Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یعنی سمجھے تھے کہ کوئی سزا نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مرتب ہوئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨] بخت نصر کے بعد سیدنا زکریا ویحییٰ کو قتل کروانا :۔ انہوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہذا ہم جو کچھ کرلیں ہم پر عذاب الٰہی نہیں آسکتا۔ اس عقیدہ نے انہیں ہر طرح کے جرائم پر دلیر بنادیا تھا۔ پھر ان پر بخت نصر کی صورت میں قہر الٰہی نازل ہوا۔ جس نے ان کی سلطنت کو تہس نہس کردیا اور بیشمار افراد کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ مدتوں وہ قید و بند کی سختیاں جھیلتے رہے۔ آخر اللہ کی طرف رجوع کیا تو اللہ نے پھر ان کی خطائیں معاف کردیں اور ملوک فارس کی مدد سے انہیں بخت نصر کی قید سے رہائی ملی۔ پھر جب اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی اور عیش و آرام سے زندگی گزارنے لگے تو پھر کفر و عصیان میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئے۔ سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ دونوں کو قتل کردیا اور سیدنا عیسیٰ کو صلیب پر چڑھوانے کی مقدور بھر کوشش کی اور بزعم خود انہیں سولی پر چڑھا کے چھوڑا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ“ فِتْنَةٌ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں، مطلب یہ کہ انھوں نے سمجھا کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں، خواہ انبیاء تک کو قتل کریں، چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں، اس لیے دنیا میں کسی قسم کی بدبختی و نحوست یا غلبۂ دشمن قسم کی کوئی بلا ہم پر نازل نہیں ہوگی۔ (کبیر) - فَعَمُوْا وَصَمُّوْا : مگر حق سے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے ان پر بلا نازل ہوئی۔ پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصیٰ کو جلا ڈالا، ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی و غلام بنا کر بابل لے گیا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٤ تا ٨) ۔ - ثُمَّ تَاب اللّٰهُ عَلَيْهِمْ : یعنی اللہ تعالیٰ نے انھیں بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انھوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہے۔ - ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ ۔۔ : یعنی پھر دوبارہ پہلے جیسی سرکشی پر اتر آئے، یہاں تک کہ انھوں نے زکریا اور یحییٰ ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیاء کو قتل کر ڈالا اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا، بلکہ انھیں بھی قتل کرنے کے درپے ہوئے۔ بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو زکریا اور یحییٰ ( علیہ السلام) کے زمانے کے ساتھ خاص کیا ہے اور دوسرے دور کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں ” كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ “ میں اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے رفقاء۔ اور ہوسکتا ہے کہ : (لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ ) [ بنی إسرائیل : ٤ ] (بےشک تم زمین میں ضرور دو بار فساد کرو گے) سے ان دونوں ادوار کی طرف اشارہ ہو۔ (کبیر) (وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ) اس سے مقصود انھیں اللہ اور اس کے عذاب سے ڈرانا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَحَسِبُوْٓا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللہُ عَلَيْہِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْہُمْ۝ ٠ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝ ٧١- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (وَحَسِبُوْآ اَلاَّ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ) - کوئی عقوبت نہیں ہوگی ‘ ہم پر کوئی سرزنش نہیں ہوگی۔- (فَعَمُوْا وَصَمُّوْا) (ثُمَّ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِم) - اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں فوراً نہیں پکڑا۔ انہیں توبہ کی مہلت دی ‘ موقع دیا۔ - (ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ ط) ۔- بجائے اللہ کے دامن رحمت میں آنے کے اپنی گمراہی میں اور بڑھتے چلے گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani