Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ ان (یہودیوں) میں بہت آدمی ایسے دیکھتے ہیں جو دوڑ دوڑ کر گناہ (یعنی جھوٹ) اور ظلم اور حرام (مال) کھانے پر گرتے ہیں واقعی ان کے یہ کام برے ہیں (یہ تو عوام کا حال تھا آگے خواص کا حال ہے کہ) ان کو مشائخ اور علماء گناہ کی بات کہنے سے (باوجود علم مسئلہ و اطلاع واقعہ کے) کیوں نہیں منع کرتے، واقعی ان کی یہ عادت بری ہے۔- معارف و مسائل - یہود کی اخلاقی تباہ حالی - آیت مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اکثر یہود کی اخلاقی گراوٹ اور عملی بربادی کا ذکر ہے، تاکہ سننے والوں کو نصیحت ہو کہ ان افعال اور ان کے اسباب سے بچتے رہیں۔- اگرچہ عام طور پر یہودیوں کا یہی حال تھا لیکن ان میں کچھ اچھے لوگ بھی تھے۔ قرآن کریم نے ان کو مستثنیٰ کرنے کے لئے لفظ کثیراً استعمال فرمایا، اور ظلم وتعدی اور حرام خوری دونوں اگرچہ لفظ اثم یعنی گناہ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ لیکن ان دونوں قسم کے گناہوں کی تباہ کاری اور ان کی وجہ سے پورے امن و اطمینان کی بربادی واضح کرنے کے لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا ذکر علٰیحدہ کردیا (بحر محیط) ۔- اور تفسیر روح المعانی وغیرہ میں ہے کہ ان لوگوں کے متعلق دوڑ دوڑ کر گناہوں پر گرنے کا عنوان اختیار کر کے قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا، کہ یہ لوگ ان بری خصلتوں کے عادی مجرم ہیں۔ اور یہ برے اعمال ان کے ملکات راسخہ بن کر ان کی رگ و پے میں اس طرح پیوست ہوگئے ہیں کہ بلا ارادہ بھی یہ لوگ اسی طرف چلتے ہیں۔- اس سے معلوم ہوا کہ نیک عمل ہو یا بد جب کوئی انسان اس کو بکثرت کرتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ ایک ملکہ راسخہ اور عادت بن جاتی ہے۔ پھر اس کے کرنے میں اس کو کوئی مشقت اور تکلیف باقی نہیں رہتی، بری خصلتوں میں یہود اسی حد پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس کو ظاہر کرنے کے لئے ارشاد فرمایا : يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ ، اور اسی طرح اچھی خصلتوں میں انبیاء و اولیاء کا حال ہے۔ ان کے بارے میں بھی قرآن کریم نے (آیت) یسارعون فی الخیرات کے الفاظ استعمال فرمائے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَتَرٰى كَثِيْرًا مِّنْہُمْ يُسَارِعُوْنَ فِي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ۝ ٠ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٦٢- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ - عُدْوَانِ- ومن العُدْوَانِ المحظور ابتداء قوله : وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة 2] ، ومن العُدْوَانِ الذي هو علی سبیل المجازاة، ويصحّ أن يتعاطی مع من ابتدأ قوله : فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] - اور عدوان یعنی زیادتی کا بدلہ لینے کو بھی قرآن نے عدوان کہا ہے حالانکہ یہ جائز ہے جیسے فرمایا : ۔ فَلا عُدْوانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ [ البقرة 193] تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہئے ۔- سحت - السُّحْتُ : القشر الذي يستأصل، قال تعالی: فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ. [ طه 61] ، وقرئ :- فَيَسْحِتَكُمْ يقال : سَحَتَهُ وأَسْحَتَهُ ، ومنه : السَّحْتُ والسُّحْتُ للمحظور الذي يلزم صاحبه العار، كأنه يسحت دينه ومروء ته، قال تعالی: أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] ، أي : لما يسحت دينهم . وقال عليه السلام : «كلّ لحم نبت من سحت فالنّار أولی به» وسمّي الرّشوة سحتا لذلک، وروي «كسب الحجّام سحت» فهذا لکونه سَاحِتاً للمروءة لا للدّين، ألا تری أنه أذن عليه السلام في إعلافه الناضح وإطعامه المماليك - ( س ح ت ) السحت - ۔ اصل میں اس چھلکے کو کہتے ہیں جو پوری طرح اتار لیا جائے ( اور اس سے ہلاک کردینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ) چناچہ قرآن میں ہے :َفَيُسْحِتَكُمْ بِعَذابٍ «1» . [ طه 61] اور نہ وہ تم ( پر کوئی ) عذاب ( نازل کر کے اس ) سے تم کو ملیامیٹ کر دے گا ۔ اس میں ایک قرات ( فتح یاء کے ساتھ ) بھی ہے اور سحتہ ( ض ) و اسحتہ ( افعال کے ایک ہی معنی آتے ہیں یعنی بیخ کنی اور استیصال کرنا ۔ پھر اسی سے سحت کا لفظ ہر اس ممنوع چیز پر بولا جانے لگا ہے جو باعث عار ہو کیونکہ وہ انسان کے دین اور مروت کی جڑ کاٹ دیتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ [ المائدة 42] اور مال حرام کو کھاتے چلے جاتے ہیں ۔ یعنی وہ چیز جو ان کے دین کا ناس کرنے والی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (171) کل لحم نبت من سحت فالنار اولی بہ ۔۔۔۔ جو گوشت مال حرام کے کھانے سے پیدا ہو وہ آگ کے لائق ہے اور اسی سے رشوت کو سحت کہا گیا ہے (172) ایک روایت میں ہے (173) کہ حجام ( پچھنا لگانے والے ) کی کمائی " سحت " ہے ۔ تو یہاں سحت بمعنی حرام نہیں ہے جو دین کو برباد کرنے والا ہو بلکہ سحت بمعنی مکروہ ہے یعنی ایسی کمائی مروت کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرت نے ایسی کمائی سے اونٹنی کو چارہ ڈالنے اور غلاموں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا ہے ۔- بِئْسَ- و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام،- كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة 79] ، أي : شيئا يفعلونه،- ( ب ء س) البؤس والباس - بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں کو دیکھتے ہیں جو دوڑ دوڑ کر کفر وشرک، ظلم، لوت مار، حرام اور رشوت اور حکم خداوندی کی تبدیلی پر تبدیلی کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani