Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 رَقِیْب محافظ، نگران اور انسان کے قول اور عمل کا انتظار کرنے والا عَتِیْد حاضر اور تیار۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] یعنی انسان کا کوئی قول، کوئی فعل، کوئی حرکت، کوئی اشارہ ایسا نہیں ہوتا جسے ریکارڈ میں لانے والا فرشتہ ہر وقت اس کے پاس موجود نہ رہتا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عبید :” رقیب “ نگرانی کرنے والا اور ” عبید “ تیار۔ اس آیت کے مفہوم کے قریب یہ آیات ہیں :(وان علیکم لحفظین، کراماً کاتبین، یعلمون ماتفعلون) (الانفطار : ١٠ تا ١٢)” حالانکہ بلاشبہ تم پر یقینا نگہبان (مقرر) ہیں۔ جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ “ اگرچہ انسان کا ہر قول و فعل اور ارادہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، مگر فرشتوں کے ذریعے سے کتاب اعمال کی تیاری قیامت کے دن اس پر حجت قائم کرنے کیلئے ہے، فرمایا :(ونخرج لہ یوم القیمۃ کتباً یلفسہ منشوراً ، اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً ) (بنی اسرائیل : ١٣، ١٣)” اور قیامت کے دن ہم اس کے لئے ایک کتاب ناکلیں گے، جسے وہ کھولی ہوئی پائے گا۔ اپنی کتاب پڑھ، آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ “ آج کل آڈیو اور وڈیو کے ذریعے سے انسان کے تقریباً ہر قول و فعل کا مکمل نقشہ محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ انسانی ایجادات کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو عطا کردہ صلاحیتوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی۔ اس کتاب کو دیکھ کر بندوں کا جو حال ہوگا وہ اللہ تعالیٰ نے سورة کہف میں بیان فرمایا ہے :(ووضع الکتب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لایغادر صغیرۃ و لا کبیرۃ الا احصھا، ووجدوا ما عملوا حاضراً ولا یظلم ربک احداً ) (الکھف : ١٩) ” اور کتاب رکھی جائے گی، پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو اس میں ہوگا اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی اس کتاب کو کیا ہے، نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے اور نہ بڑی مگر اس نے اسے ضبط کر رکھا ہے اور انہوں نے جو کچھ کیا اسے موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

انسان کا ہر قول ریکارڈ کیا جاتا ہے۔- مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ (یعنی انسان کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالتا جس کو یہ نگران فرشتہ محفوظ نہ کرلیتا ہو، حضرت حسن بصری اور قتادہ نے فرمایا کہ یہ فرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب ہو یا نہ ہو، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ صرف وہ کلمات لکھے جاتے ہیں جن پر کوئی ثواب یا عتاب ہو، ابن کثیر نے یہ دونوں قول نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ آیت قرآن کے عموم سے پہلی ہی بات کی ترجیح معلوم ہوتی ہے، کہ ہر ہر لفظ لکھا جاتا ہے، پھر علی بن ابی طلحہ کی ایک روایت ابن عباس ہی سے ایسی نقل فرمائی جس میں یہ دونوں قول جمع ہوجاتے ہیں) اس روایت میں یہ ہے کہ پہلے تو ہر کلمہ لکھا جاتا ہے، خواہ گناہ وثواب اس میں ہو یا نہ ہو، مگر ہفتہ میں جمعرات کے روز اس پر فرشتے نظر ثانی کر کے صرف وہ رکھ لیتے ہیں جن میں ثواب یا عتاب ہو یعنی خیر یا شر ہو، باقی کو نظر انداز کردیتے ہیں، قرآن کریم میں (آیت) یمحوا اللہ ما یشآء و یبثت و عندہ ام الکتب کے مفہوم میں یہ محو و اثبات بھی داخل ہے۔- امام احمد نے حضرت بلال بن حارث مزنی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :۔- انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہنچا کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کی لکھ دیتے ہیں، اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضگی کا (معمولی سمجھ کر) زبان سے نکال دیتا ہے اور اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ و وبال کہاں تک پہنچے گا، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائمی ناراضگی قیامت تک کے لئے لکھ دیتے ہیں (از ابن کثیر)- حضرت علقمہ حضرت بلال بن حارث کی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس حدیث نے مجھے بہت سی باتیں زبان سے نکالنے کو روک دیا ہے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ۝ ١٨- ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» .- الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- لفظ - اللَّفْظُ بالکلام مستعار من : لَفْظِ الشیء من الفم، ولَفْظِ الرّحى الدّقيق، ومنه سمّي الدّيك اللَّافِظَةَ ، لطرحه بعض ما يلتقطه للدّجاج . قال تعالی: ما يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ- [ ق 18] .- الفظ بالکلام کے معنی کلام کرنا کے ہیں اور یہ لفظ المشئی من اللفم یا لغظ الرحیٰ بالدقیق کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ اسی کے لئے چوگا ٖڈالتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ما يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اسکے پاس تیار رہتا ہے ۔- لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - رَّقِيبُ :- الحافظ، وذلک إمّا لمراعاته رقبة المحفوظ، وإما لرفعه رقبته، قال تعالی: وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] ، وقال تعالی: إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، وقال : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] ، والْمَرْقَبُ : المکان العالي الذي يشرف عليه الرقیب، وقیل لحافظ أصحاب المیسر الذین يشربون بالقداح رَقِيبٌ ، وللقدح الثالث رَقِيبٌ ، وتَرَقَّبَ : احترز راقبا، نحو قوله : فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ، والرَّقُوبُ : المرأة التي تَرْقُبُ موت ولدها، لکثرة من مات لها من الأولاد، والناقة التي ترقب أن يشرب صواحبها، ثمّ تشرب، وأَرْقَبْتُ فلانا هذه الدار هو : أن تعطيه إيّاها لينتفع بها مدّة حياته، فكأنه يرقب موته، وقیل لتلک الهبة : الرُّقْبَى والعمری.- اسی سے نگران کو رقیب - کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظور ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ نگرانی کے لئے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ [هود 93] تم بھی منتظر رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] مگر ایک چوکیدار ( اس کے لکھنے کو ) تیار رہتا ہے ۔ المرقب ۔ بلند جگہ جہاں رقیب ( نگران ) بیٹھ کر چوکسی کرتا ہے اور قمار بازوں کے محافظ کو بھی رقیب کہا جاتا ہے ۔ جو قمار بازی کے بعد شراب نوشی کرتے ہیں ۔ اسی طرح قمار بازی کے تیسرے درجہ کے تیر کو بھی رقیب کہتے ہیں ۔ ترقب ( تفعل ) کے معنی ہیں انتظار کرتے ہوئے کسی چیز سے بچنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] چناچہ موسیٰ ٰ (علیہ السلام) شہر سے نکل بھاگے اور دوڑتے جاتے تھے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رقوب اس عورت کو کہتے ہیں جو کثرت اولاد کی وجہ سے اپنے بچوں کی موت کی منتظر ہو ۔ نیز وہ اونٹنی جو پانی پینے کے لئے باری کے انتظار میں ہو اسے بھی رقوب کہا جا تا ہے ارقب ( افعال ) کے معنی رقبی ٰکرنے کے ہیں یعنی کسی کو اس کی زندگی بھر کے لئے مکان وغیرہ ہبہ کردینا اور اس کی موت کے بعد اس عطا کو واپس لے لینا ۔ اور اسے رقبی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہبہ کے بعد گویا وہ اس کی موت کا انتظار کرتا ہے ۔ اور ایسے ہبہ کو عمریٰ بھی کہا جاتا ہے ۔- عتد - العَتَادُ : ادّخار الشیء قبل الحاجة إليه كالإعداد، والعَتِيدُ : المُعِدُّ والمُعَدُّ. قال تعالی: هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] ، رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، أي : مُعْتَدٌّ أعمالَ العباد، وقوله : أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ،.- ( ع ت د ) العتاد - ضرورت کی چیزوں کا پہلے سے ذخیرہ کرلینا اور یہی معنی اعداد کے ہیں عتید ( اسم فاعل ) تیار کرنے والا ( اسم مفعول ) تیار کی ہوئی چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] یہ ( اعمال نامہ ) میرے سامنے حاضر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] میں عتید کے معنی ہیں وہ فرشتہ لوگوں کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ان کے لئے درد انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨۔ ١٩) کہ انسان کوئی لفظ بھی منہ سے نکالنے نہیں پاتا خواہ نیک ہو یا برا مگر اس کے پاس ایک تاک لگانے والا موجود رہتا ہے کہ دائیں طرف کا فرشتہ نیکی اور بایاں فرشتہ بدی لکھتا رہتا ہے موت کی سختی شقاوت اور سعادت کے ساتھ آپہنچی یہ وہ چیز ہے کہ جس سے تو اے انسان بدکتا اور بھاگتا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ۔ ” وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا ہے مگر اس کے پاس ایک مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔ “- یعنی کوئی انسان جو لفظ بھی اپنی زبان سے بولتا ہے متعلقہ فرشتہ اس کو فوراً ریکارڈ کرلیتا ہے اور ظاہر ہے فرشتوں کی یہ ریکارڈنگ بھی عالم امر کی چیز ہے ‘ اس لیے اس کی کیفیت بھی ہمارے تصور میں نہیں آسکتی۔ ریکارڈنگ کے شعبے میں گزشتہ چند دہائیوں میں انسانی سطح پر جو ترقی دیکھنے میں آئی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب انسان کی ” ریکارڈنگ “ کا معیار یہ ہے اور اس معیار میں مزید ترقی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تو اللہ کی قدرت سے جو ریکارڈنگ ہو رہی ہے اس کا معیار کیا ہوگا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :21 یعنی ایک طرف تو ہم خود براہ راست انسان کی حرکات و سکنات اور اس کے خیالات کو جانتے ہیں ، دوسری طرف ہر انسان پر دو فرشتے مامور ہیں جو اس کی ایک ایک بات کو نوٹ کر رہے ہیں اور اس کا کوئی قول و فعل ان کے ریکارڈ سے نہیں چھوٹتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں انسان کی پیشی ہوگی اس وقت اللہ کو خود بھی معلوم ہوگا کہ کون کیا کر کے آیا ہے ، اور اس پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ بھی موجود ہوں گے جو اس کے اعمال کا دستاویزی ثبوت لا کر سامنے رکھ دیں گے ۔ یہ دستاویزی ثبوت کس نوعیت کا ہوگا ، اس کا ٹھیک ٹھیک تصور کرنا تو ہمارے لیے مشکل ہے ۔ مگر جو حقائق آج ہمارے سامنے آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر یہ بات بالکل یقینی معلوم ہوتی ہے کہ جس فضا میں انسان رہتا اور کام کرتا ہے اس میں ہر طرف اس کی آوازیں ، اس کی تصویریں اور اس کی حرکات و سکنات کے نقوش ذرے ذرے پر ثبت ہو رہے ہیں اور ان میں سے ہر چیز کو بعینہ ان ہی شکلوں اور آوازوں میں دوبارہ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ برابر فرق نہ ہو ۔ انسان یہ کام نہایت ہی محدود پیمانے پر آلات کی مدد سے کر رہا ہے ۔ لیکن خدا کے فرشتے نہ ان آلات کے محتاج ہیں نہ ان قیود سے مقید ۔ انسان کا اپنا جسم اور اس کے گردو پیش کی ہر چیز ان کی ٹیپ اور ان کی فِلم ہے جس پر وہ ہر آواز اور ہر تصویر کو اس کی نازک ترین تفصیلات کے ساتھ جوں کی توں ثبت کر سکتے ہیں اور قیامت کے روز آدمی کو اس کے اپنے کانوں سے اس کی اپنی آواز میں اس کی وہ باتیں سنوا سکتے ہیں جو وہ دنیا میں کرتا تھا ، اور اس کی اپنی آنکھوں سے اس کے اپنے تمام کرتوتوں کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا سکتے ہیں جن کی صحت سے انکار کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی عدالت میں کسی شخص کو محض اپنے ذاتی علم کی بنا پر سزا نہ دے گا بلکہ عدل کی تمام شرائط پوری کر کے اس کو سزا دے گا ۔ اسی لیے دنیا میں ہر شخص کے اقوال و افعال کا مکمل ریکارڈ تیار کرایا جا رہا ہے تاکہ اس کی کار گزاریوں کا پورا ثبوت ناقابل انکار شہادتوں سے فراہم ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani