Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو چھپایا نہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے پیارے خطاب سے آواز دے کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کل احکام لوگوں کو پہنچا دو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں جو تجھ سے کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے ، اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے کی ۔ یہ حدیث یہاں مختصر ہے اور جگہ پر مطول بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے کسی فرمان کو چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا لیتے ۔ آیت ( وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ ۚ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىهُ ) 33 ۔ الاحزاب:37 ) ۔ یعنی تو اپنے دل میں وہ چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور لوگوں سے جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے ۔ ابن عباس سے کسی نے کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے کہ تمہیں کچھ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بتائی ہیں جو اور لوگوں سے چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں بنایا ( ابن ابی حاتم ) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت علی سے ایک شخص نے پوچھا کیا تمہارے پاس قرآن کے علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے دانے کو اگایا ہے اور جانوروں کو پیدا کیا ہے کہ کچ نہیں بجز اس فہم و روایت کے جو اللہ کسی شخص کو دے اور جو کچھ اس صحیفے میں ہے ، اس نے پوچھا صحیفے میں کیا ہے؟ فرمایا دیت کے مسائل ہیں ، قیدیوں کو چھوڑ دینے کے احکام ہیں اور یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہ کیا جائے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے کہ اللہ کی طرف سے رسالت ہے اور پیغمبر کے ذمے تبلیغ ہے اور ہمارے ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں ، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے کہ فی الواقع آپ نے امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے بڑی مجلس جو تھی ، اس میں سب نے اس کا اقرار کیا یعنی حجتہ الوداع خطبے میں ، جس وقت آپ کے سامنے چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے اس خطبے میں لوگوں سے فرمایا تم میرے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہماری گواہی ہے کہ آپ نے تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی ، آپ نے سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ کیا میں نے تیرے تمام احکامات کو پہنچا دیا ، اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اس خطبے میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے؟ سب نے کہا حرمت والا ، پوچھا یہ کونسا شہر ہے ، جواب دیا ، حرمت والا ۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے؟ جواب ملا ، حرمت والا ، فرمایا پس تمہارے مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرمت والے ہیں جیسے اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے میں حرمت ہے ۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا ۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ کی قسم یہ آپ کے رب کی طرف آپ کی وصیت تھی ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے ۔ دیکھو میرے فرمان میرے بندوں تک نہ پہنچائے تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا ، پھر اس کی جو سزا ہے وہ ظاہر ہے ، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہوا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے سب پہنچا دو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے ہیں ، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے نہ کیا تو تو نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔ پھر فرمایا تجھے لوگوں سے بچا لینا میرے ذمہ ہے ۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں ، بےخطر رہئیے وہ کوئی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اس آیت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم چوکنے رہتے تھے ، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے انہیں نیند نہیں آ رہی تھی میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج کیا بات ہے؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا ، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے فرمایا کون ہے؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں ، فرمایا کیسے آئے؟ جواب دیا اس لئے کہ رات بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کروں ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باآرام سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ( بخاری و مسلم ) ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ سنہ ٢ھ کا ہے ۔ اس آیت کے نازل ہوتے ہی آپ نے خیمے سے سر نکال کر چوکیداروں سے فرمایا ، جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آ گیا ، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں رہی ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو طالب آپ کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا بس چچا اب میرے ساتھ کسی کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ، میں اللہ کے بچاؤ میں آ گیا ہوں ۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے ، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے ، اس میں شک نہیں کہ مکے میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے کے اور ہر ہر اسباب اور سامان سے لیس ہونے کے سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کر سکے ، ابتداء رسالت کے زمانہ میں اپنے چچا ابو طالب کی وجہ سے جو کہ قریشیوں کے سردار اور بارسوخ شخص تھے ، آپ کی حفاظت ہوتی رہی ، ان کے دل میں اللہ نے آپ کی محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت اور عزت ڈال دی ، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی ۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ان کی بھی جان کے خواہاں ہو جاتے ۔ ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ نے انصار کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ انہی کے ہاں چلے گئے ۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے ہوئے ، بڑے بڑے سازو سامان لشکر لے کر چڑھ دوڑے ، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں ، قدرت نے وہ بھی انہی پر الٹ دیں ۔ ادھر وہ جادو کرتے ہیں ، ادھر سورہ معوذتین نازل ہوتی ہے اور ان کا جادو اتر جاتا ہے ۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے بکری کے شانے میں زہر ملا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کر کے آپ کے سامنے رکھتے ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دھوکہ دہی سے آگاہ فرما دیتا ہے اور یہ ہاتھ کاٹتے رہ جاتے ہیں اور بھی ایسے واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے نظر آتے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے ، جو صحابہ اپنی عادت کے مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے آپ کیلئے چھوڑ دیتے تھے ، دوپہر کے وقت قیولہ کر رہے تھے تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا ، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی ، اتار لی اور میان سے باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے کہنے لگا ، اب بتا کون ہے جو تجھے بچا لے؟ آپ نے فرمایا اللہ مجھے بچائے گا ، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے اور وہ درخت سے ٹکراتا ہے ، جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار سے غزوہ کیا ذات الرقاع کھجور کے باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے بیٹھے تھے ، جو بنو نجار کے ایک شخص وارث نامی نے کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرتا ہوں ۔ لوگوں نے کہا کیسے؟ کہا میں کسی حیلے سے آپ کی تلوار لے لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے پار کر دوں گا ۔ یہ آپ کے پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے تلوار دیکھنے کو مانگی ، آپ نے اسے دے دی لیکن تلوار کے ہاتھ میں آتے ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے گر پڑی تو آپ نے فرمایا تیرے اور تیرے بد ارادے کے درمیان اللہ حائل ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے کہ آپ اسی کیلئے تلے آرام فرمائیں ، ایک دن آپ اسی طرح ایسے درخت تلے سو گئے اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی ، ایک شخص آ گیا اور تلوار ہاتھ میں لے کر کہنے لگا ، اب بتا کہ میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ بچائے گا ، تلوار رکھ دے اور وہ اس قدر ہیبت میں آ گیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے سامنے ڈال دی ۔ اور اللہ نے یہ آیت اتاری کہ ( ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) 5 ۔ المائدہ:67 ) مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٹے آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اگر یہ اس کے سوا میں ہوتا تو تیرے لئے بہتر تھا ۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے پاس لائے اور کہا یہ آپ کے قتل کا ارادہ کر رہا تھا ، وہ کانپنے لگا ، آپ نے فرمایا گھبرا نہیں چاہے تو ارادہ کرے لیکن اللہ اسے پورا نہیں ہونے دے گا ۔ پھر فرماتا ہے تیرے ذمہ صرف تبلیغ ہے ، ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، وہ کافروں کو ہدایت نہیں دے گا ۔ تو پہنچا دے ، حساب کا لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

67۔ 1 اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم وکاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ (تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ (تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج یعنی اے اللہ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ 67۔ 2 یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٢] تمام رسولوں کی چار اہم ذمہ داریوں کا ذکر قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے۔ ان میں سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ اور آپ نے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دی ہے۔ کفار کی ایذا رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے آپ انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑوے کسیلے جواب سننے کے باوجود آپ نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ نے بآواز بلند فرمایا یا اللہ گواہ رہنا ۔ نیز آپ نے صحابہ کرام (رض) کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ تبلیغ رسالت کا فریضہ :۔ سیدنا (رض) بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ نے فرمایا۔ تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟ صحابہ نے عرض کیا ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ) ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔ آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔ (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی )- ٢۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کہتے ہیں آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ سن لو تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ ان لوگوں کو (اس خطبہ کے ارشادات) پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب) کیونکہ حاضر شاید ایسے غیر موجود شخص کو خبر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب قول النبی رب مبلغ اوعی من سامع )- ٣۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ نماز کسوف کے بعد) آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ انہیں نہ کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے۔ (خطبہ ختم کرنے کے بعد) آپ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر فرمایا اے اللہ میں نے یقینا تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (مسلم۔ کتاب الکسوف پہلی حدیث)- ہوا یہ تھا کہ جس دن رسول اللہ کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا اسی دن سورج کو بھی اتفاق سے گہن لگ گیا۔ قدیم عرب کا اعتقاد تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی موت سے لگا کرتا ہے۔ اس واقعہ پر کچھ مسلمان بھی یہ کہنے لگے کہ سورج ابراہیم کی موت کی وجہ سے گہنا گیا اور یہ دن ٢٩ شوال ١٠ ھ روز دو شنبہ بمطابق ٢٧ جنوری ٦٣٢ ء کا دن تھا۔ جب سورج کو گہن لگنا شروع ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کو دو رکعت طویل نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ اور صحابہ کو حکم دیا کہ جب سورج کو گرہن یا چاند گرہن لگے تو نماز پڑھا کرو۔ نماز کے بعد آپ نے طویل خطبہ دیا جس میں اس جاہلی عقیدہ کا بھرپور رد کیا کہ سورج اور چاند تو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کسی بھی شخص کی موت یا زندگی سے انہیں گرہن نہیں لگا کرتا۔ طویل خطبہ کے بعد آپ نے صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کر کے پوچھا کہ آیا میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر فرمایا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (بخاری۔ ابو اب الکسوف، مسلم۔ کتاب الکسوف)- ٤۔ سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ آپ نے اپنی مرض الموت میں اپنے سر سے کپڑا ہٹایا، اس وقت آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی (اس حال میں) آپ نے تین بار یہ الفاظ دہرائے اے اللہ یقینا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا۔ (مسلم کتاب الصلٰوۃ۔ باب نہی عن قراءۃ القرآن فی الرکوع والسجود )- اور تبلیغ کے لیے آپ جس بات کو زیادہ تر ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل احادیث سے ظاہر ہے :- ٥۔ وعظ کے آداب :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے آپ اس کو برا سمجھتے کہ ہم اکتا جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم بالموعظۃ والعلم کی لاینفروا )- ٦۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) ہر جمعرات کو لوگوں کو وعظ کرتے۔ ایک شخص نے ان سے کہا۔ ابو عبدالرحمن میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں۔ انہوں نے کہا یہ میں اس لیے نہیں کرتا کہ تمہیں اکتا دینا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اور میں وقت اور موقع دیکھ کر تمہیں وعظ سناتا ہوں جیسے رسول اللہ ہمارا وقت اور موقع دیکھ کر ہمیں نصیحت فرماتے تھے آپ کو یہی ڈر تھا کہ ہم اکتا نہ جائیں۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماکان النبی یتخولھم، بالموعظہ والعلم کی لاینفروا)- مردوں کے علاوہ آپ عورتوں کے لئے کبھی کبھی بالخصوص الگ اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ٧۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ (عیدالفطر کا خطبہ دے کر) مردوں کی صف سے نکلے اور آپ کے ساتھ بلال (رض) تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی۔ پھر آپ نے عورتوں کو نصیحت کی اور انہیں خیرات کرنے کا حکم دیا۔ کوئی عورت اپنی بالی پھینکنے لگی، کوئی انگوٹھی اور بلال (رض) نے اپنے کپڑے کے کونے میں یہ (صدقہ) لینا شروع کیا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن )- ٨۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عورتوں نے آپ سے عرض کیا کہ مرد آپ کے پاس آنے میں ہم پر غالب ہوئے۔ لہذا آپ خود ہمارے لیے ایک دن مقرر کر دیجئے۔ چناچہ آپ نے ان سے وعدہ فرما لیا۔ اس دن آپ نے انہیں وعظ فرمایا اور انہیں احکام شرع بتائے اور احکام میں سے ایک یہ بھی تھا جس عورت کے تین چھوٹے بچے فوت ہوجائیں (اور وہ صبر کرے) تو وہ ان کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے کسی عورت نے کہا اور اگر دو ہوں تو ؟ آپ نے فرمایا اور دو بھی ( بخاری۔ کتاب العلم۔ ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم )- [١١٣] نبی اور رسول میں فرق :۔ علماء نے ایک نبی اور ایک رسول میں جو فرق بیان کیے ہیں وہ یہ ہیں :- (١) آنے والے رسول کی بشارت پہلے ہی کتاب اللہ میں دے دی جاتی ہے جبکہ نبی کے لیے یہ بات ضروری نہیں ہوتی۔- (٢) رسول پر اللہ کی کتاب یا صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ الگ سے اپنی امت تشکیل دیتا ہے جبکہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا اور کرواتا ہے۔- (٣) رسول کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ خود لے لیتا ہے جبکہ انبیاء ناحق بھی سرکش کافروں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔- اور رسول اللہ چونکہ تمام دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے رسول ہیں۔ لہذا دوسروں کی نسبت آپ کی یہ ذمہ داری بھی زیادہ تھی۔ اسی لیے بطور خاص اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کو اطمینان دلایا۔ یہ آیت جنگ احد میں آپ کے زخمی ہونے کے بہت بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے بعض دفعہ ایسے ہنگامی حالات پیش آجاتے تھے کہ آپ پہرہ کے بغیر رات کو سو بھی نہ سکتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ نے پھر کبھی پہرہ نہیں بٹھایا۔ تبلیغ رسالت کی وجہ سے آپ کو اپنی جان کا کس قدر خطرہ تھا ؟ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ پر قریش مکہ، یہود اور منافقوں کی طرف سے تقریباً سترہ بار قاتلانہ حملے ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اور ایسے کافروں کو ذلیل و رسوا کیا۔ ان حملوں کا اجمالی ذکر درج ذیل ہے :- آپ کا زمانہ نبوت ٢٣ سال ہے۔ ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال کے عرصہ میں آپ پر سترہ بار قاتلانہ حملے یا آپ کو قتل کردینے کی سازشیں تیار ہوئیں۔ ان میں سے ٩ حملے تو قریش مکہ کی طرف سے ہوئے، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے ایک منافقین سے اور ایک شاہ ایران خسرو پرویز سے اور غالباً اس دنیا میں کسی بھی دوسرے شخص پر اتنی بار قاتلانہ حملے نہیں ہوئے اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع کر کے یا مدد کر کے آپ کو دشمنوں سے بچا کر اپنا وعدہ پورا کردیا۔ اب ہم ان قاتلانہ حملوں کے واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ مختصراً ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔- ١۔ آپ کی جان بچانے والے کی شہادت : کوہ صفا پر اپنے اقربین کو دعوت دینے کے بعد جب آیت (فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ 94؀) 15 ۔ الحجر :94) نازل ہوئی تو آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان فرمایا۔ آپ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چناچہ دفعتاً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپ پر پل پڑے۔ آپ کے ربیب (سیدہ خدیجہ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جو بہایا گیا (الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ بحوالہ سیرت النبی ج ١ ص ٣١٤)- ٢۔ ابو جہل کا ارادہ قتل : ایک دن ابو جہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کسی وقت جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں جائیں تو بھاری پتھر سے ان کا سر کچل دوں تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔ اس کے بعد چاہے تو تم لوگ مجھے بالکل بےیارو مددگار چھوڑ دو کہ بنو عبد مناف مجھ سے جیسا چاہے سلوک کریں اور چاہے تو میری حفاظت کرو۔ اس کے ساتھیوں نے کہا واللہ تمہیں بےیارومددگار نہ چھوڑیں گے۔ لہذا تمہارا جو جی چاہے کر گزرو۔ - اس تجویز کے مطابق ابو جہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چناچہ جب آپ سجدہ میں گئے تو ابو جہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا مگر یکدم خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور پتھر کو بھی مشکل سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا ابو الحکم یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ کہنے لگا میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک مہیب شکل کا اونٹ مجھے نظر آیا۔ بخدا میں نے کسی اونٹ کی ایسی ڈراؤنی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈراؤنے دانت کبھی نہیں دیکھے۔ وہ اونٹ مجھے کھا جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔ (ابن ہشام ١ : ٢٩٨-٢٩٩ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٥١)- ٣۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل : عقبہ ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپ کا گلا گھونٹ کر آپ کا کام تمام کر دے۔ اور ایسا موقع مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوتے تھے۔ چناچہ سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے جو رسول اللہ کو سب سے سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی ؟ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ آپ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپ کا گلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر نکل آئیں اور قریب تھا کہ آپ کا کام تمام ہوجاتا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آن پہنچے۔ انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپ کو چھڑایا اور فرمایا کیا تم اس شخص کو صرف اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے ؟ (٤٠: ٢٨) (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب فضل ابی بکر بعدالنبی کتاب التفسیر سورة مومن)- اور سیدہ اسماء کی روایت میں مزید تفصیل یہ ہے کہ جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپ کی چیخ نکل گئی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ آپ کی یہ چیخ سن کر ہی سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آپ کی مدد کے لیے آئے تھے اور جب سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔ (مختصر سیرۃ الرسول ص ١٣ بحوالہ الرحیق المختوم ٨ ص ١٥٣)- ٤۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا عمر آج کیا ارادے ہیں ؟ کہنے لگے تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں نعیم کہنے لگے پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں۔ سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور خباب بن الارت ص انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بےتحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں عمر تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو ۔ اگر عمر کسی برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا عمر کس ارادہ سے آئے ہو ؟ سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں چناچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔ (سیرۃ النبی شبلی نعمانی ج ١ ص ٢٢٨ بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر)- ٥۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنالیں۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ - ابو طالب کہنے لگے۔ واللہ یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کردو۔ واللہ یہ ناممکن ہے۔ - اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا بخدا تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔ - ابو طالب کہنے لگے بخدا یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر مخالفوں سے مل گئے ہو۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے جو چاہو کرو۔ (ابن ہشام ١ : ٢٦٦، ٢٦٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ١٤٥)- ابو طالب کے اس جواب سے مایوس ہو کر قریش کا یہ مجمع منتشر ہو کر چلا گیا۔- ٦۔ وہ مشورہ قتل جو آپ کی ہجرت کا سبب بنا : یہ واقعہ سورة انفال کی آیت نمبر ٣٠ میں مذکور ہے اور حاشیہ میں اس کی پوری تفصیل آگئی ہے وہاں سے ملاحظہ کرلیا جائے۔ مختصراً یہ کہ اس مجلس مشاورت میں ابلیس خود بھی شامل ہوا تھا اور بالآخر طے یہ پایا تھا کہ مختلف قبائل کے گیارہ آدمی فلاں رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کیے رہیں اور جب آپ علی الصبح گھر سے نکلیں تو سب آدمی یکبارگی حملہ کر کے آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو مشرکوں کی اس سازش کی اطلاع بھی دے دی۔ اور ہجرت کی اجازت بھی دے دی۔ چناچہ نہایت خفیہ طور پر ہجرت کر کے آپ ان مشرکین و کفار کے شر سے بال بال بچ گئے۔ اور کافروں کا یہ منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا۔- ٧۔ ہجرت کے بعد آپ کی گرفتاری یا قتل پر سو اونٹ انعام کی پیش کش : اس بھاری انعام کے لالچ میں لوگ فرداً فرداً بھی اور ٹولیاں بن کر بھی آپ کی تلاش اور تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور ایک گروہ تو نقوش پا کا سراغ لگاتے لگاتے غار ثور کے دھانہ تک پہنچ بھی گیا۔ یہ لوگ غار کے منہ کے اس قدر قریب ہوگئے تھے کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے تو آپ اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر نظر پڑ سکتی تھی۔ اس موقعہ پر بھی صبر و استقامت کے اس پیکر اعظم میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔ اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ (٩ : ٤٠) یہ واقعہ بھی سورة توبہ آیت نمبر ٤٠ میں مذکور ہے وہاں حاشیہ دیکھ لیا جائے۔- انفرادی تعاقب کرنے والوں میں سراقہ بن مالک کا واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو فی الواقع آپ کے سر پر جا پہنچا تھا مگر اس کے گھوڑے نے یک لخت ٹھوکر کھائی تو وہ گرپڑا۔ پھر سوار ہوا تو پھر گھوڑے نے دوسری بار ٹھوکر کھائی۔ پھر گرا۔ پھر سوار ہوا تو گھوڑے نے تیسری بار ٹھوکر کھائی۔ اب وہ سمجھ گیا کہ اس کی خیر اسی میں ہے کہ وہ ان کے قریب تک نہ جائے۔ رسول اللہ نے مڑ کر جو سراقہ کو دیکھا تو دعا کی اے اللہ اسے گرا دے چناچہ اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ) مزید تفصیل سورة توبہ کی آیت نمبر ٤٠ کے حاشیہ یعنی واقعہ ہجرت میں آئے گی۔- ٨۔ عمیر بن وہب جمحی کا ارادہ قتل ٢ ھ : عمیر بھی آپ کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھا۔ جنگ بدر میں اس کا بیٹا گرفتار ہو کر مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تو یہ شخص غصہ سے بےتاب ہوگیا اور انتقام لینے کا تہیہ کرلیا۔ ایک دن عمیر نے حطیم میں بیٹھ کر صفوان بن امیہ کے سامنے بدر کے کنوئیں میں پھینکے جانے والے مقتولین کا ذکر کیا تو صفوان کہنے لگا واللہ اب تو جینے کا کچھ مزا نہیں۔ عمیر کہنے لگا اگر میرے سر پر قرض نہ ہوتا اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اسے قتل کر ڈالتا۔ - صفوان کہنے لگا تمہارے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ رہی اور بال بچوں کی نگہداشت بھی۔ اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوگا تو انہیں بھی ضرور ملے گا۔ - عمیر نے کہا ٹھیک ہے مگر اب اس بات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا۔ اور صفوان نے اس بات کا اقرار کرلیا۔- اب عمیر نے اپنی تلوار کو زہر آلود کرایا اور مدینہ جا کر مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ سیدنا عمر نے آپ کو اطلاع دی کہ آپ کا دشمن عمیر بن وہب گلے میں تلوار حمائل کیے آیا ہے اور آپ سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا اسے آنے دو تاہم سیدنا عمر نے ازراہ احتیاط اس کی تلوار کا پر تلا لپیٹ کر پکڑ لیا۔ آپ نے سیدنا عمر سے کہا اس کی تلوار کو چھوڑ دو پھر عمیر سے پوچھا بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟ - عمیر کہنے لگا میرا بیٹا آپ کی قید میں ہے آپ احسان فرما دیجئے۔ - آپ نے فرمایا اگر یہی بات ہے تو پھر تلوار کیوں حمائل کر رکھی ہے۔ - کہنے لگا یہ تلواریں بھلا پہلے کس کام آئیں ؟ - آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھیک بات بتاؤ۔ ادھر ادھر کی مت ہانکو۔ - اور جب عمیر نے پھر وہی پہلی بات دہرا دی تو آپ نے فرمایا بات یوں نہیں۔ بلکہ تم مجھے قتل کرنے کے ارادہ سے آئے ہو۔ تم نے اور صفوان بن امیہ نے حطیم میں بیٹھ کر یہ مشورہ کیا۔ صفوان نے تمہارے قرض اور بال بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری قبول کی اور تم مجھے قتل کرنے یہاں آگئے۔ لیکن یاد رکھو اللہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہے۔ - عمیر نے خیال کیا کہ یہ معاملہ ایسا تھا جس کا صفوان کے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا اسے کس نے بتایا ؟ یقینا یہ نبی ہی ہوسکتا ہے اور ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے آپ کے سامنے کلمہ شہادت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا : اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس کے بیٹے کو آزاد کردو۔ - ادھر صفوان نے مکہ میں مشہور کر رکھا تھا کہ میں عنقریب تم لوگوں کو ایک خوشخبری سناؤں گا مگر اس کے بجائے جب اسے عمیر کے مسلمان ہوجانے کی اطلاع ملی تو غصہ سے جل بھن گیا اور اس نے قسم کھالی کہ آئندہ عمیر سے بات تک نہ کروں گا اور نہ ہی اسے کسی قسم کا نفع پہنچاؤں گا۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن بعد مکہ آیا۔ اور یہاں آ کر دعوت کا کام شروع کردیا اور اس کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام ١ : ٦٦١ تا ٦٦٣ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٣٧٢)- (٩) یہود کا منصوبہ قتل ٤ ھ بئر معونہ کے واقعہ نے ایک دفعہ پھر غزوہ احد کے چرکہ کی یاد تازہ کردی۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جنہیں کافروں نے گرفتار کرلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوۃ الرجیع و بئرمعونہ) مگر آپ ان کی قید سے نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ کر اس دردناک واقعہ کی آپ کو اطلاع دی۔ راستہ میں عمرو بن امیہ نے غلطی سے دو آدمیوں کو دشمن سمجھ کر ان کا صفایا کردیا حالانکہ وہ معاہد تھے۔ جب آپ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ کو بہت دکھ ہوا اور فرمایا کہ اب ہمیں ان دو آدمیوں کی دیت ادا کرنا ہوگی۔ چناچہ اس رقم کی فراہمی میں مشغول ہوگئے۔- میثاق مدینہ کی رو سے یہود بھی اس طرح کی دیت میں برابر کے شریک قرار دیئے گئے تھے۔ چناچہ آپ چند صحابہ کو ساتھ لے کر بنو نضیر کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان لوگوں نے آپ کو ایک مکان کے صحن میں بٹھایا آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور یہود وہاں سے اس بہانہ سے اٹھ کر چلے آئے کہ ہم جا کر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ وہاں سے باہر آ کر آپ کو قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک یہودی کہنے لگا کون ہے جو مکان کی چھت پر جا کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرا کر اسے کچل ڈالے ؟ ایک دوسرا بدبخت فوراً اس کام کے لیے تیار ہوگیا۔ ان لوگوں کے اس ارادہ کی آپ کو بذریعہ وحی خبر ہوگئی۔ آپ فوراً وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ (الرحیق المختوم ص ٤٦٢)- (١٠) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل ٦ ھ : سنہ ٦ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا ثمامہ کیا صورت حال ہے ؟ - ثمامہ کہنے لگا اگر مجھے قتل کردو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کردو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔ - آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں۔ آپ واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ اسے رہا کردو۔ - رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا واللہ آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین سب سے زیادہ محبوب ہے میں عمرہ کا ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ آپ نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چناچہ جب ثمامہ عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آئے تو مشرکین مکہ کہنے لگے ثمامہ بےدین ہوگیا ہے ثمامہ نے کہا نہیں بلکہ میں تو مسلمان ہوا ہوں اور دیکھو آئندہ تمہیں یمن سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ پہنچے گا تاآنکہ رسول اللہ مجھے اس بات کا حکم نہ دیں۔ چناچہ بعد میں واقعتاً بھی یہی کچھ ہوا۔- ثمامہ بن اثال کا واقعہ صحیحین میں کئی مقامات پر مذکور ہے مگر ان میں یہ صراحت نہیں کہ ثمامہ جب گرفتار ہوئے تو اس مسیلمہ کذاب کے حکم کے مطابق آپ کو قتل کے ارادہ سے نکلے تھے اس بات کی وضاحت سیرۃ طیبہ میں موجود ہے (سیرۃ طیبہ ٢ : ٢٩٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٠٦)- ١١۔ زہر آلود بکری کے گوشت سے آپ کے قتل کی یہودی سازش ٧ ھ : خیبر کے فتح ہونے اور یہود سے مزارعت کا معاملہ طے ہوجانے کے بعد آپ نے چند دن خیبر میں قیام فرمایا۔ غدار اور مکار شکست خوردہ یہود نے ان ایام میں آپ کو ہلاک کرنے کی ایک سازش تیار کی۔ سلام بن مشکم کی بیوی کو، جو یہودی سردار مرحب کی بیٹی تھی اس کام کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ زینب نے آپ کو دعوت کا پیغام بھیجا جسے آپ نے ازراہ کرم قبول کرلیا۔ آپ سے پوچھ لیا گیا کہ آپ کونسا گوشت کھانا پسند فرماتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا دستی کا اس دعوت میں آپ چند صحابہ سمیت وقت معینہ پر پہنچ گئے۔ آپ نے کھانا شروع کیا تو پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا۔ آپ نے فوراً کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن سیدنا بشر بن براء نے چند ایک لقمے کھا لیے تھے لہذا وہ اس زہر کے اثر سے ایک دو دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ نے زینب کو بلا کر پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور یہ بھی بتادیا کہ اس سازش میں پوری یہودی قوم شریک تھی۔ آپ نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ وہ کہنے لگے کہ ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو آپ پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔ (بخاری کتاب الطب۔ باب مایذکر فی سم النبی۔۔ )- آپ نے اپنی طرف سے تو زینب اور یہود کو معاف فرما دیا لیکن سیدنا بشر کے قصاص میں زینب کے قتل کا حکم دے دیا (ابن ہشام ٢ : ٢٣٥ تا ٢٣٧ بحوالہ الرحیق المختوم ص ٥٩٨)- آپ نے اپنی مرض الموت میں سیدہ عائشہ (رض) سے فرمایا عائشہ (رض) اب مجھے معلوم ہوا کہ جو لقمہ میں نے خیبر میں کھایا تھا اس کے زہر کے اثر سے میری رگ جان کٹ گئی (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی۔۔ )- ١٢۔ خسرو پرویز شاہ ایران کا ارادہ قتل ٧ ھ : صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے شاہان عجم کے نام دعوت نامے بھیجے۔ شاہ ایران کو جب یہ دعوت نامہ پہنچا تو غصہ سے خط پھاڑ دیا اور کہنے لگا : میرا غلام ہو کر ایسا خط لکھتا ہے ؟ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ان لوگوں کو بھی ہلاک کر دے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب کتاب النبی الی کسریٰ و قیصر) پھر اس نے حاکم یمن باذان کو حکم بھیجا کہ وہ کسی آدمی کو بھیج کر اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے ہمارے حضور پیش کرے۔ باذان نے دو آدمی اس غرض سے مدینہ بھیجے۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر عرض کی کہ شہنشاہ عالم کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کر دے گا۔ آپ نے ان سے کہا اچھا تم کل آنا۔ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تمہارے شہنشاہ عالم کو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔ - وہ آدمی جب یمن واپس آئے تو خسرو کے قتل کی خبر وہاں پہنچ چکی تھی۔ یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبی۔ شبلی نعمانی ج ١ ص ٤٨٢)- ١٣۔ جادو کے ذریعہ آپ کو ہلاک کرنے کی یہودی سازش : زہر آلود بکری کے گوشت کے واقعہ کے بعد یہود نے آپ کو ہلاک کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اپنے حلیف لبید بن اعصم سے جو بڑا ماہر جادوگر تھا۔ آپ پر ایسا خطرناک جادو کرنے کی درخواست کی جو آپ کو جلد از جلد ہلاک کر ڈالے۔ لبید نے اس سلسلہ میں اپنی دو لڑکیوں کو ذریعہ بنایا جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آپ کے سر کے کچھ بال حاصل کرلیے۔ ان بالوں پر منتر پڑھے گئے پھر ان میں گانٹھیں دے کر پھونکیں ماری گئیں۔ پھر انہیں کھجوروں کے خوشوں کے غلاف میں چھپا کر ذروان نامی کنوئیں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا گیا۔ یہ جادو اتنا تیز اور سخت تھا کہ اس کے اثر سے اس کنوئیں کے پانی کا رنگ اتنا سرخ اور خونیں ہوگیا جیسے اس میں مہندی ڈال دی گئی ہو اور اس کنوئیں پر واقع درختوں کے خوشے یوں لگتے تھے جیسے سانپوں کے پھن ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں فرشتے بھیج کر اس کی حقیقت بتلا دی اور اس طرح اللہ نے آپ کو اس شر سے بھی محفوظ کرلیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس و جنودہ۔ نیز کتاب الادب۔ باب ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ 90؀) 16 ۔ النحل :90) اور سورة فلق کا حاشیہ نمبر ٥- ١٤۔ دشمن قبیلہ کے ایک بدوی کا ارادہ قتل : غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر اسلامی لشکر نے ایک مقام پر پڑاؤ کیا۔ صحابہ کرام (رض) الگ الگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے۔ آپ بھی ایک درخت کے نیچے جا بیٹھے تلوار درخت سے لٹکائی اور لیٹتے ہی نیند غالب آگئی۔ اتنے میں دشمن قبیلہ کا ایک بدو وہاں پہنچ گیا۔ اس نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اس موقعہ کو نہایت غنیمت سمجھا اور بڑھ کر تلوار درخت سے اتارنے لگا۔ وہ تلوار کو اتار ہی رہا تھا کہ آپ کو جاگ آگئی۔ بدو تلوار ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگا۔ اب بتلاؤ تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے نہایت اطمینان سے جواب دیا میرا اللہ یہ الفاظ آپ نے اس قدر بےباکی سے کہے کہ بدو سخت مرعوب ہوگیا اور کانپنے لگا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی۔ آپ نے اپنی تلوار سنبھال لی۔ پھر جب آپ نے اس پر قابو پا لیا تو صحابہ کو بلا کر اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ بعد میں آپ نے اس بدو کو معاف کردیا (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب من علق سیفہ بالشجرۃ فی السفر عند القائلۃ) واضح رہے کہ یہ بدوی اسی قبیلہ سے تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ نکلے ہوئے تھے۔- ١٥۔ فضالہ بن عمیر کا ارادہ قتل ٨ ھ : یہ فضالہ اسی عمیر بن وہب کا بیٹا تھا جو صفوان بن امیہ سے مشورہ کے بعد آپ کو قتل کرنے کے لیے مدینہ پہنچا تھا اور نتیجتاً اسلام لا کر واپس مکہ جا کر مقیم ہوگیا تھا۔ اس کا بیٹا فضالہ ابھی تک مشرک ہی تھا۔ فتح مکہ کے بعد آپ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے کہ فضالہ کو بھی آپ کے قتل کی سوجھی۔ جب وہ اس ارادہ سے آپ کے قریب آیا تو آپ نے خود اسے اس کے ارادہ سے مطلع کردیا۔ جس پر وہ اپنے باپ کی طرح مسلمان ہوگیا (الرحیق المختوم ص ٦٤٨)- ١٦۔ منافقوں کی آپ کو قتل کرنے کی سازش ٩ ھ : غزوہ تبوک سے واپسی پر تقریباً چودہ یا پندرہ منافقوں نے یہ سازش تیار کی کہ آپ کی کھلے راستہ کے بجائے گھاٹی والے راستہ کی طرف رہنمائی کی جائے اور جب آپ وہاں پہنچ جائیں تو آپ کو سواری سے اٹھا کر نیچے گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے اسی سازش کے تحت آپ کی سواری کو اس راہ پر ڈال دیا گیا۔ حذیفہ بن یمان آپ کے ہمراہ تھے۔ جب گھاٹی قریب آنے کو تھی تو چند منافق منہ پر ڈھاٹے باندھے رات کی تاریکی میں آپ کی طرف بڑھنے لگے۔ دریں اثنا آپ کو وحی کے ذریعہ منافقوں کے اس مذموم ارادہ کی اطلاع مل گئی تھی۔ آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ ان منافقوں کی سواریوں کے چہروں پر مار مار کر انہیں تتر بتر کردیں۔ اس کام سے منافقوں کو بھی شبہ ہوگیا کہ رسول اللہ ان کے مذموم ارادہ سے مطلع ہوچکے ہیں۔ لہذا اب انہیں اپنی جانیں بچانے کی فکر دامن گیر ہوئی اور انہوں نے راہ فرار اختیار کی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ منصوبہ قتل بھی ناکام بنادیا۔ (الرحیق المختوم ص ٦٨٦)- آپ نے سیدنا حذیفہ بن یمان کو ان منافقوں کے نام معہ ولدیت بتلا دیئے تھے اور سیدنا حذیفہ ان کو پہنچانتے بھی تھے۔ تاہم رسول اللہ نے انہیں یہ ہدایت کردی تھی کہ عام مسلمانوں میں انہیں مشہور نہ کیا جائے۔ یہ سازشی منافق بعد میں اہل عقبہ کے نام سے مشہور ہوئے اور ان کا ذکر مسلم، کتاب صفۃ المنافقین میں بھی مجملاً مذکور ہے۔ نیز دیکھئے ( سورة حجرات کا حاشیہ نمبر ٣٤)- ١٧۔ عامر بن طفیل اور اربد کی سازش قتل ١٠ ھ : ١٠ ھ میں مدینہ میں جو وفود آئے ان میں سے ایک وفد عامر بن صعصعہ کا بھی تھا۔ یہ وفد رشد و ہدایت کی غرض سے نہیں بلکہ آپ کے قتل کے ناپاک ارادہ سے آیا تھا۔ ایک وفد میں ایک تو عامر بن طفیل تھا اور یہ وہی شخص ہے جس نے فریب کاری سے بئرمعونہ کے ستر قاریوں کو شہید کردیا تھا۔ دوسرا اربد بن قیس۔ تیسرا خالد بن جعفر اور چوتھا جبار بن اسلم تھا۔ یہ سب کے سب قوم کے سردار اور شیطان صفت انسان تھے۔- عامر اور اربد نے راستہ ہی میں یہ سازش تیار کی کہ دھوکہ دے کر محمد کو قتل کردیں گے چناچہ جب یہ وفد مدینہ پہنچا تو عامر نے گفتگو کا آغاز کیا تاکہ آپ کو دھیان لگائے رکھے۔ اتنے میں اربد گھوم کر آپ کے پیچھے پہنچ گیا۔ وہ میان سے تلوار نکال ہی رہا تھا کہ اللہ نے اس کے ہاتھ کی حرکت بند کردی اور وہ اسے بےنیام بھی نہ کرسکا اور ان کی یہ سازش دھری کی دھری رہ گئی اور ان کے عزائم طشت ازبام ہوگئے۔ آپ نے ان دونوں پر بددعا کی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ چناچہ واپسی پر اربد اور اس کے اونٹ پر بجلی گری جس سے وہ جل کر مرگیا۔ رہا عامر تو واپسی کے سفر کے دوران اس کی گردن پر ایک ایسی گلٹی نکلی جس نے اسے موت سے دوچار کردیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے آہ : اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور ایک فلاں خاندان کی عورت کے گھر میں موت۔- صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عامر نے اپنی گفتگو کا جو آغاز کیا وہ یوں تھا میں آپ کو تین باتوں کا اختیار دیتا ہوں۔- (١) دیہاتی آبادی کے حاکم آپ ہوں اور شہری آبادی کا حاکم میں ہوں گا۔ (٢) یا آپ کے بعد آپ کا خلیفہ میں بنوں گا اور (٣) اگر یہ دونوں باتیں نامنظور ہوں تو میں غطفان کے ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار گھوڑیوں کو آپ پر چڑھا لاؤں گا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان)- اس واقعہ کے بعد وہ ایک عورت کے گھر میں طاعون کا شکار ہوگیا اور مرتے وقت اس کی زبان پر یہ الفاظ تھے اونٹ کی گلٹی جیسی گلٹی اور وہ بھی بنی فلاں کی ایک عورت کے گھر میں۔ میرے پاس میرا گھوڑا لاؤ۔ چناچہ وہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اسی حالت میں اسے موت نے آلیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان)- سو یہ ہے ان قاتلانہ حملوں اور سازشوں کی مختصر داستان جن میں بالخصوص اس محسن اعظم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے منصوبے تیار کیے گئے تھے اس محسن انسانیت کے لیے جو دنیا بھر کے لوگوں کی اصلاح و فلاح کا یکساں درد رکھتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا کر (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) کا وعدہ پورا کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام میں سے اگر کچھ بھی چھپالیا، یا پہنچانے میں سستی کی تو گویا سرے سے اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، خصوصاً یہود و نصاریٰ سے متعلق اعلانات۔ اس آیت میں ان لوگوں کی تردید ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن کی بعض آیات مسلمانوں تک نہیں پہنچائیں، بلکہ صرف علی (رض) اور اہل بیت کو بتائیں۔ خود علی (رض) نے ان کے اس باطل عقیدے کی تردید فرمائی، چناچہ ابو جحیفہ (رض) نے علی (رض) سے پوچھا : ” کیا آپ ( اہل بیت) کے پاس کوئی اور کتاب ہے ؟ “ تو انھوں نے فرمایا : ” نہیں، مگر اللہ کی کتاب یا کتاب اللہ کی وہ سمجھ ہے جو کسی مسلمان آدمی کو عطا کی جائے، یا جو اس صحیفے میں ہے۔ “ میں نے پوچھا : ” اس صحیفے میں کیا ہے ؟ “ فرمایا : ” دیت اور قیدیوں کو چھڑانے سے متعلق احادیث اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ “ [ بخاری، العلم، باب کتابۃ العلم : ١١١ ] عائشہ (رض) فرماتی ہیں : جو شخص یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کوئی چیز چھپالی تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی تو یقیناً اس نے جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭ )” اے رسول پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب : ( یأیھا الرسول بلغ ما أنزل إلیک من ربک ) : ٤٦١٢ ]- جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( حجۃ الوداع کے دن) اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا : ” تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے ؟ “ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ” ہم سب یہ گواہی دیں گے کہ بیشک آپ نے پیغام رسالت کو پہنچا دیا اور (پہنچانے کا) حق ادا کردیا اور یہ کہ آپ نے خیر خواہی فرمائی۔ “ اس پر آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” اے اللہ تو گواہ ہوجا، اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ “ [ مسلم، الحج، باب حجۃ النبی : ١٢١٨۔ بخاری : ١٧٤١ ]- وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭ: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص حفاظت میں لے لیا اور فرمایا کہ تم میرا پیغام پہنچاؤ، میں خود تمہیں لوگوں سے بچاؤں گا۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرا دیا جاتا تھا، عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو نہیں رہے تھے، میں بھی آپ کے پاس ہی لیٹی ہوئی تھی، میں نے عرض کی : ” اے اللہ کے رسول کیا بات ہے ؟ “ آپ نے فرمایا : ” کاش کوئی نیک آدمی میرا پہرا دیتا۔ “ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میں نے ہتھیاروں کی جھنکار سنی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : ” کون ہے ؟ “ آنے والے نے کہا : ” سعد بن ابی وقاص ہوں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیسے آنا ہوا ؟ “ انھوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول میں آیا ہوں کہ ( آج رات) آپ کا پہرا دوں۔ “ عائشہ (رض) فرماتی ہیں : ” اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آرام سے سو گئے، حتیٰ کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ : ٢٨٨٥۔ مسلم : ٢٤١٠ ]- عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پہرے کا انتظام کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب یہ آیت اتری : (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ) تو آپ نے خیمے سے سر نکال کر فرمایا : ” لوگو تم چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ مجھے ( دشمن سے ) بچائے گا۔ “ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المائدۃ : ٣٠٤٦ ] اس کی ایک مثال وہ اعرابی بھی ہے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوتے ہوئے آپ کی تلوار پکڑ کر کہا تھا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ “- اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : یعنی اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ (کبیر) شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی اگرچہ وہ دشمن ہوں تم بےفکر یہ پیغام پہنچاؤ اور خطرہ نہ کرو۔ (موضح) یا مطلب یہ ہے کہ ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس لیے اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو فکر نہ کرو۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تبلیغ کی تاکید اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی - اس کا ایک اثر طبعی طور پر بتقاضائے بشریت یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مایوس ہو کر یا مجبور ہو کر تبلیغ و رسالت میں کچھ کمی ہوجائے اور دوسرا اثر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفت اور دشمنی اور ایذاء رسانی کی پرواہ کئے بغیر تبلیغ رسالت میں لگے رہیں، اور اس کے نتیجہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمنوں کے ہاتھ سے تکالیف و مصائب کا سامنا ہو۔ اس لئے تیسری آیت میں ایک طرف تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تاکیدی حکم دے دیا گیا کہ جو کچھ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جائے وہ سب کا سب بغیر کسی جھجک کے آپ لوگوں کو پہنچا دیں، کوئی برا مانے یا بھلا۔ اور مخالفت کرے یا قبول کرے، اور دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خوشخبری دے کر مطمئن بھی کردیا گیا کہ تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں یہ کفار آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرمائیں گے۔- اس آیت میں ایک جملہ تو یہ قابل غور ہے کہ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ، مراد اس کی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک حکم خداوندی بھی آپ نے امت کو نہ پہنچایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے فرض پیغمبری سے سبکدوش نہیں ہوں گے، یہی وجہ تھی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام عمر اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی پوری ہمت و قوت صرف فرمائی اور حجة الوداع کا مشہور خطبہ جو ایک حیثیت سے اسلام کا آئین اور دستور تھا اور دوسری حیثیت سے ایک رؤف و رحیم اور ماں باپ سے زیادہ شفیق پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخری وصیت تھی۔- حجة الوداع کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک نصیحت - اس خطبہ میں آپ نے صحابہ کرام کے ایک عظیم مجمع کے سامنے اہم ہدایات فرمانے کے بعد مجمع سے سوال فرمایا :- الا ھل بلغت۔ دیکھو کیا میں نے آپ کو دین پہنچا دیا ؟ صحابہ کرام نے اقرار فرمایا کہ ضرور پہنچایا۔ اس پر ارشاد فرمایا کہ آپ اس پر گواہ رہو، اسی کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فلیبلغ الشاھد الغائب، ” یعنی جو لوگ اس مجمع میں حاضر ہیں وہ غائبوں تک میری بات پہنچا دیں “۔ غائبین میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو اس وقت دنیا میں موجود تھے، مگر مجمع میں حاضر نہ تھے۔ اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، ان کو پیغام پہنچانے کا طریقہ علم دین کی نشر و اشاعت تھی جس کو حضرات صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہم نے پوری کوشش سے انجام دیا۔ - اسی کا یہ اثر تھا کہ عام حالات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات و کلمات کو اللہ کی ایک بھاری امانت کی طرح محسوس فرمایا، اور مقدور بھر اس کی کوشش کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنا ہوا کوئی جملہ ایسا نہ رہ جائے جو امت کو نہ پہنچے۔ اگر کسی خاص سبب یا مجبوری سے کسی نے کسی خاص حدیث کو لوگوں سے بیان نہیں کیا تو اپنی موت سے پہلے دو چار آدمیوں کو ضرور سنا دیا، تاکہ وہ اس امانت سے سبکدوش ہوجائیں۔ صحیح بخاری میں حضرت معاذ (رض) کی ایک حدیث اپنی موت کے وقت بیان فرمائی، تاکہ اس امانت کے نہ پہنچانے کی وجہ سے گنہگار نہ ہوجائیں۔- آیت کے دوسرے جملہ واللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، میں بشارت دی گئی ہے کہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود دشمن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔- حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے چند صحابہ کرام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لئے عام طور پر ساتھ لگے رہتے تھے۔ اور سفر و حضر میں آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو رخصت کردیا کہ اب کسی پہرہ اور حفاظت کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام خود اپنے ذمہ لے لیا ہے۔- ایک حدیث میں حضرت حسن (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مجھے تبلیغ و رسالت کے احکام ملے تو میرے دل میں اس کی بڑی ہیبت تھی، کہ ہر طرف سے لوگ میری تکذیب اور مخالفت کریں گے، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو سکون و اطمینان حاصل ہوگیا۔ (تفسیر کبیر)- چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ تبلیغ و رسالت کے مقابلہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی گزند پہنچا سکے۔ جنگ و جہاد میں عارضی طور سے کوئی تکلیف پہنچ جانا اس کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝ ٠ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٦٧- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] - ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103]- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے یا یھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک اے پیغمبر جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا وہ لوگوں تک پہنچا دو آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے اللہ نے آپکے ذریعے لوگوں کی طرف جو کتاب بھیجی ہے اور جو احکام نازل کیے ہیں آپ انہیں بےکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیں اور کسی سے ڈر کر یا کسی کے ساتھ نرمی برتنے کی خاطر کوئی بات چھپا کر نہ رکھیں ۔ اور یہ بتادیا کہ اگر آپ نے ان میں سے کوئی بات لوگوں تک پہنچانے میں کوتاہی کی تو آپ کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے گویا کوئی بات پہنچائی ہی نہیں چناچہ ارشاد باری ہے وان لم تعفل فما بغلت رسالتہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبر ی کا حق ادا نہ کیا ۔ پھر آپ انبیاء کے درجے اور مرتبے کے مستحق نہیں قرار پائیں گے جنہوں نے اللہ کا پیغام اور اس کے احکام لوگوں تک پہنچانے میں دن رات ایک کردیئے تھے نیز اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع بھی دے دی وہ لوگوں کے شر سے آپ کو بچا لے گا ۔ آپ کے دشمن نہ آپ کی جان پر ہاتھ ڈال سکیں گے نہ آپ کو مغلوب کرسکیں گے اور نہ محصور چناچہ ارشاد ہوا واللہ یعصمک من الناس اور تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ نے اللہ کی نازل کردہ تمام باتوں کو لوگوں تک پہنچانے میں کوئی تقیہ نہیں کیا ۔ کوئی بات پوشدہ نہیں رکھی۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقیہ نہیں کیا - اس میں روافض اور اہل تشیع کے اس دعوے کے بطلان پر دلالت موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوف کی بنا پر تقیہ کے طور پر لوگوں سیب بعض باتیں چھپالی تھیں اور انہیں لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا۔ یہ دعویٰ اس لیے باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ یعنی لوگوں تک اللہ کی نازل کردہ تمام باتیں پہنچانے کا حکم دیا تھا اور آپ کو یہ بتادیا کہ آپ کو تقیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ قول باری واللہ یعصمک من الناس سے ظاہر ہے۔ آیت میں اس بات پر بھی دلالت موجود ہے کہ ایسے تمام احکام جن کی لوگوں کو عام طور پر ضرورت تھی آپ نے انہیں تمام لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ نیز یہ کہ امت کے لیے ان احکام کا ورد و تواتر کے ساتھ ہونا چاہیے مثلاً مس ذکر یا مس مرأۃ یا آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کی بنا پر وضو کرنے کا حکم اور اس جیسے دوسرے احکام ۔ اس لیے کہ ان جیسے امور سے لوگوں کے دن رات سابقہ پڑتا تھا۔- اس بنا پر اگر اس قسم کا کوئی حکم تواتر کے ساتھ وارد نہ ہو تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ یا تو اصل کے اعتبار سے یہ حکم ثابت ہی نہیں ہے یا اس کی توجیہ اور اسکے معنی وہ نہیں ہیں جن کا ظاہر حدیث مقتضی ہے ، مثلاً وضو کے معنی ہاتھ دھونے کے لیے جائیں ، حدث لا حق ہونے کی بنا پر وضو کرنے کے نہ لیے جائیں ۔- قول باری واللہ یغصمک من الناس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آیت میں غیب کی ان باتوں میں ایک بات خبر دی گئی ہے جو بعد میں پیش آنے والے واقعات کے عین مطابق ثابت ہوئیں اس لیے کہ واقعاتی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ کسی کو آپ کی جان پر ہاتھ ڈالنے ، آپ پر غلبہ پانے یا قید و بند میں ڈالنے کا خدا کی طرف سے موقعہ ہی نہیں دیا گیا ۔- گزند پہنچانے والے وہ دشمنان رسول جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک رسائی نصیب نہ ہوسکی - جبکہ ایسے دشمنوں کی کوئی کمی نہیں تھی جو آپ کے خون کے پیاسے تھے ، آپ سے ٹکر لینے کو ہمہ وقت تیار تھے اور ہمیشہ آپ کی تاک میں رہتے تھے مثلاً عامر بن الطفیل اور اربد ، نے مل کر آپ کے خلاف سازش کی لیکن آپ تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکے یا جس طرح عمیر بن وہب اور صفوان بن امیہ نے آپ کو دھوکے سے قتل کردینے کا منصوبہ بنایا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس منصوبے کی قبل از وقت اطلاع دے دی ۔ آپ نے عمیر بن وہب کو اس کے منصوبے سے آگاہ کردیا جو اس نے صفوان بن امیہ کے ساتھ مل کر بنایا تھا ، جبکہ یہ دونوں ابھی آپ سے بہت دور ہجر کے مقام پر تھے۔ اس کے نتیجے میں عمیر مسلمان ہوگئے اور اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی اطلاع اللہ کے سوا اور کسی کی طرف سے نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہی عالم الغیب و الشہادہ ہے۔ اگر آپ کو اللہ کی طرف سے اس بات کی اطلاع نہ دی جاتی تو آپ لوگوں کو ہرگز اس سے آگاہ نہ کرسکتے۔ نہ ہی آپ یہ دعویٰ کرتے کہ دشمن آپ کی جان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے ہیں اور نہ ہیں آپ کو مغلوب کرسکتے ہیں اگر آپ اپنی طرف سے ایسی باتیں کہتے تو آپ کو ہر وقت یہ خطرہ لا حق رہتا کہ کہیں واقعاتی طور پر یہ باتیں غلط ثابت نہ ہوجائیں اور لوگوں کو آپ پر کذب بیانی کی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ نہ آ جائے۔ علاوہ ازیں آپ کو اپنی طرف سے ایسی باتیں کہنے کی قطعا ً ضرورت بھی نہیں تھی ۔ ایک اور پہلو سے اس پر نظر ڈال لی جائے وہ یہ کہ اگر آپ کی بتائی ہوئی یہ باتیں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتیں تو واقعاتی طور پر ان سب کا ظہور میں آ جانا اور آپ کی اطلاع کے عین مطابق ہونانیز کسی ایک واقعہ کا اس نہج سے ہٹ کر وقوع پذیر نہ ہونا ممکن نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ آج تک ایسا اتفاق پیش نہیں آیا کہ لوگوں نے اپنی دانائی وزیر کی اور ظن و نخمین نیز علم نجوم، فال اور جفر کی بنیادپر جتنی باتیں کی ہوں وہ سب کی سب واقعاتی طور پر درست بھی ثابت ہوئی ہوں لیکن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مستقبل کے بارے میں پیشینگوئیاں ہو بہو درست ثابت ہوگئیں اور ایک بھی پیشینگوئی خلاف واقعہ ثابت نہیں ہوئی تو اس سے میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ تمام کی تمام باتیں اللہ کی طرف سے تھیں جسے ماضی کے پیش آمدہ واقعات کا بھی علم ہے اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی بھی پہلے سے خبر ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٧) یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کا انکار کیجیے اور ان کے دین کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیجیے اور آخری درجہ میں ان کے ساتھ قتال کیجیے اور جو قبول حق پر آمادہ ہوں انھیں اسلام کی دعوت دیجیے اور اگر آپ حکم الہی کی بجاآوری نہیں کریں گے تو آپ نے ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور یہود وغیرہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے گا اور جو دین خداوندی کا اہل نہیں ہوتا، اسے اللہ وہ راستہ نہیں دیکھاتا۔- شان نزول : (آیت) ” یایہا الرسول بلغ ماانزل الیک “۔ (الخ)- ابوالشیخ نے حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے رسالت سے مشرف فرمایا تو میرے دل میں پریشانی ہوئی اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ لوگ ضرور میری تکذیب کریں گے تو مجھے اس چیز کا ڈر ہوا کہ میں تمام احکام کی تبلیغ کردوں، ورنہ مجھے عذاب دیا جائے گا۔- تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار، کس طرح تبلیغ کروں میں اکیلا ہوں اور سب مل کر مجھ پر ہجوم کرجائیں گے تو اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جملہ نازل ہوا، (آیت) ” وان لم تفعل فما بلغت رسلتہ “۔- اور حاکم (رح) وترمذی (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، (آیت ) ” واللہ یعصمک من الناس “۔ تو آپ نے خیمہ سے سرنکالا اور فرمایا کہ لوگو واپس چلے جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔- نیز طبرانی (رح) نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عباس (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم ان حضرات میں سے تھے جو آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو انہوں نے پہرہ دینا چھوڑ دیا۔- نیز عصمۃ بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم رات کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہرہ دیا کرتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا تو پہرہ دینا چھوڑ دیا گیا۔- اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ جب ہم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سفر میں ہوتے تو ہم آپکے لیے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ سایہ دار درخت چھوڑ دیتے تھے جس کے نیچے آپ اتر کر آرام فرماتے، چناچہ ایک دن ایسے ہی ایک درخت کے نیچے آپ نے آرام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی تو ایک شخص نے آکر وہ تلوار اتارلی اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بچا سکتا ہے تلوار رکھ دے اس نے تلوار رکھ دی، تب یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “۔- اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بنی انمار کیا تو مقام ذات الرقیع میں ایک کھجوروں کے بلند باغ پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے تھے اور پیر کنوئیں میں لٹکا رکھے تھے۔- تو بنی نجار میں سے وارث نامی ایک شخص کہنے لگا کہ العیاذ باللہ میں ضرور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کروں گا، تو اس کے ساتھیوں نے اس سے کہا کہ کس طرح قتل کرے گا وہ کہنے لگا میں آپ سے آپ کی تلوار مانگوں گا، جب آپ اپنی تلوار دے دیں گے تو میں آپ کو قتل کردوں گا، چناچہ وہ آیا اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا اپنی تلوار تو دیجیے، میں سونگھتا ہوں، آپ نے تلوار دے دی تو اس کا ہاتھ کانپنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ تعالیٰ تیرے اور تیرے ارادہ کے درمیان حائل ہوگیا۔- تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” یایھا الرسول بلغ ما ان (الخ)- اور ابن مردویہ (رح) اور طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کی جاتی تھی اور ابوطالب بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھیجنے کا ارادہ فرمایا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عم محترم اللہ تعالیٰ نے جن وانس سب سے میری حفاظت کا وعدہ فرمالیا ہے۔- نیز ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس سے اس چیز کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مگر ظاہر اس کا مخالف ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط) (وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط) - اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت سخت آیت ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر وحی میں کہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تنقید نازل ہوئی ہے تو وہ بھی قرآن میں جوں کی توں موجود ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ایسی چیزوں کو چھپالیا گیا ہو۔ تیسویں پارے میں سورة عبس کی ابتدائی آیات (عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ۔ اَنْ جَآءَ ہُ الْاَعْمٰی۔ ) بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے نازل ہوئی تھیں۔ سورة آل عمران میں بھی ہم پڑھ کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْءٌ۔۔ ) (آیت ١٢٨) ۔ اس طرح کی آیات اپنی جگہ پر من وعن موجود ہیں ‘ اور یہ قرآن کے محفوظ من اللہ ہونے پر حجت ہیں۔ آیت زیر نظر میں تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وحئ الٰہی میں سے کوئی چیز کسی وجہ سے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ لوگوں کے خوف سے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے بالفرض اگر ایسا ہوا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کا ثبوت دیں گے۔ اَلْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ‘ وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّل (وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط) - آپ کو لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani