73۔ 1 یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ اقانیم ثلاثہ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر و تشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم (علیہا السلام) کو بھی اللہ قرار دے لیا، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھے گا۔ " ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ " (کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟ ) (المائدۃ 112) اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم (علیہما السلام) ان دونوں کو عیسائیوں نے اللہ بنایا، اور اللہ تیسرا اللہ ہوا، جو ثالث ثلاثہ (تین میں کا تیسرا) کہلایا پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔
[١٢٠] عقیدہ تثلیث اور اس کا رد :۔ متی، مرقس اور لوقا کی انجیلوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے الٰہ ہونے کی گنجائش نہیں خود عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک انسان ہی کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ تثلیث اور الوہیت مسیح کا عقیدہ چوتھی صدی عیسوی میں رائج ہوا۔ اس عقیدہ کی بنیاد تو یونانی فلسفہ کے افکار و نظریات پر اٹھائی گئی تھی جیسا کہ آج کل بعض مسلمان بھی اسی فلسفہ کے مسئلہ عقول عشرہ پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے نور کا حصہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے نظریات عموماً پیروں فقیروں میں فروغ پاتے ہیں۔ انبیاء کے متعلق ایسے نظریات عموماً ان کی عقیدت و محبت میں افراط کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ کے مقام تک جا پہنچاتے ہیں یہ صریح شرک ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کہیں کافر فرمایا ہے اور کہیں مشرک۔ چناچہ رسول اللہ نے اپنی وفات سے پیشتر جو نہایت اہم وصیتیں اپنی امت کو کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مجھے ایسا نہ بڑھانا جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا تھا۔ میں تو بس اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم )
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو تین میں سے تیسرا قرار دینے والے بھی کافر ہوگئے، جبکہ معبود تو ایک ہی ہے، اب خواہ وہ تین اقانیم، باپ، بیٹا اور روح القدس کو الگ الگ خدا قرار دیں یا کہیں کہ یہ تین الگ الگ نہیں بلکہ مل کر ایک ہی خدا ہیں، بہر حال یہ عقیدہ رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کافر قرار دیا۔ پھر نیکی کا لبادہ اوڑھ کر شرک پھیلانے والے وہ ظالم جو یہ کہیں کہ ہر چیز ہی خدا ہے اور اسے وحدت الوجود کا نام یا کوئی اور نام دیں، ان کے کافر ہونے میں بھی کیا شک ہے، بلکہ اس عقیدے سے تو قرآن و سنت اور اسلام کی ہر بات اور ہر حکم ہی باطل ٹھہرتا ہے کہ حکم دینے والا بھی وہی ہے اور جسے حکم دیا گیا وہ بھی وہی ہے، جنت و دوزخ بھی اور ان میں جانے والے بھی سب ایک ہی ہیں۔ غرض یہ عقیدہ اسلام کی جڑ اکھاڑ دینے کے لیے بنایا گیا ہے، پھر کیسی توحید اور کہاں کی نماز، غرض سب کچھ ایک ہے تو دین کی کون سی چیز باقی رہے گی۔ - وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا۔۔ : یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کو تین میں سے تیسرا قرار دینے سے باز نہ آئیں اور خالص توحید اختیار نہ کریں، جس کی طرف انبیاء دعوت دیتے رہے ہیں تو ان کی سزا یہ ہے۔
معارف و مسائل - (قولہ تعالیٰ ) اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ، یعنی حضرت مسیح، روح القدس اور اللہ یا مسیح، مریم اور اللہ تینوں خدا ہیں (العیاذ باللہ) ان میں ایک حصہ دار اللہ ہوا، پھر وہ تینوں ایک اور وہ ایک تین ہیں، عیسائیوں کا عام عقیدہ یہ ہے، اور اس خلاف عقل و ہدایت عقیدہ کو گول مول اور پیچدار عبارتوں سے ادا کرتے ہیں، اور جب کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تو اس کو ماوراء العقل حقیقت قرار دیتے ہیں (قوائد عثمانی رحمة اللہ علیہ)- مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کی تردید - (قولہ تعالیٰ ) قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، یعنی جس طرح اور انبیاء دنیا میں آئے اور کچھ دن رہ کر چل بسے، ان کو دوام اور بقاء حاصل نہ تھا جو الوہیت کی شان ہے، اسی طرح حضرت مسیح (علیہ السلام) (جو انہی کی طرح ایک انسان ہیں) کو دوام اور بقاء حاصل نہیں، لہذا وہ الٓہ نہیں ہو سکتے۔- ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جو شخص کھانے پینے کا محتاج ہے وہ تقریباً دنیا کی ہر چیز کا محتاج ہے۔ زمین، ہوا، پانی، سورج اور حیوانات سے اسے استغناء نہیں ہوسکتا۔ غلہ کے پیٹ میں پہنچنے اور ہضم ہونے تک خیال کرو بالواسطہ یا بلا واسطہ کتنی چیزوں کی ضرورت ہے۔ پھر کھانے سے جو اثرات و نتائج پیدا ہوں گے ان کا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے۔ احتیاج و افتقار کے اس طویل الذیل سلسلہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم الوہیت مسیح و مریم کے ابطال کو بشکل استدلال یوں بیان کرسکتے ہیں کہ مسیح و مریم اکل و شرب کی ضرورت سے مستغنی نہ تھے۔ جو مشاہدہ اور تواتر سے ثابت ہے اور جو اکل و شرب سے مستغنی نہ ہو وہ دنیا کی کسی چیز سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ پھر تم ہی کہو کہ جو ذات تمام انسانوں کی طرح اپنی بقاء میں عالم اسباب سے مستغنی نہ ہو وہ خدا کیونکر بن سکتی ہے۔ یہ ایسی قوی اور واضح دلیل ہے جسے عالم و جاہل یکساں طور پر سمجھ سکتے ہیں، یعنی کھانا پینا الوہیت کے منافی ہے۔ اگرچہ نہ کھانا بھی کوئی الوہیت کی دلیل نہیں ورنہ سارے فرشتے خدا بن جائیں (معاذ اللہ) (فوائد عثمانی)- حضرت مریم بتول (علیہ السلام) نبی تھیں یا ولی ؟- حضرت مریم کی ولایت اور نبوت کے بارے میں اختلاف ہے۔ آیت مذکورہ میں مقام مدح میں لفظ ” صدیقہ “ سے بظاہر اشارہ اسی طرف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ” ولی “ تھیں۔ نبی نہیں کیونکہ مقام مدح میں اعلیٰ درجہ کو ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کو نبوت حاصل ہوتی تو یہاں ” نبیہ “ کہا جاتا۔ حالانکہ یہاں ” صدیقہ “ کہا گیا ہے، جو ولایت کا مقام ہے (روح ملخصاً ) - جمہور امت کی تحقیق یہی ہے کہ خواتین میں نبوت نہیں آئی یہ منصب رجال ہی کے لئے مخصوص رہا ہے، (آیت) وما ارسلنا من اہل القری (یوسف، رکوع ٢١) (فوائد عثمانی)
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ ٠ۘ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ٠ۭ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٧٣- إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - انتهَاءُ- والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(٧٣۔ ٧٤) اور مرتوسیہ فرقہ کہتا ہے کہ خدا تین میں کا ایک ہے، یعنی باپ، بیٹا، روح قدس، حالانکہ تمام آسمان و زمین والوں کے لیے بجز ایک معبود حقیقی کے اور کوئی معبود نہیں، جو وحدہ لاشریک ہے اور اگر یہود ونصاری اپنی خرافات سے توبہ نہیں کریں گے تو ان پر اللہ کی طرف سے ایسا درد ناک عذاب مسلط کیا جائے گا کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی اور جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور توبہ ہی پر مرجائے تو ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
49: یہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کی طرف اشارہ ہے۔ اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تین اقانیم ( ) کا مجموعہ ہے، ایک باپ (یعنی اللہ)، ایک بیٹا (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام) ، اور ایک روح القدس۔ اور بعض فرقے اس بات کے بھی قائل تھے کہ تیسری حضرت مریم علیہا السلام ہیں اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تینوں مل کر ایک ہیں۔ یہ تینوں مل کر ایک کس طرح ہیں؟ اس معمے کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اس لئے ان کے متکلمین ( ) نے اس عقیدے کی مختلف تعبیریں اختیار کی ہیں۔ بعض نے تو یہ کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صرف خدا تھے، اِنسان نہیں تھے۔ آیت نمبر ۷۲ میں ان کے عقیدے کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ خدا جن تین اقانیم کا مجموعہ ہے، ان میں سے ایک باپ یعنی اللہ ہے، دوسرا بیٹا ہے جو اللہ کی ایک صفت تھی جو اِنسانی وجود میں حلول کرکے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں آگئی تھی، لہٰذا وہ اِنسان بھی تھے، اور اپنی اصل کے اعتبار سے خدا بھی تھے۔ آیت نمبر ۷۳ میں اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے۔ عیسائیوں کے ان عقائد کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب ’عیسائیت کیا ہے؟۔‘‘