Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٨] یعنی وہ خود ہی کفر کے جرم کا مرتکب نہ تھا۔ بلکہ رسولوں کی تعلیم سے عناد بھی رکھتا تھا۔ اور اسلام کی راہ روکنے کے لئے معاندانہ سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

القیافی جھنم کل کفار عبید…: اللہ تعالیٰ ان دونوں فرشتوں سے فرمائے گا کہ ہر ایسے شخص کو جہنم میں پھینک دو جو سخت نا شکرا ، بہت عناد رکھنے والا، خیر کو بہت روکنے والا، حد سے گزرنے والا اور شک کرنے والا ہے جس نے اللہ کے ساتھ اور معبود بنا رکھا تھا، سو اسے شدید عذاب میں پھینک دو ۔ اس میں اسے جہنم میں پھینکنے کے فیصلے کے ساتھ اس فیصلے کی وجہ اور اس کے دلائل بھی بیان فرما دیئے ہیں اور یہ بھی کہ صرف ایک کو نہیں بلکہ ان جرائم کے مرتکب تمام مجرموں کو جہنم میں پھینک دو ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَلْقِيَا فِيْ جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ ، لفظ القیا تثنیہ کا صیغہ ہے جو دو شخصوں کے لئے بولا جاتا ہے اس آیت میں جن دو فرشتوں کو خطاب ہے وہ کون ہیں، ظاہر یہ ہے کہ یہی دو فرشتے جن کو پہلے سائق اور شہید کہا گیا ہے اس کے مخاطب ہیں، بعض حضرات مفسرین نے دوسری توجیہات بھی لکھی ہیں ( از ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَلْقِيَا فِيْ جَہَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيْدٍ۝ ٢٤ ۙ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- عَنِيدُ- : المعجب بما عنده، والمُعَانِدُ : المباهي بما عنده . قال : كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ [ ق 24] ، إِنَّهُ كانَ لِآياتِنا عَنِيداً [ المدثر 16] ، والْعَنُودُ قيل مثله، قال : لکن بينهما فرق، لأنّ العَنِيدَ الذي يُعَانِدُ ويخالف، والْعَنُودُ الذي يَعْنُدُ عن القصد، قال : ويقال : بعیر عَنُودٌ ولا يقال عَنِيدٌ. وأما العُنَّدُ فجمعُ عَانِدٍ ، وجمع الْعَنُودِ : عَنَدَةٌ ، وجمعُ الْعَنِيدِ : عِنَدٌ. وقال بعضهم : العُنُودُ : هو العدول عن الطریق لکن العَنُودُ خصّ بالعادل عن الطریق المحسوس، والعَنِيدُ بالعادل عن الطریق في الحکم، وعَنَدَ عن الطریق : عدل عنه، وقیل : عَانَدَ لَازَمَ ، وعَانَدَ : فارَقَ ، وکلاهما من عَنَدَ لکن باعتبارین مختلفین کقولهم : البین، في الوصل والهجر باعتبارین مختلفین .- ( ع ن د ) العنید کے معنی المعجب بما عندہ کے معنی جو کچھ اس کے پا س ہے اس پر اترانے والا ۔ اور معاند اسے کہتے ہیں جسے جو کچھ اس کے پا س ہے اس پر فخر ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ [ ق 24] ہر سرکش ناشکرے کو ۔ إِنَّهُ كانَ لِآياتِنا عَنِيداً [ المدثر 16] یہ ہماری آیتوں کا دشمن رہا ہے ۔ بعض کے نزدیک العنود کے بھی یہی معنی ہیں صرف ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ عنید اسے کہتے ہیں جود حق سے ) عناد رکھے اور اس کی ) مخالفت کرے اور عنود وہ ہے جو صحیح راہ سے ہٹ جائے اس لئے بعیر عنود ( وہ اونٹ جو صحیح راہ سے ہٹ کر چلے ) تو بولتے ہیں مگر عنید نہیں کہتے اور عند عاند کی جمع ہے اور عنود کی جمع عندۃ اور عنید کی جمع عند آتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ العنود کے معنی راستہ سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں ۔ لیکن عنود خاص کر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو حسی راستہ سے ہٹ جائے اور عنید وہ ہے جو حکمی راہ سے ہٹا ہوا ہو عند عن الطریق اس نے راستہ سے عدول کیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ عاند کے معنی کسی کو لازم پکڑتابھی آتے ہیں اور اس سے الگ ہونا بھی اور یہ دونوں دو مختلف اعتبار سے مشتق ہیں جیسا کہ البین کا لفظ دو مختلف اعتباروں سے وصل کے معنی بھی دیتا ہے اور جب جدائی کے بھی ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤۔ ٢٦) حکم الہی ہوگا ہر ایسے شخص مثلا ولید بن مغیرہ مخزومی کو دوزخ میں ڈال دو جو کہ کفر کرنے والا اور ایمان سے اعراض کرنے والا ہو اور اپنی اولاد در اولاد اور رشتہ داروں کو ایمان لانے سے روکتا ہو دھوکا باز اور ظالم ہو شبہ پیدا کرنے والا ہو اللہ تعالیٰ پر بہتان لگانے والا ہو جس نے معاذ اللہ اللہ کے لیے اولاد اور شریک تجویز کیا ہو پھر اس کاتب اعمال کو حکم ہوگا کہ ایسے شخص کو سخت عذاب میں ڈال دو ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ ” (اللہ تعالیٰ فرمائے گا) جھونک دو جہنم میں ہر ناشکرے سرکش کو۔ “ یہ حکم گویا اس انسان اور اس کے ساتھی شیطان دونوں کے لیے ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :28 اصل الفاظ میں اَلْقِیَا فِیْ جَھَنَّمَ ، پھینک دو جہنم میں تم دونوں ۔ سلسلہ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ حکم ان دونوں فرشتوں کو دیا جائے گا جنہوں نے مرقد سے اٹھتے ہی مجرم کو گرفتار کیا تھا اور لا کر عدالت میں حاضر کر دیا تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ کَفَّار استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، سخت ناشکرا ۔ دوسرے سخت منکر حق ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: یعنی ان دونوں فرشتوں سے کہا جائے گا جو اس کے ساتھ آئے تھے۔