[٢٠] کراماً کاتبین کا ریکارڈ رکھنا :۔ ان میں سے ایک نیکی اور بھلائی کے اقوال و افعال ریکارڈ کر رہا ہے اور دوسرا جو بائیں طرف ہے وہ بدی کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ فرشتے قلم اور دوات لے کر ہر بات کو قلمبند کر رہے ہوں۔ بلکہ اس کے اور بھی کئی طریقے ممکن ہیں۔ آج کا انسان ویڈیو کیسٹ تیار کرچکا ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کے اقوال و افعال حرکات و سکنات، تصویر، لب و لہجہ غرض ہر چیز ایسی ریکارڈ ہوتی ہے کہ اصل اور نقل میں ذرہ بھر فرق نہیں رہتا اور اللہ کے فرشتوں کے وسائل تو انسان کے وسائل سے بہت زیادہ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ انسان کے اپنے بدن پر، اس کے اعضاء پر، قرب و جوار کے مقامات پر اور فضا کے ذرات پر انسان کا ریکارڈ ضبط ہو رہا ہو۔ جسے ویڈیو کیسٹ کی طرح کسی بھی وقت پیش کیا جاسکتا اور متعلقہ انسان کو دکھایا جاسکتا ہو۔ پہلی آیت میں یہ مذکور تھا کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات حتیٰ کہ تمہارے دلوں کے راز تک اللہ جانتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں شہادت کے لئے ریکارڈ کی جارہی ہیں۔
(١) اذ یتلقی الم تلقین عن الیمین :” تلقی یتلقی “ (تفعل ) لینا، استقبال کرنا۔” یتلقی “ اور ” الم تلقین “ کا مفعول محذوف ہے :” ای جمیع اقوالہ وافعالہ “” اذا “ پچھلی آیت میں ” اقرب “ کا ظرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے دو فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو لے کر لکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے دل میں آنے والے وسوسے اور سینے کے راز بھی خوب جانتے ہوتے ہیں۔- (٢)” قعید “ بمعنی ” مقاعد “ ہے، جیسے ” جلیس “ بمعنی ” مجالس “ ہے۔ یعنی وہ انسان کے ساتھ لازم رہتے ہیں۔ (قعید “ (ساتھ بیٹھے ہوئے) کا لفظ ان کے بیدار اور ہشیار رہنے کی کیفیت کے بیان کے لئے ہے کہ وہ انسان سے سر زد ہونے والے کسی بھی قول یا فعل کو لکھنے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں، کسی لمحے۔ بھی ان کے الگ ہونے یا غفلت یا نیند کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔- (٣) یہاں ایک سوال ہے کہ فرشتے تو دو ہیں مگر ان کی کیفیت بیان کرنے کے لئے لفظ ” قعید “ لایا گیا ہے جو واحد ہے، اسے تثنیہ بنا کر ” قعیدان “ کیوں نہیں کہا گیا ؟ مفسرین نے اس کے دو جواب دیئے ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ” کل واحد منھما “ ہے، یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک تیار بیٹھا ہے۔ دوسرا یہ کہ ” قعید “ ” فعیل “ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے اور ” فعیل “ اور ” فعول “ واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مونث سب کے لئے اسی طرح استعمال کرلیا جاتا ہے۔ دونوں جواب درست ہیں۔
ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے :- (آیت) اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ ، تلقی کے لغوی معنی اخذ کرنے لے لینے اور حاصل کرلینے کے آتے ہیں (آیت) فتلقی آدم من ربہ کلمت ” یعنی لے لئے اور حاصل کر لئے آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات “ اس آیت میں متلقیان سے مراد وہ دو فرشتے ہیں جو ہر انسان کے ساتھ اس کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت اس کے ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اعمال کو اپنے صحیفوں میں لکھتے رہتے ہیں، عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ ” یعنی ان میں ایک اس کے داہنی طرف رہتا ہے ( جو اس کے اعمال صالحہ کو لکھتا ہے) دوسرا اس کے بائیں جانب (جو اس کی سیئات کو لکھتا ہے) قعید بمعنی القاعدہ ہے مفرد و جمع دونوں کے لئے لفظ قعید استعمال ہوتا ہے اگرچہ قعید بمعنی قاعد ہے، جیسے جلیس بمعنی جالس، مگر ایک فرق یہ ہے کہ قاعد اور جالس تو صرف بیٹھنے کی حالت میں بولا جاتا ہے اور قعید و جلیس عام ہے جو کسی کے ساتھ ہو خواہ بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے یا چلتے پھرتے ہوئے ان کو قعید و جلیس کہیں گے، ان دونوں فرشتوں کا یہی حال ہے کہ وہ ہر وقت ہر حال میں انسان کے ساتھ رہتے ہیں، وہ بیٹھا ہو یا کھڑا، چلتا پھرتا ہو یا سو رہا ہو، صرف ایسی حالت میں جب کہ یہ پیشاب، پاخانہ یا جماع کی ضرورت سے ستر کھولے ہوتا ہے تو یہ فرشتے ہٹ جاتے ہیں، مگر اللہ نے ان کو اس کا ملکہ دے دیا ہے کہ اس حالت میں بھی وہ کوئی گناہ کریں تو ان کو معلوم ہوجاتا ہے۔- ابن کثیر نے احنف بن قیس کی روایت سے لکھا ہے کہ ان دو فرشتوں میں سے صاحب یمین نیک اعمال لکھتا ہے اور وہ صاحب شمال یعنی بائیں جانب کے فرشتے کا بھی نگران و امین ہے، اگر انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو صاحب یمین صاحب شمال سے کہتا ہے کہ ابھی اس کو اپنے صحیفہ میں نہ لکھو اس کو مہلت دو اگر توبہ کرلی تو رہنے دو ورنہ پھر اعمالنامہ میں درج کرو (رواہ ابن ابی حاتم)- اعمالنامہ لکھنے والے فرشتے :- حضرت حسن بصری نے آیت مذکورہ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ تلاوت فرما کر کہا :۔- ” اے ابن آدم تیرے لئے نامہ اعمال بچھا دیا گیا اور تجھ پر دو معزز فرشتے مقرر کردیئے گئے ہیں، ایک تیری داہنی جانب دوسرا بائیں جانب، داہنی جانب والا تیری حسنات کو لکھتا ہے اور بائیں جانب والا تیری سیئات اور گناہوں کو، اب اس حقیقت کو سامنے رکھ کر جو تیرا جی چاہے عمل کر اور کم کر یا زیادہ، یہاں تک کہ جب تو مرے گا تو یہ صحیفہ یعنی نامہ اعمال پیٹ دیا جائے گا اور تیری گردن میں ڈال دیا جائے گا، جو تیرے ساتھ قبر میں جائے گا اور رہے گا، یہاں تک کہ جب تو قیامت کے روز قبر سے نکلے گا تو اس وقت حق تعالیٰ فرمائے گا (آیت) (وکل انسان الزمنہ طٓئرہ فی عنقہ و نخرج لہ یوم القیمة کتبا یلقہ منشورا اقرا کتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا) یعنی ہم نے ہر انسان کا اعمالنامہ اس کی گردن میں لگا دیا ہے اور قیامت کے روز وہ اس کو کھلا ہوا پائے گا، اب اپنا اعمالنامہ خود پڑھ لے تو خود ہی اپنا حساب لگانے کے لئے کافی ہے “۔- پھر حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ خدا کی قسم اس ذات نے بڑا عدل و انصاف کیا، جس نے خود تجھ کو ہی تیرے اعمال کا محاسب بنادیا (ابن کثیر) یہ ظاہر ہے کہ اعمال نامہ کوئی دنیوی کاغذ تو ہے نہیں جس کے قبر میں ساتھ جانے اور قیامت تک باقی رہنے پر اشکال ہو ایک معنوی چیز ہے جس کی حقیقت حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اس لئے اس کا ہر انسان کے گلے کا ہار بننا اور قیامت تک باقی رہنا کوئی تعجب کی چیز نہیں۔
اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ ١٧- ( لقی) تلقی - السّماحة منه والنّدى خلقاویقال : لَقِيتُه بکذا : إذا استقبلته به، قال تعالی: وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] ، وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] . وتَلَقَّاهُ كذا، أي : لقيه . قال : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] ، وقال : وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6]- وتلقی السماحۃ منہ والندیٰ خلقا سخاوت اور بخشش کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔ لقیت بکذا ۔ میں فلاں چیز کے ساتھ اس کے سامنے پہنچا۔ قرآن میں ہے : وَيُلَقَّوْنَ فِيها تَحِيَّةً وَسَلاماً [ الفرقان 75] اور وہاں ان کا استقبال دعاوسلام کے ساتھ کیا جائے گا ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] اور تازگی اور شادمانی سے ہمکنار فرمائے گا ۔ تلقاہ کے معنی کسی چیز کو پالینے یا اس کے سامنے آنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ الأنبیاء 103] اور فرشتے ان کو لینے آئیں گے ۔ وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ [ النمل 6] اور تم کو قرآن عطا کیا جاتا ہے ۔- يمین ( دائیں طرف)- اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ- [ الزمر 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ- [ الصافات 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] ، وعلی هذا حمل :- 477-- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين - ( ی م ن ) الیمین - کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے - شمل - الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث :- «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه :- شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ :- الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة :- شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت .- ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معنی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔
جب دو اخذ کرنے والے فرشتے انسان کے اعمال کو جو اس سے صادر ہوتے ہیں لکھتے رہتے ہیں جو اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے رہتے ہیں۔
آیت ١٧ اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ ۔ ” جبکہ لیتے جاتے ہیں دو لینے والے جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوتے ہیں۔ “- یعنی اللہ تعالیٰ خود بھی ہر جگہ ‘ ہر آن موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اس نے ہر انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے بھی مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے ہر فعل اور عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ سورة الانفطار ‘ آیت ١١ میں ان فرشتوں کو ’ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔
6: یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کے تمام اچھے برے کاموں کو ریکارڈ کرنے کے لئے دو فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں جوہر وقت اسکے دائیں اور بائیں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ انتظام صرف اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انسان کے اعمال نامے کو قیامت کے دن خود اس کے سامنے حجت کے طور پر پیش کیا جاسکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے اعمال جاننے کے لئے کسی اور کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ہر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے خوب واقف ہے، اور انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ الترجمۃ مبنیۃ علی ان ’’ اذ‘‘ ظرف لہ ’’ اقرب‘‘ کما فی روح المعانی