Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 یہ شراب اور جوا کے مزید معاشرتی اور دینی نقصانات ہیں، جو محتاج وضاحت نہیں ہیں۔ اس لئے شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے اور جوا بھی ایسی بری لت ہے کہ یہ انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی اور بسا اوقات رئیس زادوں اور خاندانی جاگیر داروں کو مفلس و قلاش بنا دیتی ہے اَ عَا ذَنَا اللّٰہُ مِنْھُمَا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٣٧] شراب کس طرح باہمی عداوت اور بغض کا سبب بنتی ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل دو احادیث ملاحظہ فرمائیے - ١۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن ہمیں جو غنیمت کا مال ملا اس میں سے مجھے ایک جوان اونٹنی ملی جس میں رسول اللہ کا بھی حصہ تھا۔ اور ایک جوان اونٹنی آپ نے مجھے عنایت فرمائی تھی۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری آدمی کے دروازے پر باندھا کرتا تھا۔ میرا کام یہ تھا کہ ان دونوں اونٹنیوں پر اذخر (گھاس) لاد کر لاؤں اور اس کو بیچوں۔ میرے ساتھ اس کام میں بنو قینقاع کا ایک سنار بھی تھا۔ میرا سیدہ فاطمہ (رض) (بنت رسول) سے نکاح ہونے والا تھا اور میں چاہتا تھا کہ اس آمدنی سے ولیمہ کروں۔ ایک دن سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب (آپ کے چچا) اسی گھر میں بیٹھے شراب پی رہے تھے اور ایک مغنیہ گانا گا رہی تھی۔ اس مغنیہ نے یہ مصرعہ گایا۔ الا یا حمزۃ للشرف النواء (اٹھو حمزہ فربہ جوان اونٹنیاں)- شراب اور جوا باہمی عداوت کا باعث کیسے بنتے ہیں ؟ یہ مصرعہ سنتے ہی سیدنا حمزہ (رض) تلوار لے کر ان اونٹنیوں کی طرف لپکے اور ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ پھاڑ کر ان کے کلیجے نکال لیے۔ سیدنا علی (رض) کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو سخت گھبرا گیا اور اسی وقت رسول اللہ کے پاس آیا اور آپ کو سارا قصہ سنایا۔ آپ کے پاس اس وقت زید بن حارثہ (رض) بیٹھے تھے۔ چناچہ ہم تینوں روانہ ہوئے اور سیدنا حمزہ (رض) کے پاس آئے۔ آپ سیدنا حمزہ (رض) سے ناراض ہوئے مگر حمزہ نے (جو نشہ میں دھت تھے) آنکھ اٹھائی اور کہا : تم ہو کیا، تم لوگ میرے باپ دادا کے غلام ہی تو ہو۔ یہ صورتحال دیکھ کر رسول اللہ پچھلے پاؤں واپس لوٹ آئے۔ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔ (بخاری۔ کتاب المساقاۃ۔ باب بیع الحطب والکلائ)- ٢۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں مہاجرین و انصار کی ایک مجلس میں گیا وہ کہنے لگے، آؤ تمہیں کھلائیں اور شراب پلائیں اور یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے چناچہ میں ان کے ہاں ایک باغ میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے پاس ایک اونٹ کی بھنی ہوئی سری اور شراب کا ایک مشکیزہ رکھا ہوا ہے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کھایا اور پیا۔ پھر میں نے ان سے مہاجرین و انصار کا ذکر کیا اور کہا کہ مہاجرین انصار سے اچھے ہیں (یہ سن کر) ایک آدمی نے سری کا ایک جبڑا جو مجھے مارا تو میری ناک کو زخمی کردیا اور چیر دیا۔ میں رسول اللہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی۔ تو اللہ عزوجل نے میرے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ( اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ ) الا یہ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص)- اور جوئے کا معاملہ بعض دفعہ شراب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہارا ہوا فریق جب اپنا کثیر مال و دولت حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنی بیوی تک بھی ہار بیٹھتا ہے تو دنیا اس کے آگے اندھیر بن جاتی ہے اور اب اس میں جو عداوت پڑتی ہے وہ دیوانہ وار ہوتی ہے جو بہت سے دوسرے جرائم کا بھی سبب بنتی ہے۔ یہ تو شراب اور جوئے کے ظاہری اثرات ہیں اور باطنی اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں لوگوں کو اللہ کی یاد سے غافل کردیتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ ۔۔ : جوئے اور شراب کی حرمت کا حکم دے کر اب ان کے دینی اور دنیاوی نقصانات بیان فرمائے ہیں، دینی نقصان تو یہ کہ شراب اور جوا نماز اور ذکر الٰہی سے روکنے اور غافل کرنے کا سبب بنتے ہیں اور دنیاوی نقصان یہ کہ آپس میں عداوت اور کینہ پیدا کرتے ہیں اور ان دونوں میں ان خرابیوں کا پایا جانا بالکل واضح ہے۔ - سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت ہے کہ میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس آیا تو انھوں نے کہا، آؤ تمہیں کھلائیں اور شراب پلائیں۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کی بات ہے، چناچہ میں ان کے پاس ایک باغ میں گیا، وہاں ان کے پاس اونٹ کی بھنی ہوئی سری اور شراب کا ایک مشکیزہ تھا۔ میں نے ان کے ساتھ کھایا اور پیا، ان کے پاس مہاجرین و انصار کا ذکر ہوا تو میں نے کہا، مہاجرین انصار سے بہتر ہیں، تو ایک آدمی نے سری کا ایک جبڑا پکڑا اور مجھے دے مارا، جس سے میری ناک زخمی ہوگئی، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی تو اللہ تعالیٰ نے شراب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی : (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فی فضل سعد بن أبی وقاص، قبل ح : ١٧٤٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اس کے بعد دوسری آیت میں شراب اور جوئے کے دنیوی اور ظاہری مفاسد کا بیان اس طرح فرمایا گیا : - اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ ۔ ” یعنی شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان بغض و عداوت کی بنیادیں ڈال دے “۔- ان آیات کا نزول بھی کچھ ایسے ہی واقعات کے بارے میں ہوا ہے کہ شراب کے نشہ میں ایسی حرکات صادر ہوئیں جو باہمی غیظ و غضب اور پھر جنگ و جدل کا سبب بن گئیں اور یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ شراب کے نشہ میں جب آدمی عقل کھو بیٹھتا ہے تو اس سے ایسی حرکات کا صدور لازمی جیسا ہوجاتا ہے۔- اسی طرح جوئے کا معاملہ ہے کہ ہارنے والا اگرچہ اپنی ہار مان کر اس وقت نقصان اٹھا لیتا ہے، مگر اپنے حریف پر غیظ و غضب اور بغض و عداوت اس کے لازمی اثرات میں سے ہے، حضرت قتادہ رحمة اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض عرب کی عادت تھی کہ جوئے میں اپنے اہل و عیال اور مال و سامان سب کو ہرا کر انتہائی رنج و غم کی زندگی گزارتے تھے۔- آخر آیت میں پھر ان چیزوں کی ایک اور خرابی ان الفاظ میں ارشاد فرمائی : وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۔ ” یعنی یہ چیزیں تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کردیتی ہیں “۔- یہ خرابی روحانی اور اخروی خرابی ہے، جس کو دنیوی خرابی کے بعد مکرر ذکر فرماتے ہیں، اس میں اشارہ ہوسکتا ہے کہ اصل قابل نظر اور قابل فکر وہ زندگی ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے، عقل مند کے نزدیک اسی کی خوبی مطلوب و مرغوب ہونی چاہئے، اور اسی کی خرابی سے ڈرنا چاہئے، دنیا کی چند روزہ زندگی کی خوبی نہ کوئی قابل فخر چیز ہے، نہ خرابی زیادہ قابل رنج و غم ہے، کہ اس کی دونوں حالتیں چند روز میں ختم ہوجانے والی ہیں - دوران بقا چو باد صحرا بگذشت - تلخی و خوشی وزشت و زیبا بگذشت - اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ذکر اللہ اور نماز سے غفلت یہ دنیا و آخرت اور جسم و روح دونوں کے لئے مضر ہے، آخرت اور روح کے لئے مضر ہونا تو ظاہر ہے کہ اللہ سے غافل، بےنماز کی آخرت تباہ اور روح مردہ ہے، اور ذرا غور سے دیکھا جائے تو اللہ سے غافل کی دنیا بھی وبال جان ہوتی ہے کہ جب اللہ سے غافل ہو کر اس کا انتہائی مقصود مال و دولت اور عزت و جاہ ہوجائے تو وہ اتنے بکھیڑے اپنے ساتھ لاتے ہیں کہ وہ خود ایک مستقل غم ہوتے ہیں جس میں مبتلا ہو کر انسان اپنے مقصود المقاصد یعنی راحت و آرام اور اطمینان و سکون سے محروم ہوجاتا ہے، اور ان اسباب راحت میں ایسا مست ہوجاتا ہے کہ خود راحت کو بھی بھول جاتا ہے، اور اگر کسی وقت یہ مال و دولت یا عزت و جاہ جاتے رہیں یا ان میں کمی آجائے تو ان کے غم اور رنج کی انتہاء نہیں رہتی، غرض یہ خالص دنیا دار انسان دونوں حالتوں میں رنج و فکر اور غم واندوہ میں گھرا رہتا ہے، - اگر دنیا نباشد درد مندیم - وگرباشد بمہرش پائے بندیم - بخلاف اس شخص کے جس کا دل اللہ کی یاد سے روشن اور نور نماز سے منوّر ہے، دنیا کے مال و منال اور جاہ و منصب اس کے قدموں پر گرتے ہیں، اور ان کی صحیح راحت و آرام پہنچاتے ہیں، اور اگر یہ چیزیں جاتی رہیں تو ان کے قلوب اس سے متا ثر نہیں ہوتے، ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ - نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے - بہ پیش ہمت ما ہرچہ آمد بود مہمانے - خلاصہ یہ ہے کہ ذکر اللہ اور نماز سے غفلت اگر غور دیکھا جائے تو اخروی اور دنیوی دونوں طرح کی خرابی ہے، اس لئے ممکن ہے کہ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ سے خالص اخروی اور روحانی مضرت بیان کرنا مقصود ہو، اور اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ سے خالص دنیوی اور جسمانی خرابی بتلانا ہو، اور وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ سے دین و دنیا کی مشترک تباہی و بربادی کا ذکر کرنا مقصود ہو۔ - یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ ذکر اللہ میں تو نماز بھی داخل ہے، پھر نماز کو علیحدہ بیان کرنے میں کیا حکمت ہے، وجہ یہ ہے کہ اس میں نماز کی اہمیت اور ذکر اللہ کی تمام اقسام میں افضل و اشرف ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نماز کو مستقل طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔- اور تمام دینی اور دنیوی، جسمانی اور روحانی خرابیوں کی تفصیل بتلانے کے بعد ان چیزوں سے باز رکھنے کی ہدایت ایک عجیب دل نواز انداز سے فرمائی ہے، ارشاد ہوتا ہے : فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ ، یعنی یہ ساری خرابیاں تمہارے علم میں آگئیں تو اب بھی ان سے باز آؤ گے۔- ان دونوں آیتوں میں شراب و جوئے وغیرہ کی حرمت اور شدید ممانعت کا بیان تھا، جو قانون الٓہی کی ایک دفعہ ہے،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۝ ٠ۚ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۝ ٩١- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - وقع - الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] ،- ( و ق ع ) الوقوع - کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔- إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - بغض - البُغْض : نفار النفس عن الشیء الذي ترغب عنه، وهو ضد الحبّ ، فإنّ الحب انجذاب النفس إلى الشیء، الذي ترغب فيه . يقال : بَغُضَ الشیء بُغْضاً وبَغَضْتُه بَغْضَاء . قال اللہ عزّ وجلّ : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] ، وقال : إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] ، وقوله عليه السلام : «إنّ اللہ تعالیٰ يبغض الفاحش المتفحّش»فذکر بغضه له تنبيه علی بعد فيضه وتوفیق إحسانه منه .- ( ب غ ض ) البغض کے معنی کسی مکر وہ چیز سے دل کا متنفر اور بیزار ہونا کے ہیں ۔ کہ حب کی ضد ہے ۔ جس کے معنی پسندیدہ چیز کی طرف دل کا منجذب ہونا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا بَيْنَهُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 64] اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بعض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے إِنَّما يُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَداوَةَ وَالْبَغْضاءَ [ المائدة 91] شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش دلوادے اور حدیث میں ہے بیشک اللہ تعالیٰ بد کلام گالی دینے والے ہے نفرت کرتا ہے ۔ یہاں بعض کا لفظ بول کر اس امر پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ باری تعالیٰ اس سے اپنا فیضان اور توفیق احسان روک لیتا ہے ۔- ميسر - ( المیسر) مصدر ميميّ کالموعد، وهو مشتقّ إما من الیسر لأنّ فيه أخذ المال بيسر، وإمّا من الیسار لأنه سبب له .- صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- انتهَاءُ- والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر۔ ) شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے) تا آخر آیت - اس سے یہ مراد ہے شیطان شراب نوشی کی دعوت دیتا اور اس قبیح فعل کو بہت آراستہ کر کے پیش کرتا ہے تاکہ شراب پینے والا نشہ کے تحت قبیح افعال کا مرتکب ہوجائے یا اپنے ہم نشینوں کے ساتھ بد اخلاقی پر اتر آئے جس کے نتیجے میں آپ س میں دشمنی اور بغض و عداوت کی بنیاد رکھ دی جائے۔- جوئے بازی بھی ان ہی امور پر جا کر منتج ہوتی ہے۔ قتادہ کا قول ہے۔” ہوتا اس طرح تھا کہ ایک شخص اپنا سارا مال بلکہ اہل و عیال جوئے کے دائو پر لگا دیتا ہے اور بازی ہارنے کے بعد رنج و الم کا بوجھ اپنے دل میں لے کر بیٹھ جاتا جس کے ردعمل کے طور پر اس کے دل میں بغض و عداوت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔ “- اس آیت سے نبیذ کی تحریم پر بھی استدلال کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ نبیذ سے پیدا ہونے والا نشہ اسی طرح بغض و عداوت کا باعث ہوتا ہے جس طرح شراب کا نشہ۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ علت ان مشروبات اور چیزوں میں موجود ہوتی ہے جو نشہ آور ہوتی ہیں لیکن جو چیزیں نشہ آور نہیں ہوتیں ان میں موجود نہیں ہوتی۔ پہلی قسم کی چیزوں اور مشروبات کی تحریم میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔- قلیل مقدار شراب میں یہ علت موجود نہیں ہے لیکن شراب چونکہ بعینہ حرام ہے اس لئے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام دی گئی ہے۔ آیت کے اندر کوئی ایسی عدت بیان نہیں ہوئی جو قلیل مقدار میں نبیذ کی تحریم کی مقتضی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩١) شیطان تو شراب اور جوئے سے تمہاری عقل اور مال دولت کو برباد کرنا اور اطاعت خداوندی اور پانچوں نمازوں کی ادائیگی سے روکنا اور ان سے دور کرنا چاہتا ہے تو کیا تم اللہ کے اس فرمان کے بعد اب بھی باز نہیں آؤ گے۔- شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر (الخ)- امام احمد (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ شراب پیتے تھے اور جوئے کا مال کھاتے تھے تو لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان دونوں چیزوں کے بارے میں دریافت کیا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یسئلونک عن الخمر والمیسر “۔ (الخ) تو لوگوں نے کہا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان چیزوں کو حرام نہیں، بلکہ بڑے گناہ کو بیان کیا، چناچہ حسب سابق سب لوگ شراب پیتے رہے، اسی دوران ایک دن مہاجرین میں سے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی تو قرأت میں گڑبڑ کی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس سخت حکم نازل فرمایا کہ (آیت) ” یا ایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر “۔ تا منتھون “۔ اس آیت کے نزول پر صحابہ کرام (رض) بولے، اے ہمارے پروردگار ہم باز آگئے، اس کے بعد کچھ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حرمت پہلے بہت حضرات شہید ہوگئے اور اپنے بستروں پر انتقال فرما گئے اور وہ شراب بھی پیتے تھے اور جوئے کا مال بھی کھاتے تھے اور اب اس کو اللہ تعالیٰ نے گندی باتیں شیطانی کام فرما دیا ہے۔ (تو اس کا معاملہ کیا ہوگا )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ) - یہ بہت اہم بات ہے ‘ کیونکہ شراب کے نشے میں انسان اپنا ہوش اور شعور کھو بیٹھتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کو کچھ خبر نہیں رہتی کہ وہ منہ سے کیا بکواس کر رہا ہے اور اس کے اعضاء وجوارح سے کیا افعال سرزد ہو رہے ہیں ‘ لہٰذا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسی حالت میں کسی بات یا کسی حرکت سے کیا کیا گل کھلیں گے ‘ کیسے کیسے جھگڑے اور فسادات جنم لیں گے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حکومتی اور ریاستی سطح کے بڑے بڑے راز شراب کے نشے میں چرالیے جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان چیزوں سے بچانا چاہتا ہے ‘ جبکہ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے مابین عداوت اور بغض پیدا کرے۔ اسی طرح جوئے سے بھی بغض و عداوت کی کو نپلیں پھوٹتی ہیں۔ مثلاً ایک آدمی جوئے میں ہار جاتا ہے ‘ پھر پے در پے ہارتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ پھٹ پڑتا ہے اور غصّے میں آگ بگولا ہو کر آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اسے نظر آ رہا ہے کہ میرا جو حریف مجھ سے جیت رہا ہے وہ کسی محنت کی وجہ سے نہیں جیت رہا۔ کسی نے محنت اور کوشش سے کچھ کمایا ہو تو اس سے دوسرے کو جلن محسوس نہیں ہوتی ‘ لیکن جوئے میں بےمحنت کی کمائی ہوتی ہے جسے مخالف فریق برداشت نہیں کرسکتا ‘ اور اس طرح انسانی تعلقات میں کئی منفی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔- (وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِج ) ۔- اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنے والا معاملہ بھی شراب کا تو بالکل واضح ہے ‘ لیکن جوئے میں بھی یونہی ہوتا ہے کہ آدمی ایک بار اس میں لگ جائے تو پھر وہاں سے نکلنامشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ تاش اور شطر نج وغیرہ بھی ایسے کھیل ہیں کہ ان میں مشغول ہو کر انسان ذکر اور نماز جیسی چیزوں سے بالکل غافل ہوجاتا ہے۔ - (فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ ) - یہ انداز بڑا سخت ہے اور اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ شراب اور جوئے کے بارے میں ایک واضح ہدایت قبل ازیں آچکی تھی : (فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط) (البقرۃ : ٢١٩) ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں ‘ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ‘ البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔ تو اسی وقت تمہیں سمجھ لینا چاہیے تھا اور باز آجانا چاہیے تھا۔ اس پہلے حکم میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت ‘ مشیّت اور شریعت کا رخ تو واضح ہوگیا تھا۔ پھر اگلا قدم اٹھایا گیا اور حکم دیا گیا : جب تم لوگ شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔۔ (النساء : ٤٣) ۔ اس سے تو پورے طور سے واضح ہوجانا چاہیے تھا کہ دین کا اہم ترین ستون نماز ہے : (اَلصَّلٰوۃُ عِمَاد الدِّیْنِ ) (١) اور یہ شراب نماز سے روک رہی ہے ‘ تو تمہیں یہ چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ بہر حال اب آخری بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگئی ہے ‘ تو اسے سن کر کیا اب بھی باز نہیں آؤ گے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani