ان کو شامت اعمال ہی شد تھی اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں جیسے کہ نوح کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب رس جن کا پورا قصہ سورہ فرقان کی تفسیر میں گذر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی ، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے علیہ الصلوۃ والسلام اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ، سورہ دخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں فالحمد للہ ۔ ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے آیت ( كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٠٥ښ ) 26- الشعراء:105 ) قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آجاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ایک کو بھی نہ مانتے سب کی تکذیب کرتے ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آگیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27ۧ ) 30- الروم:27 ) یعنی بتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے سورہ یٰسین میں فرمان الہٰی جل جلالہ گذر چکا کہ آیت ( وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۭ قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ 78 ) 36-يس:78 ) ، یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔
12۔ 1 اصحاب الرس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورة بروج میں ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، (وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا) 25 ۔ الفرقان :38)
(١) کذبت قبلھم قوم نوح …: یعنی یہ آپ کو جھٹلانے والے پہلے لوگ نہیں جنہوں نے ہمارے کسی رسول کو جھٹلایا ہو، بلکہ اس سے پہلے کئی اقوام نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہمارے عذاب کا نشانہ بنے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والوں کے لئے تنبیہ ہے۔ آیت میں مذکور اکثر اقوام کا ذکر متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ اصحاب الرس کا ذکر سورة فرقان (٣٨) میں، اصحاب الایکہ کا ذکر سورة حجر (٧٨) اور سورة شعراء (١٧٦) میں اور قوم تتبع کا ذکر سورة دخان (٣٧) میں دیکھیے۔- (٢) کل کذب الرسل : ان سب قوموں نے تمام رسولوں کو جھٹلا دیا، کیونکہ یہ سب نہ اپنی طرح کے کسی انسان کو رسول ماننے کے لئے تیار تھے اور نہ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کو۔ اس لئے ان میں سے ہر ایک کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والا قرار دیا۔- (٢) فحق و عید : ” اصل میں ” وعیدی “ ہے۔ آیات کے فواصل کی مطابقت کے لئے یاء کو حذف کردیا، دال پر کسرہ یاء کے حذف ہونے کی دلیل ہے، ورنہ ” حق “ کا فاعل ہونے کی وجہ سے ” وعید “ کے دال پر ضمہ ہونا چائے۔ تھا۔
(آیت) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ ۔ سابقہ آیات میں کفار کی تکذیب رسالت و آخرت کا ذکر تھا، جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچنا ظاہر ہے، اس آیت میں حق تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے پچھلے انبیاء اور ان کی امتوں کے حالات بتلائے ہیں کہ ہر پیغمبر کو منکرین و کفار کی طرف سے ایسی ایذائیں پیش آتی ہی ہیں، یہ سنت انبیاء ہے، اس سے آپ شکستہ خاطر نہ ہوں، قوم نوح (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں بار بار آیا ہے کہ ساڑھے نو سو برس نوح (علیہ السلام) ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے مگر ان کی طرف سے نہ صرف انکار بلکہ طرح طرح کی ایذائیں پہنچتی رہیں - اصحاب الرس کون لوگ ہیں ؟- اَصْحٰبُ الرَّسِّ ، لفظ رس عربی زبان میں مختلف معنی کے لئے آتا ہے، مشہور معنی یہ ہیں کہ کچے کنویں کو رس کہا جاتا ہے، جو اینٹ پتھر وغیرہ سے پختہ نہ کیا گیا ہو، اصحاب الرس سے مراد قوم ثمود کے باقی ماندہ لوگ ہیں جو عذاب کے بعد باقی رہے، ضحاک وغیرہ مفسرین نے ان کا قصہ یہ لکھا ہے کہ جب حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم (ثمود) پر عذاب آیا تو ان میں سے چار ہزار آدمی جو حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے وہ عذاب سے محفوظ رہے، یہ لوگ اپنے مقام سے منتقل ہو کر حضرموت میں جا کر مقیم ہوگئے، حضرت صالح (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ تھے، ایک کنویں پر جا کر یہ لوگ ٹھہر گئے اور حضرت صالح (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی، اسی لئے اس جگہ کا نام حضرموت (یعنی موت حاضر ہوگئی) ہے، یہ لوگ یہیں رہ پڑے، پھر ان کی نسل میں بت پرستی شروع ہوگئی، ان کی اصلاح کے لئے حق تعالیٰ نے ایک نبی کو بھیجا، جس کو انہوں نے قتل کر ڈالا، ان پر خدا تعالیٰ کا عذاب آیا، ان کا کنواں جس پر ان کی زندگی کا انحصار تھا وہ بیکار ہوگیا اور عمارتیں ویران ہوگئیں، قرآن کریم نے اسی کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے : (آیت) وبئر معطلة و قصر مشید، یعنی چشم عبرت والوں کے لئے ان کا بیکار پڑا ہوا کنواں اور پختہ بنے ہوئے محلات ویران پڑے ہوئے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ ثمود : حضرت صالح (علیہ السلام) کی امت ہیں ان کا واقعہ قرآن میں بار بار پہلے گزر چکا ہے۔
كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ ١٢ ۙ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - رس - أَصْحابَ الرَّسِ قيل : هو واد، قال الشاعر : وهنّ لوادي الرَّسِّ کالید للفم وأصل الرَّسِّ : الأثر القلیل الموجود في الشیء، يقال : سمعت رَسّاً من خبر ورَسُّ الحدیث في نفسي، ووجد رَسّاً من حمّى ورُسَّ الميّتُ : دفن وجعل أثرا بعد عين .- ( ر س س ) وأَصْحابَ الرَّسِ اور رس کے رہنے والوں نے ۔ بعض نے کہا ہے کہ رس ایک وادی کا نام ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) وھن لوادی الرس کالید للفم ۔ اور وہ وادی رس کے لئے جیسے ہاتھ منہ کیطرف ۔ اصل میں رس کسی چیز کے تھوڑے سے نشان کو کہا جاتا ہے ۔ عام محاورہ ہے :۔ سمعت رسا من خبر : میں نے کچھ یوں ہی سی خبر سنی ۔ رس الحدیث فی نفسی میرے دل میں تمہاری بات کا تھوڑا سا اثر ہوا ۔ وجد رسا من حمی ۔ اس نے بخار کا تھوڑا سا اثر محسوس کیا ۔ رس المیت ۔ میت دفن ہوگئی اور اس کی شخصیت کے بعد اب اس کے آثار باقی رہے ۔ - ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
(١٢۔ ١٤) اے محمد آپ کی قوم سے پہلے قوم نوح کی اور اصحاب الرس رس یمانہ کے قریب ایک کنواں ہے یعنی قوم شعیب، شعیب کی اور ثمود حضرت صالح کی اور عاد حضرت ہود کی اور فرعون اور اس کی قوم موسیٰ کی اور قوم لوط حضرت لوط کی اور اصحاب ایکہ بھی شعیب کی اور قوم تبع تکذیب کرچکے ہیں۔ تبع حمیر کے بادشاہ کا نم ہے ان کا نام اسعد اور کنیت ابو کرب ہے یہ مرد مسلم تھے ان کے پیرو کی کثرت کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا۔- جیسا کہ آپ کی قوم قریش آپ کی تکذیب کرتی ہے ان سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا لہذا اس تکذیب کی وجہ سے ان سب پر میری سزا محقق ہوگئی اور ان پر عذاب نازل ہوا۔
آیت ١٢ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ ۔ ” جھٹلایا تھا ان سے پہلے بھی نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ‘ کنویں والوں نے اور قوم ثمود نے ۔ “ یہ انباء الرسل کا تذکرہ ہے لیکن انتہائی مختصر انداز میں۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :12 اس سے پہلے سورہ فرقان ، آیت 28 میں اصحاب الرس کا ذکر گزر چکا ہے ، اور دوسری مرتبہ اب یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ مگر دونوں جگہ انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے سلسلے میں صرف ان کا نام ہی لیا گیا ہے ، کوئی تفصیل ان کے قصے کی بیان نہیں کی گئی ہے ۔ عرب کی روایات میں الرس کے نام سے دو مقام معروف ہیں ، ایک نجد میں ، دوسرا شمالی حجاز میں ۔ ان میں نجد کا الرس زیادہ مشہور ہے اور اشعار جاہلیت میں زیادہ تر اسی کا ذکر سنا ہے ۔ اب یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اصحاب الرس ان دونوں میں سے کس جگہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کے قصے کی بھی کوئی قابل اعتماد تفصیل کسی روایت میں نہیں ملتی ۔ زیادہ سے زیادہ بس اتنی بات صحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ کوئی ایسی قوم تھی جس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں پھینک دیا تھا ۔ لیکن قرآن مجید میں جس طرح ان کی طرف محض ایک اشارہ کر کے چھوڑ دیا گیا ہے اس سے خیال ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں اہل عرب بالعموم اس قوم اور اس کے قصے سے واقف تھے اور بعد میں یہ روایات تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکیں ۔