عاد : قوم عاد اپنے ڈیل ڈول اور قوت و شجاعت میں ضرب المثل تھی، حضرت ہود (علیہ السلام) ان کی طرف مبعوث ہوئے، ان کو ستایا ان کی نافرمانی کی، آخر کار ہوا کے طوفان کا عذاب آیا اور سب فنا ہوئے۔- فرعون : بہت ہی معروف و مشہور مصر کے بادشاہ کا نام ہے۔- وَاِخْوَانُ لُوْطٍ حضرت لوط (علیہ السلام) کی امت ہے، جن کا قصہ کئی مرتبہ پہلے گزر چکا ہے۔
وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ ١٣ ۙ- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- لوط - لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبد» وهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له .- ( ل و ط ) لوط - ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلنا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط س مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔
آیت ١٣ وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ ۔ ” اور قوم عاد ‘ فرعون اور لوط (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ۔ “
سورة قٓ حاشیہ نمبر :13 قوم فرعون کے بجائے صرف فرعون کا نام لیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اپنی قوم پر اس طرح مسلط تھا کہ اس کے مقابلے میں قوم کی کوئی آزادانہ رائے اور عزیمت باقی نہیں رہی تھی ۔ جس گمراہی کی طرف وہ جاتا تھا ، قوم اس کے پیچھے گھسٹتی چلی جاتی تھی ۔ اس بنا پر پوری قوم کی گمراہی کا ذمہ دار تنہا اس شخص کو قرار دیا گیا ۔ جہاں قوم کے لیے رائے اور عمل کی آزادی موجود ہو وہاں اپنے اعمال کا بوجھ وہ خود اٹھاتی ہے ۔ اور جہاں ایک آدمی کی آمریت نے قوم کو بے بس کر رکھا ہو ، وہاں وہی ایک آدمی پوری قوم کے گناہوں کا بار اپنے سر لے لیتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد واحد پر یہ بوجھ لَد جانے کے بعد قوم سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ نہیں ، قوم پر اس صورت میں اس اخلاقی کمزوری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں اپنے اوپر ایک آدمی کو اس طرح مسلط ہونے دیا ۔ اسی چیز کی طرف سورۂ زخرف ، آیت 54 میں اشارہ کیا گیا ہے کہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً فَاسِقِیْنَ ۔ فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زخرف ، حاشیہ 50 ) ۔