دشمن اسلام سے دوستی منع ہے دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے دوستیاں کرنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ تمہارے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے دین سے انہیں بغض و عداوت ہے ۔ ہاں اپنے والوں سے ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں ۔ میرے نزدیک تو جو بھی ان سے دلی محبت رکھے وہ ان ہی میں سے ہے ۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی ۔ حضرت عبداللہ بن عتبہ نے فرمایا لوگو تمہیں اس سے بچنا چاہئے کہ تمہیں خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ ، ہم سمجھ گئے کہ آپ کی مراد اسی آیت کے مضمون سے ہے ۔ ابن عباس سے عرب نصرانیوں کے ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے یہی آیت تلاوت کی ۔ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے ساز باز اور محبت و مودت کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آ گئے تو پھر ہماری تباہی کر دیں گے ، اس لئے ہم ان سے بھی میل ملاپ رکھتے ہیں ، ہم کیوں کسی سے بگاڑیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ممکن ہے اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے اور حکم ان ہی کے چلنے لگیں ، حکومت ان کے قدموں میں سر ڈال دے ۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے پاس سے لائے یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے انہیں ذلیل کر کے ان سے جزیہ لینے کا حکم مسلمانوں کو دے دے پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے گہری دوستی کرتے پھرتے ہیں ، بڑے بھنانے لگیں گے اور اپنی اس چالاکی پر خون کے آنسو بہانے لگیں گے ۔ ان کے پردے کھل جائیں گے اور یہ جیسے اندر تھے ویسے ہی باہر سے نظر آئیں گے ۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے اور کہیں گے اے لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھی ہیں ۔ انہوں نے جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے ۔ ( ویقول ) تو جمہور کی قرأت ہے ۔ ایک قرأت بغیر واؤ کے بھی ہے اہل مدینہ کی یہی قرأت ہے ۔ یقول تو مبتداء اور دوسری قرأت اس کی ( یقول ) ہے تو یہ ( فعسی ) پر عطف ہو گا گویا ( وان یقول ) ہے ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد کے بعد ایک شخص نے کہا کہ میں اس یہودی سے دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے نفع پہنچے ، دوسرے نے کہا ، میں فلاں نصرانی کے پاس جاتا ہوں ، اس سے دوستی کر کے اس کی مدد کروں گا ۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ تو آپ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بہت سے یہودیوں سے میری دوستی ہے مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں ، مجھے اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی کافی ہے ۔ اس پر اس منافق نے کہا میں دور اندیش ہوں ، دور کی سوچنے کا عادی ہوں ، مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا ، نہ جانے کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبداللہ تو عبادہ کے مقابلے میں بہت ہی گھاٹے میں رہا ، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے اپنے ملنے والے یہودیوں سے کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو ، اس سے پہلے ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے فنون سے بےبہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے کہیں تم مغرور نہ ہو جانا ، ہم سے اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں بتا دیں گے کہ لڑائی اسے کہتے ہیں ۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ جب یہودیوں کے اس قبیلہ سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آ گئے تو اب عبداللہ بن ابی آپ سے کہنے لگا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے دوستوں کے معاملے میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے ساتھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ، اس نے پھر کہا ، آپ نے منہ موڑ لیا ، یہ آپ کے دامن سے چپک گیا ، آپ نے غصہ سے فرمایا کہ چھوڑ دے ، اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ چھوڑوں گا ، یہاں تک کہ آپ ان کے بارے میں احسان کریں ، ان کی بڑی پوری جماعت ہے اور آج تک یہ لوگ میرے طرفدار رہے اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے ۔ مجھے تو آنے والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جا وہ سب تیرے لئے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب بنو قینقاع کے یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی اور اللہ نے انہیں نیچا دکھایا تو عبداللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے باوجودیکہ یہ بھی ان کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برأت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیتیں ( ہم الغالبون ) تک اتریں ۔ مسند احمد میں ہے کہ اس منافق عبداللہ بن ابی کی عیادت کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا ، میں نے تو تجھے بار ہا ان یہودیوں کی محبت سے روکا تو اس نے کہا سعد بن زرارہ تو ان سے دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا ۔
51۔ 1 اس میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورة آل عمران آیت 28 اور آیت 118 کا حاشیہ) 51۔ 2 قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔ 51۔ 3 ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ (رض) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔
[٩٣] یہود و نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت :۔ کفار سے ظاہری موالات، رواداری اور حسن سلوک (بالخصوص جبکہ وہ ذمی یا معاہد ہوں) اور چیز ہے اور انہیں قابل اعتماد دوست سمجھنا اور بنانا اور چیز ہے اس سلسلہ میں سورة آل عمران کی آیت نمبر ٢٨ (اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً 28 ) 3 ۔ آل عمران :28) کا حاشیہ بھی ملاحظہ کرلیا جائے۔ اس آیت میں بالخصوص یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے باہمی اختلاف گو شدید ہیں اور ان دونوں فرقوں میں گروہی اختلافات اور دشمنی بھی شدید ہے تاہم اسلام دشمنی کی خاطر وہ سب مل بیٹھتے ہیں اور سمجھوتہ کرلیتے ہیں لہذا ان میں سے کوئی بھی تمہارا حقیقی اور قابل اعتماد دوست کبھی نہیں ہوسکتا۔ لہذا تم بھی ان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھاؤ اور نہ ہی دوستی کے قابل سمجھو۔ جب بھی انہیں موقع میسر آیا وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے اور اگر کوئی مسلمان ان سے دوستی رکھتا اور ان کی محبت کا دم بھرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں اسے بھی انہیں میں کا ایک فرد سمجھو۔ ایسے لوگوں کو راہ راست نصیب نہیں ہوسکتی اور تمہیں ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہنا چاہیے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘ۔۔ : ” اَوْلِيَاۗءَ ۘ“ یہ ” وَلِیٌّ“ کی جمع ہے، مراد دلی دوست ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے، تو جسے تم اپنا خیر خواہ سمجھ کر دوست بنا رہے ہو اس کی اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ بھی دوستی ہے جو تمہارے شدید دشمن ہیں، وہ آپس میں کتنا بھی اختلاف رکھتے ہوں تمہاری عداوت میں وہ ایک ہیں اور ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، تو تمہاری یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس پر اتنی سختی فرمائی کہ فرمایا تم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انھی میں سے ہے۔ رہا ان سے اچھا تعلق رکھنا، خوش اخلاقی، حسن سلوک اور احسان تو وہ ان لوگوں کے ساتھ کرسکتے ہو جنھوں نے دین کی وجہ سے تم سے جنگ نہیں کی، جن کا ذکر سورة ممتحنہ (٨) میں ہے۔ صرف یہود و نصاریٰ ہی سے نہیں تمام کفار کی دلی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (٢٣) ، سورة مجادلہ (٢٢) اور آل عمران (٢٨، ١١٨) ۔
خلاصہ تفسیر۔- آیات مذکورہ میں تین اہم اصولی مضامین کا بیان ہے جو مسلمانوں کی اجتماعی اور ملی وحدت و شیرازہ بندی کے بنیادی اصول ہیں :- اول یہ کہ مسلمان غیر مسلموں سے رواداری، ہمدردی، خیر خواہی، عدل و انصاف اور احسان و سلوک سب کچھ کرسکتے ہیں، اور ایسا کرنا چاہیے کہ ان کو اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن ان سے ایسی گہری دوستی اور خلط ملط جس سے اسلام کے امتیازی نشانات گڈ مڈ ہوجائیں اس کی اجازت نہیں۔ یہی وہ مسئلہ ہے جو ” ترک موالات “ کے نام سے معروف ہے۔- دوسرا مضمون یہ ہے کہ اگر کسی وقت کسی جگہ مسلمان اسی بنادی اصول سے ہٹ کر غیر مسلموں سے ایسا غلط ملط کرلیں تو یہ نہ سمجھیں کہ اس سے اسلام کو کوئی گزند اور نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ اسلام کی حفاظت اور بقاء کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے لی ہے، اس کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اگر کوئی قوم بِرَٹ جائے اور حدود شرعیہ کو توڑ کر فرض کرلو کہ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ تعالیٰ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردیں گے جو اسلام کے اصول و قانون کو قائم کرے گی۔- تیسرا مضمون یہ ہے کہ جب ایک طرف منفی پہلو معلوم ہوگیا تو مسلمان کی گہری دوستی تو صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والوں ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ یہ اجمال ہے ان مضامین کا جو مذکورہ بالا پانچ آیتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اب ان آیتوں کی مختصر تفسیر دیکھئے :- اے ایمان والو تم (منافقوں کی طرح) یہود و نصاریٰ کو (اپنا) دوست مت بنانا وہ (خود ہی) ایک دوسرے کے دوست ہیں (یعنی یہودی یہودی باہم اور نصرانی نصرانی باہم، مطلب یہ ہے کہ دوستی ہوتی ہے مناسبت سے، سو ان میں باہم تو مناسبت ہے مگر تم میں اور ان میں کیا مناسبت) اور (جب جملہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ دوستی ہوتی ہے تناسب سے تو) جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا بیشک وہ (کسی خاص مناسبت کے اعتبار سے) ان ہی میں سے ہوگا (اور گویہ یہ امر ظاہر ہے لیکن) یقینا اللہ تعالیٰ (اس امر کی) سمجھ ہی نہیں دیتے ان لوگوں کو جو (کفار سے دوستی کرکے) اپنا نقصان کر رہے ہیں (یعنی دوستی میں منہمک ہونے کی وجہ سے یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتی، اور چونکہ ایسے لوگ اس امر کو نہیں سمجھتے) اسی لئے (اے دیکھنے والے) تم ایسے لوگوں کو کہ جن کے دل میں (نفاق کا) مرض ہے دیکھتے ہو کہ دوڑ دوڑ کر ان (کفار) میں گھستے ہیں (اور ملامت کرے تو حیلہ بازی اور سخن سازی کے لئے یوں) کہتے ہیں کہ (ہمارا ملنا ان کے ساتھ دل سے نہیں، بلکہ دل سے تو تمہارے ساتھ ہیں صرف ایک مصلحت سے ان کے ساتھ ملتے ہیں وہ یہ کہ) ہم کو اندیشہ ہے کہ (شاید انقلاب زمانہ سے) ہم پر کوئی حادثہ پڑجائے (جیسے قحط ہے، تنگی ہے، اور یہ یہودی ہمارے ساہوکار ہیں ان سے قرض ادھار مل جاتا ہے، اگر ظاہری میل جول قطع کردیں گے تو وقت پر ہم کو تکلیف ہوگی، ظاہراً نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ کا یہ مطلب لیتے تھے۔ لیکن دل میں اور مطلب لیتے کہ شاید آخر میں مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے سے پھر ہم کو ان کی احتیاج پڑے اس لئے ان سے دوستی رکھنا چاہئے) سو قریب امید (یعنی وعدہ) ہے کہ اللہ تعالیٰ (مسلمانوں کی کامل) فتح (ان کفار کے مقابلہ میں جن سے یہ دوستی کر رہے ہیں) فرما دے (جس میں مسلمانوں کی کوشش کا بھی دخل ہوگا) یا کسی اور بات کا خاص اپنی طرف سے (ظہور فرما دے۔ یعنی ان کے نفاق کا علی التعیین بذریعہ وحی کے عام اظہار فرما دیں جس میں مسلمانوں کی تدبیر کا اصلاً دخل نہیں۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کی فتح اور ان کی پردہ دری دونوں امر قریب ہونے والے ہیں) پھر (اس وقت) اپنے (سابق) پوشیدہ دلی خیالات پر نادم ہوں گے۔ (کہ ہم کیا سمجھتے تھے کہ کفار غالب آویں گے اور یہ کیا برعکس ہوگیا۔ ایک ندامت تو اپنے خیال کی غلطی پر کہ امر طبعی ہے۔ دوسری ندامت اپنے نفاق پر جس کی بدولت آج رسوا ہوئے، مَآ اَ سَرُّوْا میں یہ دونوں داخل ہیں، اور یہ تیسری ندامت کہ کفار کے ساتھ دوستی کرنے پر رائگاں ہی گئی۔ اور مسلمانوں سے بھی برے بنے۔ چونکہ دوستی مَآ اَ سَرُّوْا پر مبنی تھی۔ لہذا ان دو ندامتوں کے ذکر سے یہ تیسری بلا ذکر صریح خود مفہوم ہوگئی) اور (جب اس زمانہ فتح میں ان لوگوں کا نفاق بھی کھل جائے گا تو آپس میں) مسلمان لوگ (تعجب سے) کہیں گے ارے کیا یہ وہی لوگ ہیں کہ بڑے مبالغہ سے (ہمارے سامنے) قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم (دل سے) تمہارے ساتھ ہیں (یہ تو کچھ اور ہی ثابت ہوا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) ان لوگوں کی ساری کاروائیاں (کہ دونوں فریق سے بھلا رہنا چاہتے تھے سب) غارت گئیں جس سے (دونوں طرف سے) ناکام رہے (کیونکہ کفار تو مغلوب ہوگئے۔ ان کا ساتھ دینا محض بیکار ہے اور مسلمانوں کے سامنے قلعی کھل گئی، ان سے اب بھلا بننا دشوار۔ وہی مثل ہوگئی ” ازیں سو راندہ ازاں سو ماندہ) اے ایمان والو (یعنی جو لوگ وقت نزول اس آیت کے ایمان والے ہیں) جو شخص تم میں سے اپنے (اس) دین سے پھرجائے تو (اسلام کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ اسلامی خدمات انجام دینے کے لئے) اللہ تعالیٰ بہت جلد (ان کی جگہ) ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جن سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہوگی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی مہربان ہوں گے وہ مسلمانوں پر، تیز ہوں گے کافروں پر (کہ ان سے) جہاد کرتے ہوں گے اللہ کی راہ میں اور (دین اور جہاد کے مقدمہ میں) وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گی (جیسا منافقین کا حال ہے کہ دبے دبائے جہاد کے لئے جاتے تھے۔ مگر اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کفار جن سے دل میں دوستی ہے ملامت کریں گے، یا اتفاق سے جن کے مقابلہ میں جہاد ہے وہی اپنے دوست اور عزیز ہوں تو سب دیکھتے سنتے طعن کریں گے کہ ایسوں کو مارنے گئے تھے) یہ (صفات مذکورہ) اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہیں عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (کہ اگر چاہیں تو سب کو یہ صفات دے سکتے ہیں لیکن) بڑے علم والے (بھی) ہیں (ان کے علم میں جس کو دینا مصلحت ہوتا ہے اس کو دیتے ہیں) تمہارے دوست تو (جن سے تم کو دوستی رکھنا چاہئے) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایماندار لوگ ہیں جو کہ اس حالت سے نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں کہ ان (کے دلوں) میں خشوع ہوتا ہے، (یعنی عقائد، اخلاق و اعمال بدنی و مالی سب کے جامع ہیں) اور جو شخص (موافق مضمون مذکور) اللہ سے دوستی رکھے گا اور اس کے رسول سے اور ایمان دار لوگوں سے سو (وہ اللہ کے گروہ میں داخل ہوگیا اور) اللہ کا گروہ بیشک غالب ہے (اور کفار مغلوب ہیں، غالب سے مغلوب کی سازگاری اور دوستی کی فکر کرنا محض نازیبا ہے) اے ایمان والو جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب (آسمانی یعنی تورات و انجیل) مل چکی ہے (مراد یہود و نصاریٰ ) جو ایسے ہیں کہ انہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے (جو علامت ہے تکذیب کی) ان کو اور (اسی طرح) دوسرے کفار کو (بھی جیسے مشرکین وغیرہ) دوست مت بناؤ (کیونکہ اصل علّت کفر و تکذیب تو مشترک ہے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان دار ہو (یعنی ایمان دار تو ہو ہی پس جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اس کو مت کرو) اور (جیسے اصول دین کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں، اسی طرح فروع کے ساتھ بھی چنانچہ) جب تم نماز کے لئے (اذان کے ذریعہ سے) اعلان کرتے ہو تو وہ لوگ (تمہاری) اس (عبادت) کے ساتھ (جس میں اذان اور نماز دونوں آگئیں) ہنسی اور کھیل کرتے ہیں (اور) یہ (حرکت) اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ بالکل عقل نہیں رکھتے (ورنہ امر حق کو سمجھتے اور اس کے ساتھ ہنسی نہ کرتے) ۔- معارف و مسائل - پہلی آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یہود و نصاریٰ سے موالات (یعنی گہری دوستی) نہ کریں جیسا کہ عام غیر مسلموں کا اور یہود و نصاریٰ کا خود یہی دستور ہے کہ وہ گہری دوستی کو صرف اپنی قوم کے لئے مخصوص رکھتے ہیں، مسلمانوں سے یہ معاملہ نہیں کرتے۔- پھر اگر کسی مسلمان نے اس کی خلاف ورزی کرکے کسی یہود یا نصرانی سے گہری دوستی کرلی تو وہ اسلام کی نظر میں بجائے مسلمان کے اسی قوم کا فرد شمار ہونے کے قابل ہے۔- شان نزول - امام تفسیر ابن جریر نے بروایت عکرمہ (رض) بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت ایک خاص واقعہ میں نازل ہوئی ہے، وہ یہ کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ میں تشریف فرما ہونے کے بعد ان اطراف کے یہود و نصاریٰ سے ایک معاہدہ اس پر کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہ خود جنگ کریں گے، نہ کسی جنگ کرنے والی قوم کی امداد کریں گے۔ بلکہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اسی طرح مسلمان نہ ان لوگوں سے جنگ کریں گے نہ ان کے خلاف کسی قوم کی امداد کریں گے بلکہ مخالف کا مقابلہ کریں گے۔ کچھ عرصہ تک یہ معاہدہ جانبین سے قائم رہا، لیکن یہودی اپنی سازشی فطرت اور اسلام دشمن طبیعت کی وجہ سے اس معاہدہ پر زیادہ قائم نہ رہ سکے اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ سے سازش کرکے ان کو قلعہ میں بلانے کے لئے خط لکھ دیا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب اس سازش کا انکشاف ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے مقابلہ کے لئے ایک دستہ مجاہدین کا بھیج دیا۔ بنو قریظہ کے یہ یہودی ایک طرف تو مشرکین مکہ سے یہ سازش کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں میں گھسے ہوئے بہت سے مسلمانوں سے دوستی کے معاہدے کئے ہوئے تھے۔ اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف مشرکین کے لئے جاسوسی کا کام انجام دیتے تھے۔ اس لئے یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی جس نے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی گہری دوستی سے روک دیا، تاکہ مسلمانوں کی خاص خبریں معلوم نہ کرسکیں۔ اس وقت بعض صحابہ کرام حضرت عبادہ بن صامت وغیرہ نے تو کھلے طور پر ان لوگوں سے اپنا معاہدہ ختم اور ترک موالات کا اعلان کردیا۔ اور بعض لوگ جو منافقانہ طور پر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے یا ابھی ایمان ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا ان لوگوں سے قطع تعلق کردینے میں یہ خطرات محسوس کرتے تھے کہ ممکن ہے کہ مشرکین و یہود کی سازش کامیاب ہوجائے اور مسلمان مغلوب ہوجائیں تو ہمیں ان لوگوں سے بھی ایسا معاملہ رکھنا چاہئے کہ اس وقت ہمارے لئے مصیبت نہ ہوجائے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے اسی بناء پر کہا کہ ان لوگوں سے قطع تعلق میں تو مجھے خطرہ ہے۔ اس لئے ایسا نہیں کرسکتا اس پر دوسری آیت نازل ہوئی۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ٠ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ٠ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ ٥١- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- ولي - والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
یہودونصاریٰ سے دوستی کی ممانعت - قول باری ہے یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض اے ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ عکرمہ سے مروی ہے کہ آیت کا نزول ابو لبابہ بن عبد المنذر کے بارے میں ہوا ہے ، یہ بنو قریظہ کے پاس پہنچ گئے اور ان سے خیر خواہی کا اظہار کرتے ہوئے گلے پر ہاتھ رکھ کر انہیں اشارے سے اطلاع دے دی کہ ان کے متعلق ذبح یعنی قتل کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ سدی کا قول ہے کہ جب جنگ احد کے بعد کافروں کے عارضی غلبے کی بنا پر کچھ لوگوں پر خوف طاری ہوگیا اور وہ مشرکین سے ڈر گئے یہاں تک کہ ایک شخص کے منہ سے یہ نکلا میں یہودیوں کے ساتھ سوالات یعنی دوستی کا معاہدہ کرلوں گا ۔ ایک اور کی زبان سے یہ نکلا ۔ میں یہودیوں کے ساتھ سوالات یعنی دوستی کا معاہدہ کرلوں گا ۔ ایک اور کی زبان سے یہ نکلا ۔ میں عیسائیوں کے ساتھ دوستی گانٹھ لوں گا ۔ تو اس موقع پر مسلمانوں کی تنبیہ کی خاطر اس آیت کا نزول ہوا ۔ عطیہ بن سعد کا قول ہے کہ آیت کا نزول حضرت عبادہ بن الصامت (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہوا ۔ حضرت عبادہ (رض) تو یہودیوں کی موالات سے دست بردار ہوگئے۔ لیکن عبد اللہ بن ابی اس پر ڈٹا رہا اور کہتا تھا مجھے زمانے کی گردشوں کا خطرہ ہے۔- ولی مدد گار کو کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ اپنے رفیق کے ساتھ اس کی مدد کے ذریعے رابطہ رکھتا ہے ۔ نابالغ کے سرپرست کو بھی ولی کہتے ہیں اس لیے کہ وہ اس نابالغ کی طرف سے احتیاط اور ہوشمندی کے ساتھ تمام تصرفات کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ عورت کے ولی اس کے عصبات ہوتے ہیں اس لیے کہ یہی رشتہ دار اس کے نکاح کے انتظام و انصرام کے نگران اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس آیت میں دلالت موجود ہے کہ کافر کسی طرح بھی مسلمان کا ولی نہیں بن سکتا نہ تو تصرفات کے لحاظ سے اور نہ ہی مدد اور نصرت کے لحا ظ سے بلکہ آیت کافروں کے سے برأت اور دست برداری نیز ان کے لیے عداوات رکھنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ دلالت عداوت کی ضد ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کی بنا پر ان سے دوستی نہ کرنے یعنی دشمنی رکھنے کا حکم دیا تو دوسرے کفار بھی انہی کی طرح ہوں گے، نیز آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے کہ قول باری ہے بعضھم اولیاء بعض ۔- نیز اس امر پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایک یہودی کو ان حالتوں میں ایک نصرانی پر ولایت کا استحقاق ہوتا ہے جن میں اس کی ولایت اور سرپرستی میں کسی یہودی کے ہونے کی صورت میں اسے یہ حق حاصل ہوجاتا ، مثلاً یہ کہ وہ نصرانی نابالغ یا دیوانہ نہ ہو ۔ نکاح کے سلسلے میں یہودی اور نصرانی کے درمیان ولایت کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ چونکہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لوگ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق اور ولی ہیں ۔ اس لیے ان کے درمیان تورات کے ایجاب پر دلالت ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ کفر ایک ہی ملت ہے خواہ ان کے مذاہب اور راستے ایک دوسرے سے مختلف کیوں نہ ہوں ۔ ان کی آپس میں شادی بیاہ کے جواز پر بھی دلالت ہو رہی ہے ۔ ایک عیسائی مرد ایک یہودی عورت سے اور ایک یہودی مرد ایک عیسائی عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ ہماری یہ بات ان احکام سے تعلق رکھتی ہے جو ان کے درمیان جاری اور ناقد ہوتے ہیں لیکن ان کے اور مسلمانوں کے درمیان اس بات کا جہاں تک تعلق ہے تو شادی بیاہ اور ذبیحہ کی حلت کے جو از کے لحاظ سے کتابی اور غیر کتابی کے حکم میں فرق ہوتا ہے۔ قول باری ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اسکا شمار بھی پھر انہی میں سے ہے یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے ہاتھ کے ذبح کیے ہوئے جانوروں کے گوشت کی حلت اور ان کی عورتوں سے نکاح کے جواز کے لحاظ سے بنی تغلب کے نصاری کا حکم وہی ہے جو بنی اسرائیل کے نصاریٰ ا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حسن سے یہی مروی ہے۔ قول باری منکم سے مشرکین عرب مراد لینا درست ہے اس لیے کہ اگر اس سے مسلمان مراد لیے جاتے تو وہ کفار سے دوستی کی بنا پر مرتد ہوجاتے جبکہ یہودیت اور نصرانیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا شخص ان کے کسی بھی حکم کے لحاظ سے ان میں سے نہیں ہوتا ۔- آپ نہیں دیکھتے تھے کہ ایسے شخص کا ذبیحہ نہیں کھایا جاتا اور اگر عورت ہو تو اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوتا، نہ وہ ان کا وارث ہوتا ہے اور نہ ہی وہ لوگ اس کے وارث ہوتے ہیں ۔ اس شخص کے اور ان لوگوں کے مابین ولایت کے حقوق میں سے کوئی بھی حق ثابت نہیں ہوتا ۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم فانہ منھم اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایک مسلمان ایک مرتد کا وارث نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرتد ان لوگوں میں سے ہے جو یہود و نصاریٰ سے دوستی گانٹھتے ہیں ۔ یہ بات واضح ہے کہ ایک مسلمان کسی یہودی یا نصرانی کا وارث نہیں ہوتا اسی طرح وہ مرتد کا بھی وارث نہیں ہو سکات ۔- ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ جس بات کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس پر اس قول باری کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہودیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا یہودی نہیں بنتا ۔ اسی طرح نصرانیت کی طرف ارتداد اختیار کرنے والا نصرانی نہیں بنتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کا ذبیحہ حلال نہیں ہوتا اور عورت ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوتا نیز یہ کہ ایسا شخص نہ کسی یہودی کا وارث ہوتا ہے اور نہ یہودی اس کا وارث بنتا ہے ۔ جس طرح یہ قول باری اس شخص کے اوپر ایک یہودی یا نصرانی کے درمیان تورات کے ایجاب پر دلالت نہیں کرتا اسی طرح یہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ مسلمان اس کا وارث نہیں بن سکتا ۔ اس قول باری کو دو باتوں میں سے ایک پر محمول کیا جائے گا ۔ اگر اس میں کفار عرب کو خطاب ہے تو اس کی اس امر پر دلالت ہوگی کہ عرب کے بت پرست اگر یہودی یا عیسائی بن جائیں تو ان سے مناکحت اور ان کے ہاتھ سے ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کی حلت کے جواز نیز جزیہ لے کر انہیں کفر پر برقرار رکھنے کے لحاظ سے ان کا حکم بھی وہی ہوگا جو یہود و نصاریٰ کا حکم ہے۔- اگر آیت میں مسلمانوں کو خطاب ہے تو پھر اس صورت میں آیت کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص ان یہودیوں اور نصرانیوں سے موالات کی بنا پر ان جیسا کافر ہے۔ اس لیے میراث کے حکم پر اس قول باری میں کوئی دلالت نہیں ہوگی ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب خطاب کی ابتدا مسلمانوں سے ہوئی ہے جیسا کہ قول یایھا الذین امنوا لا تتخذوالیھود والنصاری اولیاء سے ظاہر ہے تو اب یہ احتمال باقی نہیں رہتا ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم فانہ منھم سے مشرکین عرب مراد لیے جائیں ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب آیت کی ابتدا میں جو لوگ مخاطب بنائے گئے تھے وہ اس وقت کے اہل عرب تھے تو یہ جائز ہے کہ قول باری ومن یتولھم منکم سے عرب کے لوگ مراد ہوں ۔ پھر آیت سے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ عرب کے مشرکین جب مذہب کے ذریعے اور ملت کی طرف انتساب کے واسطے سے یہود و نصاریٰ کے ساتھ سوالات کرلیں گے تو وہ بھی ان کے حکم میں ہوجائیں گے خواہ وہ ان کے دین کے تمام احکام کی پیروی نہ بھی کریں ۔ بعض لوگ تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ملت اسلام سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر کسی ایسے مذہب کا معتقد ہوجائے جس کے پیروکاروں کی کفر کی طرف نسبتواجب قرار پاتی ہو تو اس شخص پر کفر کی طرف نسبت کا حکم اس کا ذبیحہ کھانے اور اس قسم کی عورت سے نکاح کرنے میں مانع نہیں ہوگا ۔ بشرطیکہ ایسے لوگ ملت اسلام کی طرف اپنا انتساب کرتے ہوں۔ خواہ فاسد مذہب پر اعتقاد کی وجہ سے یہ عقیدے کے لحاظ سے کافر ہی کیوں نہ قرار پائیں ، اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگ فی الجملہ اہل اسلام کے ساتھ موالات کرتے اور قرآن کے حکم کی طرف اپنا انتساب رکھتے ہیں۔ جس طرح ایک شخص جب یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلیتا ہے تو اس کا حکم وہی ہوتا ہے جو یہودیوں اور نصرانیوں کا ہے خواہ ایسا شخص ان کی شریعتوں کی پوری پابندی نہ بھی کرتا ہو ۔ اس جواز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ومن یتولھم منکم فانہ منھم ابو الحسن کرخی بھی اس مسلک کے حامیوں میں سے تھے۔
(٥١) اے اہل ایمان دوستی اور مدد میں ظاہری اور خفیہ طریقے پر دینی معاملات میں یہود و نصاری کو دوست مت بنانا اور جو مسلمانوں میں سے مدد اور دوستی میں ان (یہود و نصاری) کے ساتھ ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی امانت اور حفاظت میں نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ یہود ونصاری کو ان کے غلط رویے کے سبب اپنے دین اور حجت کی طرف ہدایت نہیں کرتا۔- شان نزول : (آیت) ”۔ یایھا الذین امنوا لاتتخذوا الیہودا والنصری “۔ (الخ)- ابن اسحاق (رح) ابن جریر (رح) ابن ابی حاتم (رح) اور بیہقی (رح) نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب بنی قینقاع کی لڑائی ہوئی تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے اس میں بڑی دلچپسی لی اور ان کی مخالفت پر کمربستہ ہوا تو حضرت عبادہ بن صامت (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ان کی دوستی سے برأت ظاہر کی اور حضرت عبادہ بن عوف بن الخزرج سے تھے اور ان لوگوں کی قسموں کی طرف سے ان کو وہ فضیلت جو عبداللہ بن ابی بن سلول کو تھی چناچہ ان لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قسمیں کھائیں اور کفار کی قسموں اور ان کی دوستی سے برأت ظاہر کی، سورة مائدہ کی یہ آیت حضرت عبادہ اور عبداللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی، اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست مت بناؤالخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٥١ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ (بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط) - ان میں سے بعض بعض کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ درحقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو اس دور میں آکر پوری ہوئی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو صورت حال وہ تھی جو ہم قبل ازیں (اس سورة کی آیت ١٤ میں) پڑھ آئے ہیں : (فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط) پس ہم نے ان کے مابین عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی روز قیامت تک کے لیے۔ چناچہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین ہمیشہ شدید دشمنی رہی ہے اور آپس میں کشت و خون ہوتا رہا ہے ‘ لیکن زیر نظر الفاظ (بَعضُھُمْ اَوْلیَاءُ بَعْضٍ ) میں جو پیشین گوئی تھی وہ بیسویں صدی میں آکر پوری ہوئی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن (١٩١٧ ء) کے بعد کی صورت حال میں ان کا باہمی گٹھ جوڑ شروع ہوا ‘ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی ‘ اور اب بھی اگر وہ قائم ہے تو اصل میں انہی عیسائی ملکوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہے۔ عیسائی اب یہودیوں کی اس لیے پشت پناہی کر رہے ہیں کہ ان کی ساری معیشت یہودی بینکاروں کے زیر تسلط ہے۔ عیسائیوں کی معیشت پر یہودیوں کے قبضہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ اس درجہ مستحکم ہوچکا ہے کہ آج عیسائیوں کی پوری عسکری طاقت یہودیوں کی پشت پر ہے۔ - (وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط) ۔- یعنی جو کوئی ان سے دوستی کے معاہدے کرے گا ‘ ان سے نصرت و حمایت کا طلب گار ہوگا ‘ ہماری نگاہوں میں وہ یہودی یا نصرانی شمار ہوگا۔- ( اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ) - آج ہمارے اکثر مسلمان ممالک کی پالیسیاں کیا ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کا فتویٰ کیا ہے ‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔
43: اس آیت کی تشریح اور غیر مسلموں سے تعلقات کی حدود کی تفصیل دیکھئے سورۃ آل عمران (28:3) کا حاشیہ۔