آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ہے یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے جاتے ہیں ۔ پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کافروں کیلئے حسرت و افسوس کر کے کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ۔ صابی ، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بےدین جماعت کو کہتے ہیں اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا ، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے تھے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ زبور پڑھتے تھے غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے اور فرشتوں کو پوجتے تھے ۔ وہب فرماتے ہیں اللہ کو پہچانتے تھے ، اپنی شریعت کے حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں ہوئی تھی ، یہ عراق کے متصل آباد تھے ، یلوثا کہے جاتے تھے ، نبیوں کو مانتے تھے ، ہر سال میں تیس روزے رکھتے تھے اور یمن کی طرف منہ کر کے دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے تھے اس کے سوا اور قول بھی ہیں چونکہ پہلے دو جملوں کے بعد انکا ذکر آیا تھا ، اس لئے رفع کے ساتھ عطف ڈالا ۔ ان تمام لوگوں سے جناب باری فرماتا ہے کہ امن و امان والے بےڈر اور بےخوف وہ ہیں جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ پس آپ پر ایمان لانے والے آنے والی زندگی کے خطرات سے بےخوف ہیں اور یہاں چھوڑ کر جانے والی چیزوں کو انہیں کوئی تمنا اور حسرت نہیں ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے کے مفصل معنی بیان کر دیئے گئے ہیں ۔
68۔ 1 یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال و اشیاء سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے ــ فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں (بہرا پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے " اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے " (القرآن) ۔
[١١٤] جب اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل بنیاد صرف کتاب اللہ یا منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ لہذا اپنے ہر عقیدہ اور عمل کو اسی کسوٹی پر پرکھنے سے انسان گمراہی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ چناچہ یہود و نصاریٰ دونوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم عقائد و اعمال کو اللہ کی نازل کردہ کتاب پر پیش کر کے خود ہی فیصلہ کرلو کہ تم اس پر ایمان لانے کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہو۔ - [١١٥] دیکھئے اسی سورة کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ١٠٦
قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۔۔ : تورات و انجیل قائم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں جو عہد ان سے لیے گئے ان کو پورا کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت پر ایمان لانے کے جو دلائل ان کتابوں میں موجود ہیں ان کے مطابق آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور تورات و انجیل کے احکام و حدود پر عمل پیرا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر پورے طور پر ان کتابوں پر عمل نہیں کرو گے تو نہ تمہاری کوئی حیثیت اور نہ تمہاری کوئی دین داری۔ (ابن کثیر) یہی بات مسلمانوں پر صادق آتی ہے کہ اگر وہ قرآن پر پوری طرح عمل نہیں کریں گے تو نہ ان کی کچھ حیثیت ہوگی نہ کوئی دین داری۔ - وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ : دیکھیے اسی سورت کی آیت (٦٤، کا حاشیہ (٣) ۔ - فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ : اس لیے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کا وبال خود بھگت کر رہیں گے۔
ربط آیات - اوپر اہل کتاب کو اسلام کی ترغیب تھی، آگے ان کے موجودہ طریقہ کا جس کے حق ہونے کے وہ مدعی تھے عند اللہ ناکارہ اور نجات میں ناکافی ہونا اور نجات کا اسلام پر موقوف ہونا مذکور ہے۔ اور اس کے بعد بھی ان کے اصرار علی الکفر پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا مضمون ارشاد فرمایا ہے اور درمیان میں ایک خاص مناسبت اور ضرورت سے تبلیغ کا مضمون آگیا تھا۔- خلاصہ تفسیر - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان یہود و نصاریٰ سے) کہئے کہ اے اہل کتاب تم کسی راہ پر بھی نہیں (کیونکہ غیر مقبول راہ پر ہونا مثل بےراہی کے ہے) جب تک کہ توریت کی اور انجیل کی اور جو کتاب (اب) تمہارے پاس (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے (یعنی قرآن) اس کی بھی پوری پابندی نہ کروگے (جس کے معنی اور ترغیب اور برکات اوپر مذکور ہوئے ہیں) اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ان میں اکثر لوگ تعصب مذموم میں مبتلا ہیں اس لئے یہ) ضرور (ہے کہ) جو مضمون آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے بھیجا جاتا ہے وہ ان سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کی ترقی کا سبب ہوجاتا ہے (اور اس میں ممکن ہے کہ آپ کو رنج و غم ہو، لیکن جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ متعصب ہیں) تو آپ ان کافر لوگوں (کی اس حالت) پر غم نہ کیا کیجئے، یہ تحقیقی بات ہے کہ اور یہودی اور فرقہ صائبین اور نصاریٰ (ان سب میں) جو شخص یقین رکھتا ہو اللہ (کی ذات وصفات) پر اور قیامت پر اور کارگزاری اچھی کرے (یعنی موافق قانون شریعت کے) ایسوں پر (آخرت میں) نہ کسی طرح کا اندیشہ ہے اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔- معارف و مسائل - اہل کتاب کو شریعت الٓہیہ کے اتباع کی ہدایت - پہلی آیت میں اہل کتاب، یہود و نصاریٰ کو شریعت الٓہیہ کے اتباع کی ہدایت اس عنوان سے فرمائی گئی تھی کہ اگر تم نے احکام شرعیہ کی پابندی نہ کی تو تم کچھ نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلام کی پابندی کے بغیر تمہارے سارے کمالات اور اعمال سب اکارت ہیں۔ تم کو اللہ تعالیٰ نے ایک کمال فطری یہ عطا فرمایا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد ہو، دوسرے تورات و انجیل کے عملی کمالات بھی تمہیں حاصل ہیں، تم میں سے بہت سے آدمی درویش منش بھی ہیں، مجاہدات و ریاضیات کرتے ہیں، مگر ان سب چیزوں کی قیمت اور وزن اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اس پر موقوف ہے کہ تم شریعت الٓہیہ کا اتباع کرو۔ اس کے بغیر نہ کوئی نسبی فضیلت کام آوے گی نہ علمی تحقیقات تمہاری نجات کا سامان بنیں گی نہ تمہارے مجاہدات و ریاضیات۔- اس ارشاد میں مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت مل گئی کہ کوئی درویشی اور سلوک و طریقت، مجاہدات و ریاضیات اور کشف والہام اس وقت تک اللہ کے نزدیک فضیلت اور نجات کی چیز نہیں جب تک کہ شریعت کی پوری پابندی نہ ہو۔ - اس آیت میں شریعت الٓہیہ کی پیروی کے لئے تین چیزوں کے اتباع کی ہدایت کی گئی ہے۔ اول تورات، دوسرے انجیل جو یہود و نصاریٰ کے لئے پہلے نازل ہوچکی تھیں، تیسری وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا گیا۔- جمہور مفسرین، صحابہ (رض) وتابعین رحمة اللہ علیہم کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو تمام امت دعوت کے لئے بشمول یہود و نصاریٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے بھیجا گیا، اس لئے معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ جب تک تم تورات، انجیل اور قرآن کے لائے ہوئے احکام پر صحیح صحیح اور پورا پورا عمل نہ کرو گے تمہارا کوئی نسبی یا علمی کمال اللہ کے نزدیک مقبول و معتبر نہیں ہوگا۔- یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ اس آیت میں تورات و انجیل کی طرح قرآن کا مختصر نام ذکر کردینے کے بجائے ایک طویل جملہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ استعمال فرمایا گیا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ اس میں ان احادیث کے مضمون کی طرف اشارہ ہو جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح مجھے علم و حکمت کا خزانہ قرآن کریم دیا گیا، اسی طرح دوسرے علوم و معارف بھی عطا کئے گئے ہیں۔ جن کو ایک حیثیت سے قرآن کریم کی تشریح بھی کہا جاسکتا ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں :- ترجمہ ” یاد رکھو کہ مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی کے مثل اور بھی علوم دیئے گئے، آئندہ زمانہ میں ایسا ہونے والا ہے کہ کوئی شکم سیر راحت پسند یہ کہنے لگے کہ تم کو صرف قرآن کافی ہے، جو اس میں حلال ہے صرف اس کو حلال سمجھو، اور جو اس میں حرام ہے صرف اس کو حرام سمجھو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام ٹھہرایا ہے وہ بھی ایسے ہی حرام ہے جیسی اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ حرام کی ہوئی اشیاء حرام ہیں “۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی وغیرہا) ۔- احکام کی تین اقسام - اور خود قرآن بھی اسی مضمون کا شاید ہے : (آیت) وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے، جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتا ہے، اور جن حالات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنے اجتہاد اور قیاس کے ذریعہ فرماتے ہیں اور بذریعہ وحی پھر اس کے خلاف آپ کو کوئی ہدایت نہیں ملتی تو انجام کار وہ قیاس اور اجتہاد بھی حکم وحی ہوجاتا ہے۔- جس کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکام امت کو دیئے ان میں ایک تو وہ ہیں جو قرآن کریم میں صراحةً مذکور ہیں، دوسرے وہ ہیں جو صراحةً قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جداگانہ وحی کے ذریعہ نازل ہوئے، تیسرے وہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اجتہاد و قیاس سے کوئی حکم دیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے خلاف کوئی حکم نازل نہیں فرمایا، وہ بھی بحکم وحی ہوگیا، یہ تینوں قسم کے احکام و اجب الاتباع ہیں اور وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ میں داخل ہیں۔- شاید آیت مذکورہ میں قرآن کا مختصر نام چھوڑ کر یہ طویل جملہ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیا ہو کہ ان تمام احکام کا اتباع لازم و واجب ہے جو صراحةً قرآن میں مذکور ہوں، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ احکام دیئے ہوں۔- دوسری بات اس آیت میں یہ قابل غور ہے کہ اس میں یہود و نصاریٰ کو تورات، انجیل، قرآن تینوں کے احکام پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، حالانکہ ان میں سے بعض بعض کے لئے ناسخ ہیں۔ انجیل نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ ٹھہرایا اور قرآن نے تورات اور انجیل کے بہت سے احکام کو منسوخ قرار دیا۔ تو پھر تینوں کے مجموعہ پر عمل کیسے ہو ؟- جواب واضح ہے کہ ہر آنے والی کتاب نے پچھلی کتاب کے جن احکام کو بدل دیا، تو بدلے ہوئے طریقہ پر عمل کرنا ہی ان دونوں کتابوں پر عمل کرنا ہے۔ منسوخ شدہ احکام پر عمل کرنا دونوں کتابوں کے مقتضاء کے خلاف ہے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک تسلی - آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہماری اس رعایت و عنایت کے باوجود ان میں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے کہ اس عنایت ربانی سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گے، بلکہ ان کا کفر وعناد اور بڑھ جائے گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے غمگین نہ ہوں، اور ایسے لوگوں پر ترس نہ کھائیں۔
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ٠ۭ وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا ٠ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ٦٨- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے - توراة- التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] .- ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - أسَو ( اسوه، تاس)- الأُسْوَة والإِسْوَةُ کالقدوة والقدوة، وهي الحالة التي يكون الإنسان عليها في اتباع غيره إن حسنا وإن قبیحا، وإن سارّا وإن ضارّا، ولهذا قال تعالی: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [ الأحزاب 21] ، فوصفها بالحسنة، ويقال : تَأَسَّيْتُ به، والأَسَى: الحزن . وحقیقته :- إتباع الفائت بالغم، يقال : أَسَيْتُ عليه وأَسَيْتُ له، قال تعالی: فَلا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكافِرِينَ [ المائدة 68] ( ا س و ) الاسوۃ والاسوۃ قدوۃ اور قدوۃ کی طرح ) انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جس میں وہ دوسرے کا متبع ہوتا ہے خواہ وہ حالت اچھی ہو یا بری ، سرور بخش ہو یا تکلیف وہ اس لئے آیت کریمہ ؛ ۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الأحزاب 21) تمہارے لئے پیغمبر خدا میں اچھا اسوہ ہے ۔ میں اسوۃ کی صفت حسنۃ لائی گئی ہے ۔ تاسیت بہ میں نے اس کی اقتداء کی ۔ الاسٰی بمعنی حزن آتا ہے اصل میں اس کے معنٰی کسی فوت شدہ چیز پر غم کھانا ہوتے ہیں ۔ اسیت علیہ اسی واسیت لہ ۔ کسی چیز پر غم کھانا قرآن میں ہے ۔ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة المائدة 68) تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو ۔ شاعر نے کہا ہے ع (16) اسیت الاخوانی ربعیہ میں نے اپنے اخوال بنی ربعیہ پر افسوس کیا ۔ یہ اصل میں ( ناقص) وادی سے ہے کیونکہ محاورہ میں غمگین آدمی کو اسوان ( بالفتح ) کہا جاتا ہے ۔ الاسو کے معنی زخم کا علاج کرنے کے ہیں ۔ اصل میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت میں اس کے معنی ازالہ غم کے ہیں اور یہ کر بت النخل کی طرح ہے جس کے معنی کھجور کے درخت کی شاخوں کی جڑوں کو دور کرنے کے ہیں کہا جاتا ہے۔
قول باری ہے قل یاھل التکب لستم علی شی حتی تقیمو التوراۃ والانجیل وما انزل الیکم من ربکم صاف کہہ دو اے اہل کتاب تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ آیت میں اہل کتاب کو تورات اور انجیل میں مندرج احکامات پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کتابوں کو قائم کرنے کے معنی ان دونوں پر نیز قرآن پر عمل پیرا ہونا ہے اس لیے کہ قول باری وما انزل الیکم من ربکم کی حقیقت اس بات کی مقتضی ہے کہ اس سے مراد وہ کتاب لی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی ہے۔- اس صورت میں خطاب اہل کتاب سے ہوگا اگرچہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ کتابیں لی جائیں جو اللہ تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے زمانے میں ان کے آبائو اجداد کے لیے نازل کی تھیں ۔ قول باری الستم علی اشی اس مفہوم کا مقتضی ہے کہ تم کسی طرح بھی دین حق پر نہیں ہوسکتے جب تک تم تورات ، انجیل اور قرآن کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ انبیائے سابقین کی شریعتوں کی جو باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے تک منسوخ نہیں ہوئیں ان کا حکم ثابت اور ان پر عمل پیرا ہونے کی پابندی ہے نیز یہ کہ اب وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا حصہ ہیں ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اہل کتاب کو ان باتوں پر ثابت قدم رہنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم نہ دیا جاتا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک کے ذریعے انبیائے سابقین کی شریعتوں کے بہت سے احکامات منسوخ کردیئے گئے ۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ آیت زیر بحث کا نزول ان جیسے احکامات کی منسوخی کے بعد ہوا ہو اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کو ان باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور بعثت کے سلسلے میں تورات اور انجیل میں مذکور ہیں۔- نیز انہیں قرآن کی اس دلالت پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جو اس کتاب کے اعجاز کی نشاندہی کرتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی سچائی کی موجب ہے۔ جب آیت میں یہ احتمال پیدا ہوگیا تو پھر ابنیائے متقدمین کی شریعتوں کی بقا پر اس کی دلالت ختم ہوگئی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ آیت یا تو انبیائے متقدمین کی شریعتوں کے نسخ سے پہلے نازل ہوئی ہے یا ان میں سے بہت سی باتوں کے نسخ کے بعد اس کا نزول ہوا ہے۔ پہلی صورت کے اندر آیت میں ان پر عمل پیرا ہونے کا حکم ہے اور ان کے حکم کی بقاء کی خبر ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو جو باتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں ان کا حکم ثابت اور باقی رہے گا جس طرح ہم عموم کے حکم پر اس وقت تک عمل پیرا رہتے ہیں جب تک تخصیص کی کوئی دلالت قائم نہیں ہوجاتی ہے اس طرح تورات اور انجیل کی وہ باتیں جن کا نسخ کسی طور پر درست نہیں ان پر بھی عمل پیرا ہونا ضروری ہوگا۔ مثلاً حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور آپ کی بعثت سے تعلق رکھنے والی باتیں اسی طرح وہ باتیں جو عقلی طور پر درست ہیں اور انسانی عقول جن کی مقتضی اور موجب ہیں ۔ اس لیے آیت کے اندر بہر صورت انبیائے سابقین کی شریعتوں کے غیر منسوخ شدہ حصوں کے حکم کے بقا پر دلالت موجود ہے ، نیز یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اب یہ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کا جزبن گئی ہیں ۔
(٦٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہود ونصاری سے فرما دیجیے کہ تم دین الہی میں سے کسی راہ پر نہیں، جب تک کہ توریت انجیل اور تمام کتابوں اور تمام رسولوں کا اقرار نہ کرو،- اور جو قرآن کریم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن ان کفار (یہود ونصاری) کی تحریف بالکتاب کا پردہ چاک کرتا ہے جو انکی سرکشی اور کفر پر جمے رہنے کا باعث ہوتا ہے، اگر یہ لوگ ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنے کفر کی حالت میں ہلاک ہوجائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا فکر مت کیجیے کہ کافروں کا یہی انجام ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- شان نزول : (آیت) ” قل یاھل الکتب لستم “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رافع اور سلام بن مشکم اور مالک بن صیف آکر کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سمجھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور اس کے دین پر ہیں اور جو کتاب ہمارے پاس ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں مگر تم نے نئی باتیں پیدا کرلی ہیں اور جو تمہاری کتاب میں ہے، اس کا انکار کرتے ہو اور جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دو ، اسے چھپاتے ہو تو انہوں نے کہا جو ہمارے پاس ہے، ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور ہم ہدایت اور حق پر ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے اہل کتاب تم کسی راہ پر بھی نہیں (الخ)
آیت ٦٨ (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلَی شَیءٍ ) - تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی مقام نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے ‘ تم ہم سے ہم ‘ کلام ہونے کے مستحق نہیں ہو۔ - (حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّورٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط) ۔- اب اپنے لیے اس آیت کو آپ اس طرح پڑھ لیجیے : یٰٓاَہْلَ الْقُرآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْاے قرآن کے ماننے والو تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم امت مسلمہ ہیں ‘ اللہ والے ہیں ‘ اللہ کے لاڈلے اور پیارے ہیں ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیّ ہیں۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ذلتّ و خواری تمہارا مقدر بنی ہوئی ہے ‘ ہر طرف سے تم پر یلغار ہے ‘ عزت و وقار نام کی کوئی شے تمہارے پاس نہیں رہی۔ تم کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہو ‘ دنیا میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ‘ اور اس سے زیادہ بےتوقیری کے لیے بھی تیار رہو۔ تمہاری کوئی اصل نہیں جب تک تم قائم نہ کرو قرآن کو اور اس کے ساتھ جو کچھ مزید تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ قرآن وحی جلی ہے۔ اس کے علاوہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی خفی کے ذریعے سے بھی تو احکامات ملتے تھے اور سنتّ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی خفی کا ظہور ہی تو ہے۔ تو جب تک تم کتاب و سنت کا نظام قائم نہیں کرتے ‘ تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ کا خطاب خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دیا ہے۔ میرے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں یہ حدیث موجود ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : َ - (یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاء اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَأَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا ما فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ) (١)- اے اہل قرآن ‘ قرآن کو اپنا تکیہ نہ بنا لینا ‘ بلکہ اسے پڑھا کرو رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی ‘ جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے ‘ اور اسے عام کرو اور خوش الحانی سے پڑھو اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔- (وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ج) ۔- ان کی سرکشی اور طغیانی میں اور اضافہ ہوگا ‘ ان کی مخالفت اور بڑھتی چلی جائے گی ‘ حسد کی آگ میں وہ مزید جلتے چلے جائیں گے۔- (فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ - نبی چونکہ اپنی امت کے حق میں نہایت رحیم و شفیق ہوتا ہے لہٰذا وہ لوگوں پر عذاب کو پسند نہیں کرتا اور قوم پر عذاب کے تصور سے اسے صدمہ ہوتا ہے۔ پھر خصوصاً جب وہ اپنی برادری بھی ہو ‘ جیسا کہ بنی اسماعیل ( علیہ السلام) تھے ‘ تو یہ رنج و صدمہ دوچند ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب ان کے بارے میں سورة یونس اور سورة ہود میں عذاب کی خبریں آرہی تھیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت فکر مند اور غمگین ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں میں یک دم سفیدی آگئی۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے پوچھا ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہوا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بڑھاپا طاری ہوگیا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخَوَاتُھَا ) (٢) مجھے سورة ہود اور اس کی بہنوں (ہم مضمون سورتوں) نے بوڑھا کردیا ہے۔ کیونکہ ان سورتوں کا انداز ایسا ہے کہ جیسے اب مہلت ختم ہوئی چاہتی ہے اور عذاب کا دھارا چھوٹنے ہی والا ہے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :97 توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کرنا اور انہیں اپنا دستور زندگی بنانا ہے ۔ اس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنفین نے بطور خود لکھی ہیں ۔ اور دوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا ۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے ۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے ، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دوسری قسم کی عبارات بھی پوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں ، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان میں بعینہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بلا رہا ہے ، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریق زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے ۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہودی اور عیسائی اسی تعلیم پر قائم رہتے جو ان کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی ۔ اس صورت میں ان کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے میں تبدیل مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اسی راستہ کے تسلسل میں ، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے ، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :98 یعنی یہ بات سن کر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور حقیقت کو سمجھنے کے بجائے وہ ضد میں آکر اور زیادہ شدید مخالفت شروع کر دیں گے ۔