Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور اور طالب ہیں ؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لئے ہے اور فا لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ( یعرضون من حکمک بما انزل اللہ علیک ویتولون عنہ، یبتغون حکم الجاہلیۃ) تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں (فتح القدیر) 50۔ 2 حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا اللہ کہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٢] اسلام اور جاہلیت کا تقابل :۔ جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔ اسلام سراسر روشنی ہے جبکہ جاہلیت اندھیرے ہی اندھیرے ہیں اسلام ایسی روشنی اور ایسا علم ہے جو دنیاوی زندگی کے ہر پہلو میں بھی رہنمائی کرتا ہے اور اخروی زندگی میں نجات کی راہیں بھی دکھاتا ہے جبکہ جاہلیت اس دنیا میں بھی انسان کو سرگرداں اور پریشان حال بنائے رکھتی ہے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار کر دے گی اسلام سے پہلے کے دور کو دور جاہلیت کہا جاتا ہے اور اس کا اطلاق ان تمام رسوم و رواج پر ہوتا ہے جن کی وجہ سے کسی انسان کی جان و مال اور آبرو محفوظ نہ تھی۔ ہر انسان دوسرے کا دشمن اور خون کا پیاسا تھا۔ کفر و شرک عام تھا۔ انسان کی زندگی اس قدر اجیرن بن چکی تھی کہ ہر عقلمند انسان اس سے نکلنے کی فکر میں تھا مگر اسے کوئی راہ نہ ملتی تھی اور دور جاہلیت کے فیصلہ سے مراد ہر وہ فیصلہ ہے جو بےانصافی پر مبنی ہو۔ آج کے دور پر بھی دور جاہلیت کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ آج کی نئی روشنی اسی پرانے دور جاہلیت سے ملتی جلتی ہے جس قسم کی فحاشی و بدکرداری اور بےحیائی اس دور میں پائی جاتی تھی آج بھی پائی جاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭ۔۔ : کیا یہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق کیے ہوئے فیصلے کو چھوڑ کر کفر و جاہلیت کے زمانے کا فیصلہ پسند کرتے ہیں جس کی بنیاد ذاتی خواہشات پر ہوتی تھی اور جن میں کمزور کے مقابلے میں طاقت ور کی طرف داری کی جاتی تھی، اسی کا نام یہودیت ہے کہ وہ چھوٹے درجے کے آدمی کے مقابلے میں بڑے کی رعایت کرتے، کمزوروں پر حدود قائم کرتے اور مال دار طبقہ کی رعایت کرتے۔ (کبیر، قرطبی) - افسوس بعض مسلم حکام کے زمانے کے علماء نے ایسے احکام اور حیلے ایجاد کیے کہ اللہ تعالیٰ کی حدود کا نفاذ تقریباً ناممکن ہوگیا، مثلاً انھوں نے شراب کی ایک دو قسمیں چھوڑ کر باقی نشہ آور چیزیں حلال کردیں۔ اجرت پر لائی ہوئی عورت کے ساتھ زنا پر حد ختم کردی۔ قصاص کو جیسا کہ اوپر گزرا تقریباً باطل کردیا۔ سود کی کئی صورتوں کو حلال کردیا۔ چور کو عدالت میں پیش ہونے کے بعد بھی صاحب مال کو معاف کرنے کا اختیار دے دیا۔ شواہد کے ساتھ چور کا جرم ثابت ہونے کے بعد چور کے صرف اس دعوے سے کہ یہ میرا مال تھا، اس کی حد معاف کردی، خواہ وہ اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔ اس امام (حاکم) کو جس سے اوپر کوئی امام نہ ہو ایک دو چیزوں کے سوا تمام حدود معاف کردیں اور جاہلیت کے ان احکام کو شرع اسلام قرار دے کر مسلمان ملکوں میں نافذ کردیا، تو کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ” پھر کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں “ جس طرح یہود و نصاریٰ میں شریعت بدلنے والوں کے لیے تھا، اسی طرح ایسے مسلمانوں کے لیے نہیں ہوگا جو قرآن و حدیث کے صریح احکام کے مقابلے میں اپنے من گھڑت احکام نافذ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی دنیا پر غلبے سے محرومی اور کفار کی بدترین غلامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ اب بھی مسلمانوں کے اکثر حکام نے طرز حکومت اور ملکی قانون کفار کے طریقے کے مطابق بنایا ہوا ہے اور وہ ایسی علماء کونسلیں بناتے رہتے ہیں جو قدیم جاہلیت کے ساتھ ساتھ نئی سے نئی جاہلیت کے نفاذ کے لیے قانون بنائیں اور اس کا نام اسلامی کونسل رکھتے ہیں۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝ ٠ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۝ ٥٠ۧ- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے افحکم الجاھلیۃ یبغون تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اس کی دو طرح تفسیر کی گئی ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس میں یہود کو خطاب ہے اس لیے کہ ان کا طریق کار یہ تھا کہ جب کمزوروں پر کوئی فیصلہ واجب ہوتا تو اسے نافذکر دیتے اور جب امیروں پر کسی فیصلے کا اطلاق ہوتا تو اسے نافذ کرنے سے پہلوتہی کرلیتے۔ آیت میں ان سے یہ کہا گیا کہ تم اہل کتاب ہونے کے باوجود بت پرستوں کا فیصلہ چاہتے ہو ایک قول ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو اللہ کے فیصلے سے نکل کر جاہلیت کے فیصلے کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ بات اس کے ان اقدامات پر مشتمل ہوگی جو وہ جہالت اور بے علمی کے طور پر اٹھاتا ہے۔ قول باری ہے من احسن من اللہ حکما ً لقوم یوقنون حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ کے فیصلے حق و انصاف پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں جانبداری نہیں ہوتی۔- یہ بھی کہنا درست ہے کہ ایک فیصلہ بہ نسبت دوسرے فیصلے کے افضل اور احسن ہوتا ہے جس طرح کسی کو منصوص طریقے سے دو فیصلوں کے درمیان اختیار دے دیا جائے اور یہ معلوم ہو کہ ان میں سے ایک فیصلہ دوسرے سے افضل ہے تو جو افضل ہوگا وہ احسن ہوگا ۔ اسی طرح ایک مجتہد کبھی ایسا حکم لگاتا ہے جس کی یہ نسبت دوسرا حکم اولیٰ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو مجتہد میں کوتاہ نظری ہوتی ہے یا وہ ایسے شخص کی تقلید کرلیتا ہے جس سے خود اس حکم میں کوتاہی سر زد ہوچکی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا قرآن کریم میں یہ آپ سے پھر جاہلیت کا فیصلہ مانگتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو قرآن حکیم پر یقین رکھتے ہیں، فیصلہ کرنے میں اللہ تعالیٰ سے کون اچھا ہوگا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط) - جاہلیت سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کا دور ہے۔ یعنی کیا قانونِ الٰہی نازل ہوجانے کے بعد بھی یہ لوگ جاہلیت کے دستور ‘ اپنی روایات اور اپنی رسومات پر عمل کرنا چاہتے ہیں ؟ جیسا کہ ہندوستان میں مسلمان زمیندار انگریز کی عدالت میں کھڑے ہو کر کہہ دیتے تھے کہ ہمیں اپنی وراثت کے مقدمات میں شریعت کا فیصلہ نہیں چاہیے بلکہ رواج کا فیصلہ چاہیے۔- (وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ ) - اللہ تعالیٰ ہمیں اس یقین اور ایمان حقیقی کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ (آمین )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :83 جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسلام کا طریقہ سراسر علم ہے کیونکہ اس کی طرف خدا نے رہنمائی کی ہے جو تمام حقائق کا علم رکھتا ہے ۔ اور اس کے برعکس ہر وہ طریقہ جو اسلام سے مختلف ہے جاہلیت کا طریقہ ہے ۔ عرب کے زمانہ قبل اسلام کو جاہلیت کا دور اسی معنی میں کہا گیا ہے کہ اس زمانہ میں علم کے بغیر محض وہم یا قیاس و گمان یا خواہشات کی بنا پر انسانوں نے اپنے لیے زندگی کے طریقے مقرر کر لیے تھے ۔ یہ طرز عمل جہاں جس دور میں بھی انسان اختیار کریں اسے بہرحال جاہلیت ہی کا طرز عمل کہا جائے گا ۔ مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ محض ایک جزوی علم ہے اور کسی معنی میں بھی انسان کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے ۔ لہٰذا خدا کے دیے ہوئے علم سے بے نیاز ہو کر جو نظام زندگی اس جزوی علم کے ساتھ ظنون و اوہام اور قیاسات و خواہشات کی آمیزش کر کے بنا لیے گئے ہیں وہ بھی اسی طرح”جاہلیت“ کی تعریف میں آتے ہیں جس طرح قدیم زمانے کے جاہلی طریقے اس تعریف میں آتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani