بخل سے بچو اور فضول خرچی سے ہاتھ روکو اللہ تعالی ملعون یہودیوں کا ایک خبیث قول بیان فرما رہا ہے کہ یہ اللہ کو بخیل کہتے تھے ، یہی لوگ اللہ کو فقیر بھی کہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات ان کے اس ناپاک مقولے سے بہت بلند و بالا ہے ۔ پس اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، مطلب ان کا یہ نہ تھا کہ ہاتھ جکڑ دیئے گئے ہیں بلکہ مراد اس سے بخل تھا ۔ یہی محاورہ قرآن میں اور جگہ بھی ہے فرماتا ہے آیت ( وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ) 17 ۔ الاسراء:29 ) یعنی اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ بھی نہ لے اور نہ حد سے زیادہ پھیلا دے کہ پھر تھکان اور ندامت کے ساتھ بیٹھے رہنا پڑے ، پس بخل سے اور اسراف سے اللہ نے اس آیت میں روکا ۔ پس ملعون یہودیوں کی بھی ہاتھ باندھا ہوا ہونے سے یہی مراد تھی ۔ فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اسی ملعون کا وہ دوسرا قول بھی تھا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں ۔ جس پر حضرت صدیق اکبر نے اسے پیٹا تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ شماس بن قیس نے یہی کہا تھا جس پر یہ آیت اتری ۔ اور ارشاد ہوا کہ بخیل اور کنجوس ذلیل اور بزدل یہ لوگ خود ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے کہ اگر یہ بادشاہ بن جائیں تو کسی کو کچھ بھی نہ دیں ۔ بلکہ یہ تو اوروں کی نعمتیں دیکھ کر جلتے ہیں ۔ یہ ذلیل تر لوگ ہیں ۔ بلکہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں وہ سب کچھ خرچ کرتا رہتا ہے اس کا فضل وسیع ہے ، اس کی بخشش عام ہے ، ہر چیز کے خزانے اس کے ہاتھوں میں ہیں ۔ ہر نعمت اس کی طرف سے ہے ۔ ساری مخلوق دن رات ہر وقت ہر جگہ اسی کی محتاج ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ) 14 ۔ ابراہیم:34 ) ۔ تم نے جو مانگا ، اللہ نے دیا ، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کر سکتے ، یقینا انسان بڑا ہی ظالم بیحد ناشکرا ہے ۔ مسند میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ اوپر ہے ، دن رات کا خرچ اس کے خزانے کو گھٹاتا نہیں ، شروع سے لے کر آج تک جو کچھ بھی اس نے اپنی مخلوق کو عطا فرمایا ، اس نے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔ اس کا عرش پہلے پانی پر تھا ، اسی کے ہاتھ میں فیض ہی فیض ہے ، وہی بلند اور پست کرتا ہے ۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو تم میری راہ میں خرچ کرو گے تم تو دیئے جاؤں گے ۔ بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ پھر فرمایا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر اللہ کی نعمتیں تم پر زیادہ ہوں گی ، اتنا ہی ان شیاطین کا کفر حسد اور جلاپا بڑھے گا ۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مومنوں کا ایمان اور ان کی تسلیم و اطاعت بڑھتی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ۔ ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ) 41 ۔ فصلت:44 ) ۔ ایمان والوں کیلئے تو یہ ہدایت و شفا ہے اور بے ایمان اس سے اندھے بہرے ہوتے ہیں ۔ یہی ہیں جو دروازے سے پکارے جاتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسراء:82 ) ہم نے وہ قرآن اتارا ہے جو مومنوں کیلئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کا تو نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ان کے دلوں میں سے خود آپس کا بغض و بیر بھی قیامت تک نہیں مٹے گا ، ایک دوسرے کا آپس میں ہی خون پینے والے لوگ ہیں ۔ ناممکن ہے کہ یہ حق پر جم جائیں ، یہ اپنے ہی دین میں فرقہ فرقہ ہو رہے ہیں ، ان کے جھگڑے اور عداوتیں آپس میں جاری ہیں اور جاری رہیں گی ۔ یہ لوگ بسا اوقات لڑائی کے سامان کرتے ہیں ، تیرے خلاف چاروں طرف ایک آگ بھڑکانا چاہتے ہیں لیکن ہر مرتبہ منہ کی کھاتے ہیں ، ان کا مکر انہی پر لوٹ جاتا ہے ، یہ مفسد لوگ ہیں اور اللہ کے دشمن ہیں ، کسی مفسد کو اللہ اپنا دوست نہیں بناتا ۔ اگر یہ با ایمان اور پرہیزگار بن جائیں تو ہم ان سے تمام ڈر دور کر دیں اور اصل مقصد حیات سے انہیں ملا دیں ۔ اگر یہ تورات و انجیل اور اس قرآن کو مان لیں کیونکہ توراۃ و انجیل کا ماننا ، قرآن کے ماننے کو لازم کر دے گا ، ان کتابوں کی صحیح تعلیم یہی ہے کہ یہ قرآن سچا ہے اس کی اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پہلے کی کتابوں میں موجود ہے تو اگر یہ اپنی ان کتابوں کو بغیر تحریف و تبدیل اور تاویل و تفسیر کے مانیں تو وہ انہیں اسی اسلام کی ہدایت دیں گی ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں ۔ اس صورت میں اللہ انہیں دنیا کے کئی فائدے دے گا ، آسمان سے پانی برسائے گا ، زمین سے پیداوار اگائے گا ، نیچے اوپر کی یعنی زمین و آسمان کی برکتیں انہیں مل جائیں گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:96 ) یعنی اگر بستیوں والے ایمان لاتے ہیں اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتیں نازل فرماتے ۔ اور آیت میں ( ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 30 ۔ الروم:41 ) ۔ لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے ، اور یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ بغیر مشقت و مشکل کے ہم انہیں بکثرت بابرکت روزیاں دیتے ہیں ، بعض نے اس جملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ لوگ ایسا کرتے تو بھلائیوں سے مستفید ہو جاتے ۔ لیکن یہ قول اقوال سلف کے خلاف ہے ۔ اب ابی حاتم نے اس جگہ ایک اثر وارد کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب ہے کہ علم اٹھا لیا جائے ۔ یہ سن کر حضرت زیاد بن لبید نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ علم اٹھ جائے ، ہم نے قرآن سیکھا ، اپنی اولادوں کو سکھایا ۔ آپ نے فرمایا افسوس میں تو تمام مدینے والوں سے زیادہ تم کو سمجھدار جانتا تھا لیکن کیا تو نہیں دیکھتا کہ یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں میں بھی تورات و انجیل ہے ۔ لیکن کس کام کی؟ جبکہ انہوں نے اللہ کے احکام چھوڑ دیئے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ یہ حدیث مسند میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کا بیان فرمایا کہ یہ بات علم کے جاتے رہنے کے وقت ہو گی ، اس پر حضرت ابن لبید نے کہا علم کیسے جاتا رہے گا ؟ ہم قرآن پڑھے ہوئے ہیں اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ، اس پر آپ نے یہ فرمایا جو اوپر بیان ہوا ۔ پھر فرمایا ان میں ایک جماعت میانہ رو بھی ہے مگر اکثر بداعمال ہے ۔ جیسے فرمان آیت ( وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:159 ) موسیٰ کی قوم میں سے ایک گروہ حق کی ہدایت کرنے والا اور اسی کے ساتھ عدل انصاف کرنے والا بھی تھا ۔ اور قوم عیسیٰ کے بارے میں فرمان ہے ۔ آیت ( فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ ) 57 ۔ الحدید:27 ) ان میں سے با ایمان لوگوں کو ہم نے ان کے ثواب عنایت فرمائے ، یہ نکتہ خیال میں رہے کہ ان کا بہترین درجہ بیچ کا درجہ بیان فرمایا اور اس امت کا یہ درجہ دوسرا درجہ ہے ، جس پر ایک تیسرا اونچا درجہ بھی ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ آیت ( ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ ) 35 ۔ فاطر:32 ) ۔ یعنی پھر ہم نے کتاب کا وارث اپنے چیدہ بندوں کو بنایا ، ان میں سے بعض تو اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں ، بعض میانہ رو ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں ، یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ تینوں قسمیں اس امت کی داخل جنت ہونے والی ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ صحابہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ کی امت کے اکہتر گروہ ہو گئے ، جن میں سے ایک تو جنتی ہے ، باقی ستر دوزخی ۔ میری یہ امت دونوں سے بڑھ جائے گی ۔ ان کا بھی ایک گروہ تو جنت میں جائے گا ، باقی بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے پوچھا ، وہ کون ہیں؟ فرمایا جماعتیں جماعتیں ۔ یعقوب بن یزید کہتے ہیں جب حضرت علی بن ابو طالب یہ حدیث بیان کرتے تو قرآن کی آیت ۔ ( وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ) 5 ۔ المائدہ:65 ) اور ( وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف:181 ) بھی پڑھتے اور فرماتے ہیں اس سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ لیکن یہ حدیث ان لفظوں اور اس سند سے بیحد غریب ہے اور ستر سے اوپر اوپر فرقوں کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے ، جسے ہم نے اور جگہ بیان کر دیا ہے فالحمدللہ
64۔ 1 یہ وہی بات ہے جو سورة آل عمران کی آیت 181 میں کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے حتٰی کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑاھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لیے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ مغلولۃ کے معنی بخیلۃ (بخل والے کیے گئے۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ واسع الفضل اور جزیل العطاء ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لیے تمام حاجات و ضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفر میں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ (وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ) 014:034" تم نے جو کچھ اس سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے انسان ہی نادان اور نہایت نہ شکرا ہے، حدیث میں بھی ہے نبی نے فرمایا کہ اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی۔ 64۔ 2 یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے ہیں یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا ہے اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے۔ اور ان کو " چاہ کن را چاہ درپیش " کی سی صورت حال سے دوچار کردیتا ہے " 64۔ 3 ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا
[١٠٥] یہود کا اللہ کو بخیل ہونے کا طعنہ دینا :۔ یہودی حرام خور بھی تھے اور سود خور بھی۔ اور سود خوری کی صفت یہ ہے کہ وہ انسان میں خود غرضی اور بخل پیدا کرتا ہے۔ اور ان میں بخل اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ جب انہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے یا قرض حسنہ دینے کو کہا جاتا تو طرح طرح کے بکواس شروع کردیتے۔ پہلے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٨١ میں گزر چکا ہے کہ جب ان سے قرض حسنہ دینے کو کہا گیا تو کہنے لگے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم غنی ہیں تبھی تو وہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ اس آیت میں یہ مذکور ہے کہ جب یہود کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ کی برکات اور نوازشات بند ہوگئیں تو کہنے لگے کہ اب اللہ بخیل بن گیا ہے جس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ بخیل تو تم خود ہو۔ پھر اوپر سے جو یہ بکواس کرتے ہو یہ تمہارا دوہرا جرم ہے اسی وجہ سے تو تم ملعون ہوئے۔ اللہ کے رویہ میں کچھ فرق نہیں پڑا۔ وہ تو دونوں ہاتھ سے ہر وقت خرچ کر رہا ہے۔ لیکن خرچ وہاں کرتا ہے جہاں چاہتا ہے۔ اس کے خرچ کا مصرف تم جیسے بدکردار لوگ نہیں ہوسکتے۔ چناچہ :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہی رہتے ہیں۔ رات اور دن کا خرچ کرنا اس سے کچھ بھی کم نہیں کرتا۔ بھلا دیکھو۔ آسمان اور زمین کی پیدائش سے لے کر آج تک وہ کتنا خرچ کرچکا ہے لیکن اس خرچ نے جو اس کے ہاتھ میں ہے اسے کم نہیں کیا۔ (بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ (لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ 75) 38 ۔ ص :75)- [١٠٦] قرآن سے گمراہ کون ہوتے ہیں :۔ یعنی جس طرح کسی لاعلاج مریض کو صالح غذائیں بھی راس نہیں آتیں بلکہ بعض دفعہ اس کی بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح ان کی اخلاقی حالت اس قدر پست ہوچکی ہے اور قلبی امراض اس قدر پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ انہیں قرآن کی نصیحت آموز باتیں راس نہیں آتیں بلکہ ان کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔ جب قرآن ان کی کسی شرارت پر مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہیں تو وہ ایسی باتوں سے نصیحت قبول کرنے کی بجائے مزید سیخ پا ہو کر پہلے سے بدتر شرارتیں سوچنے لگتے ہیں۔- [١٠٧] یہود اور نصاریٰ دونوں کی آپس میں ایسی دشمنی ہے جو تاقیامت چلتی رہے گی۔ اسی طرح ہر گروہ کے اپنے اپنے فرقوں میں بھی اختلاف، بغض اور عداوتیں ہیں۔ اگرچہ یہ مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں تاہم ان کی آپس کی پھوٹ انہیں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور بالآخر مسلمانوں سے مات کھا جائیں گے۔- [١٠٨] شماس یہودی کا فتنہ جنگ بھڑکانا :۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو منافقوں کے علاوہ یہود کے بھی تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ایک بوڑھے یہودی شماس نے چند یہودی نوجوانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جہاں کہیں اوس و خزرج کے لوگ مل کر مجلس جمائے بیٹھے ہوں تو وہاں جا کر جنگ بعاث کے متعلق فریقین کے کہے ہوئے اشعار پڑھنا۔ چناچہ جب ان کے کسی نوجوان یہودی نے ایسی مجلس میں یہ اشعار پڑھے تو اوس و خزرج دونوں کی قبائلی عصبیت عود کر آئی اور وہ پھر سے بپھر اٹھے اور لڑنے کو تیار ہوگئے۔ لڑائی کا میدان طے پا گیا اور لوگ ہتھیار بند ہو کر وہاں جمع ہونے لگے۔ قریب تھا کہ سب انصار ایک خوفناک جنگ کی زد میں آجاتے کہ اتنے میں رسول اللہ کو خبر ہوگئی۔ آپ فوراً موقع پر پہنچ گئے اور فرمایا۔ میری موجودگی میں ایسی جاہلیت کی باتیں ؟ اس پر انصار چونک اٹھے اور فوراً احساس ہوگیا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے تھے۔ پھر وہ آپس میں گلے مل کر رونے لگے اور یہود تو ایسی فتنہ انگیزیوں پر بروقت آمادہ رہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی ایسی کوششیں بار آور نہ ہونے پاتی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی لگائی ہوئی آگ کو فوراً بجھا دیتا تھا۔- [١٠٩] یعنی جو کچھ وہ سوچتے ہیں یا کہتے ہیں یا کرتے ہیں سب کچھ فتنہ و فساد برپا کرنے کی غرض سے کرتے ہیں ان کی چند فساد انگیزیاں درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :- ١ یہود کی فتنہ انگیزی زہریلی بکری سے دعوت :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں جب خیبر فتح ہوا تو آپ کی خدمت میں بکری کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا گیا۔ جس میں زہر ملایا گیا تھا۔ آپ نے حکم دیا کہ یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو جمع کرو۔ جب انہیں آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے ان سے پوچھا کیا تم نے اس بکری کے گوشت میں زہر ملایا تھا ؟ وہ کہنے لگے ہاں آپ نے پوچھا تمہیں اس کام پر کس بات نے آمادہ کیا ؟ وہ کہنے لگے ہم چاہتے تھے کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی )- ٢۔ یہود کا قتل ناحق اور قسامت :۔ سہل بن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ تین آدمی (عبدالرحمن، حویصہ اور محیصہ) آپ کے پاس آئے اور کہا : یا رسول اللہ ہم خیبر کی طرف گئے تھے وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی (عبداللہ بن سہل) کو مقتول پایا ہے۔ آپ نے فرمایا بڑی عمر والے کو بات کرنے دو ۔ پھر آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس گواہ ہیں جنہوں نے قاتل کو قتل کرتے دیکھا ہو ؟ انہوں نے کہا گواہ تو کوئی نہیں آپ نے فرمایا پھر یہودی (پچاس) قسمیں کھائیں گے۔ وہ کہنے لگے ہم یہود کی قسموں پر راضی نہیں اور ابو قلابہ کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ پھر رسول اللہ نے انہیں کہا تم پچاس آدمی قسمیں کھاتے ہو کہ واقعی ہمارے ساتھی کو یہود نے قتل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم تو ایسی قسمیں نہیں کھا سکتے پھر آپ نے اس بات کو ناپسند کیا کہ عبداللہ بن سہل کا خون رائیگاں جائے۔ چناچہ آپ نے زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے دیت کے سو اونٹ اس کے وارثوں کو دلوا دیئے۔ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب القسامۃ)- ان احادیث سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہودی اس قدر فتنہ پرداز تھے کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو گزند پہنچانے حتیٰ کہ مار ڈالنے میں کس قدر سرگرم اور موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ نیز اپنی بدعہدیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی نظروں میں اس قدر ناقابل اعتماد بن چکے تھے کہ مسلمان ان کے پچاس آدمیوں کی قسموں پر بھی اعتبار نہیں کرتے تھے۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ يَدُاللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ ۭ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ان الفاظ میں دی کہ کون اللہ کو قرض حسنہ دیتا ہے، حالانکہ وہ مال اللہ تعالیٰ ہی کا تھا، اسی نے دیا تھا اور اسی کے دیے ہوئے میں سے انھوں نے دینا تھا، تو یہودی بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کے انداز بیان اور اس کے فضل و کرم پر غور کرتے اور سمجھتے کہ اللہ ہمیں کئی گناہ بڑھا کردینے کے لیے صدقے کی ترغیب دے رہا ہے اور اسے قرض کہہ رہا ہے، کہنے لگے کہ اللہ تو فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، تبھی وہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ یہ یہودیوں کی انتہائی خست اور کمینگی تھی، وہی کمینگی اس آیت میں دوسرے الفاظ میں ذکر کی گئی ہے کہ یہودیوں نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، یعنی وہ بخیل ہے، کچھ دیتا نہیں، بلکہ مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاتھ تو انھی کے بندھے ہوئے ہیں اور بخیلی انھی کی صفت ہے اور انھی گستاخیوں اور کمینگیوں کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ بےانتہا فضل و کرم کا مالک اور بیحد و حساب عطا فرمانے والا ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے، تمام مخلوق کی ہر حاجت اور ضرورت جو پڑتی یا پڑ سکتی ہے، وہی پوری کرتا ہے، فرمایا : (وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ ) [ إبراہیم : ٣٤ ] ” اور اس نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے، یقیناً انسان بڑا ظالم بہت نا شکرا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، کسی طرح کا خرچ کرنا اسے کم نہیں کرتا۔ کیا تم نے دیکھا کہ اس نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے کس قدر خرچ کیا ہے ؟ تو اس سے اس میں کچھ کمی نہیں ہوئی جو اس کے دائیں ہاتھ میں ہے۔ “ [ بخاری، التوحید، باب : ( وکان عرشہ علی الماء ) : ٧٤١٩ ] ایک حدیث میں فرمایا : ” اللہ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ “ [ مسلم، الامارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل۔۔ : ١٨٢٧ ]- اس آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ موجود ہیں۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ قبضہ، قدرت وغیرہ کرتے ہیں اور ہاتھوں کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم اس کے ہاتھ مانیں تو وہ ہمارے جیسا ہوجائے گا، حالانکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ ان لوگوں کی بات درست نہیں، کیونکہ یہ تو اس وقت ہوگا جب ہم کہیں کہ اس کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ ہیں مگر ہمارے جیسے نہیں، بلکہ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں تو اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، جبکہ اس کے ہاتھوں کے انکار سے کئی احادیث اور قرآن کی آیات کا انکار لازم آتا ہے۔ اب ہم سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا سنتا ہے تو کیا وہ ہمارے جیسا ہوگا ؟ نہیں، بلکہ اس کا سننا اور دیکھنا ہماری طرح نہیں، بلکہ ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔ اسی طرح اللہ بھی موجود ہے ہم بھی موجود ہیں، تو کیا وہ بھی ہماری مثل ہوجائے گا ؟ نتیجہ تو یہی نکلا کہ مشابہت ثابت ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ [ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] نہیں، بلکہ وہ موجود ہے، سمیع وبصیر ہے، اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں، اس کا سمع و بصر اور اس کا وجود سب کچھ قرآن سے ثابت ہے اور ماننا لازم ہے، مگر وہ وجود اور سمع و بصر اور ہاتھ ہمارے یا کسی مخلوق جیسے نہیں، بلکہ ایسے ہیں جیسے اس کے لائق ہیں۔ اللہ کی ذات بھی بےمثل ہے، اس کی صفات بھی بےمثل ہیں۔ کئی ایسے بھی بےنصیب ہیں جو اسی شبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سننے، دیکھنے اور قیامت کے دن زمین پر آنے کا صاف انکار کر کے اپنے ڈھکوسلے سے بنایا ہوا کوئی معنی کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔ - وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا ۔۔ : یعنی یہ لوگ اگر ہدایت کے طلب گار ہوتے تو آپ پر نازل ہونے والی ہر آیت و حدیث سے صحابہ کے ایمان کی طرح ان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی ہوتی، مگر چونکہ ان کے دل بغض و عناد، ضد اور حسد سے بھرے ہوئے ہیں، اس لیے تیرے رب کی طرف سے جو کچھ بھی تجھ پر نازل ہوگا وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر ہی میں اضافہ کرے گا، اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ان کی سرکشی اور کفر بڑھتا جاتا۔ - وَاَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ ۔۔ : یعنی ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان باہمی عداوت اور بغض اس حد تک پہنچ گیا کہ وہ قیامت تک آپس میں ایک نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ بہت سے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اسی لعنت کا اثر ہے کہ دنیا میں امن و سلامتی کی کوششوں کے بجائے وہ دنیا میں کہیں نہ کہیں لڑائی کی آگ بھڑکائے رکھتے ہیں، مگر وہ جب بھی یہ آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ ان کی ساری تگ و دو دنیا میں فساد پھیلانے کی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے موجودہ حالات جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح ہر لڑائی کے پیچھے یہودیوں کا خفیہ ہاتھ ہوتا ہے، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ وہ ان کے منصوبے پورے نہیں ہونے دیتا۔ افسوس اب مسلمانوں کے اکثر علماء و عوام کا بھی تقریباً یہی حال ہے کہ انھوں نے اللہ کے دین پر عمل چھوڑ رکھا ہے، بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے اسلام کے کسی نہ کسی حکم سے انکار یا اس کی گستاخی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ یہودیانہ خصلت ہے جس کی وجہ سے مسلمان ملکوں کے مالک ہو کر بھی کفار کے محکوم ہیں اور ان برکات سے محروم ہیں جو کتاب و سنت پر عمل کرنے اور برائیوں کو روکنے کے لیے جہاد کرنے کی صورت میں انھیں حاصل ہوتیں۔
ربط آیات - گزشتہ آیات میں یہود کے بعض احوال کا ذکر تھا، آگے ان آیات سے بھی مزید بعض خاص حالات بیان کئے گئے ہیں، جن کا قصہ یہ ہوا کہ نباش بن قیس، اور فخاص رئیس یہود قینقاع نے حق تعالیٰ کی جناب میں گستاخانہ الفاظ بخل وغیرہ کے کہے، جس کا بیان آگے آتا ہے، اس پر اگلی آیت نازل ہوئی، کذا فی اللباب بروایة الطبرانی عن ابن عباس وبروایة ابی الشیخ عنہ - خلاصہ تفسیر - اور یہود نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے (یعنی نعوذ باللہ بخل کرنے لگا ہے، درحقیقت) انہی کے ہاتھ بند ہیں (یعنی واقع میں خود عیب بخل میں مبتلا ہیں، اور خدا پر عیب دھرتے ہیں) اور اپنے اس کہنے سے یہ رحمت (الٓہی) سے دور کر دئیے گئے، (جس کا اثر دنیا میں ذلت اور قید اور قتل وغیرہ ہوا، اور آخرت میں عذاب جہنم، اور حاشا وکلا کہ خدا تعالیٰ میں اس کا احتمال بھی ہو) بلکہ ان کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی بڑے جواد و کریم ہیں، لیکن چونکہ حکیم بھی ہیں اس لئے) جس طرح چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں (پس یہود پر جو تنگی ہوئی اس کی علت حکمت ہے کہ ان کے کفر کا وبال ان کو چکھانا مقصود ہے نہ کہ بخل اس کی علت ہو) اور (یہود کے کفر اور سرکشی کی یہ حالت ہے کہ ان کو یہ توفیق نہ ہوگی کہ مثلاً اپنے قول کا بطلان بدلیل سن لیا تو اس سے توبہ کرلیں، نہیں بلکہ) جو مضمون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار کی طرف سے بھیجا جاتا ہے، وہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کی ترقی کا سبب ہوجاتا ہے (اس طرح سے کہ وہ اس کا بھی انکار کرتے ہیں، تو کچھ تو پہلا طغیان اور کفر تھا پھر اور بڑھ گیا) اور (ان کے کفر سے جو ان پر لعنت یعنی رحمت سے دوری واقع کی گئی ہے اس کے آثار دنیویہ میں سے ایک یہ ہے کہ) ہم نے ان میں باہم (دین کے باب میں) قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا (چنانچہ ان میں مختلف فرقے ہیں، اور ہر فرقہ دوسرے کا دشمن، چناچہ باہمی عداوت و بغض کی وجہ سے) جب کبھی (مسلمانوں کے ساتھ) لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں (یعنی لڑنے کا ارادہ کرتے ہیں) حق تعالیٰ اس کو فرد کردیتے ہیں، (اور بجھا دیتے ہیں، یعنی مرعوب ہوجاتے ہیں، یا لڑ کر مغلوب ہوجاتے ہیں، یا آپس کے اختلاف کی وجہ سے اتفاق کی نوبت نہیں آتی) اور (جب لڑائی سے وہ جاتے ہیں تو اپنی عداوت دوسری طرح نکالتے ہیں کہ) ملک میں (خفیہ) فساد کرتے پھرتے ہیں (جیسے نو مسلموں کو بہکانا، لگائی بجھائی کرنا، عوام کو توریت کے محرف مضامین سنا کر اسلام سے روکنا) اور اللہ تعالیٰ (چونکہ) فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے (یعنی مبغوض رکھتے ہیں، اس لئے اس فساد کی ان کو خوب سزا ہوگی خواہ دنیا میں بھی ورنہ آخرت میں تو ضرور) اور اگر یہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ جن امور حقہ کے منکر ہیں، جیسے رسالت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و حقیت قرآن ان سب پر) ایمان لے آتے اور (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے جن امور کو کفر و معصیت ہونا بتلایا گیا ہے ان سب سے) تقویٰ (یعنی پرہیز) اختیار کرتے تو ہم ضرور ان کی تمام (گزشتہ) برائیاں (کفر اور شرک اور معاصی جن میں سب اقوال و احوال آگئے) معاف کردیتے اور (معاف کرکے) ضرور ان کو چین (اور آرام) کے باغوں میں (یعنی بہشت میں) داخل کرتے (تو یہ برکات اخرویہ ہوئیں) اور اگر یہ لوگ (ایمان اور تقویٰ مذکور اختیار کرتے جس کو بعنوان دیگر یوں کہا جاتا ہے کہ) توریت کی اور انجیل کی اور جو کتاب ان کے پروردگار کی طرف سے (اب) ان کے پاس (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) بھیجی گئی (یعنی قرآن) اس کی پوری پابندی کرتے (یعنی ان میں جس جس بات پر عمل کرنے کو لکھا ہے سب پر پورا عمل کرتے، اس میں تصدیق رسالت بھی آگئی، اور اس سے احکام محرفہ و منسوخہ نکل گئے، کیونکہ ان کتب کا مجموعہ ان پر عمل کرنے کو نہیں بتلاتا بلکہ منع کرتا ہے) تو یہ لوگ ( بوجہ اس کے کہ) اوپر سے (یعنی آسمان سے پانی برستا) اور نیچے سے (یعنی زمین سے پیداوار ہوتی) خوب فراغت سے کھاتے (برتتے، یہ ایمان کی برکات دینویہ کا ذکر ہوا، لیکن کفر پر مصر رہے، اس لئے تنگی میں پکڑے گئے، جس پر بعض نے حق تعالیٰ کی شان میں بخل کی نسبت کرکے گستاخی کی، مگر پھر بھی سب یہود و نصاریٰ برابر نہیں، چنانچہ) ان (ہی) میں ایک جماعت راہ راست پر چلنے والی (بھی) ہے (جیسے یہود میں حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی، اور نصاریٰ میں حضرت نجاشی اور ان کے ساتھی، لیکن ایسے قلیل ہی ہیں) اور (باقی) زیادہ ان میں ایسے ہی ہیں کہ ان کے کردار بہت برے ہیں (کیونکہ کفر وعناد سے بدتر کیا کردار ہوگا) اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے آپ (لوگوں کو) سب پہنچا دیجئے اور اگر (بفرض محال) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا نہ کریں گے تو (ایسا سمجھا جاوے گا جیسے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی نہیں پہنچایا (کیونکہ یہ مجموعہ فرض ہے، تو جیسا کل کے اخفاء سے یہ فرض فوت ہوتا ہے اس طرح بعض کے اخفاء سے بھی وہ فرض فوت ہوتا ہے) اور (تبلیغ کے باب میں کفار کا کچھ خوف نہ کیجئے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے (یعنی اس سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابل ہو کر قتل و ہلاک کر ڈالیں) محفوظ رکھے گا (اور) یقینا اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو (اس طرح قتل و ہلاک کر ڈالنے کے واسطے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک) راہ نہ دیں گے۔- معارف و مسائل - یہود کی ایک گستاخی کا جواب - قولہ تعالیٰ وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ يَدُاللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ، اس آیت میں یہود کا ایک سنگین جرم اور ایک بدترین کلمہ یہ ذکر کیا گیا کہ وہ کم بخت یہ کہنے لگے کہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ تنگ دست ہوگیا۔- واقعہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہودیوں کو مال دار صاحب وسعت بنایا تھا، مگر جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ان کو پہنچی، تو ان ظالموں نے اپنی قومی چودھراہٹ اور اپنی جاہل رسوم سے حاصل ہونے والے نذرانوں کی خاطر اس دعوت حق سے روگردانی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی تو اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا بھی تنگ کردی یہ تنگ دست ہوگئے، اس پر ان نالائقوں کی زبان سے ایسے کلمات نکلنے لگے کہ (معاذ اللہ) خدائی خزانہ میں کمی آگئی یا اللہ تعالیٰ نے بخل اختیار کرلیا، اس کے جواب میں اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہاتھ تو انہی کہنے والوں کے بندھیں گے، اور ان پر لعنت ہوگی، جس کا اثر آخرت میں عذاب اور دنیا میں ذلت و رسوائی کی صورت میں نمودار ہوگا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ تو ہمیشہ کھلے ہوئے ہیں، اس کی جودو سخا ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی، مگر جس طرح وہ غنی اور صاحب وسعت ہیں اسی طرح حکیم بھی ہیں، حکمت کے ساتھ اس کے تقاضہ کے مطابق خرچ فرماتے ہیں، جس پر مناسب سمجھتے ہیں وسعت فرماتے ہیں اور جس پر مناسب سمجھتے ہیں تنگی اور تنگدستی مسلط فرما دیتے ہیں۔- پھر فرمایا کہ یہ سرکش لوگ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو قرآنی بینات اترتی ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کا کفر و انکار اور سخت ہوتا جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے شر سے بچانے کے لئے خود ان کے فرقوں میں اختلاف شدید ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نہ ان کو کھلی جنگ کرنے کا حوصلہ ہوسکتا ہے اور نہ اس کی کوئی سازش چل سکتی ہے : كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ میں ظاہر جنگ کی ناکامی اور ۙوَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا میں خفیہ سازشوں کی ناکامی کا ذکر ہے۔- احکام الہٰیہ پر پورا عمل دنیا میں بھی برکات کا سبب ہے - آیت نمبر 64 میں یہود کو ہدایت دی گئی کہ تورات اور انجیل کی ہدایات اور انبیاء (علیہم السلام) کے ارشادات سے ان لوگوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا، حرص دنیا میں مبتلا ہو کر سب کو بھلا بیٹھے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا میں بھی تنگدستی کا شکار ہوئے، لیکن اگر اب بھی یہ لوگ ایمان اور خدا ترسی کے طریقہ کو اختیار کرلیں تو ہم ان کی سب پچھلی خطائیں معاف کردیں، اور ان کو نعمتوں سے بھرے ہوئے باغات عطاء کردیں۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ يَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ ٠ۭ غُلَّتْ اَيْدِيْہِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ٠ۘ بَلْ يَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ ٠ۙ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاۗءُ ٠ۭ وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ٠ۭ وَاَلْقَيْنَا بَيْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ ٠ۭ كُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّـلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ ٠ۙ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا ٠ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ ٦٤- هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- غل - الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] وقیل للبخیل : هو مَغْلُولُ الید . قال : وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلالَ الَّتِي كانَتْ عَلَيْهِمْ [ الأعراف 157] ، وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ- [ الإسراء 29] ، وَقالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ [ المائدة 64] ، أي : ذمّوه بالبخل . وقیل : إنّهم لمّا سمعوا أنّ اللہ قد قضی كلّ شيء قالوا : إذا يد اللہ مَغْلُولَةٌ أي : في حکم المقيّد لکونها فارغة- ( غ ل ل ) الغلل - کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ اور ( کنایہ کے طور پر ) کنجوس شخص کو مغلول الید کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ [ الإسراء 29] اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا یعنی بہت تنگ کرلو ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ [ المائدة 64] اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا ہے ( یعنی اللہ بخیل ہے ) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں ۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر بخیل کا الزام لگاتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جب انہوں نے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا فیصلہ کردیا ہے تو کہنے لگے پھر تو اللہ کا ہاتھ مقید ہے یعنی فارغ ہونے کی وجہ سے مقید کے حکم میں ہے تو ہر آیت ناذل ہوئی اور آیت کریمہ : إِنَّا جَعَلْنا فِي أَعْناقِهِمْ أَغْلالًا[يس 8] ہم نے ان گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں ۔ سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انہیں ہر قسم کی خبر سے محروم کر رکھا ہے جس طرح کہ ان کے قلوب پر مہر لگانا اور آنکھ وکان پر پردہ ڈالنا ذکر کیا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں جعلنا اگرچہ ماضی کا صیغہ ہے لیکن یہ اس سزا کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں انہیں دی جائے گی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَجَعَلْنَا الْأَغْلالَ فِي أَعْناقِ الَّذِينَ كَفَرُوا[ سبأ 33] اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے ۔- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - بسط - بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] ، - ( ب س ط )- بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - بغض - البُغْض : نفار النفس عن الشیء الذي ترغب عنه، وهو ضد الحبّ ، فإنّ الحب انجذاب النفس إلى الشیء، الذي ترغب فيه . يقال : بَغُضَ الشیء بُغْضاً وبَغَضْتُه بَغْضَاء . قال اللہ عزّ وجلّ : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] ، وقال : إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] ، وقوله عليه السلام : «إنّ اللہ تعالیٰ يبغض الفاحش المتفحّش»فذکر بغضه له تنبيه علی بعد فيضه وتوفیق إحسانه منه .- ( ب غ ض ) البغض کے معنی کسی مکر وہ چیز سے دل کا متنفر اور بیزار ہونا کے ہیں ۔ کہ حب کی ضد ہے ۔ جس کے معنی پسندیدہ چیز کی طرف دل کا منجذب ہونا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بعض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش دلوادے اور حدیث میں ہے بیشک اللہ تعالیٰ بد کلام گالی دینے والے ہے نفرت کرتا ہے ۔ یہاں بعض کا لفظ بول کر اس امر پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ باری تعالیٰ اس سے اپنا فیضان اور توفیق احسان روک لیتا ہے ۔- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - وقد - يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ- [ آل عمران 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ- ( و ق د )- وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - حرب - الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب،- ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور - طفی - طَفِئَتِ النارُ وأَطْفَأْتُهَا . قال تعالی: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة 32] ، يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف 8] ، والفرق بين الموضعین أنّ في قوله : يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا - يقصدون إِطْفَاءَ نورِ الله، وفي قوله : لِيُطْفِؤُا يقصدون أمرا يتوصّلون به إلى إِطْفَاءِ نور اللہ - ( ط ف ء ) طفئت ( س ) النار کے معنی آگ بجھجانے کے ہیں ۔ اور اطفا تھا ( افعال ) کے معنی پھونک سے بجھادینے کے قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ التوبة 32] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے ( پھونک مار کر بجھادین يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ [ الصف 8] یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے چراغ کی روشنی کو منہ سے ( پھونک مارکر ) بجھادیں ۔ ان دونوں آیتوں میں معنوی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ یریدون ان یطفوا کے معنی نور الہی کو بجھانے کا قصد کرنے کے ہیں مگر لیطفوا کے معنی ایسے امر کا قصد کرنے کے ہیں جو اطفاء نور کا سبب بن سکے - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] - ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ - فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔
قول باری ہے وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ باندھے گئے ان کے ہاتھ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ ان یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی بخل کی طرف نسبت کی ہے اور اس کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے ہیں کہ نعوذ باللہ اس کی عطاء اور بخشش کا منہ بند ہوگیا ۔ جس طرح یہ قول باری ہے ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسط ما کل البسط اور اپنا ہاتھ پانی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو حسن کا قول ہے کہ یہود نے یہ کہا تھا ۔ ہمیں سزا دینے سے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ لغت میں لفظ ید کے کئی معنی آتے ہیں ۔ ایک تو معروف ہاتھ ہے جو انسان کے اعضاء و جوارح میں سے ایک ہے۔ یہ لفظ نعمت اور احسان کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ مثلاً آپ یہ کہیں لفلان عندی ید اشکرہ علیھا فلاں کا مجھ پر احسان ہے جس کے لیے میں اسکا شکر گزار ہوں ایک معنی قوت اور طاقت کے بھی ہیں ۔ قول باری اولی الا یدی کی تفسیر کی گئی ہے کہ اس سے مراد اولی القوی قوت و طاقت والے ہیں ۔ ان ہی معنوں میں شاعر کا یہ شاعر ہے بھی ہے۔- تحملت من ذلفاء ما لیس لی بہ ولا للجبال الرسیات ید ان - میں نے ذلفاء یعنی چھوٹی اور ہموار ناک والی محبوبہ کی محبت میں اتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں کہ مجھ جیسے انسان میں اور نہ مضبوط پہاڑوں میں انہیں اٹھانے کی طاقت ہے۔ ید کے ایک معنی ملکیت اور مالک ہونے کے بھی ہیں ۔ قول باری او الذی بیدہ عقدۃ النکاح وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو ان ہی معنوں میں ہے یعنی وہ شخص جو نکاح کی گرہ کا مالک ہو۔- ایک معنی کسی فعل کے ساتھ اختصاص کے بھی ہیں جس طرح یہ قول باری ہے خلقت بیدی میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا یعنی میں نے خود اس کی تخلیق کی ۔ ایک معنی تصرف کے بھی ہیں جس طرح آپ کہیں ھذہ الدار فی ید فلان یہ گھر فلاں کے ہاتھ میں ہے یعنی وہ اس گھر میں اپنی رہائش گاہ یا کسی اور رہائش کی اجازت وغیرہدے کر تصرف کرتا ہے۔ ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے صیغے کے ساتھ ید کا ذکر فرمایا یعنی بل یذاہ کہا تو اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے دو نعمتیں مراد ہیں ایک دنیا کی نعمت اور دوسری آخرت کی نعمت دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے دو قوتیں مراد ہیں ایک اجر و ثواب دینے کی قوت اور دوسری سزا اور عذاب دینے کی قوت ۔ یہ دراصل یہود کے اس قول کی تردید ہے کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ ہمیں سزا دینے کی قوت نہیں رکھتا ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں تثنیہ کا صیغہ نعمت کی صفت میں مبالغہ کے اظہار کے لیے ہے جس طرح آپ کہتے ہیں ۔ لبیک وسعدیک قول باری غلت ایدیھم سے مراد یہ ہے کہ جہنم میں ان کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ۔ حسن سے یہی تفسیر مروی ہے۔ قول باری ہے کلما او قد و انارا للحرب اطفاھا اللہ جب کبھی یہ جنگ کی آ گ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کردیتا ہے اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ان یہودیوں پر غلبہ حاصل ہوجائے گا جن کا ذکر قول باری وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ میں گزر چکا ہے۔- اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ آپ نے غیب کی یہ بات بتائی تھی جبکہ یہودیوں کی اس وقت بڑی کثرت تھی اور ان کا طنطنہ اور جاہ و جلال بھی تھا ۔ مدینہ منورہ کے ارد گرد بسنے والے ایسے یہودی بھی تھے جو زمانہ جاہلیت میں ہونے والی جنگوں میں عربوں کا مقابلہ بھی کرچکے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے ان مسلمانوں کے غلبہ کی خبر دی ۔ چناچہ اس خبر کے عین مطابق واقعات پیش آئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور بنو قریظہ کا صفایا کردیا پھر آپ نے بزور شمشیر خیبر بھی فتح کرلیا اور تمام کے تمام یہودذلیل و خوار ہوکر آپ کے سامنے سپر انداز ہوگئے حتیٰ کہ ان کا ایک گروہ بھی ایسا باقی نہیں رہا جس میں مسلمانوں سے پنجہ آزمائی کی سکت موجود ہو ۔ آیت میں لفظ نار یعنی آگ کا ذکر ہے ۔ یہ دراصل جنگ کی تیاری اور اس کے لیے سازو سامان کی بہم رسانی سے عبارت ہے عربوں کا طریقہ تھا کہ ایسے موقع پر اسم نار کا اطلاق کیا کرتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی ان ہی معنوں میں ہے انا بری من کل مسلم ومع مشرک میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرک کے ساتھ ہو ۔ عرض کیا گیا یہ کیوں ؟ تو آپ نے فرمایا لا تراء ی ناراھما ان دونوں کی جلائی ہوئی آگ ایک دوسرے کو نظر نہ آئے۔ اس سے جنگ مراد ہے یعنی مشرکین کی جنگ شیطان کے لیے اور مسلمانوں کی جنگ اللہ کے لیے ہوتی ہے اس میں مسلمانوں اور کافر اکٹھے نہیں ہوسکتے۔- ایک قول یہ ہے کہ نار کے اسم سے جنگ مراد لینے کی اصلیت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کوئی بڑا قبیلہ اگر دوسرے قبیلے سے پنجہ آزمائی کا ارادہ کرلیتا تو پہاڑوں کی چوٹیوں اور اونچے مقامات پر آگ روشن کردیتا جسے دیکھ کر قبیلے کے تمام افراد یہ سمجھ جاتے کہ جنگ کی تیاری اور جنگی سازو سامان کی بہم رسانی کا سگنل ہوگیا ہے۔ پھر وہ پوری طرح جنگ کے لیے تیار ہوجاتے۔ اس طرح نار کا اسم ان مواقع پر جنگی تیاری کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور توجیہ بھی بیان کی گئی ہے وہ یہ کہ جب کچھ قبائل آپس میں اس بات کا معاہدہ کرنا چاہتے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مد د کریں گے اور دشمنوں سے قتال کرنے میں پوری سرگرمی دکھائیں گے تو وہ اس مقصد کے لیے ایک بڑا الائو روشن کرتے پھر اس کے قریب اکٹھے ہو کر قسمیں کھاتے اور کہتے کہ کسی نے اس معاہدے کے سلسلے میں اگر غداری کی یا جنگ میں پیٹھ دکھائی تو وہ آگ کے منافع سے محروم ہوجائے - اعشی کا ایک مصرعہ ہے - ؎ واوقدت للحرب نارا ً میں نے جنگ کی آگ بھڑکائی
(٦٤) اور فخاص بن عاز وراء یہودی بکتا ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کا ہاتھ خرچ کرنے سے بند ہوگیا ان ہی کے ہاتھ خیر اور نیک کام میں خرچ کرنے سے بند ہوگئے، اسی بات کی وجہ سے ان پر اللہ کی جانب سے جزیہ کی ذلت مسلط کردی گئی ،- اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ نیک و بد کو دینے کے لیے ہوئے ہیں اگر وہ اپنی حکمت کے تحت چاہتا ہے تو فراخی کے ساتھ دیتا ہے اور اگر چاہتا ہے تو تنگی کے ساتھ دیتا ہے اور آپ پر جو قرآن کریم نازل کیا جاتا ہے حق کا یہ نزول ان کافروں میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر پر جمے رہنے کا باعث ہوتا ہے۔- اور ہم نے یہود و نصاری کو قتل و غارت گری اور دشمنی میں مبتلا کردیا ہے، العیاذ باللہ جب بھی یہ لوگ اپنی سرکشی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دست درازی کا اراداہ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے اور یہ زمین میں لوگوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور توحید خداوندی سے دور کرنے کے لیے فساد کرتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یہود اور ان کے تحریف شدہ دین کو پسند نہیں فرماتے۔- شان نزول : (آیت) ” وقالت الیہود یداللہ “۔ (الخ)- طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا یہودیوں میں سے، ناش بن قیس نامی ایک شخص نے کہا کہ آپ کا پروردگار بخیل ہے، کچھ خرچ نہیں کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ابوالشیخ نے دوسرے طریقے پر ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ یہود بنی قینقاع کے سردار فخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٦٤ (وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط) ۔- ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رحمت جو ہمارے لیے تھی وہ بند ہوگئی ہے ‘ نبوت کی رحمت ہمارے لیے مختص تھی اور اب یہ دست رحمت ہماری طرف سے بند ہوگیا ہے۔ یا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے جو منافقین کہا کرتے تھے کہ اللہ ہم سے قرض حسنہ مانگتا ہے تو گویا اللہ فقیر ہوگیا ہے (نعوذ باللہ) اور ہم اغنیاء ہیں۔ جواب میں فرمایا گیا :- (غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ ) ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں یا بندھ جائیں ان کے ہاتھ - (وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ٧) (بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ ) (یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآءُ ط) (وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ط) - یعنی ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت پر مبنی اس کلام کی مخالفت شروع کردی ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسے جیسے جو جو احسانات بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں پر ہو رہے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو غنیمتیں دے رہا ہے ‘ دین کو رفتہ رفتہ جو غلبہ حاصل ہو رہا ہے ‘ اس کے حسد کے نتیجے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد تو خاص طور پر عرب کے اندر بہت تیزی کے ساتھ صورتحال بدلنی شروع ہوگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہ لوگ سمجھ جاتے کہ واقعی یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اور یک سو ہو کر اس کا ساتھ دیتے ‘ ان کے اندر کی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ - (وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط) (کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ لا) - جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہودی اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ خاص طور پر غزوۂ احزاب تو ان ہی کی سازشوں کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ مدینے کے یہودی قبائلِ عرب کے پاس جا جا کر ‘ اِدھر ادھر وفد بھیج کر لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ آؤ تم باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ ان کی انہی سازشوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :92 عربی محاورے کے مطابق کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بخیل ہے ، عطا اور بخشش سے اس کا ہاتھ رکا ہوا ہے ۔ پس یہودیوں کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ بخیل ہے ۔ چونکہ صدیوں سے یہودی قوم ذلت و نکبت کی حالت میں مبتلا تھی اور اس کی گزشتہ عظمت محض ایک افسانہ پارینہ بن کر رہ گئی تھی جس کے پھر واپس آنے کا کوئی امکان انہیں نظر نہ آتا تھا ، اس لیے بالعموم اپنے قومی مصائب پر ماتم کرتے ہوئے اس قوم کے نادان لوگ یہ بیہودہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ معاذ اللہ خدا تو بخیل ہو گیا ہے ، اس کے خزانے کا منہ بند ہے ، ہمیں دینے کے لیے اس کے پاس آفات اور مصائب کے سوا اور کچھ نہیں رہا ۔ یہ بات کچھ یہودیوں تک ہی محدود نہیں ، دوسری قوموں کے جہلاء کا بھی یہی حال ہے کہ جب ان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو خدا کی طرف رجوع کرنے کے بجائے وہ جل جل کر اس قسم کی گستاخانہ باتیں کیا کرتے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :93 یعنی بخل میں یہ خود مبتلا ہیں ۔ دنیا میں اپنے بخل اور اپنی تنگ دلی کے لیے ضرب المثل بن چکے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :94 یعنی اس قسم کی گستاخیاں اور طعن آمیز باتیں کر کے یہ چاہیں کہ خدا ان پر مہربان ہو جائے اور عنایات کی بارش کرنے لگے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ۔ بلکہ ان باتوں کا الٹا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ خدا کی نظر عنایت سے اور زیادہ محروم اور اس کی رحمت سے اور زیادہ دور ہوتے جاتے ہیں ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :95 یعنی بجائے اس کے کہ اس کلام کو سن کر وہ کوئی مفید سبق لیتے ، اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں پر متنبہ ہو کر ان کی تلافی کرتے ، اور اپنی گری ہوئی حالت کے اسباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے ، ان پر اس کا الٹا اثر یہ ہوا ہے کہ ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت کی مخالفت شروع کر دی ہے ۔ خیر و صلاح کے بھولے ہوئے سبق کو سن کر خود راہ راست پر آنا تو درکنار ، ان کی الٹی کوشش یہ ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اسے دبا دیں تاکہ کوئی دوسرا بھی اسے نہ سننے پائے ۔
46: جب مدینہ منورہ کے یہودیوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کے طور پر کچھ عرصے کے لئے معاشی تنگی میں مبتلا کردیا، اس موقع پر بجائے اس کے کہ وہ ہوش میں آتے ان کے بعض سرداروں نے یہ گستاخانہ جملہ کہا، ہاتھ کا بندھا ہونا عربی میں بخل اور کنجوسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا ان کا مطلب یہ تھا کہ معاذاللہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بخل کا معاملہ کیا ہے، حالانکہ بخل کی صفت تو خود ان کی مشہور ومعروف تھی اس لئے فرمایا گیا کہ ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں۔ 47: یہ یہودیوں کی ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر کرتے رہتے تھے، اگرچہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا ؛ لیکن درپردہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی حملہ ہو اور وہ اس میں شکست کھائیں، مگر اللہ تعالیٰ ہر موقع پر ان کی سازش کو ناکام بنادیتے تھے۔