69۔ 1 یہ وہی مضمون ہے جو سورة بقرہ کی آیت 62 میں بیان ہوا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔
[١١٦] دور نبوی میں رائج ادیان کا مختصر تعارف :۔ اس آیت کی ابتدا میں (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) 69 المآئدہ سے بعض علماء نے منافقین کا گروہ مراد لیا ہے۔ تاہم اس سے وہ مسلمان بھی مراد لیے جاسکتے ہیں جو اپنے ایمان و عمل میں راسخ نہیں ہیں۔ دوسرے مخاطب یہود ہیں۔ یہود پر ایک وقت ایسا آچکا تھا جب اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام اقوام عالم پر فضیلت دے رکھی تھی۔ اور ہر قسم کے انعامات اور برکات سے انہیں نوازا تھا جس سے ان کے دل میں یہ زعم پیدا ہوگیا تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہذا اللہ کے چہیتے ہیں اور ہم کو دوزخ کا عذاب کسی صورت میں بھی نہیں ہوگا۔ اور اس سے بڑھ کر یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ اخروی نجات کے واحد حقدار صرف یہودی ہیں ان کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ تیسرے مخاطب صابی ہیں جن کو عام طور پر بےدین لوگ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کا اپنا بھی ایک دین تھا جو یہ تھا کہ اللہ تک رسائی کے لیے وہ کسی پیغمبر کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ اور وہ اپنے آپ کو سیدنا نوح سے منسوب کرتے تھے۔ وہ نجوم و کواکب اور ارواح کی عبادت کرتے۔ انہیں ارواح کو اللہ تک رسائی کا ذریعہ یا وسیلہ قرار دیتے اور انہیں کے لیے قربانی اور نذر و نیاز دیتے تھے۔ چوتھے مخاطب نصاریٰ یا عیسائی تھے جو کفارہ مسیح کے عقیدہ کے قائل تھے اور اس لحاظ سے اپنے آپ کو اخروی نجات کا واحد حقدار سمجھتے تھے۔ ان چار گروہوں کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ اس دور میں عرب میں یہی چار مشہور گروہ تھے جو کسی نہ کسی رنگ میں اخروی زندگی کے قائل تھے۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ تنبیہہ فرمائی کہ نجات اخروی کا دار و مدار نہ خاص فرقہ سے منسلک ہونے میں ہے، نہ حسب و نسب میں اور نہ انبیاء کی اولاد ہونے میں ہے بلکہ اس کا دار و مدار سچے دل سے محمد رسول اللہ اور آپ پر نازل شدہ کتاب پر اور صحیح معنوں میں روز جزا و سزا پر ایمان لانے اور اس کے بعد انہیں عقائد کے مطابق اعمال صالحہ کے بجا لانے میں ہے ان سب فرقوں میں سے جو کوئی یہ کام کرے گا۔ اخروی آلام و مصائب اور عذاب سے نجات صرف اسے ہی حاصل ہوگی۔ انہیں نہ کسی آنے والے خطرہ کا خوف ہوگا اور نہ اپنی گزشتہ دنیوی زندگی کے متعلق کچھ غم ہوگا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۔۔ : اوپر کی آیات میں بتایا کہ اہل کتاب جب تک ایمان لا کر عمل صالح نہ کریں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس میں فرمایا کہ صرف اہل کتاب ہی نہیں سب مسلم و غیر مسلم لوگوں کا یہی حکم ہے۔ - اس آیت میں لفظ ” اَلصَّابِءُوْنَ “ بظاہر تو منصوب ہونا چاہیے تھا مگر سیبویہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ ” مَرْفُوْعٌ بالْاِبْتِدَاءِ عَلٰٰی نِیَّۃِ التَّأْخِیْرِ “ ہے، یعنی یہ لفظ ” الصّٰبِـُٔــوْنَ “ اصل میں ” وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ “ کے بعد ہونے کی نیت سے مبتدا ہے اور اس کی خبر ” کَذٰلِکَ “ ہے، یعنی ” الصّٰبِـُٔــوْنَ “ کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کے مؤخر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دراصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے۔ اس لیے ان کا علیحدہ بیان ہوا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لا کر عمل صالح کرے گا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، حتیٰ کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کو بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) ” اَلصَّابِءِیْنَ “ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (٦٢) کے حواشی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد آپ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، گویا اس آیت میں ” آمن باللہ “ سے مراد مسلمان ہونا ہے، یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں ان میں جو بھی آسمانی دین تھا اس پر ایمان لا کر عمل کرنے والے مراد ہیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے بعد کوئی شخص کتنا بھی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے مطلع ہونے کے باوجود کلمہ نہیں پڑھتا تو وہ جہنمی ہے۔ ” اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا “ سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو صرف زبان سے ایمان لائے دل سے نہیں، یعنی منافق، ان میں سے جو دل سے ایمان لا کر عمل صالح کرے گا، یا سب مسلمان مراد ہیں کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کریں گے تو خوف اور حزن سے بچیں گے۔ صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں، عمل صالح بھی ضروری ہے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٦٢) ۔
چار قوموں کو ایمان اور عمل صالح کی ترغیب اور آخرت میں نجات کا وعدہ - دوسری آیت میں حق تعالیٰ شانہ نے چار قوموں کو مخاطب کرکے ایمان اور عمل صالح کی ترغیب اور اس پر فلاح آخرت کا وعدہ فرمایا۔ ان میں سے پہلے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا، یعنی مسلمان ہیں، دوسرے الَّذِيْنَ هَادُوْا، یعنی یہود، تیسرے صابئون، اور چوتھے نصاریٰ ۔ ان میں تین قومیں مسلمان، یہود، نصاریٰ معروف و مشہور اور دنیا کے اکثر خطوں میں موجود ہیں۔ صابئون یا صابہ کے نام سے آج کل کوئی قوم معروف نہیں۔ اسی لئے اس کی تعیین میں علماء و ائمہ کے اقوال مختلف ہیں۔ امام تفسیر ابن کثیر نے بحوالہ قتادہ رحمة اللہ علیہ ایک یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ صابئون وہ لوگ ہیں جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور قبلہ کے خلاف نماز پڑھتے ہیں اور آسمانی کتاب زبور کی تلاوت کرتے ہیں (جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی) ۔- قرآن کریم کے اس سیاق سے بظاہر اسی کی تائید ہوتی ہے کہ چار آسمانی کتابیں جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے، تورات، زبور، انجیل اور قرآن، اس میں ان چار کتابوں کے ماننے والوں کا ذکر آگیا۔- اسی مضمون کی ایک آیت تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ کے ساتویں رکوع میں گزر چکی ہے : (آیت) ان الذین امنوا والذین ھادوا تا ولا ھم یحزنون اس میں بتقاضائے مقام بعض الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے سوا کوئی فرق نہیں۔- اللہ تعالیٰ کے نزدیک امتیاز کا مدار عمل صالح پر ہے - خلاصہ مضمون ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ ہمارے دربار میں کسی کی نسبی، وطنی اور قومی خصوصیت کچھ نہیں جو شخص پوری اطاعت اعتقاد اور عمل صالح اختیار کرے گا، خواہ وہ پہلے سے کیسا ہی ہو، ہمارے یہاں مقبول اور اس کی خدمت مشکور ہے اور یہ ظاہر ہے کہ بعد نزول قرآن کے پوری اطاعت مسلمان ہونے میں منحصر ہے۔ کیونکہ کتب سابقہ تورات و انجیل میں بھی اس کی ہدایات موجود ہیں، اور قرآن کریم تو سراسر اسی کے لئے نازل ہوا۔ اسی لئے نزول قرآن اور بعثت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قرآن اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے بغیر نہ تورات و انجیل کا اتباع صحیح ہوسکتا ہے نہ زبور کا۔ تو مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ان تمام اقوام میں سے جو مسلمان ہوجائے گا آخرت میں نجات وثواب کا مستحق ہوگا۔ اس میں اس خیال کا جواب ہوگیا کہ یہ کفر و معصیت اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شرارتیں جو اب تک کرتے رہے ہیں۔ مسلمان ہوجانے کے بعد ان کا کیا انجام ہوگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے سب گناہ اور خطائیں معاف کردی جائیں گی اور آخرت میں نہ ان لوگوں کو اندیشہ رہے گا نہ کوئی غم و رنج پیش آئے گا۔- مضمون پر نظر کرنے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کا ذکر نہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ تو ایمان و اطاعت کے اس مقام پر ہیں جو اس آیت میں مطلوب ہے۔ یہاں ذکر صرف ان لوگوں کا کرنا چاہئے جن کو اس مقام کی طرف بلانا ہے۔ مگر اس طرز خاص میں کہ مسلمانوں کا ذکر بھی ان کے ساتھ ملا دیا گیا ایک خاص بلاغت پیدا ہوگئی۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے، خواہ کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص اطاعت کرے گا وہ مورد عنایت و انعام ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ موافق کو بھی ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ہم کو جو موافقین کے ساتھ عنایت ہے وہ کسی نسبی یا قومی خصوصیت کی بناء پر نہیں بلکہ ان کی صفت اطاعت پر تمام عنایت و انعام کا مدار ہے۔ اگر مخالف بھی اطاعت اختیار کرے گا وہ بھی اسی لطف و عنایت کا مستحق ہوگا۔- متذکرہ چار قوموں کو خطاب کرکے جس امر کی ہدایت دی گئی اس کے تین جز ہیں، ایمان باللہ، ایمان بالیوم الآخر اور عمل صالح۔- ایمان بالرسالة کے بغیر نجات نہیں - ظاہر ہے کہ اس آیت میں تمام ایمانیات اور عقائد اسلام کی تفصیلات بیان کرنا منظور نہیں، نہ اس کا کوئی موقع ہے۔ اسلام کے چند بنیادی عقائد ذکر کر کے تمام اسلامی عقائد کی طرف اشارہ کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا مقصود ہے اور نہ یہ کوئی ضروری بات ہے کہ ہر آیت میں جہاں ایمان کا ذکر آئے اس کی ساری تفصیلات وہیں ذکر کی جائیں اس لئے اس جگہ ایمان بالرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ایمان بالنبوة کا ذکر صراحۃ نہ ہونے سے کسی ادنی فہم و عقل اور انصاف و دانش رکھنے والے کو کسی شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ خصوصاً جبکہ پورا قرآن اور اس کی سینکڑوں آیتیں ایمان بالرسالت کی تصریحات سے لبریز ہیں جن میں یہ تصریحات موجود ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ارشادات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکمل ایمان لائے بغیر نجات نہیں، اور کوئی ایمان و عمل بغیر اس کے مقبول و معتبر نہیں۔ لیکن ملحدین کا ایک گروہ جو کسی نہ کسی طرح قرآن میں اپنے مکروہ نظریات کو ٹھونسنا چاہتا ہے، اور انہوں نے اس آیت میں صراحةً ذکر رسالت نہ ہونے سے ایک نیا نظریہ قائم کرلیا جو قرآن و سنت کی بیشمار تصریحات کے قطعاً خلاف ہے۔ وہ یہ کہ ہر شخص اپنی اپنے مذہب یہودی، نصرانی یہاں تک کہ ہندو بت پرست رہتے ہوئے بھی اگر صرف اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو اور نیک کام کرے تو نجات آخرت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ نجات اخروی کے لئے اسلام میں داخل ہونا ضروری نہیں (نعوذ باللہ منہ)- جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن کی توفیق اور اس پر صحیح ایمان عطا فرمایا ہے۔ ان کے لئے قرآنی تصریحات سے اس مغالطہ کا دور کردینا کسی بڑے علم و نظر کا محتاج نہیں، قرآن کریم کا اردو ترجمہ جاننے والے حضرات بھی اس تخیل کی غلطی کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ چند آیات بطور مثال کے یہ ہیں :- (آیت) کل امن باللّٰہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ لا نفرق بین احد من رسلہ۔- ” سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اس طرح کہ اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے - اس آیت میں واضح طور پر ایمان کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں ان میں یہ بھی واضح کردیا کہ کسی ایک یا چند رسولوں پر ایمان لے آنا قطعاً نجات کے لئے کافی نہیں بلکہ تمام رسولوں پر ایمان شرط ہے اگر کسی ایک رسول پر بھی ایمان نہ لایا تو اس کا ایمان اللہ کے نزدیک معتبر اور مقبول نہیں۔- دوسری جگہ ارشاد ہے : (آیت)- ان الذین یکفرون باللّٰہ تا اولئک ہم الکفرون حقا۔- ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کردیں، (کہ اللہ پر تو ایمان لائیں مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ ہو) اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں بعضوں کو اور نہیں مانتے بعضوں کو اور وہ چاہیں کہ کفر و اسلام کے بیچ بیچ کا ایک راستہ نکال لیں تو سمجھ لو کہ وہ ہی اصل میں کافر ہیں “۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- لوکان موسیٰ حیاً لما وسعہ الا اتباعی،- ” یعنی اگر بالفرض آج حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو میرے اتباع کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا “۔- تو اب کسی کا یہ کہنا کہ ہر مذہب والے اپنے اپنے مذہب پر عمل کریں تو بغیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور بغیر مسلمان ہوئے وہ جنت اور فلاح آخرت پاسکتے ہیں قرآن کریم کی مذکورہ آیات کی کھلی مخالفت ہے۔- اس کے علاوہ اگر ہر مذہب و ملت ایسی چیز ہے کہ اس پر ہر زمانہ میں عمل کرلینا نجات اور فلاح کے لئے کافی ہے تو پھر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن ہی بےمعنی ہوجاتا ہے اور ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت بھیجنا فضول ہوجاتا ہے سب سے پہلا رسول ایک شریعت ایک کتاب لے آتا، وہ کافی تھی۔ دوسرے رسولوں، کتابوں شریعتوں کے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کا وجود کافی ہوتا جو اس شریعت و کتاب کو باقی رکھنے اور اس پر عمل کرنے اور کرانے کا اہتمام کرتے جو عام طور پر ہر امت کے علماء کا فریضہ رہا ہے۔ اور اس صورت میں قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ (آیت) لکل جعلنا منکم شرعة ومنھاجا، یعنی ہم نے تم میں سے ہر امت کے لئے ایک خاص شریعت اور خاص راستہ بنایا ہے۔ یہ سب بےمعنی ہوجاتا ہے۔- اور پھر اس کا کیا جواز رہ جاتا ہے، کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اوپر اور اپنی کتاب قرآن پر ایمان نہ رکھنے والے تمام یہود و نصاریٰ سے اور دوسری قوموں سے نہ صرف تبلیغی جہاد کیا۔ بلکہ قتل و قتال اور سیف وسنان کی جنگیں بھی لڑی۔ اور اگر انسان کے مومن اور مقبول عند اللہ ہونے کے لئے صرف اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لے آنا کافی ہو تو بیچارہ ابلیس کس جرم میں مردود ہوتا کیا اس کو اللہ پر ایمان نہ تھا، یا وہ روزآخرت اور قیامت کا منکر تھا۔ اس نے تو عین حالت غضب میں بھی (آیت) الی یوم یبعثون کہہ کر ایمان بالآخرت کا اقرار کیا ہے۔- حقیقت یہ ہے کہ یہ مغالطہ صرف اس نظریہ کی پیداوار ہے کہ مذہب کو برادری کے نوتہ کی طرح کسی کو تحفہ میں دیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعہ دوسری قوموں سے رشتے جوڑے جاسکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم نے کھول کھول کر واضح کردیا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری ہمدردی، احسان و سلوک اور مروت سب کچھ کرنا چاہئے، لیکن مذہب کی حدود کی پوری حفاظت اور اس کی سرحدوں کی پوری نگرانی کے ساتھ۔- قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں اگر بالفرض ایمان بالرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بالکل نہ ہوتا تو دوسری آیات قرآن جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے جن میں اس کی اشد تاکید موجود ہے وہ کافی تھیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو خود اس آیت میں بھی ایمان بالرسول کی طرف واضح اشارہ ہے۔ کیونکہ اصطلاح قرآن میں ایمان باللہ وہی معتبر ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ساری چیزوں پر ایمان ہو۔ قرآن میں کریم نے اپنی اس اصطلاح کو ان الفاظ میں واضح فرما دیا ‘ (آیت) فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا، یعنی جس طرح کا ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا صرف وہی ایمان باللہ کہلانے کا مستحق ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے ایمان کا بہت بڑا رکن ایمان بالرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا۔ اس لئے مَن آمَنَ باللّٰہ کے لفظوں میں خود ایمان بالرسول داخل ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِـُٔــوْنَ وَالنَّصٰرٰى مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَ ٦٩- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - هَادَ ( یہودی)- فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا - [ البقرة 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- صابي - والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر :- صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] . الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔- نَّصَارَى- وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ- [ الصف 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری - الآية [ البقرة 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن .- اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو
(٦٩) جو حضرات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لائے اور اسی حالت میں مرگئے نہ ان پر خوف ہوگا اور نہ انھیں کوئی غم ہوگا اور یہودی اور فرقہ صائبی یہ نصاری ہی کی ایک شاخ ہے جو قول میں ان سے نرم ہے اور نصاری اہل نجران جو ان میں سے اللہ تعالیٰ اور بعث بعد الموت پر ایمان لائے اور جو یہودیت سے اور صائبی صابیت اور نصرانی نصرانیت سے توبہ کرے اور اس کے ساتھ اعمال صالحہ کرے تو آئندہ عذاب کا کوئی خوف اور گزشتہ باتوں پر کوئی غم نہیں ہوگا۔- یا یہ کہ جس وقت لوگ خوفزدہ ہوں گے، ان کو خوف نہیں ہوگا اور جس وقت اور لوگ غم زدہ ہوں گے انھیں غم نہیں ہوگا یا یہ کہ جس وقت موت ذبح کی جائے گی، انھیں خوف نہیں ہوگا اور جب دوزخ بھری جائے گی تو انھیں غم نہیں ہوگا۔
آیت ٦٩ ( اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِءُوْنَ وَالنَّصٰرٰی) - اس آیت میں تقریباً وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے سورة البقرۃ کے آٹھویں رکوع (آیت ٦٢) میں آچکا ہے ‘ جس سے بعض لوگوں کو دھوکا ہوتا ہے کہ شاید نجات کے لیے ایمان بالرسالت کی ضرورت نہیں ہے ‘ حالانکہ سورة النساء (آیات ٥٠ ‘ ٥١ اور ٥٢) میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مابین تفریق کرنے والوں کے لیے بہت واضح انداز میں فرمایا گیا ہے : (اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا) وہی لوگ تو پکے کافر ہیں۔ دوسری بات یہاں ذہن میں یہ رکھیے کہ ان تمام سورتوں میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت قدم قدم پر ہے ‘ بار بار ہے ‘ لہٰذا اس سے استغناء کا کوئی جواز رہتا ہی نہیں ‘ سوائے اس کے کہ کسی کی نیت میں فساد ہو اور دل میں کجی پیدا ہوچکی ہو۔ - (مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وعَمِلَ صَالِحًا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ )- یہاں وہ تمام لوگ مراد ہیں جو اپنے اپنے دور میں اللہ اور آخرت پر ایمان و یقین رکھتے تھے اور اپنے وقت کے نبی اور گزشتہ انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔ جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے ماقبل زمانہ میں یہودی تھے ‘ جو کتاب اللہ تورات پر یقین رکھتے تھے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے تھے ‘ دوسرے نبیوں کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے۔ لیکن عمل کے معاملے میں اصل چیز اور اصل بنیاد اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی جزا طلبی ہے ‘ جس سے کوئی عمل ‘ عمل صالح بنتا ہے۔
سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :99 دیکھئے سورہ بقرہ آیت 62 وحاشیہ نمبر80
48: یہی مضمون سورۃ بقرہ کی آیت 62 (62:2) میں گذرا ہے۔ اس کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔