جاسکتا جس طرح مستقبل سے تعلق رکھنے والے عقد کی صورت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شوہر کا یہ قول ” اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے “ اور جب کل ہوگا تو تجھے طلاق ہے “۔ عقد ہے لیکن اسے انتقاض اور فسخ لاحق نہیں ہوتا یہ عقد تو ہے لیکن اس کے نقیض یعنی حل کا وجود نہیں ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس عقد کے حل کا وجود اس طرح ممکن ہے کہ شرط کے وجود سے پہلے ہی اس عورت کی موت واقع ہوجائے اس عقد کو اس کی ضد حل کے ساتھ موصوف کیا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” اس کوزے میں موجود پانی اگر میں نہ پیوں تو میرا غلام آزاد ہے تو کوزے میں پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں اس کی قسم کا انعقاد نہیں ہوگا۔ یہ عقد بھی نہیں ہوگا کیونکہ اس کے نقیض یعنی حل کا وجود نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں آسمان میں نہ چڑھوں تو میرا غلام آزاد ہے تو قسم کے انعقاد کے ساتھ ہی وہ حانث ہوجائے گا کیونکہ اس عقد کا نقیض یعنی حل موجود ہے اگرچہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ اپنی قسم کبھی پوری نہیں کرسکے گا کیونکہ اس نے اپنی قسم کی گرہ ایسی بات پر باندھی ہے جو اگرچہ معقول ہے لیکن وہم حد تک ہے۔ اس لئے کہ آسمان پر چڑھنا معقول اور متوہم ہے اور اس کا ترک بھی معقول اور ممکن ہے لیکن ایسے پانی کا پینا جو سرے سے موجود ہی نہ ہو اس کا تو ہم بھی محال ہے اس لئے یہ عقد نہیں ہے۔ قول باری یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود۔ ان عہود کو پورا کرنے اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لزوم پر مشتمل ہے جو ہم حربیوں، ذمیوں اور خوارج وغیر ہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اسی طرح اس میں نذر اور قسم کو پورا کرنے کا لزوم بھی موجود ہے۔ یہ اس قول باری کی نظیر ہے اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو) نیز وافوابعھدی اوف بعھدکم، میرے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو میں تمہارے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کروں گا) اللہ کے ساتھ کیا گیا عہد اس کے اوامرونواہی ہیں۔ قول باری اوفوابالعقود کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اللہ کے ان عقود کو پورا کرو جو اس نے حرام و حلال کے سلسلے میں کئے ہیں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد عقود دین ہیں۔ یہ قول باری بیع و شراء کے عقود نیز اجارہ اور نکاح کے عقود اور اس دائرے میں آنے والے تمام چیزوں کے عقود کو پورا کرنے کا مقتضی ہے۔ اس لئے جب کبھی کسی عقد کے جواز یا عدم جواز کسی نذر کی صحت اور اس کے لزوم کے بارے میں اختلاف رائے ہوجائے تو اس صورت میں اس قول باری سے استدلال درست ہوگا کیونکہ اس کا عموم ان تمام کے جواز کا مقتضی ہے اس ضمن میں کفالت اجارہ اور بیع و شراء کی تمام صورتیں آتی ہیں۔ اس قول باری سے کفالہ بالنفس اور کفالہ بالمال کے جواز کے سلسلے میں استدلال بھی جائز ہے نیز کفالت کی ان صورتوں کو مستقبل کی شرطوں کے ساتھ مشروط کرنے کے جواز پر بھی اس قول باری سے استدلال درست ہے کیونکہ آیت میں ان میں سے کسی صورت کے اندر فرق نہیں کیا گیا ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد المسلمون عند شروطھم۔ مسلمان اپنی شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں) اس قول باری اوفوابالعقود۔ کے ہم معنی ہیں اس میں ان تمام شرطوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں عموم ہے جو کوئی انسان اپنے اوپر عائد کرلے جب تک ان میں سے کسی شرط کی تخصیص کے لئے کوئی دلالت قائم نہ ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب کوئی شخص اپنے اوپر کسی غیر کے لئے کوئی قسم یا نذر یاشرط لازم کرلے تو کیا اس کے لئے اسے پورا کرنا واجب ہوگا اور اس کا یہ عقد اس کی اپنی ذات پر متصور ہوگا اور اس بنا پر اس نے جو شرط رکھی ہے اور جو چیز واجب کی ہے وہ اس پر لازم ہوجائے گی ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نذر کی تین صورتیں ہیں۔ نذر قربت یعنی ایسی نذر جس کا تعلق نیکی کے کسی عمل سے جو تقرب الٰہی کا ذریعہ بنتا ہو۔ نذر مانتے ہی یہ عمل اس پر واجب ہوجائے گا اگرچہ اصل کے اعتبار سے یہ عمل غیر واجب ہی کیوں نہ ہو کیونکہ قول باری ہے۔ (اوفوا بالعقود) نیز فرمایا (اوفوابعھد اللہ اذا عاھدتم) ۔ نیز ارشاد ہے (یوفون بالنذر) وہ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں) نیز فرمایا یایھا الذین امنوا بم تقرلون مالا تفعلون کبرمقتاً عنداللہ ان تقولوامالا تقلعون۔ اے ایمان لانے والو ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں اللہ کو یہ بہت ناپسند ہے کہ ایسی بات کہو جو نہ کرو) ۔ یہ بھی ارشاد ہے ومنھم من عاھد اللہ لین اتانا من فضلہ لنصدفن ولنکونن من الصلحین قلما اتاھم من فضلہ بخلوا بہ وتولوا وھم معزضون۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ یہ یہ عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں وہ اپنے فضل میں سے عطا کرے گا تو اس میں سے ہم خوب تصدق کریں گے اور خوب نیک کام کریں گے۔- پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل میں سے دے دیا تو اس میں بخل کرنے اور روگردانی کرنے لگے اور وہ منہ پھیرے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نذر کو بعینہ پورا نہ کرنے پر ان کی مذمت کی۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کو اپنی نذر پوری کرنے کا حکم دیا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ حضرت عمر (رض) نے زمانہ جاہلیت میں ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی نیز آپ کا یہ ارشاد بھی ہے من نذرنذراً سماہ فعلیہ ان یفی بہ ومن نذر نذراً ولم یسمہ فعلیہ کفارۃ یمن، جس شخص نے کوئی نذر مانی اور اسے متعین کردیا اس پر اسے پورا کرنا لازم ہے اور جس شخص نے تعین کے بغیر مطلقاً نذر مانی اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا) یہ اس نذر کا حکم ہے جو تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والے کسی نیک عمل سے تعلق رکھتی ہو ایسی نذر کی صورت میں اسے بعینہ پورا کرنا لازم ہوگا۔ اس کی ایک اور قسم بھی ہے اس کا تعلق ایسے مباح کام سے ہے جس میں تقرب الٰہی کا پہلو موجود نہ ہو اگر کوئی شخص یہ نذر مانے گا تو اس پر اسے پورا کرنا لازم نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ واجب ہوگی۔ اگر اس نذر میں وہ قسم کی نیت کریگا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا جبکہ وہ اسے پورا نہ کرے۔ مثلا کوئی کہے اللہ کے لئے مجھ پر زید کے ساتھ گفتگو کرنا یا اس گھر میں داخل ہونا یا بازار تک چل کر جانا لازم ہے “۔ یہ امور مباح کا درجہ رکھتے ہیں اور نذر کی بنا پر لازم نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ ہر ایسا عمل جو اصل کے اعتبار سے قربت یعنی تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والی نیکی نہ ہو وہ ایجاب کی بنا پر قربت نہیں بنتا جس طرح وہ عمل جو اصل کے اعتبار سے واجب نہیں ہوتا نذر کی بنا پر واجب نہیں بنتا اگر اس نذر سے متعلقہ شخص کا ارادہ قسم کا ہو تو یہ نذر قسم بن جائے گی اور حانث ہونے کی صورت میں اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ اس کی تیسری نذر معصیت کہلاتی ہے مثلا کوئی یہ کہے ” اللہ کے لئے مجھ پر فلاں شخص کا قتل یا شراب خوری یا فلاں شخص کا مال غصب کرنا لازم ہے “۔ یہ امور الہ کی معصیت میں داخل ہیں اس لئے نذر کی بنا پر ان کے لئے قدم بڑھانا جائز نہیں ہوگا یہ امور اس کی نذر کے باوجود ممنوع رہیں گے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مباح امور جو تقرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بنتے ہیں نذر کی بنا پر واجب نہیں ہوتے جس طرح ممنوع فعل نذر کی بنا پر مباح نہیں بن جاتا اور نہ ہی واجب ہوجاتا ہے اگر اس نے نذر میں قسم کا ارادہ کرلیا ہو اور پھر حانث ہوگیا ہو تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے لانذر فی معصیۃ اللہ وکفارتہ کفارۃ یمین، اللہ کی معصیت کی کوئی نذر نہیں اس کا کفارہ قسم کے کفارے کی طرح ہے) ۔- نذر کی تین اقسام ہیں - نذر کی یہ تین قسمیں ہیں۔ قسموں کا انعقاد بھی تین صورتوں یعنی قربت، مباح اور معصیت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والے کسی نیک کام کی قسم کھا بیٹھے تو اس قسم کی بنا پر وہ کام واجب نہیں ہوتا ہے البتہ اسے اس قسم کو پورا کرنے کے لئے کہا جائے گا لیکن اگر اس نے قسم پوری کرنے کی بجائے توڑ دی تو اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت ابن عمر (رض) سے فرمایا ” مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم نے سارا زمانہ روزے رکھنے کی قسم کھائی ہے “۔ حضرت ابن عمر (رض) نے اثبات میں جواب دیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ” ایسا نہ کرو بلکہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو “۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ دنوں کے روزوں کی طاقت ہے “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پھر سمجھایا بالاخر اس پر رضامند کرلیا کہ ایک دن روزہ رکھیں اور ایک دن چھوڑیں۔ اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی قسم کی بنا پر ان پر صوم الدھر، (ہمیشہ روزہ رکھنا) لازم نہیں ہوا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قسم کی بنا پر وہ کام لازم نہیں ہوتا جس کی قسم کھائی گئی ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ ” بخدا میں کل ضرور روزہ رکھوں گا “۔ اور پھر وہ روزہ نہ رکھے تو اس پر اس کی قضا لازم نہیں ہوگی۔ پختہ قسم کا کفارہ لازم ہوجائے گا۔ قسم کی دسویر قسم یہ ہے کہ کسی مباح کام کی قسم کھا بیٹھے جس طرح پہلی صورت میں قسم کی وجہ سے اس پر اس کام کا کرنا لازم نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح دوسری صورت میں اس پر اس کا لزوم نہیں ہوگا۔ وہ اگر چاہے تو وہ کام کرے گا اگر چاہے تو چھوڑ دے گا۔ البتہ حانث ہونے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم ہوگا۔ تیسری قسم کی معصیت کے ارتکاب کی قسم کھانا ہے قسم کی بنا پر نہ صرف یہ کہ اس کے لئے یہ کام کرنا جائز نہیں ہوگا بلکہ قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنا واجب ہوگا۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فدای غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیرولیکفر عن یمینہ۔ جو شخص کسی کام کی قسم کھا بیٹھے اور پھر دوسرا کام اسے بہتر نظر آئے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسرا کام کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے) ۔ نیز آپ نے فرمایا ” جب میں کسی کام کے کرنے کی قسم کھا لیتا ہوں اور پھر دوسرا کام مجھے اس سے بہتر نظر آتا ہے تو میں وہ دوسرا کام کرلیتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔ ارشاد باری ہے ولایاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والیتامی و المساکین والمھاجرین فی سبیل الہ والیعفوا والیصفحوا الاتعبون ان یغفر اللہ لکم۔ اور جو لوگ تم میں سے بزرگی اور وسعت والے ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں چاہیے کہ معاف کرتے رہیں اور درگزر سے کام لیتے رہیں کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کرتا رہے) مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے رشتہ دار مسطح بن اثاثہ کی مالی امداد بند کردینے کی قسم کھالی تھی کیونکہ افک کے واقعہ میں مسطح کی کی طرف سے حضرت عائشہ (رض) کے متعلق کچھ برے کلمات کہے گئے تھے اور اس معاملے میں انہوں نے کچھ سرگرمی بھی دکھائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کو اس قسم سے لوٹ جانے اور مسطح کی دوبارہ مالی امداد کرنے کا حکم دیا۔- کون سے جانور حلال ہیں - قول باری ہے لحلت لکم بھیمۃ الانعام۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے ہیں) انعام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اس سے اونٹ، گائے بیل اور بھیڑ بکریاں مراد ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ انعام کے لفظ کا اطلاق اونٹوں پر ہوتا ہے خواہ صرف اونٹ ہی کیوں نہ ہوں، گائے، بیل اور بھیڑ بکریوں پر اس لفظ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب یہ اونٹوں کے ساتھ ہوں لیکن اگر صرف گائے بیل اور بھیڑ بکریاں ہوں تو ان پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حسن سے پہلا قول منقول ہے ایک قول یہ ہے کہ انعام کے لفظ کا ان تین اصناف پر اطلاق ہوتا ہے اور ہرنیوں نیز نیل گایوں پر بھی ہوتا ہے اس میں کھر مارنے والے جانور داخل نہیں ہوتے کیونکہ انعام کا لفظ نعومۃ الوط یعنی قدموں کی نرمی سے ماخوذ ہے۔ ترتیب تلاوت میں انعام سے صید یعنی شکار کو مستثنی کرنا اس قول پر دلالت کرتا ہے ارشاد باری ہے غیر محلی الصبید وانتم حرم، لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کریں) قول باری والانعام خلقھا لکم فیھادف وضافع للناس ومنھاتاکلون۔ اور موشی بھی اسی نے بنائے۔ ان میں تمہارے لئے گرم لباس بھی ہے اور دوسرے فائدے بھی ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ کھر مارنے والے جانور انعام میں داخل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت میں انعام کا ذکر کر کے ان پر اس قول باری والخیل والبغال والحمیرلترکبوھا وزیۃ۔ اور اس نے پیدا کئے گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور زینت کے لئے بھی) کو عطف کیا اور ان جانوروں کا نئے سرے سے ذکر کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ جانور انعام یعنی مویشیوں میں داخل نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ گائے کے پیٹ میں موجود جنین بھی مویشیوں میں داخل ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی یہ بات درست ہے کیونکہ گائے انعام میں داخل ہے اللہ تعالیٰ نے بھیمۃ الانعام فرمایا اگرچہ تمام مویشی چوپائے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قول بمنزلہ اس قول کے ہے ” احل لکم البھیمۃ التیھی الانعام “ (تمہارے لئے چوبائے حلال کردیئے گئے جو مویشی ہیں) بہیمہ کو انعام کی طرف مضاف کردیا گیا اگرچہ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہیں ” نفس الانسان “ (نفس انسان) ۔- بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ اباحت عقود کو پورا کرنے کی شرط کے ساتھ جس کا آیت میں ذکر ہے مشروط کردی گئی ہے حالانکہ بات ایسی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقود کو پوراکرنا اباحت کی شرط نہیں قرار دی اور نہ ہی اس کا ذکر مجازات یعنی بدلے کے طور پر کیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ایمان کے ساتھ ہم سے خطاب فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے یایھا الذین امنوا اوفوابالعقود۔ یہ خطاب اباحت کو صرف اہل ایمان تک محدود کرنے کا موجب نہیں ہے بلکہ یہ اباحت جملہ مکلفین کو عام ہے خواہ وہ کافر ہوں یا اہل ایمان جس طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے یایھا الذین امنوا اذاً انکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسئوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا۔- اے ایمان لانے والو تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو تو تمہارے لئے ان کے بارے میں کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرنے لگو) یہ حکم اہل ایمان اور اہل کفر سب کے لئے عام ہے اگرچہ لفظ کا ورود اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے مباح کردیا ہے وہ تمام مکلفین کے لئے مباح ہے جس طرح ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ نے لازم اور فرض کردی ہے اس کی فرضیت جملہ مکلفین کے لئے ہوتی ہے الایہ کہ ان میں سے بعض کی تخصیص کی کوئی دلیل موجودہو۔ اس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل کفر ترک شریعت پر اسی طرح سزا کے مستحق ہیں جس طرح ترک ایمان پر۔ اگر کوئی کہے کہ چوپایوں کی ذبح اس وقت تک ممنوع رہی جب تک اس کے متعلق سمعی دلیل وارد نہیں ہوگئی اب جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور شریعت کے ذریعے ذبح کی اباحت کا قائل نہ ہو۔ اس پر اصل کے اعتبار سے ذبح کی ممانعت کا حکم باقی رہے گا اس قول کے قائل کا کہنا ہے کہ کافروں پر خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا کوئی اور چوپایوں کی ذبح کی ممانعت ہے اگر وہ چوپائے کو ذبح کریں گے تو عاصی قرار پائیں گے اگرچہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لئے مباح ہے اس قائل کا یہ بھی دعوی ہے کہ ملحد کو جانور ذبح کرنے کے بعدکھانے کی اجازت ہے لیکن اسے جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ تمام اہل علم کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ اہل کتاب اگر اپنے مذاہب کی بنا پر ذبح کا فعل سرانجام دینے پر عاصی قرار پاتے تو پھر ان کے ذبیحہ کا درست اور حلال نہ ہونا واجب ہوتا جس طرح مجوسی کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا۔- اسے اس کے اعتقاد کی بناپر جانور ذبح کرنے سے روک دیا گیا ہے اس لئے اس کا ذبح کیا ہوا جانور حلال نہیں ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی شخص جانور ذبح کر کے عصیان کا مرتکب نہیں ہوتا، جانور کی ذبح اس کے لئے بھی اسی طرح مباح ہے جس طرح ہمارے لئے اس قائل کا یہ کہنا ہے کہ ” جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اور شریعت کے ذریعے ذبح کی اباحت کا قائل نہ ہو اس پر اصل کے اعتبار سے ذبح کی ممانعت کا حکم باقی رہے گا۔ درست نہیں ہے کیونکہ یہود اور نصاریٰ پر چوپایوں کے ذبح کی اباحت کے سلسلے میں انبیاء سابقین کی کتابوں کے ذریعے سمعی حجت اور دلیل قائم ہوچکی تھی۔ نیز قائل کی درج بالا بات اس کی ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہے اس لئے کہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھے تو ہمارے نزدیک وہ گہنگار ہوگا اور جو لوگ ذبیحہ پر بسم اللہ نہ پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں ان کے لئے ایسے ذبیحہ کا کھانا درست ہوگا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذبح کرنے والے کا گہنگار ہونا اس کے ذبح کے عمل کی صحت کے لئے مانع نہیں ہے۔ قول باری ہے الامایتلی علیکم۔ سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے) حضرت ابن عباس (رض) حسن مجاہد قتادہ اور سدی سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد وہ قول ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ تم پر مردار خون اور وہ تمام چیزیں حرام ہیں جن کی حرمت کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ’ سوائے اس صورت کے جو تمہیں بتائی جا رہی ہے وہ یہ کہ تم احرام کی حالت میں شکار کا گوشت نہ کھائو “۔ اس تفسیر کی رو سے اللہ تعالیٰ نے گویا یوں فرمایا “۔ سوائے اس صورت کے جو تمہیں اسی سلسلہ خطاب میں بتائی جا رہی ہے “۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری الامایتلی علیکم میں اس مفہوم کا احتمال ہے کہ ” سوائے ان کے جن کی تحریم آچکی ہے “ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی مروی ہے اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو اس صورت میں یہ لفظ مجمل نہیں ہوگا اس لئے کہ جس بات کی تحریم اس سے پہلے آچکی ہے وہ مجمل نہیں بلکہ معلوم ہوگی۔ اس بنا پر قول باری احلتککم بھیمۃ لانعام۔ میں مویشی قسم کے تمام چوپایوں کی اباحت کے لئے عموم ہوگا ماسوائے ان کے جن کی ان آیات نے تخصیص کردی جن کے اندر ان میں سے حرام جانوروں کی تحریم کا ذکر ہے اور اس اباحت کو ممانعت کی آیات پر مرتب قرار دیا جائے گا۔- جو یہ ہیں حرمت علیکم المیتۃ والدم تا آخر آیت۔ قول باری الامایتلی علیکم میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو۔ سوائے ان کے جن کی حرمت بیان کی جائے گی۔ اس صورت میں آیت کا اشارہ اس بات کی طرف ہوگا کہ آئندہ کسی وقت ان میں سے بعض جانور ہم پر حرام کردیئے جائیں گے۔ تاہم یہ بات بھی آیت سے اس کے عموم کو سلب نہیں کرے گی۔ اس قول باری میں ایک اور معنی مراد کا احتمال بھی ہے وہ یہ کہ مویشی قسم کے بعض چوپائے تم پر اس وقت حرام کردیئے گئے ہیں اس حرمت کی تفصیل بعد میں آئے گی۔ یہ بات قول باری احلت لکم بھیمۃ الانعام۔ کے اجمال کی موجب ہے۔ اس لئے کہ اس حکم سے بعض جانور مستثنیٰ کردیئے گئے ہیں اس بنا پر ہمارے نزدیک یہ قول باری مجہول المعنی ہوگا اور اس کے الفاظ اجمالاً ا اباحت اور ممانعت دونوں پر مشتمل ہوں گے اور اس کا حکم بیان اور تفصیل پر موقوف ہوگا۔ جب لفظ میں اجمال اور عموم دونوں کا احتمال ہو جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے تو ایسی صورت میں ہمارے لئے اسے عموم کے معنوں پر محمول کرنا اولیٰ اور مناسب ترین بات ہوگی کیونکہ اس صورت میں اس کے حکم پر عمل کرنا ممکن ہوگا اور اس عموم سے وہ چیزیں اور جانور مستثنیٰ ہوں گے جن کی تحریم کا قرآن میں ذکر آیا ہے یعنی مردار خون اور خنزیر وغیرہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول بااری الامایتلی علیکم مستقبل میں تلاوت یعنی بیان کا مقتضی ہے نہ کہ ماضی میں۔ اس لئے جن چیزوں کی تحریم اس سے پہلے آچکی ہوگی اس کا بیان اور اس کی تلاوت گویا ہوچکی اس بنا پر آیت میں تلاوت کو اس بیان پر محمول کرنا واجب ہوگا جو بعد میں آنے والی ہے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سے وہ تلاوت اور بیان مراد لینا جائز ہے جو ہوچکا ہو اور بعد میں آنے والا بیان مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے قرآن کی تلاوت صرف گزرے ہوئے حال تک محدود نہیں ہے کہ اس میں آنے والا حلال شامل نہ ہو سکے بلکہ ہم پر مستقبل میں اس کی تلاوت اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہم نے ماضی میں اس کی تلاوت کی ہے۔ اس لئے قرآن کے اس حصے کی جو اس سے پہلے نازل ہوچکا ہے مستقبل میں بھی تلاوت ممکن ہے اس صورت میں آیت کے اندر مذکورہ استثناء کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے ذریعے مویشی قسم کے ان چوپایوں کے حکم کا باقی رہنا واضح ہوجائے گا جو اس سے پہلے حرام کردیئے گئے تھے نیز یہ کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔ لیکن اگر لفظ کو استثناء کے بغیر مطلق رکھا جائے گا جبکہ اس سے پہلے بہت سے چوپایوں کی تحریم کا حکم آچکا ہو تو یہ چیز تحریم کے نسخ کو واجب کر دے گی اور تمام چوپایوں کی اباحت لازم ہوجائے گی۔ قول باری غیر محلی الصید و انتم حرم لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کریں) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے آیت کو ان معنوں پر محمول کیا ہے ” سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے یعنی احرام کی حالت میں شکار کا گوشت کھانا۔ اس صورت میں والامایتلی علیکم کے ذریعے شکار مستثنیٰ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے احرام باندھنے والوں پر حرام کردیا ہے لیکن اس تاویل سے دوسرے استثناء یعنی غیر محلی الصید وانتم حرم کے حکم کا اسقاط لازم آئے گا اور مفہوم کے اعتبار سے اس کی صورت یہ رہ جائے گی سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے اور وہ ہے احرام والے پر شکار کی تحریم اور یہ چیز آیت کی تاویل کے سلسلے میں بےسوچے سمجھے ایک بات اختیار کرلینے کے مترادف ہوگی۔ یہ بات اس چیز کی بھی موجب ہوگی کہ چوپایوں کی اباحت سے استثناء صرف شکار تک ہی محدود رہ جائے گا جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ مراد چوپایہ بھی اباحت کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے اس لئے یہ تاویل بےمعنی ہوگی۔ پھر اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قول باری غیر محلی الصید و انتم محرم یا تو اس استثناء سے مستثنیٰ ہوجائے جو اس کے متصل ہے اس صورت میں یہ مفہوم ہوگا ” سوائے اس کے جو تمہیں بیان کیا جاتا ہے مگر یہ کہ تم احرام کی حالت میں شکار اپنے لئے حلال سمجھو “ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو اس سے حالت احرام میں شکار کی اباحت لازم ہوجاتی۔ کیونکہ شکار ممنوع جانوروں اور چیزوں سے مستثنیٰ ہوتا اس لئے کہ اس صورت میں قول باری الامایتلی علیکم کا مفہوم یہ ہوتا ” شکار کے سوا ان جانوروں میں سے جن کا بیان ہوچکا اور اس کی تحریم بعد میں بیان کی جائے گی “۔- یا غیر محلی الصید وانتم حرم کے معنی یہ ہوجائیں۔” عقود کی پابندی کرو احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ سمجھتے ہوئے اور تمہارے لئے مویشی قسم کے چوپائے حلال کردیئے سوائے ان کے جو تمہیں بعد میں بیان کئے جائیں گے “۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) ان عہدوں کو پورا کرو جو تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے یا لوگوں کے درمیان ہیں۔- تمہارے لیے خشکی کے شکار مثلا نیل گائے، جنگلی گدھا اور ہرن وغیرہ حلال کیے گئے ہیں، ماسوا ان جانوروں کے جو کہ تم پر اس سورت میں حرام کیے گئے ہیں مگر اس شکار کو احرام یا حرم میں حلال مت سمجھنا جس کو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں، حل وحرم میں حلال اور حرام کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ‘ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ ط) ۔- عقدہ گرہ کو کہتے ہیں جس میں مضبوطی سے بندھنے کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا عُقُود سے مراد وہ معاہدے ہیں جو باقاعدہ طے پاگئے ہوں۔ معاہدوں اور قول وقرار کی اہمیت یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری کی پوری سماجی و معاشرتی زندگی قائم ہی معاہدوں پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا بنیادی یونٹ ایک خاند ان ہے ‘ جس کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی جاتی ہے۔ شادی کیا ہے ؟ مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انسانی معاشرے کی بلند وبالا عمارت کی بنیادی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فریقین کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض۔ ایک طرف بیوی کے حقوق اور اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف شوہر کے حقوق اور اس کے فرائض۔ بڑے بڑے کاروبار بھی معاہدوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ آجر اور مستاجر کا تعلق بھی ایک معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کاروبار حکومت ‘ حکومتی اداروں میں عہدے اور مناصب ‘ چھوٹے بڑے اہلکاروں کی ذمہ ‘ داریاں ‘ ان کی مراعات اور اختیارات کا معاملہ ہے۔ گویا تمام معاشرتی ‘ معاشی اور سیاسی معاملات قرآن حکیم کے ایک حکم پر عمل کرنے سے درست سمت پر چل سکتے ہیں ‘ اور وہ حکم ہے اَوْفُوْ بالْعُقُوْدِ ۔- (اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَام الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ) - جن کا حکم آگے چل کر تمہیں بتایا جائے گا ‘ یعنی خنزیر ‘ مردار وغیرہ حرام ہیں۔ باقی جو مویشی قسم کے جانور ہیں ‘ وحوش نہیں (مثلاً شیر ‘ چیتا وغیرہ وحشی ہیں) وہ حلال ہیں ‘ جیسے ہرن ‘ نیل گائے اور اس طرح کے جانور جو عام طور پر گوشت خور نہیں ہیں بلکہ سبزے پر ان کا گزارا ہے ‘ ان کا گوشت تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ البتہ استثنائی صورتوں کی تفصیل بعد میں تمہیں بتادی جائے گی۔ - (غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط) ۔- یعنی اگر تم نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا ہوا ہے تو تم اس حالت میں ان حلال جانوروں کا بھی شکار نہیں کرسکتے ۔ 33- (اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ ) - یہ اللہ کا اختیار ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے ‘ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :1 یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں ، اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :2 ”اَنعام“ ( مویشی ) کا لفظ عربی زبان میں اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے ۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں ۔ لیکن حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرندہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “ ۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی نوعیت کے ہوں ۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں ، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں ، اور دوسری حیوانی خصوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں ۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں ، حلال نہیں ہیں ۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں ۔ اسی طرح حضور نے ان پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں ۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من السباع و کل ذی مخلب من الطیر ۔ دوسرے متعدد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :3 ”احرام“ اس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمولی لباس اتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے ۔ اس لباس میں صرف ایک تہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے ۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمولی حالات میں حلال ہیں ، مثلاً حجامت ، خوشبو کا استعمال ، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا شہوت وغیرہ ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے ، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :4 یعنی اللہ حاکم مطلق ہے ، اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے ۔ بندوں کو اس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ اگر چہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندہ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے ، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے ۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے ، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے ، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے ۔ لہٰذا قرآن پورے زور کے ساتھ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حرمت و حلت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: چوپایہ توہر اس جانور کو کہتے ہیں جو چار ہاتھ پاؤں پر چلتا ہو، لیکن ان میں سے صرف وہ جانور حلال ہیں جو مویشیوں میں شمار ہوتے ہیں، یعنی گائے، اُونٹ، اور بھیڑ بکری، یا پھر ان مویشیوں کے مشابہ ہوں، جیسے ہرن، نیل گائے وغیرہ۔ 2: ان حرام چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آیت نمبر 3 میں آ رہا ہے۔ 3: یعنی مویشیوں کے مشابہ جانور، مثلا ہرن وغیرہ اگرچہ حلال ہیں، ان کا شکار بھی حلال ہے، لیکن جب حج یا عمرے کے لئے کسی نے احرام باندھ لیا ہو تو ان جانوروں کا شکار حرام ہوجاتا ہے۔ 4: اس جملے نے ان تمام سوالات اور اعتراضات کی جڑ کاٹ دی ہے، جو لوگ محض اپنی محدود عقل کے سہارے شرعی احکام پر عائد کرتے ہیں، مثلا یہ سوال کہ جانور بھی تو آخر جان رکھتے ہیں، ان کو ذبح کرکے کھانا کیوں جائز کیا گیا جبکہ یہ ایک جاندار کو تکلیف پہنچانا ہے، یا مثلا یہ سوال کہ فلاں جانور کو کیوں حلال کیا گیا اور فلاں جانور کو کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟ آیت کے اس حصے نے اس کا مختصر اور جامع جواب یہ دے دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے، وہی اپنی حکمت سے جس بات کا ارادہ فرماتا ہے اس کا حکم دے دیتا ہے۔ اس کا ہر حکم یقینا حکمت پر مبنی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس کے ہر حکم کی حکمت بندوں کو سمجھ میں بھی آئے، لہٰذا بندوں کا کام یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو چون وچرا کے بغیر تسلیم کرکے اس پر عمل کریں۔