دائیں اور بائیں دو فرشتے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہی انسان کا خالق ہے اور اس کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے یہاں تک کہ انسان کے دل میں جو بھلے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں انہیں بھی وہ جانتا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل میں جو خیالات آئیں ان سے درگذر فرما لیا ہے جب تک کہ وہ زبان سے نہ نکالیں یا عمل نہ کریں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں یعنی ہمارے فرشتے اور بعض نے کہا ہے ہمارا علم ان کی غرض یہ ہے کہ کہیں حلول اور اتحاد نہ لازم آ جائے جو بالاجماع اس رب کی مقدس ذات سے بعید ہے اور وہ اس سے بالکل پاک ہے لیکن لفظ کا اقتضاء یہ نہیں ہے اس لئے کہ ( وانا ) نہیں کہا بلکہ ( ونحن ) کہا ہے یعنی میں نہیں کہا بلکہ ہم کہا ہے ۔ یہی لفظ اس شخص کے بارے میں کہے گئے ہیں جس کی موت قریب آگئی ہو اور وہ نزع کے عالم میں ہو فرمان ہے آیت ( ونحن اقرب الیہ منکم ) الخ ، یعنی ہم تم سب سے زیادہ اس سے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے یہاں بھی مراد فرشتوں کا اس قدر قریب ہونا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ Ḍ ) 15- الحجر:9 ) یعنی ہم نے ذکر کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں فرشتے ہی ذکر قرآن کریم کو لے کر نازل ہوئے ہیں اور یہاں بھی مراد فرشتوں کی اتنی نزدیکی ہے جس پر اللہ نے انہیں قدرت بخش رکھی ہے پس انسان پر ایک پہرا فرشتے کا ہوتا ہے اور ایک شیطان کا اسی طرح شیطان بھی جسم انسان میں اسی طرح پھرتا ہے جس طرح کون جیسے کہ سچوں کے سچے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ دو فرشتے جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں وہ تمہارے اعمال لکھ رہے ہیں ابن آدم کے منہ سے جو کلمہ نکلتا ہے اسے محفوظ رکھنے والے اور اسے نہ چھوڑنے والے اور فورًا لکھ لینے والے فرشتے مقرر ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) ، تم پر محافظ ہیں بزرگ فرشتے جو تمہارے فعل سے باخبر ہیں اور لکھنے والے ہیں حضرت حسن اور حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں یہ فرشتے ہر نیک و بد عمل لکھ لیا کرتے ہیں ابن عباس کے دو قول ہیں ایک تو یہی ہے دوسرا قول آپ کا یہ ہے کہ ثواب وعذاب لکھ لیا کرتے ہیں ۔ لیکن آیت کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی ہی تائید کرتے ہیں کیونکہ فرمان ہے جو لفظ نکلتا ہے اس کے پاس محافظ تیار ہیں ۔ مسند احمد میں ہے انسان ایک کلمہ اللہ کی رضامندی کا کہہ گذرتا ہے جسے وہ کوئی بہت بڑا اجر کا کلمہ نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اپنی رضامندی اس کے لئے قیامت تک کی لکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی برائی کا کلمہ ناراضگی اللہ کا اسی طرح بےپرواہی سے کہہ گذرتا ہے جس کی وجہ سے اللہ اپنی ناراضی اس پر اپنی ملاقات کے دن تک کی لکھ دیتا ہے ، حضرت علقمہ فرماتے ہیں اس حدیث نے مجھے بہت سی باتوں سے بچا لیا ۔ ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن بتلاتے ہیں احنف بن قیس فرماتے ہیں دائیں طرف والا نیکیاں لکھتا ہے اور یہ بائیں طرف والے پر امین ہے ۔ جب بندے سے کوئی خطا ہو جاتی ہے تو یہ کہتا ہے ٹھہر جا اگر اس نے اسی وقت توبہ کر لی تو اسے لکھنے نہیں دیتا اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو وہ لکھ لیتا ہے ( ابن ابی حاتم ) امام حسن بصری اس آیت کی تلاوت کر کے فرماتے تھے اے ابن آدم تیرے لئے صحیفہ کھول دیا گیا ہے اور دو بزرگ فرشتے تجھ پر مقرر کر دئیے گئے ہیں ایک تیرے داہنے دوسرا بائیں ۔ دائیں طرف والا تو تیری نیکیوں کی حفاظت کرتا ہے اور بائیں طرف والا برائیوں کو دیکھتا رہتا ہے اب تو جو چاہ عمل کر کمی کر یا زیادتی کر جب تو مرے گا تو یہ دفتر لپیٹ دیا جائے گا اور تیرے ساتھ تیری قبر میں رکھ دیا جائے گا اور قیامت کے دن جب تو اپنی قبر سے اٹھے گا تو یہ تیرے سامنے پیش کر دیا جائے گا ۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13 ) 17- الإسراء:13 ) ہر انسان کی شامت اعمال کی تفصیل ہم نے اس کے گلے لگا دی ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے سامنے نامہ اعمال کی ایک کتاب پھینک دیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا پھر اس سے کہیں گے کہ اپنی کتاب پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے ۔ پھر حضرت حسن نے فرمایا اللہ کی قسم اس نے بڑا ہی عدل کیا جس نے خود تجھے ہی تیرا محاسب بنا دیا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو کچھ تو بھلا برا کلمہ زبان سے نکالتا ہے وہ سب لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ تیرا یہ کہنا بھی کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں گیا میں آیا میں نے دیکھا ۔ پھر جمعرات والے دن اس کے اقوال و افعال پیش کئے جاتے ہیں خیر و شر باقی رکھ لی جاتی ہے اور سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے یہی معنی ہیں فرمان باری تعالیٰ شانہ کے آتی ( يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ وَيُثْبِتُ ښ وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْكِتٰبِ 39 ) 13- الرعد:39 ) حضرت امام احمد کی بابت مروی ہے کہ آپ اپنے مرض الموت میں کراہ رہے تھے تو آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ فرشتے اسے بھی لکھتے ہیں چنانچہ آپ نے کراہنا بھی چھوڑ دیا اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے اپنی موت کے وقت تک اف بھی نہ کی ۔ پھر فرماتا ہے اے انسان موت کی بیہوشی یقینًا آئے گی اس وقت وہ شک دور ہو جائے گا جس میں آجکل تو مبتلا ہے اس وقت تجھ سے کہا جائے گا کہ یہی ہے جس سے تو بھاگتا پھرتا تھا اب وہ آگئی تو کسی طرح اس سے نجات نہیں پا سکتا نہ بچ سکتا ہے نہ اسے روک سکتا ہے نہ اسے دفع کر سکتا ہے نہ ٹال سکتا ہے نہ مقابلہ کر سکتا ہے نہ کسی کی مدد و سفارش کچھ کام آسکتی ہے صحیح یہی ہے کہ یہاں خطاب مطلق انسان سے ہے اگرچہ بعض نے کہا ہے کافر سے ہے اور بعض نے کچھ اور بھی کہا ہے حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں اپنے والد کے آخری وقت میں آپ کے سرہانے بیٹھی تھی آپ پر غشی طاری ہوئی تو میں نے یہ بیت پڑھا من لا یزال دمعہ سقنعا فانہ لا بدمرۃ مدفوق مطلب یہ ہے کہ جس کے آنسو ٹھہرے ہوئے ہیں وہ بھی ایک مرتبہ ٹپک پڑیں گے ۔ تو آپ نے اپنا سر اٹھا کر کہا پیاری بچی یوں نہیں بلکہ جس طرح اللہ نے فرمایا آیت ( وَجَاۗءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيْدُ 19 ) 50-ق:19 ) ، اور روایت میں بیت کا پڑھنا اور صدیق اکبر کا یہ فرمانا مروی ہے کہ یوں نہیں بلکہ یہ آیت پڑھو ۔ اس اثر کے اور بھی بہت سے طریق ہیں جنہیں میں نے سیرۃ الصدیق میں آپ کی وفات کے بیان میں جمع کر دیا ہے صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں ۔ اس آیت کے پچھلے جملے کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے ایک تو یہ کہ ( ما ) موصولہ ہے یعنی یہ وہی ہے جسے تو بعید از مکان جانتا تھا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں ( ما ) نافیہ ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ چیز ہے جس کے جدا کرنے کی جس سے بچنے کی تجھے قدرت نہیں تو اس سے ہٹ نہیں سکتا ۔ معجم کبیر طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس شخص کی مثال جو موت سے بھاگتا ہے اس لومڑی جیسی ہے جس سے زمین اپنا قرضہ طلب کرنے لگی اور یہ اس سے بھاگنے لگی بھاگتے بھاگتے جب تھک گئی اور بالکل چکنا چور ہو گئی تو اپنے بھٹ میں جا گھسی ۔ زمین چونکہ وہاں بھی موجود تھی اس نے لومڑی سے کہا میرا قرض دے تو یہ وہاں سے پھر بھاگی سانس پھولا ہوا تھا حال برا ہو رہا تھا آخر یونہی بھاگتے بھاگتے بےدم ہو کر مر گئی ۔ الغرض جس طرح اس لومڑی کو زمین سے بھاگنے کی راہیں بند تھیں اسی طرح انسان کو موت سے بچنے کے راستے بند ہیں اس کے بعد صور پھونکے جانے کا ذکر ہے جس کی پوری تفسیر والی حدیث گذر چکی ہے اور حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں کس طرح راحت وآرام حاصل کر سکتا ہوں حالانکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور منہ میں لے لیا ہے اور گردن جھکائے حکم اللہ کا انتظار کر رہا ہے کہ کب حکم ملے اور کب وہ پھونک دے صحابہ نے کہا پھر یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا کہیں آپ نے فرمایا کہو آیت ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ١٧٣ ) 3-آل عمران:173 ) پھر فرماتا ہے ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ تو میدان محشر کی طرف لانے والا ہو گا اور ایک فرشتہ اس کے اعمال کی گواہی دینے والا ہو گا ۔ ظاہر آیت یہی ہے اور امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ حضرت عثمان بن عفان نے اس آیت کی تلاوت منبر پر کی اور فرمایا ایک چلانے والا جس کے ہمراہ یہ میدان محشر میں آئے گا اور ایک گواہ ہو گا جو اس کے اعمال کی شہادت دے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں سائق سے مراد فرشتہ ہے اور شہید سے مراد عمل ہے ابن عباس کا قول ہے سائق فرشتوں میں سے ہوں گے اور شہید سے مراد خود انسان ہے جو اپنے اوپر آپ گواہی دے گا ۔ پھر اس کے بعد کی آیت میں جو خطاب ہے اس کی نسبت تین قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ خطاب کافر سے ہو گا دوسرا یہ کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نیک و بد سب تیسرا یہ کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ دوسرے قول کی توجیہ یہ ہے کہ آخرت اور دنیا میں وہی نسبت ہے جو بیداری اور خواب میں ہے اور تیسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ تو اس قرآن کی وحی سے پہلے غفلت میں تھا ۔ ہم نے یہ قرآن نازل فرما کر تیری آنکھوں پر سے پردہ ہٹا دیا اور تیری نظر قوی ہو گئی ۔ لیکن الفاظ قرآنی سے تو ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد عام ہے یعنی ہر شخص سے کہا جائے گا کہ تو اس دن سے غافل تھا اس لئے کہ قیامت کے دن ہر شخص کی آنکھیں خوب کھل جائیں گی یہاں تک کہ کافر بھی استقامت پر ہو جائے گا لیکن یہ استقامت اسے نفع نہ دے گی جیسے فرمان باری ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38 ) 19-مريم:38 ) یعنی جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے خوب دیکھتے سنتے ہوں گے اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32- السجدة:12 ) ، یعنی کاش کہ تو دیکھتا جب گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں پڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور کامل یقین رکھیں گے ۔
1 6 ۔ 1 یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان۔ 16۔ 1 ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہوجاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر)
[١٨] شیطان کا انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنا :۔ چونکہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اس لئے اس کی فطرت کو سب سے زیادہ جاننے والا ہمارے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ہم تو اس کے دل کے خیال اور اس میں پیدا ہونے والے برے خیالوں یا وساوس تک کو بھی جانتے ہیں۔ ویسے یہ وساوس کیونکر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : ام المومنین سیدہ صفیہ (رض) فرماتی ہیں کہ وہ مسجد نبوی میں آپ سے ملنے آئی جبکہ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے جب میں واپس آنے لگی تو آپ میرے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ (تاکہ مجھے گھر تک پہنچا آئیں) جب ہم ام سلمہ (رض) کے دروازہ کے قریب پہنچے تو دو انصاری مرد (اسید بن حضیر اور عمار بن بشر (رض) ملے۔ انہوں نے آپ کو سلام کیا اور آگے نکل گئے۔ آپ نے انہیں فرمایا : ذرا ٹھہر جاؤ، (یہ عورت میری بیوی ہے ) انہوں نے کہا : سبحان اللہ یا رسول اللہ اور آپ کا یہ وضاحت فرمانا ان پر شاق گزرا۔ آپ نے فرمایا : شیطان خون کی طرح آدمی کے بدن کی ہر رگ میں پہنچتا ہے۔ میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب بیوت ازواج النبی )- [١٩] اللہ کا رگ جان سے زیادہ نزدیک ہونا :۔ اللہ تعالیٰ کی یہ قربت اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے لحاظ سے کیونکہ اس کی ذات تو ساری کائنات سے اوپر عرش پر ہے اور انسان کی جان یا نفس یا روح کا مسکن انسان کا دل ہے۔ تو جب اللہ اپنے علم کے لحاظ سے انسان کے دل اور اس میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو جانتا ہے تو رگ جان یا رگ گردن، جو گلے کے سامنے کی طرف ہوتی ہے وہ تو دل سے کافی دور ہے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوا۔
(١) ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ : وسوسہ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کہی جائے اور صرف اسی کو سنائے دے اور وہ بات بھی جو بغیر آواز کے کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان یا نفس انسان کے دل میں وسوسہ ڈلاتا ہے۔ قیامت کے منکروں کے اس شبہ کا جواب کہ جب ہم مر کر مٹی ہوگئے تو دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے، اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ہم انسان کے مٹی ہوجانے والے ہر ذرے کو جانتے ہیں کہ وہ کہاں ہے، وہ نہ ہمارے علم سے باہر ہے اور نہ ہماری دسترس اور قدرت سے، ہم جب چاہیں گے اسے دوبارہ زندہ کردیں گے، اب فرمایا خاک کے ذرات کا وجود تو پھر بھی باقی رہتا ہے اور نظر آتا ہے، ہم تو انسان کی وہ چیزیں بھی جانتے ہیں جو اس سے بھی زیادہ مخفی ہیں اور بظاہر ان کا وجود بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے تو ہم سے بڑھ کر اسے کون جان سکتا ہے ؟ فرمایا :(الایعلم من خلق ، وھو اللطیف الخبیر) (الملک : ١٣)” کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور روہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔ “ چناچہ ہم اس کے اقوال و افعال ہی کو نہیں اس کی ان باتوں کو بھی جانتے ہیں جن کا خیال اور وسوسہ اس کا نفس اس کے دل میں ڈالتا ہے۔ سو ہم صرف اسے زندہ ہی نہیں کریں گے، بلکہ زندہ کرنے کے بعد اس کے تمام اعمال کا محاسبہ بھی کریں گے اور محاسبے کے لئے اگرچہ ہمارا علم ہی کافی ہے، مگر ہم نے حجت پوری کرنے کے لئے اس کے ہر قول و فعل کو فرشتوں کے ذریعے سے لکھ کر محفوظ کرنے کا بھی بندوبست کیا ہے۔- (٢) ونحن اقرب الیہ من حبل الورید :” الورید “ دل سے نکلنے والی رگ جس کے کٹنے سے انسان مرجاتا ہے۔ دل دیتے ۔ “ اور گردن میں اس کا نام ” وتین “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(ثم لقطعنا منہ الوتین) (الحآقہ : ٣٦)” پھر ہم اس کی جان کی رگ کاٹ دیتے۔ “ اور گردن میں اس کا نام ” ورید “ ہے، جو ” ورد یرد “ سے ” فعیل “ کے وزن پر ہے، کیونکہ خون دل دل سے اس میں واردہوتا ہے۔ ” حبل “ کا معنی بھی رگ ہے۔” حبل “ کی اضافت ” الورید “ کی طرف بیانیہ ہے، یعنی وہ رگ جو ورید ہے، جیسا کہ مسجد الجامع کی اضافت ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” گردن کی رگ مراد ہے جس میں جان پھرتی ہے دل سے دماغ تک۔ اس کے کٹنے سے موت ہے۔ “- (٣) ” ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس کے پر یب ہیں “ کیونکہ انسان کے جسم کے حصے تو ایک دوسرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے کوئی چھپ نہیں سکتی۔ مفسر ابن کثیر نے یہاں ” نحن “ سے مراد فرشتے لئے ہیں، جیسا کہ سورة واقعہ کی آیت (٨٥):(ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لاتبصرون) (اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے) میں بعض ائمہ نے فرشتوں کا قریب ہونا مراد لیا ہے۔ اگرچہ اس معنی کی بھی گنجائش ہے، مگر الفاظ کے ظاہر کا تقاضا یہی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرما رہے ہیں اور اس بات کا یقین اور احساس کہ میرا رب میری رگ جاں سے بھی زیادہ مجھ سے قریب ہے ، انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے زیادہ باز رکھنے والا اور اس سے محبت پیدا کرنے کا زیادہ باعث ہے۔ فتح البیان میں ہے، انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے زیادہ بازر رکھنے والا اور اس سے محبت پیدا کرنے کا زیادہ باعث ہے۔ فتح البیان میں ہے، قشیری نے فرمایا :’ فی ھذہ الآیۃ ھیۃ و قزع و خوف لقوم و روح و انس و سکون قلب لقوم “” اس آیت میں کچھ لوگوں کے لئے ہیبت، گھبراہٹ اور خوف کا اور کچھ لوگوں کے لئے راحت، انس اور سکون قلب کا سامان موجود ہے۔ “- (٤) قرآن مجید نے صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا بیان فرمایا ہے :(الرحمٰن علی العرش استوی) (طہ : ٥)” وہ بےحد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔ “ پھر اس کا انسان کے قریب ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ بحث ان شاء اللہ سورة حدید کی آیت (١٤) (وھو معکم این ماکنتم) میں آئے گی۔
خلاصہ تفسیر - (اوپر قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کا امکان ثابت ہوچکا ہے آگے اس کے وقوع کا بیان ہے اور وقوع موقوف ہے علم کامل اور قدرت کاملہ پر، اس لئے اول اس کو بتلاتے ہیں کہ) اور ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ( جو اعلیٰ درجہ کی دلیل ہے قدرت پر) اور اس کی جی میں جو خیالات آتے ہیں ہم ان (تک) کو (بھی) جانتے ہیں ( تو جو افعال ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے صادر ہوں ان کو جاننا تو بدرجہ اولیٰ ہے) اور (بلکہ ہم کو تو اس کے احوال کا ایسا علم ہے کہ اس کو خود بھی اپنے احوال کا ایسا علم نہیں پس باعتبار علم کے) ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ ( جس کے قطع ہونے سے انسان مر جاتا ہے، اور چونکہ لوگوں کی عام عادت میں جانور کی روح نکالنے کے لئے گردن کاٹنے ہی کا طریقہ رائج ہے، اس لئے یہ تعبیر اختیار کی گئی اور یہ گردن کی رگیں ورید اور شریان دونوں کو محتمل ہیں، مگر شریان مراد لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان میں روح غالب اور خون مغلوب رہتا ہے، اور ورید میں بالعکس اور یہاں جس کو روح میں زیادہ دخل ہو اس کا مراد لینا مناسب ہے اور سورة حاقہ میں لفظ و تین بمعنی رگ دل سے تعبیر کرنا اس کا موید ہے، کیونکہ جو رگیں دل سے نکتی ہیں وہ شرائین ہیں اور گو قرآن میں لفظ ورید ہے مگر معنی لغوی اس کے عام ہیں جس میں دل سے نکلنے والی رگیں شرائین بھی داخل ہیں اور جگر سے نکلنے والی رگیں ورید بھی، پس مطلب یہ ہوا کہ ہم باعتبار علم کے اس کی روح اور نفس سے بھی نزدیک تر ہیں، یعنی جیسا علم انسان کو اپنے احوال کا ہے ہم کو اس کا علم خود اس سے بھی زیادہ ہے، چناچہ انسان کو اپنی بہت سی حالتوں کا تو علم ہی نہیں ہوتا اور جن کا علم ہوتا ہے ان میں بھی بعض اوقات نسیان یا ان سے ذہول ہوجاتا ہے اور حق تعالیٰ میں ان احتمالات کی گنجائش ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جو علم ہر حالت میں ہو اس کا تعلق بہ نسبت اس کے کہ ایک حالت میں ہو زیادہ ہوگا، غرض علم الٰہی کا جمیع احوال انسانیہ کے ساتھ متعلق ہونا بھی ثابت ہوگیا، آگے اس کی مزید تاکید کے لئے یہ بیان فرمایا کہ انسان کے اعمال و احوال صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں محفوظ ہوں بلکہ ظاہری حجت تمام کرنے کے لئے وہ اعمال فرشتوں کے ذریعہ لکھوا کر بھی محفوظ کئے گئے، ارشاد ہے) جب دو اخذ کرنے والے فرشتے (انسان کے اعمال کو جب وہ اس سے صادر ہوتے ہیں) اخذ کرتے رہتے ہیں جو کہ داہنی اور بائیں طرف بیٹھے رہتے ہیں (اور برابر ہر عمل کو لکھتے رہتے ہیں، لقولہ تعالیٰ (آیت) ان رسلنا یکتبون ما تمکرون وقولہ تعالیٰ انا کنا نستنسخ ماکنتم تعملون۔ یہاں تک کہ سب اعمال میں خفیف انسان کی گفتگو اور کلام ہے، مگر اس کی یہ کیفیت ہے کہ) وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار (موجود ہوتا) ہے (اگر وہ نیکی کا کلام ہو تو داہنے والا اس کو ضبط اور تحریر میں لاتا ہے، اگر بدی کا کلام ہو تو بائیں والا اور جب زبان سے نکلنے والا ایک ایک کلمہ محفوظ و مکتوب ہے تو دوسرے اعمال کیوں نہ ہوں گے) اور (چونکہ آخرت کی زندگی اور اعمال کی جزا و سزا سب کا مقدمہ موت ہے، اس لئے انسان کو منتبہ کرنے کے لئے آگے اس کا ذکر ہے، کیونکہ قیامت سے انکار و حقیقت موت سے غفلت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، ارشاد ہے کہ تو ہوشیار ہوجاؤ) موت کی سختی حقیقتہ ( قریب) آپہنچی (یعنی ہر شخص کی موت قریب ہے چناچہ ظاہر ہے) یہ (موت) وہ چیز ہے جس سے تو بدکتا (اور بھاگتا) تھا (موت سے بھاگناطبعی طور پر تو ہر نیک و بد میں یکساں ہے اور کافر فاجر کا موت سے بھاگنا بوجہ حب دنیا کے اور بھی زیادہ واضح ہے، کسی خاص بندہ پر اللہ سے ملنے کے شوق کا غلبہ ہو کر موت کا لذیذ اور مطلوب ہوجانا اس کے منافی نہیں کیونکہ وہ عالم عادت انسانی سے مافوق حالت ہے) اور (اس مقدمہ یعنی ذکر موت کے بعد اب وقوع قیامت کا بیان ہے، جو کہ مقصود تھا یعنی قیامت کے دن دوبارہ) صور پھونکا جائے گا (جس سے سب زیادہ ہوجائیں گے یہی دن ہوگا وعید کا (جس سے لوگوں کو ڈرایا جاتا تھا) اور (آگے قیامت کے ہولناک واقعات اور حالات کا بیان ہے) ہر شخص اس طرح (میدان قیامت میں) آوے گا کہ اس کے ساتھ (دو فرشتے ہوں گے جن میں) ایک (تو میدان قیامت کی طرف) اس کو اپنے ہمراہ لاوے گا اور ایک (اس کے اعمال کا) گواہ ہوگا (حدیث مرفوع میں ہے کہ یہ سائق اور شہید وہی دو فرشتے ہیں جو زندگی میں انسان کے دائیں اور بائیں اس کے اعمال کو لکھتے تھے (رواہ فی الدر) اور اگر یہ حدیث موافق شرائط محدثین کے قوی نہ ہو تو احتمال ہے کہ دو فرشتے اور ہوں جیسا کہ بعض قائل ہوئے ہیں گو اس صورت میں بھی بوجہ موافقت حدیث کے راجح احتمال اول ہی ہوگا اور جب وہ میدان قیامت میں حاضر ہوں گے تو ان میں جو کافر ہوں گے ان سے خطاب ہوگا کہ) تو اس دن سے بیخبر تھا (یعنی اس کا قائل نہ تھا) سو اب ہم نے تجھ پر سے تیرا پردہ (غفلت اور انکار کا) ہٹا دیا (اور قیامت کا معائنہ کرا دیا) سو آج (تو) تیری نگاہ بڑی تیز ہے (کہ کوئی امر مانع ادراک نہیں، کاش تو دنیا میں بھی اس مانع غفلت کو رفع کردیا تو تیرے دن بھلے ہوتے) اور ( اس کے بعد) فرشتہ (کاتب اعمال) جو اس کے ساتھ رہتا تھا (اور اب بھی ایک قول پر سالق یا شاہد بن کر آیا ہے نامہ اعمال حاضر کر کے) عرض کرے گا کہ یہ وہ (روزنامچہ) ہے جو میرے پاس تیار ہے (کذا فسر ہذا القرین بالملک ابن جریج والقرین الذی یلیہ یا لشیطان رواہ فی الدر) چناچہ اس روزنامچہ کے موافق کافروں کے بارے میں دو فرشتوں کو خواہ وہ سائق و شہید مذکور ہوں یا اور دو فرشتے ہوں، حکم ہوگا کہ) ہر ایسے شخص کو جہنم میں ڈال دو جو کفر کرنے والا ہو اور (حق سے) ضد رکھتا ہو اور نیک کام سے روکتا ہو اور حد (عبدیت) سے باہر ہوجانے والا ہو اور (دین میں) شبہ پیدا کرنے والا ہو، جس نے خدا کے ساتھ دوسرا معبود تجویز کیا ہو سو ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو (جب کفار کو معلوم ہوگا کہ اب خسارہ ابدی میں پڑنے والے ہیں اس وقت اپنے بچاؤں کے واسطے گمراہ کرنے والوں کے ذمہ الزام رکھیں گے کہ ہمارا قصور نہیں ہمیں تو دوسروں نے گمراہ کیا ہے اور چونکہ ان گمراہ کرنے والوں میں شیاطین بھی داخل ہیں، اس لئے فرمایا کہ) وہ شیطان جو اس کے ساتھ رہتا تھا کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو (جبراً ) گمراہ نہیں کیا تھا جیسا کہ اس کے الزام رکھنے سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس کے اپنے اختیار کو بالکل دخل نہ ہو) لیکن ( بات یہ ہے کہ) یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں (باختیار خود) تھا ( گو اغواء میں نے بھی کیا جس میں کوئی جبر نہ تھا، اس لئے اس کی گمراہی کا اثر مجھ پر نہ ہونا چاہئے) ارشاد ہوگا کہ میرے سامنے جھگڑے کی باتیں مت کرو (کہ بےسود ہیں) اور میں تو پہلے ہی تمہارے پاس وعید بھیج چکا تھا ( کہ جو کفر کرے گا از خود یا کسی کے اغواء سے اور جو کفر کا حکم کرے گا خواہ اپنی مرضی سے یا کسی کے جبر سے سب کو جہنم کی سزا علیٰ تفاوت المراتب دوں گا سو) میرے ہاں (وہ) بات (وعید مذکور کی) نہیں بدلی جاوے گی (بلکہ تم سب دوزخ میں جھونکے جاؤ گے) اور میں (اس تجویز میں) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں (بلکہ بندوں نے خود ایسے ناشائستہ کام کئے جس کی سزا آج بھگت رہے ہیں)- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں منکرین حشر و نشر اور مردوں کے زندہ ہونے کو بعید از عقل و قیاس کہنے والوں کے شبہات کا ازالہ اس طرح کیا تھا کہ تم نے حق تعالیٰ کے علم کو اپنے علم و بصیرت پر قیاس کر رکھا ہے اس لئے یہ اشکال ہے کہ مردے کے اجزا مٹی ہو کر دنیا میں بکھرنے کے بعد ان کو کس طرح جمع کیا جاسکتا ہے، مگر حق تعالیٰ نے بتلایا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمارے علم میں ہے، ہمارے لئے ان سب کو جب چاہیں جمع کردینا کیا مشکل ہے، آیات مذکورہ میں بھی علم الٰہی کی وسعت اور ہمہ گیری کا بیان ہے کہ انسان کے اجزائے منتشرہ کا علم ہونے سے بھی زیادہ بڑی بات تو یہ ہے کہ ہم ہر انسان کے دل میں آنے والے خیالات کو بھی ہر وقت ہر حال میں جانتے ہیں اور اس کی وجہ دوسری آیت میں یہ بیان فرمائی کہ ہم انسان سے اتنے قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن جس پر اس کی زندگی کا مدار ہے وہ بھی اتنی قریب نہیں، اس لئے ہم اس کے حالات کو خود اس سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں اس کی تحقیق :- (آیت) وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ، کا جمہور مفسرین نے یہی مطلب قرار دیا ہے کہ قرب سے مراد قرب علمی اور احاطہ علمی ہے قرب مسافت مراد نہیں۔- لفظ ورید عربی زبان میں ہر جاندار کی وہ رگیں ہیں جن سے خون کا سیلان تمام بدن میں ہوتا ہے، طبی اصطلاح میں یہ دو قسم کی رگیں ہیں، ایک وہ جو جگر سے نکلتی ہیں اور خالص خون سارے بدن انسانی میں پہنچاتی ہیں، طبی اصطلاح میں صرف انہی رگوں کو ورید اور جمع کو اور دہ کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ رگیں جو حیوان کے قلب سے نکلتی ہیں اور خون کی وہ لطیف بھاپ جس کو طبی اصطلاح میں روح کہا جاتا ہے وہ اسی طرح تمام بدن انسانی میں پھیلاتی اور پہنچاتی ہیں ان کو شریان اور شرائین کہا جاتا ہے، پہلی قسم کی رگیں موٹی اور دوسری باریک ہوتی ہیں - آیت مذکورہ میں یہ ضروری نہیں کہ ورید کا لفظ طبی اصطلاح کے مطابق اس رگ کے لئے لیا جائے جو جگر سے نکلتی ہے، بلکہ قلب سے نکلنے والی رگ کو بھی لغت کے اعتبار سے ورید کہا جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں بھی ایک قسم کا خون ہی دوران کرتا ہے اور اس جگہ چونکہ مقصود آیت کا انسان کے قلبی خیالات اور احوال سے مطلع ہونا ہے، اس لئے وہ زیادہ انسب ہے اور بہرحال خواہ ورید باصطلاح طب جگر سے نکلنے والی رگ کے معنی میں ہو یا قلب سے نکلنے والی شریان کے معنی میں، بہر دو صورت جاندار کی زندگی اس پر موقوف ہے، یہ رگیں کاٹ دی جائیں تو جاندار کی روح نکل جاتی ہے، تو خلاصہ یہ ہوا کہ جس چیز پر انسان کی زندگی موقوف ہے ہم اس چیز سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں یعنی اس کی ہر چیز کا علم رکھتے ہیں - اور صوفیائے کرام کے نزدیک قرب سے مراد اس جگہ صرف قرب علمی اور احاطہ علمی ہی نہیں بلکہ ایک خاص قسم کا اتصال ہے، جس کی حقیقت اور کیفیت تو کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی، مگر یہ قرب و اتصال بلا کیف موجود ضرور ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) واسجد واقترب، یعنی ” سجدہ کرو اور ہمارے قریب ہوجاؤ “ اور ہجرت کے واقعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا اللہ معنا ” یعنی اللہ ہمارے ساتھ ہے “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے فرمایا ان معی ربی ” یعنی میرا رب میرے ساتھ ہے “ اور حدیث میں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ سجدہ میں ہو، اسی طرح حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” میرا بندہ میرے ساتھ نفلی عبادات کے ساتھ تقرب حاصل کرتا رہتا ہے “۔- یہ قرب و تقرب جو عبادات کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اور انسان کے لئے کسب و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے وہ صرف مومن کے لئے مخصوص ہے اور ایسے مومنین اولیاء اللہ کہلاتے ہیں جن کو حق تعالیٰ کے ساتھ یہ تقرب حاصل ہو یہ اتصال و قرب اس قرب کے علاوہ ہے جو حق تعالیٰ کو ہر انسان مومن و کافر کی جان کے ساتھ یکساں ہے، غرض مذکورہ آیا و روایات اس پر شاہد ہیں کہ انسان کو اپنے خالق ومالک کے ساتھ ایک خاص قسم کا اتصال حاصل ہے گو ہم اس کی حقیقت اور کیفیت کا ادراک نہ کرسکیں، مولانا رومی نے اسی کو فرمایا ہے۔- اتصالے بےمثال و بےقیاس، ہست رب الناس رابا جان ناس - یہ قرب و اتصال آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ فراست ایمانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے - تفسیر مظہری میں اسی قرب و اتصال کو اس آیت کا مفہوم قرار دیا ہے اور جمہور مفسرین کا قول پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ اتصال سے مراد اتصال علمی اور احاطہ علمی ہے اور ابن کثیر نے ان دونوں معنی سے الگ ایک تیسری تفسیر یہ اختیار کی ہے کہ آیت میں لفظ سخن سے خود حق تعالیٰ کی ذات مراد نہیں بلکہ اس کے فرشتے مراد ہیں جو انسان کے ساتھ ہر وقت رہتے ہیں، وہ انسان کی جان سے اتنے باخبر ہوتے ہیں کہ خود انسان بھی اپنی جان سے اتنا باخبر نہیں ہوتا، واللہ اعلم۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ٠ ۚ ۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ١٦- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک :- ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - وسوس - الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ.- ( وس وس ) الوسوسۃ - اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - حبل - الحَبْلُ معروف، قال عزّ وجلّ : فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] ، وشبّه به من حيث الهيئة حبل الورید وحبل العاتق، والحبل : المستطیل من الرّمل، واستعیر للوصل، ولكلّ ما يتوصّل به إلى شيء . قال عزّ وجلّ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] ، فحبله هو الذي معه التوصل به إليه من القرآن والعقل، وغیر ذلک ممّا إذا اعتصمت به أدّاك إلى جواره، ويقال للعهد حبل، وقوله تعالی: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] ، ففيه تنبيه أنّ الکافر يحتاج إلى عهدين :- عهد من الله، وهو أن يكون من أهل کتاب أنزله اللہ تعالی، وإلّا لم يقرّ علی دينه، ولم يجعل له ذمّة .- وإلى عهد من الناس يبذلونه له . والحِبَالَة خصّت بحبل الصائد، جمعها : حَبَائِل، وروي ( النّساء حبائل الشّيطان) «2» .- والمُحْتَبِل والحَابِل : صاحب الحبالة، وقیل : وقع حابلهم علی نابلهم «3» ، والحُبْلَة : اسم لما يجعل في القلادة .- ( ج ب ل ) الحبل - ۔ کے معنی رسی کے ہیں قرآن میں ہے ۔ فِي جِيدِها حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ [ المسد 5] اس کے گلے میں کھجور کی رسی ہوگی ۔ پھر چونکہ رگ بھی شکل و صورت میں رسی سے ملتی جلتی ہے اس لئے شہ رگ کو حبل الورید اور حبل العاتق کہتے ہیں اور ریت کے لمبے ٹیلے کو حبل الرمل کہاجاتا ہے ۔ استعارتا حبل کے معنی ملا دینا بھی آتے ہیں اور ہر وہ چیز جس سے دوسری چیز تک پہنچ جائے جمل کہلاتی ہے اس لئے آیت کریمہ : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] اور سب مل کر خدا کی ( ہدایت کی ) رسی کو مضبوط پکڑی رہنا ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن پاک اور عقل سلیم وغیرہما اشیاء ہیں جن کے ساتھ تمسک کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے اور عہد د پیمان کو بھی حبل کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ ما ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ [ آل عمران 112] یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت کو دیکھو کے کہ ان سے چمٹ رہی ہے بجز اس کے یہ خدا اور ( مسلمان ) لوگوں کے عہد ( معاہدہ ) میں آجائیں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کافر کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے دوقسم کے عہد و پیمان کی ضرورت ہے ایک عہد الہی اور وہ یہ ہے کہ وہ شخص اہل کتاب سے ہو اور کسی سمادی کتاب پر ایمان رکھتا ہو ۔ ورنہ اسے اس کے دین پر قائم رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اسے ذمہ اور امان مل سکتا ہے دوسرا عہدہ ہے جو لوگوں کی جانب سے اسے حاصل ہو ۔ الحبالۃ خاص کر صیاد کے پھندے کو کہا جاتا ہے اس کی جمع حبائل ہے ۔ ایک حدیث میں ہے (17) النساء حبائل الشیطان کہ عورتیں شیطان کے جال ہیں ۔ المحتبل والحابل پھندا لگانے والا ۔ ضرب المثل ہے :۔ وقع حابلھم علی ٰ نابلھم یعنی انہوں نے آپس میں شرد فساد پیدا کردیا یا ان کا اول آخر پر گھوم آیا ۔ الحبلۃ - وَرِيدُ- : عرقٌ يتّصل بالکبد والقلب، وفيه مجاري الدّم والرّوح . قال تعالی: وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] أي : من روحه . والوَرْدُ : قيل : هو من الوارِدِ ، وهو الذي يتقدم إلى الماء، وتسمیته بذلک لکونه أوّل ما يَرِدُ من ثمار السّنة، ويقال لنَوْرِ كلِّ شجرٍ : وَرْدٌ ، ويقال : وَرَّدَ الشّجرُ : خرج نَوْرُهُ ، وشبّه به لون الفرس، فقیل : فرسٌ وَرْدٌ ، وقیل في صفة السماء إذا احمرّت احمراراً کالوَرْدِ أمارةً للقیامة . قال تعالی: فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] .- الورید ۔ رگ جس کا تعلق جگر اور دل کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ خون اور روح کا مجری بنتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں ۔ یعنی اس کی روح سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ الودر اصل میں گل سرخ کو کہتے ہیں اور یہ وارد سے ہے جس کے معنی قافلے سے پہلے پانی پر آنے والا کے ہیں مشہور ہے کہ گلاب کا پھول تمام پھولوں سے پہلے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اسے قرد کہا جاتا ہے پھر ہر در خت کے پھول کو مجازا ورد کہہ دیتے ہیں چناچہ در خت کے پھولدار ہونے پر درد الشجرۃ بولا جاتا ہے پھر گھوڑے کے رنگ کو بھی گل سرخ کے ساتھ تشبیہ دے کر فرس ورد کہاجاتا ہے ۔ اور آثار قیامت کے طور پر جب آسمان سرخ ہوجائیگا تو اسے بھی قرآن نے وردۃ کہا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن 37] تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا ( تو کیسا ہولناک دن ہوگا )
اور ہم نے تمام اولاد آدم کو یا یہ کہ ابو جہل کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات آتے ہیں ہم ان کو بھی جانتے ہیں سو ہم علم اور قدرت کے اعتبار سے انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ کیونکہ اس رنگ میں انسان کو بااعتبار روح کے قریب زائد ہوتا ہے اور اس کے کاٹنے سے انسان مرجاتا ہے اور حبل اور ورید دونوں ایک ہی ہیں۔
آیت ١٦ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ۔ “- یہ اس قوت شرکا ذکر ہے جو انسان کے اندر ہے۔ نفس انسانی کے شر کا ذکر سورة یوسف میں یوں آیا ہے :- وَمَـآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓ ئِ اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ - ” اور میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا ‘ یقینا (انسان کا) نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے سوائے اس کے جس پر میرا ربّ رحم فرمائے۔ یقینا میرا ربّ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “- فطری طور پر انسان کے اندر داعیہ خیر بھی ہے اور داعیہ شر بھی۔ انسان کی اندرونی قوت شر کو سورة یوسف کی اس آیت میں ” نفس ِامارہ “ کا نام دیا گیا ہے ۔ فرائیڈ اسے یا کہتا ہے۔ دوسری طرف انسان کے اندر خیر کی قوت اس کی روح ہے جس کا مسکن قلب انسانی ہے۔ انسان کی روح اسے بلندی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ اس داعیہ یا قوت کو فرائیڈ کا نام دیتا ہے ‘ یعنی (انسانی انا) کا اعلیٰ درجہ ۔ فرائیڈ کے دیے ہوئے یہ عنوانات تو کسی حد تک ہمارے لیے قابل قبول ہیں ‘ لیکن ان عنوانات کی تشریح جو اس نے کی ہے اسے ہم درست نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اس حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ مغربی سائنسدان اور فلاسفرز سب کے سب ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ صرف ” عالم خلق “ یعنی اسباب و علل کی دنیا سے واقف ہیں اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ مادی دنیا کے اسرار و رموز کو وہ خوب سمجھتے ہیں۔ اس میدان میں انہوں نے تحقیق و تفتیش کے ایسے معیار قائم کیے ہیں کہ انسانی عقل واقعی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ” عالم امر “ کے بارے میں وہ بالکل اندھے اور کورے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں روح ‘ وحی اور فرشتے وغیرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” انسان “ کے بارے میں ان کے فلسفیانہ تجزیے اکثر درست نہیں ہوتے۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں انسان کے اندر موجود قوت شر (نفس امارہ) کا ذکر ہے کہ انسان کا نفس اسے جو پٹیاں پڑھاتا ہے اس کی تفصیلات اس کے خالق سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ - وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ۔ ” اور ہم تو اس سے اس کی رَگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ “- ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے اس قرب کی کیفیت اور نوعیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان سکتے ‘ بقول شاعر یہ قرب ” بےتکیف و بےقیاس “ ہے : ؎- اتصالے بےتکیف بےقیاس - ہست ربّ الناس را با جانِ ناس - سورة الحدید کی آیت ٤ میں بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس قرب کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے : وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ کہ تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم اس ” معیت “ کا تصور نہیں کرسکتے۔ اسی طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کا ذکر بھی ہے ‘ اس کا چہرہ کیسا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ اس کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ وہ کیسے نزول فرماتا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے معاملات میں خواہ مخواہ کا تجسس ہمیں فتنوں میں مبتلا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں آخری بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ” عالم امر “ اور اس کی کیفیات ہماری سمجھ سے وراء الوراء ہیں۔ ہم اپنے حواس خمسہ اور عقل و شعور کے ذریعے جو علم حاصل کرسکتے ہیں اس کا تعلق ” عالم خلق “ سے ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسی ” دائرے “ میں رہتے ہوئے ‘ سوچیں سمجھیں ‘ تحقیق کریں ‘ نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کو بروئے کار لائیں۔ دوسری طرف ” عالم امر “ سے متعلق جو معلومات وحی کے ذریعے ہم تک پہنچیں انہیں من وعن تسلیم کرلیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٣٦ کے الفاظ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ میں اسی طرزعمل کی طرف ہماری راہنمائی کی گئی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہمارے لیے بس یہ جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ اس قرب کی منطق اور کیفیت کے بارے میں ہمیں عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :19 آخرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہے اس آخرت کو مانو یا اس کا انکار کرو ، بہرحال اس کو آنا ہے اور یہ ایک ایسا امر واقعہ ہے جو تمہارے انکار کے باوجود پیش آکر رہے گا ۔ انبیاء کی پیشگی تنبیہ کو مان کر اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کر لو گے تو اپنا بھلا کرو گے ۔ نہ مانو گے تو خود ہی اپنی شامت بلاؤ گے ۔ تمہارے نہ ماننے سے آخرت آتے آتے رک نہیں جائے گی اور خدا کا قانون عدل معطل نہ ہو جائے گا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :20 یعنی ہماری قدرت اور ہمارے علم نے انسان کا اندر اور باہر سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ اس کی رگ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے ۔ اس کی بات سننے کے لیے ہمیں کہیں سے چل کر نہیں آنا پڑتا ، اس کے دل میں آنے والے خیالات تک کو ہم براہ راست جانتے ہیں ۔ اسی طرح اگر اسے پکڑنا ہوگا تو ہم کہیں سے آ کر اس کو نہیں پکڑیں گے ، وہ جہاں بھی ہے ہر وقت ہماری گرفت میں ہے ، جب چاہیں گے اسے دھر لیں گے ۔