Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 تَحِیْدُ ، تَمِیْلُ عَنْہُ وَتَفِرُّتو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] موت پر سب حقائق کا انکشاف :۔ اس کے دو مطلب ہیں یعنی موت، اس کی بےہوشیاں اور سختیاں تو وہ ان سب حقیقتوں کو ساتھ ہی لے آئیں جن کی انبیائے کرام (علیہم السلام) اطلاع دیتے رہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے معلوم ہوجائے گا کہ جس محاسبہ اور برے انجام سے وہ ڈرایا کرتے تھے اس کا آغاز ہوگیا ہے۔ موت کا فرشتہ، دیکھتے ہی اس پر سب پیش آنے والی حقیقتیں ظاہر ہونے لگیں گی۔- [٢٣] حاد بمعنی سیدھے راستے سے پہلو تہی کرنا، کنی کترانا، سمت بدل لینا اور دور بھاگنا ہے۔ سیدھا راستہ پیغمبروں نے یہ بتایا تھا کہ تمہیں مر کر دوبارہ جی اٹھنا ہے اور تمہارا محاسبہ ہونے والا ہے۔ تو اس بارے میں مشکوک ضرور تھا۔ تیرے نزدیک دونوں احتمال موجود تھے۔ لیکن تیرا نفس یہی چاہتا تھا کہ تیرا محاسبہ نہ ہونا چاہئے لہذا تو طرح طرح کے اعتراض کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتا تھا اور سیدھے راستہ سے بہرحال بچنا چاہتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وجآء ت سکرۃ الموت : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ انسان جو کچھ کرتا ہے سب اللہ کو معلوم ہے اور انسان کی کتاب اعمال میں بھی لکھا ہوا اور محفوظ ہے اور اس کے سامنے پیش آنے والا ہے، اب اس حقیقت کے انسان کے سامنے آنے کے دو وقت بیان فرمائے، پہلا موت کا وقت اور دوسرا قیامت کا وقت۔ اس آیت میں موت کا ذکر ہے، موت کی بےہوشی سے مراد اس کی سختی اور شدت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں موت اور قیامت کے لئے ماضی کے صیغے استعمال فرمائے ہیں یعنی ” وجآء ت سکرۃ الموت “ (اور موت کی بےہوشی آگئی) اور ” نفخ فی الصور “ (اور صور میں پھونکا گیا) حالانکہ یہ کام آئندہ ہونے والے ہیں، تو مقصد وہ نقشہ سامنے لانا اور یہ باور کروانا ہے کہ ان کا آنا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو وہ آچکے۔- (٢) عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری وقت کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دونوں ہاتھ اس میں ڈالتے اور انہیں چہرے پر پھیرتے جاتے تھے اور ساتھ یہ فرماتے تھے :(لا الہ الا اللہ، ان للموت سکراب) (بخاری، المغازی، باب مضر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و وفاتہ : ٣٣٣٩)” لا الہ الا اللہ، یقینا موت کی بہت سختیاں ہیں۔ “- (٣) بالحق : موت کی بےہوشی کے حق کو لے آنے کا مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کی سختی کے ساتھ ہی وہ حقیقت سامنے آجائے گی جس پر دنیا میں پردہ پڑا ہوا ہے اور آدمی آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ رسولوں نے جو بات بتائی تھی وہ حق اور سچ تھی۔ - (٤) ذلک ما کنت منہ تحید :” حاد یحید حیدۃ “ (باغ بیع) کسی چیز سے کنی کترانا، بچ کر نکلنا، دور بھاگنا۔ ہر انسان ہی طبعی طور پر موت سے بھاگتا ہے، مگر اس سے چارہ نہیں اور نہ ہی انسان کے سدا زندہ رہنے کی خواہش پوری ہوسکتی ہے۔ دیکھیے سورة جمعہ (٨) اور سورة احزاب (١٦) کی تفسیر۔ یعنی یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا کرنے سے تو پہلو تہی کرتا اور کنی کتراتا تھا اور چاہتا تھا کہ اس سے بچ کر پانی من مانی کرتا رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

سکرات الموت :- (آیت) وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ ، سکرة الموت کے معنی موت کی شدت اور غشی جو موت کے وقت پیش آتی ہے، ابوبکر بن الانباری نے اپنی سند کے ساتھ حضرت مسروق سے روایت یہ کی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر پر موت کے آثار شروع ہوئے تو صدیقہ عائشہ کو بلایا، وہ پہنچیں تو یہ حالت دیکھ کر بےساختہ ایک شعر زبان سے نکلا۔- اذا حشرجت یوما و ضاق بھا الصدر - ” یعنی جب روح ایک دن مضطرب ہوگی اور سینہ اس سے تنگ ہوجائے گا “- حضرت صدیق اکبر نے سنا تو فرمایا کہ تم نے فضول یہ شعر پڑھا، یوں کیوں نہ کہا (وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ حالت پیش آئی تو آپ پانی میں ہاتھ ڈال کر چہرہ مبارک پر ملتے اور فرماتے تھے لا الہ الا اللہ ان للموت سکرات، یعنی کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے فرمایا کہ موت کی بڑی شدتیں ہوتی ہیں۔- بالحق، اس میں حرف باء تعدیہ کے لئے ہے، معنی یہ ہیں کہ لے آئی شدت موت امر حق کو یعنی موت کی شدت نے وہ چیزیں سامنے کردیں جو حق و ثابت ہیں اور کسی کو ان سے فرار کی گنجائش نہیں (مظہری)- ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ ، تحید حید سے مشتق ہے، جس کے معنی مائل ہونے، جگہ سے ہٹ جانے اور اقرار کرنے کے ہیں، معنی آیت کے یہ ہیں کہ موت وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا اور بھاگتا تھا۔- ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب عام انسان کو ہے، موت سے بدکنا اور بھاگنا طبعی طور پر پوری نوح انسانی میں پایا جاتا ہے، ہر شخص زندگی کو مرغوب اور موت کو آفت و مصیبت سمجھ کر اس سے بچنے کی تدبیریں کرتا ہے، جو شرعاً کوئی گناہ بھی نہیں، لیکن آیت میں بتلانا یہ منظور ہے کہ انسان کی یہ طبعی اور فطری خواہش مکمل طور پر ہرگز پوری نہیں ہو سکتی، ایک نہ ایک دن تو بہرحال موت آنا ہی ہے، خواہ تم اس سے کتنا ہی بھاگنا چاہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَتْ سَكْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْہُ تَحِيْدُ۝ ١٩- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- سكر - السُّكْرُ : حالة تعرض بيت المرء وعقله، وأكثر ما يستعمل ذلک في الشّراب، وقد يعتري من الغضب والعشق، ولذلک قال الشاعر :- 237-- سکران : سکر هوى، وسکر مدامة- «2» ومنه : سَكَرَاتُ الموت، قال تعالی: وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] ، والسَّكَرُ :- اسم لما يكون منه السّكر . قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] ، والسَّكْرُ : حبس الماء، وذلک باعتبار ما يعرض من السّدّ بين المرء وعقله، والسِّكْرُ : الموضع المسدود، وقوله تعالی: إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا - [ الحجر 15] ، قيل : هو من السَّكْرِ ، وقیل : هو من السُّكْرِ- ( س ک ر )- السکر ۔ اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اس کا عام استعمال شراب کی مستی پر ہوتا ہے اور کبھی شدت غضب یا غلبہ یا غلبہ عشق کی کیفیت کو سکر سے تعبیر کرلیا جاتا ہے اسی لئے شاعر نے کہا ہے ( 231 ) سکران ھوی وسکر مدامۃ نشے دو ہیں ایک نشہ محبت اور دوسرا نشہ شراب اور اسی سے سکرت الموت ( موت کی بیہوشی ) ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ [ ق 19] اور موت کی بےہوشی کھولنے کو طاری ہوگئی ۔ السکرۃ ( بفتح السین والکاف ) نشہ آور چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَراً وَرِزْقاً حَسَناً [ النحل 67] کہ ان سے شراب بناتے ہو اور عمدہ رزق رکھا تے ہو ) اور شراب سے انسان اور اس کی عقل کے درمیان بھی چونکہ دیوار کی طرح کوئی چیز حائل ہوجاتی ہے اس اعتبار سے سکر کے معنی پانی کو بند لگانے اور روکنے کے آجاتے ہیں اور اس بند کو جو بانی روکنے - کے لئے لگایا جائے سکر کہا جاتا ہے ( یہ فعل بمعنی مفعول ہے ) اور آیت : ۔ إِنَّما سُكِّرَتْ أَبْصارُنا[ الحجر 15] کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں ۔ میں سکرت بعض کے نزدیک سک سے ہے اور بعض نے سکرا سے لیا ہے اور پھر سکر سے سکون کے معنی لے کر پر سکون رات کو لیلۃ ساکرۃ کہا جاتا ہے ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔ ہلاک کردے ۔- حيد - قال عزّ وجلّ : ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ [ ق 19] أي : تعدل عنه وتنفر منه .- ( ح ی د ) الحید ( ض ) کے معنی پہلو ہی کرنے اور دور بھاگنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ [ ق 19] انسان یہی ( وہ حالت ) ہے جس سے تو بھاگتا تھا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّط ” اور بالآخر موت کی بےہوشی کا وقت آن پہنچا ہے حق کے ساتھ ۔ “- موت کا آنا تو قطعی اور برحق ہے ‘ اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ کے منکر تو بہت ہیں لیکن موت کا منکر کوئی نہیں۔- ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ ۔ ” یہی ہے نا وہ چیز جس سے تو بھاگا کرتا تھا “- اس بات کا انسان کی نفسیات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ ہر انسان کی نفسیاتی کمزوری ہے کہ موت کو برحق جانتے ہوئے بھی وہ اس کے تصور کو حتی الوسع اپنے ذہن سے دور رکھنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ وقتی طور پر اگر کسی عزیز کی موت اور تجہیز و تکفین کے موقع پر اپنی موت اور قبر کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آتا بھی ہے تو انسان فوری طور پر اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر روز مرہ کے معمولات میں خود کو مصروف کرلیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :22 حق لے کر آ پہنچنے سے مراد یہ ہے کہ موت کی جانکنی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے وہ حقیقت کھلنی شروع ہو جاتی جس پر دنیا کی زندگی میں پردہ پڑا ہوا تھا ۔ اس مقام سے آدمی وہ دوسرا عالم صاف دیکھنے لگتا ہے جس کی خبر انبیاء علیہم السلام نے دی تھی ۔ یہاں آدمی کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخرت بالکل برحق ہے ، اور یہ حقیقت بھی اس کو معلوم ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اس دوسرے مرحلے میں وہ نیک بخت کی حیثیت سے داخل ہو رہا ہے یا بد بخت کی حیثیت سے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :23 یعنی یہ وہی حقیقت ہے جس کو ماننے سے تو کنی کتراتا تھا ۔ تو چاہتا تھا کہ دنیا میں نتھے بیل کی طرح چھوٹا پھرے اور مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہ ہو جس میں تجھے اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے ۔ اسی لیے آخرت کے تصور سے تو دور بھاگتا تھا اور کسی طرح یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ کبھی یہ عالم بھی برپا ہونا ہے ۔ اب دیکھ لے ، یہ وہی دوسرا علم تیرے سامنے آ رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani