ہمارے اعمال کے گواہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو رہا ہے کہ جو فرشتہ ابن آدم کے اعمال پر مقرر ہے وہ اس کے اعمال کی شہادت دے گا اور کہے گا کہ یہ ہے میرے پاس تفصیل بلا کم و کاست حاضر ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ اس فرشتے کا کلام ہو گا جسے سائق کہا گیا ہے جو اس کو محشر میں لے آیا تھا ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ وہ اس فرشتے پر بھی اور گواہی دینے والے فرشتے دونوں پہ مشتمل ہے اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے عدل و انصاف سے کرے گا ۔ ( القیا ) تثنیہ کا صیغہ ہے بعض نحوی کہتے ہیں کہ بعض عرب واحد کو ( تثنیہ ) کر دیا کرتے ہیں جیسے کہ حجاج کا مقولہ مشہور ہے کہ وہ اپنے جلاد سے کہتا تھا ( اضربا عنقہ ) تم دونوں اس کی گردن مار دو حالانکہ جلاد ایک ہی ہوتا تھا ۔ ابن جریر نے اسکی شہادت میں عربی کا ایک شعر بھی پیش کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ دراصل یہ نون تاکید ہے جس کی تسہیل الف کی طرف کر لی ہے لیکن یہ بعید ہے اس لئے کہ ایسا تو وقف کی حالت میں ہوتا ہے بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب اوپر والے دونوں فرشتوں سے ہو گا لانے والے فرشتے نے اسے حساب کے لئے پیش کیا اور گواہی دینے والے نے گواہی دے دی تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو حکم دے گا کہ اسے جہنمی آگ میں ڈال دو جو بدترین جگہ ہے اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر کافر اور ہر حق کے مخالف اور ہر حق کے نہ ادا کرنے والے اور ہر نیکی صلہ رحمی اور بھلائی سے خالی رہنے والے اور ہر حد سے گذر جانے والے خواہ وہ مال کے خرچ میں اسراف کرتا ہو خواہ بولنے اور چلنے پھرنے میں اللہ کے احکام کی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہر شک کرنے والے اور ہر اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے لئے یہی حکم ہے کہ اسے پکڑ کر سخت عذاب میں ڈال دو ۔ پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ جہنم قیامت کے دن لوگوں کے سامنے اپنی گردن نکالے گی اور باآواز بلند پکار کر کہے گی جسے تمام محشر کا مجمع سنے گا کہ میں تین قسم کے لوگوں پر مقرر کی گئی ہوں ہر سرکش حق کے مخالف کے لئے اور ہر مشرک کے لئے اور ہر تصویر بنانے والے کے لئے پھر وہ ان سب سے لپٹ جائے گی ۔ مسند کی حدیث میں تیسری قسم کے لوگ وہ بتائے ہیں جو ظالمانہ قتل کرنے والے ہوں ۔ پھر فرمایا اس کا ساتھی کہے گا اس سے مراد شیطان ہے جو اس کے ساتھ موکل تھا یہ اس کافر کو دیکھ کر اپنی برات کرے گا اور کہے گا کہ میں نے اسے نہیں بہکایا بلکہ یہ تو خود گمراہ تھا باطل کو از خود قبول کر لیتا تھا حق کا اپنے آپ مخالف تھا جیسے دوسری آیت میں ہے کہ شیطان جب دیکھے گا کہ کام ختم ہوا تو کہے گا اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تو تم پر تھا ہی نہیں میں نے تم سے کہا تم نے فوراً مان لیا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنی جانوں کو ملامت کرو نہ میں تمہیں کام دے سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو تم جو مجھے شریک بنا رہے تھے تو میں پہلے ہی سے ان کا انکاری تھا ظالموں کے لئے المناک عذاب ہیں ۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے اور اس کے ساتھی شیطان سے فرمائے گا کہ میرے سامنے نہ جھگڑو کیونکہ انسان کہہ رہا ہو گا کہ اللہ اس نے مجھے جبکہ میرے پاس نصیحت آچکی گمراہ کر دیا اور شیطان سے کہے گا اللہ میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تو اللہ انہیں تو تو میں میں سے روک دے گا اور فرمائے گا میں تو اپنی حجت ختم کر چکا رسولوں کی زبانی یہ سب باتیں تمہیں سنا چکا تھا تمہیں کتابیں بھیج دی تھیں اور ہر ہر طریقہ سے ہر طرح سے تمہیں سمجھا بھجا دیا تھا ۔ ہر شخص پر اتمام حجت ہو چکی اور ہر شخص اپنے گناہوں کا آپ ذمہ دار ہے ۔
23۔ 1 یعنی فرشتہ انسان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دے گا اور کہے گا کہ یہ تیری فرد عمل ہے کو جو میرے پاس تھی۔
[٢٧] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے کہ گواہ فرشتہ مجرم کو پیش کرکے کہے گا کہ مجرم بھی حاضر ہے اور گواہی بھی حاضر ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہانکنے والا فرشتہ اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر کہے گا کہ جو مجرم میری سپردگی میں تھا۔ پیشی کے لئے حاضر ہے۔
(وقال قرینہ ھذا مالدی عبید :” قرین “ ساتھی۔ یعنی وہ فرشتہ جو اسے ہانک کر محشر میں لانے پر مقرر تھا کہے گا، اے رب وہ مجرم جسے لانے پر تو نے مجھے مقرر فرمایا تھا یہ میرے پاس حاضری کے لئے تیار ہے اور وہ فرشتہ جو شہادت کے لئے ساتھ تھا کہے گا، اس کے متعلق جس جس شہادت کی ضرورت ہے وہ یہ ہے جو میرے پاس تیار ہے۔
(آیت) قَالَ قَرِيْنُهٗ ھٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيْدٌ، یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جو انسان کے ساتھ اس کے اعمال لکھنے کے لئے رہتا تھا اور پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ کاتب اعمال دو فرشتے ہوتے ہیں، مگر قیامت میں انسان کی حاضری کے وقت ایک کو سائق دوسرے کو شہید اس سے پہلی آیت میں فرمایا ہے، اس لئے نسق کلام سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ کاتب اعمال دو فرشتوں کو میدان حشر میں اس کی حاضری کے وقت دو کام سپرد کردیئے گئے ہیں ایک کے ذمہ اس کے پیچھے رہ کر اس کو میدان حشر میں پہنچانا لگایا گیا، جس کو آیت میں سائق کا نام دیا گیا ہے دوسرے کے سپرد اس کے نامہ اعمال کردیئے گئے جس کو شہید کے نام سے تعبیر کیا گیا، تو میدان حشر میں پہنچنے کے بعد نامہ اعمال والا فرشتہ یعنی شہید یہ عرض کرے گا ھٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيْدٌ یعنی اس کے اعمال میرے پاس لکھے ہوئے موجود ہیں اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں لفظ ” قرین “ سائق اور شہید دونوں کو شامل ہے۔
وَقَالَ قَرِيْنُہٗ ھٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيْدٌ ٢٣ ۭ - قرین - الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] .- يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] .- ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔- عتد - العَتَادُ : ادّخار الشیء قبل الحاجة إليه كالإعداد، والعَتِيدُ : المُعِدُّ والمُعَدُّ. قال تعالی: هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] ، رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، أي : مُعْتَدٌّ أعمالَ العباد، وقوله : أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ،.- ( ع ت د ) العتاد - ضرورت کی چیزوں کا پہلے سے ذخیرہ کرلینا اور یہی معنی اعداد کے ہیں عتید ( اسم فاعل ) تیار کرنے والا ( اسم مفعول ) تیار کی ہوئی چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] یہ ( اعمال نامہ ) میرے سامنے حاضر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] میں عتید کے معنی ہیں وہ فرشتہ لوگوں کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ان کے لئے درد انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
آیت ٢٣ وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہٰذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌ ۔ ” اور اس کا ساتھی کہے گا : (پروردگار ) یہ جو میری تحویل میں تھا ‘ حاضر ہے “- کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں ” ساتھی “ سے فرشتہ مراد ہے ‘ لیکن میں ان لوگوں سے متفق ہوں جو اس سے شیطان مراد لیتے ہیں۔ دراصل خیر اور شر کی قوتیں انسان کے اندر بھی موجود ہیں اور خارج میں بھی۔ اندر سے انسان کا نفس اسے برائی پر ابھارتا ہے ‘ جبکہ خارج میں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان بھی مامور ہے جو اس کے نفس میں ہر وقت وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے اندر اس کی روح ” داعی ٔ خیر “ کے طور پر موجود ہے جبکہ خارج میں اس حوالے سے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں۔ سورة حٰمٓ السجدۃ کی آیات ٣٠ اور ٣١ میں ان فرشتوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں جو نیکی کے کاموں میں انسان کی پشت پناہی کرتے ہیں : نَحْنُ اَوْلِیٰٓــؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج ۔ فرشتوں کی معیت کے باعث ہی کوئی نیک کام کر کے ہمیں خوشی اور طمانیت محسوس ہوتی ہے ۔ ایسے مواقع پر فرشتے دراصل ہمیں بشارت اور شاباش دے رہے ہوتے ہیں جس کے اثرات ہماری روح پر طمانیت کی صورت میں مرتب ہوتے ہیں۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :27 بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ساتھی سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے آیت نمبر 21 میں گواہی دینے والا فرمایا گیا ہے ۔ وہ کہے گا کہ یہ اس شخص کا نامۂ اعمال میرے پاس تیار ہے ۔ کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ ساتھی سے مراد وہ شیطان ہے جو دنیا میں اس شخص کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔ وہ عرض کرے گا کہ یہ شخص جس کو میں نے اپنے قابو میں کر کے جہنم کے لیے تیار کیا تھا اب آپ کی خدمت میں حاضر ہے ۔ مگر سیاق و سباق سے زیادہ مناسبت رکھنے والی تفسیر وہ ہے جو قتادہ اور ابن زید سے منقول ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ساتھی سے مراد ہانک کر لانے والا فرشتہ ہے اور وہی عدالت الٰہی میں پہنچ کر عرض کرے گا کہ یہ شخص جو میری سپردگی میں تھا سرکار کی پیشی میں حاضر ہے ۔
8: ساتھی سے مراد وہی فرشتہ ہے جو ہر وقت اِنسان کے ساتھ رہ کر اُس کے اعمال کو لکھا کرتا تھا، اور قبر سے اُس کے ساتھ گواہ بن کر آیا تھا۔