[٢٤] نفخہ صور ثانی :۔ اس سے مراد وہ نفخہ صور ہے۔ جب سب مردہ انسان اپنی اپنی قبروں سے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے یعنی قیامت کے دن جب سب انسانوں کی اللہ کے حضور پیشی ہوگی اور فیصلہ کے دن مجرموں کو عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا۔
ونفخ فی الصور…: موت کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب انسان کے سامنے یہ حقیقت کھل کر آجائے گی کہ وہ جو کچھ کرتا تھا سب اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا اور کراماً کاتبین کے ذریعے سے محفوظ ہو رہا تھا۔ یہاں صور میں پھونکے جانے سے مراد دوسری دفعہ پھونکا جانا ہے، جب ہر آدمی قبر سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوجائے گا۔ “ وعید “ دھمکی اور سزا کے وعدے کو کہتے ہیں، یعنی تمہیں نافرمانی پر جو وعید سنائی گئی تھی یہ اس کے پورے ہونے کا دن ہے۔ “ نفح صور “ کے لئے دیکھیے سورة ابراہیم (٤٧ تا ٥١) طہ (١٠٢) ، حج (١) ، یٰسین (٥١) اور سورة زمر (٦٨) ۔
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ ٠ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيْدِ ٢٠- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- وعید - ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ- [ الأعراف 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق 45] ، لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ [ ق 28] ورأيت أرضهم وَاعِدَةً : إذا رجي خيرها من النّبت، ويومٌ وَاعِدٌ: حرّ أو برد، ووَعِيدُ الفحلِ : هديره - اور الا یعاد - ( افعال ) بمعنی تہدید کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 86] اور ہر راستہ پر مت بیٹھا کرو کہ تم ڈراتے اور راہ خدا سے روکتے ہو ۔ اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید سے ڈرے اس کو قرآن پاک سے نصیحت کرتے رہو ۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ [ ق 28] ہمارے حضور میں رود کد نہ کرو ۔ ہم تمہارے پاس پہلے ہی عذاب کی وعید بھیج چکے تھے ۔ اور محاورہ ہے ۔ یعنی ان کی زمین سے اچھی پید اوار کی امید ہے یوم واعد : بہت گر ما یا بہت سرد دن ۔ وعید الفحل : حملہ کے وقت نراونٹ کا بڑ بڑانا
(٢٠۔ ٢٣) اور صور پھونکا جائے گا جس سے سب زندہ ہوجائیں گے یہی اولیں و آخریں کی وعید کا دن ہوگا جس میں سب جمع کیے جائیں گے اور میدان حشر میں قیامت کے دن ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ دو فرشتے ہوں گے جن میں سے وہ فرشتہ جو اس کی برائیاں لکھتا تھا وہ اسے اپنے پروردگار کی طرف ساتھ لائے گا اور دوسرا فرشتہ جو اس کی نیکیاں لکھا کرتا تھا وہ پروردگار کے سامنے اس پر گواہ ہوگا خطاب ہوگا کہ اے انسان تو اس دن سے بیخبر اور غافل تھا سو اب ہم نے تیرے اعمال پر سے پردہ غفلت ہٹا دیا جو تیرے لیے دار دنیا میں حجاب بنا ہوا تھا سو آج تیری نگاہ بڑی تیز ہے یا یہ کہ بعث بعد الموت کے بارے میں آج تو تیرا علم بڑا وسیع ہے اور اس کے بعد فرشتہ کاتب اعمال جو اس کی نیکیاں یا یہ کہ اس کی برائیاں لکھا کرتا تھا کہے گا یہ ہے وہ روزنامچہ جس پر میں متعین تھا جو میرے پاس تیار ہے۔
آیت ٢٠ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِط ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ ۔ ” اور صور میں پھونکا جائے گا ‘ یہ ہے وعدے کا دن “- پہلے انفرادی موت کی بات کی گئی تھی ۔ اب اس آیت میں پوری دنیا کی اجتماعی موت کا ذکر ہے۔ جب کسی شخص کو موت آتی ہے تو اس کے لیے تو گویا وہی قیامت ہے ۔ اس لیے انسان کی انفرادی موت کو قیامت ِصغریٰ اور تمام انسانوں کی اجتماعی موت کو قیامت کبریٰ کہا جاتا ہے۔ چناچہ گزشتہ آیت میں قیامت صغریٰ کا بیان تھا ‘ اب یہاں قیامت کبریٰ کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :24 اس سے مراد وہ نفخ صور ہے جس کے ساتھ ہی تمام مرے ہوئے لوگ دوبارہ حیات جسمانی پا کر اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ 47 ۔ جلد دوم ، ابراہیم ، حاشیہ 57 ۔ جلد سوم ، طہٰ ، حاشیہ 78 ۔ الحج ، حاشیہ ۔ 1 ۔ جلد چہارم ، یٰس ، حواشی 46 ۔ 47 ۔ الزُّمر ، حاشیہ 79 ۔