63۔ 1 یہ علماء و مشائخ دین اور عباد و زہاد پر نکیر ہے کہ عوام کی اکثریت تمہارے سامنے بدکاری اور حرام خوری کا ارتکاب کرتی ہے لیکن تم انہیں منع نہیں کرتے ایسے حالات میں تمہاری یہ خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت ہے اور اس کے ترک پر کتنی سخت وعید (سزا) کی گئی ہے۔ احادیث میں بھی یہ مضمون وضاحت اور کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔
[١٠٤] پہلے یہود کے عوام کے اخلاقی تنزل کی حالت بیان کی گئی۔ اب ان کے خواص یعنی علماء و مشائخ کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ ان عوام کی کرتوتوں پر خاموش رہتے ہیں اور ان پر جو نھی عن المنکر کی ذمہ داری ہے اسے پورا نہیں کرتے (شریعت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے لیے (دیکھئے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٠٤ اور ١١٠) گویا یہود کے عوام و خواص سب ہی بہت برے کام کر رہے ہیں۔
لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ : یعنی جس طرح گناہ کرنا جرم ہے اسی طرح گناہ سے نہ روکنا بھی جرم ہے۔ جریر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے : ” کوئی بھی شخص جو ایسی قوم میں ہو جن میں معاصی کا ارتکاب کیا جاتا ہو جو اسے روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر اسے نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان کے مرنے سے پہلے ان پر کوئی عذاب بھیجے گا۔۔ “ [ أبو داوٗد، الملاحم، باب الامر والنہی : ٤٣٣٩ وحسنہ الألبانی ] ان کے علماء اور مشائخ انھیں جھوٹ کہنے اور حرام کھانے سے کیوں منع نہیں کرتے، یقیناً ان کے علماء و مشائخ بھی جو کرتے چلے آئے ہیں بہت برا ہے کہ انھیں منع کرنے کے بجائے وہ خود بھی جھوٹ کہہ کر اسلام سے روکتے اور سحت (رشوت اور حرام) کھاتے ہیں۔ دیکھیے سورة توبہ (٣٤) ۔
اصلاح اعمال کا طریقہ - اصلاح اعمال کا سب سے زیادہ اہتمام کرنے والے حضرات صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ ہیں۔ ان حضرات نے انہی ارشادات قرآنیہ سے یہ اہم اصول اخذ کیا ہے کہ جتنے برے یا بھلے اعمال انسان کرتا ہے اصل میں ان کا اصل سرچشمہ وہ مخفی ملکات اور اخلاق ہوتے ہیں جو انسان کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں۔ اسی لئے برے اعمال اور جرائم کی روک تھام کے لئے ان کی نظر انہی مخفی ملکات پر ہوتی ہے اور ان کی اصلاح کردیتے ہیں تو تمام اعمال خود بخود درست ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً کسی کے دل میں مال دنیا کی حرص کا غلبہ ہے، وہ اس کے نتیجہ میں رشوت بھی لیتا ہے سود بھی کھاتا ہے اور موقع ملے تو چوری اور ڈاکہ تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ حضرات صوفیائے کرام ان جرائم کا الگ الگ علاج کرنے کے بجائے وہ نسخہ استعمال کرتے ہیں جس سے ان سب جرائم کی بنیاد منہدم ہوجائے، اور وہ ہے دنیا کی ناپائیداری اور اس کی عیش و عشرت کے زہر آلود ہونے کا استحضار۔- اسی طرح کسی کے دل میں تکبر، غرور ہے یا وہ غصہ میں مغلوب ہے اور دوسروں کی تحقیر و توہین کرتا ہے۔ دوستوں اور پڑوسیوں سے لڑتا ہے۔ یہ حضرات فکر آخرت اور خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کو مستحضر کرنے والا نسخہ استعمال کرتے ہیں۔ جن سے یہ اعمال بد خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس قرآنی اشارہ سے معلوم ہوا کہ انسان میں کچھ ملکات ہوتے ہیں جو طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں یہ ملکات خیر اور بھلائی کے ہیں تو نیک عمل خود بخود ہونے لگتے ہیں، اسی طرح ملکات برے ہیں تو برے اعمال کی طرف انسان خودبخود دوڑنے لگتا ہے، مکمل اصلاح کے لئے ان ملکات کی اصلاح ضروری ہے۔- علماء پر عوام کے اعمال کی ذمہ داری - دوسری آیت میں یہود کے مشائخ اور علماء کو اس پر سخت تنبیہ کی گئی کہ وہ ان لوگوں کو برے اعمال سے کیوں نہیں روکتے۔ قرآن میں اس جگہ دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں، ایک ربٰنیون، جس کا ترجمہ ہے اللہ والے، یعنی عابد، زاہد، جن کو ہمارے عرف میں درویش یا پیر یا مشائخ کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا لفظ احبار استعمال فرمایا، یہود کے علماء کو احبار کہا جاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری ان دو طبقوں پر ہے ایک مشائخ، دوسرے علماء اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ربانیون سے مراد وہ علماء ہیں جو حکومت کی طرف سے مامور اور بااقتدار ہوں اور احبار سے مراد عام علماء ہیں، اس صورت میں جرائم سے روکنے کی ذمہ داری حکام اور علماء دونوں پر عائد ہوجاتی ہے اور بعض دوسری آیات میں اس کی تصریح بھی ہے۔- علماء و مشائخ کیلئے تنبیہ - آخر آیت میں فرمایا لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ یعنی ان مشائخ و علماء کی یہ سخت بری عادت ہے کہ اپنا فرض منصبی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے، قوم کو ہلاکت کی طرف جاتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ ان کو نہیں روکتے۔- علماء مفسرین نے فرمایا کہ پہلی آیت جس میں عوام کی غلط کاریوں کا ذکر تھا، اس کے آخر میں تو لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ارشاد فرمایا گیا، وجہ یہ ہے کہ عربی لغت کے اعتبار سے لفظ فعل تو ہر کام کو شامل ہے۔ خواہ باقصد ہو یا بلا قصد اور لفظ عمل صرف اس کام کے لئے بولا جاتا ہے جو قصد و ارادہ سے کیا جائے، اور لفظ صنع اور صنعت کا ایسے کام کے لئے اطلاق کیا جاتا ہے جس میں قصد و اختیار بھی ہو اور اس کو بار بار بطور عادت اور مقصد کے درست کرکے کیا جائے، اس لئے عوام کی بدعملی کے نتیجہ میں تو صرف لفظ عمل اختیار فرمایا، ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ، اس میں اس کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کہ ان کے علماء و مشائخ کی یہ غلط روش کہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ اگر ہم ان کو منع کریں گے تو یہ ہمارا کہنا سنیں گے اور باز آجائیں گے، پھر بھی ان لوگوں کے نذرانوں کے لالچ یا بداعتقاد ہوجانے کے خوف سے ان کے دلوں میں حمایت حق کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوتا، یہ ان بدکاروں کے اعمال بد سے زیادہ اشد ہے۔- جس کا حاصل یہ ہوا کہ جس قوم کے لوگ جرائم اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے اور ان کے مشائخ و علماء کو یہ بھی اندازا ہو کہ ہم ان کو روکیں گے تو یہ باز آجائیں گے، ایسے حالات میں اگر یہ کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے ان جرائم اور گناہوں کو نہیں روکتے تو ان کا جرم اصل مجرموں، بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ اشد ہے، اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ مشائخ و علماء کے لئے پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت تنبیہ کہیں نہیں، اور امام تفسیر ضحاک نے فرمایا کہ میرے نزدیک مشائخ علماء کے لئے یہ آیت سب سے زیادہ خوفناک ہے (ابن جریر و ابن کثیر) - وجہ یہ ہے کہ اس آیت کی رو سے ان کا جرم تمام چوروں، ڈاکوؤں اور ہر طرح کے بدکاروں کے جرم سے بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے (العیاذ باللہ) مگر یاد رہے کہ یہ شدت اور وعید اسی صورت میں ہیں جبکہ مشائخ وعلماء کو اندازہ بھی ہو کہ ان کی بات سنی اور مانی جائے گی اور جس جگہ قرائن یا تجربہ سے یہ گمان غالب ہو کہ کوئی سنے گا نہیں، بلکہ اس کے مقابلہ میں ان کو ایذائیں دی جائیں گی تو وہاں حکم یہ ہے کہ ان کی ذمہ داری تو ساقط ہوجاتی ہے۔ لیکن افضل و اعلیٰ پھر بھی یہی رہتا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حضرات اپنا فرض ادا کریں، اور اس میں کسی کی ملامت یا ایذاء کی فکر نہ کریں۔ جیسا کہ چند آیات میں پہلے اللہ تعالیٰ کے مقبول مجاہدین کی صفات میں گزر چکا ہے۔ (آیت) ولا یخافون لومة لٓآئم، یعنی یہ لوگ اللہ کے راستہ میں اور حق ظاہر کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔- خلاصہ یہ ہے کہ جس جگہ بات سننے اور ماننے کا احتمال غالب ہو وہاں مشائخ وعلماء پر بلکہ ہر مسلمان پر جس کو اس کام کا جرم و گناہ ہونا معلوم ہو فرض ہے، کہ گناہ کو روکنے اور منع کرنے میں مقدرور بھر کوشش کرے، خواہ ہاتھ سے یا زبان سے، یا کم از کم اپنے دل کی نفرت اور اعراض سے اور جس جگہ غالب گمان یہ ہو کہ اس کی بات نہ سنی جائے گی، یا یہ کہ اس کے خلاف دشمنی بھڑک اٹھے گی تو ایسی حالت میں منع کرنا اور روکنا فرض تو نہیں رہتا، مگر افضل واعلیٰ بہرحال ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے متعلق یہ تفصیلات صحیح احادیث سے مستفاد ہیں، خود نیک عمل اختیار کرنے اور برے اعمال سے بچنے کے ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کی طرف ہدایت اور برائی سے روکنے کا فریضہ عام مسلمانوں پر اور بالخصوص علماء و مشائخ پر ڈال کر اسلام نے دنیا میں امن و اطمینان پیدا کرنے کا ایک ایسا زریں اصول بنادیا ہے کہ اس پر عمل ہونے لگے تو پوری قوم بہت آسانی کے ساتھ تمام برائیوں سے پاک ہو سکتی ہے۔- اصلاح امت کا طریقہ - اسلام کے قرون اولیٰ میں اور قرون ما بعد میں بھی جب تک اس پر عمل ہوتا رہا مسلمانوں کی پوری قوم علم و عمل، اخلاق و کردار کے اعتبار سے پوری دنیا میں سربلند اور ممتاز رہی، اور جب سے مسلمانوں نے اس فریضہ کو نظر انداز کردیا، اور جرائم کی روک تھام کو صرف حکومت اور اس کی پولیس کا فرض سمجھ کر خود اس سے علٰحدہ ہو بیٹھے تو اس کا نتیجہ وہی ہوا جو آج ہر جگہ سامنے ہے کہ ماں، باپ اور پورا خاندان دیندار اور پابند شریعت ہے مگر اولاد اور متعلقین اس کے برعکس ہیں۔ ان کا نظری اور فکری رخ بھی اور ہے اور عملی طریقے بھی جداگانہ ہیں، اسی لئے ملّت کی اجتماعی اصلاح کے لئے قرآن و حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔ قرآن نے اس کام کو امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات میں شمار فرمایا ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنے کو سخت گناہ اور موجب عذاب قرار دیا ہے۔ حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب کسی قوم میں گناہ کے کام کئے جائیں اور کوئی آدمی اس قوم میں رہتا ہے اور ان کو منع نہیں کرتا تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب بھیج دے (بحر محیط) ۔- گناہوں پر اظہار نفرت نہ کرنے پر وعید - مالک بن دینار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ فلاں بستی کو تباہ کردو، فرشتوں نے عرض کیا اس بستی میں تو آپ کا فلاں عبادت گزار بندہ بھی ہے، حکم ہوا کہ اس کو بھی عذاب چکھاؤ، کیونکہ ہماری نافرمانیوں اور گناہوں کو دیکھ کر اس کو بھی غصہ نہیں آیا۔ اور اس کا چہرہ غصہ سے کبھی متغیر نہیں ہوا۔- حضرت یوشع ابن نون (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے ایک لاکھ آدمی عذاب سے ہلاک کئے جائیں گے، جن میں چالیس ہزار نیک لوگ ہیں اور ساٹھ ہزار بدعمل۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ رب العالمین بدکرداروں کی ہلاکت کی وجہ تو ظاہر ہے، لیکن نیک لوگوں کو کیوں ہلاک کیا جا رہا ہے ؟ تو ارشاد ہوا کہ یہ نیک لوگ بھی ان بدکرداروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ کھانے پینے اور ہنسی دل لگی کے شریک رہتے تھے، میری نافرمانیاں اور گناہ دیکھ کر کبھی ان کے چہروں پر کوئی ناگواری کا اثر تک نہ آیا (یہ سب روایات بحر محیط سے منقول ہیں) ۔
لَوْلَا يَنْھٰىہُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِہِمُ السُّحْتَ ٠ۭ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ٦٣- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- رباني - والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ «1» . قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک، فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر - اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ - حبر - الحِبْرُ : الأثر المستحسن، ومنه ما روي :«يخرج من النّار رجل قد ذهب حبره وسبره» أي : جماله وبهاؤه، ومنه سمّي الحبر، وشاعر مُحَبِّر، وشعر مُحَبَّر، وثوب حَبِير : محسّن، ومنه : أرض مِحْبَار والحبیر من السحاب، وحَبِرَ فلان : بقي بجلده أثر من قرح،- والحَبْر :- العالم وجمعه : أَحْبَار، لما يبقی من أثر علومهم في قلوب الناس، ومن آثار أفعالهم الحسنة المقتدی بها، قال تعالی: اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] ، وإلى هذا المعنی أشار أمير المؤمنین رضي اللہ عنه بقوله :( العلماء باقون ما بقي الدّهر، أعيانهم مفقودة، وآثارهم في القلوب موجودة) وقوله عزّ وجلّ : فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] ، أي : يفرحون حتی يظهر عليهم حبار نعیمهم .- ( ح ب ر ) الحبر ۔ وہ نشان جو عمدہ اور خوبصورت معلوم ہو حدیث میں ہے کہ آگ سے ایک آدمی نکلے گا جس کا حسن و جمال اور چہرے کی رونق ختم ہوچکی ہوگی اسی سے روشنائی کو حبرۃ کہا جاتا ہے ۔ شاعر محتبر عمدہ گو شاعر شعر محبر عمدہ شعر ۔ ثوب حبیر ملائم اور نیا کپڑا ۔ ارض محبار جلد سر سبز ہونے والی زمین ( الجمع محابیر ) الحبیر ( من اسحاب ) خوبصورت بادل ۔ حبر فلان اس کے جسم پر زخم کا نشان باقی ہے ۔ - الحبر - عالم کو کہتے ہیں اسلئے کہ لوگوں کے حلوں پر اس کے علم کا اثر باقی رہتا ہے ۔ اور افعال حسنہ میں لوگ اس کے نقش قدم پر چلتے ہیں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت علیٰ نے فرمایا کہ علماء تاقیامت باقی رہیں گے اگرچہ ا ن کی شخصیتیں اس دنیا سے فنا ہوجاتی ہیں لیکن ان کا آثار لوگوں دلوں پر باقی رہتے ہیں حبر کی جمع اجار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اتَّخَذُوا أَحْبارَهُمْ وَرُهْبانَهُمْ أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّهِ [ التوبة 31] انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ کے سوا خدا بنالیا ہے ۔ اور آیت کریمہ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ [ الروم 15] کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں اس قدر خوش ہوں گے کہ وہاں کی نعمتوں کی ترو تازگی کا اثر ان کے چہروں پر ہویدا ہوگا - صنع - الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] ، - ( ص ن ع ) الصنع - ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔
(٦٣) ان کو گرجے والے ان کے علماء کفر وشرک اور رشوت و حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے، یہ ان کا درگزر کرنا بہت برا ہے۔
آیت ٦٣ ( لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط) - آج ہمارے ہاں بھی اکثر و بیشتر پیر اپنے مریدوں کو حرام خوری سے منع نہیں کرتے۔ انہیں اس میں سے نذرانے مل جانے چاہئیں ‘ اللہ اللہ خیر سلا۔ کہاں سے کھایا ؟ کیسے کھایا ؟ اس سے کوئی بحث نہیں۔ حالانکہ اللہ والوں کا کام تو برائی سے روکنا ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔