[٢٩] یر کے معنی مال و دولت بھی ہے اور بھلائی بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا تھا نہ اللہ کے حقوق ادا کرتا تھا اور نہ اس کے بندوں کے۔ بس ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے میں ہی مصروف رہتا تھا۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف خود ہی بھلائی کے کاموں سے رکا رہتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی روکتا رہتا تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دنیا میں بھلائی کہیں پھیلنے نہ پائے۔- [٣٠] یعنی اپنی ذاتی اغراض اور خواہشات کی خاطر تمام اخلاقی اور قانونی حدود کو توڑنے والا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا، جائز و ناجائز طریقوں سے مال سمیٹتا اور اچھے کام کرنے والوں کو ستاتا تھا۔- [٣١] شک کا لفظ یقین اور ایمان کے مقابلہ میں آیا ہے۔ یعنی جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان سب باتوں میں شک میں پڑا ہوا تھا۔ پھر اس شک کے جراثیم دوسروں میں بھی پھیلا رہا تھا۔ جس شخص سے اسے سابقہ پڑتا اس کے دل میں کوئی نہ کوئی شک اور وسوسہ ڈال دیتا تھا۔
مَّنَّاعٍ لِّــلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيْبِۨ ٢٥ ۙ- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- عتد - العَتَادُ : ادّخار الشیء قبل الحاجة إليه كالإعداد، والعَتِيدُ : المُعِدُّ والمُعَدُّ. قال تعالی: هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] ، رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] ، أي : مُعْتَدٌّ أعمالَ العباد، وقوله : أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ،.- ( ع ت د ) العتاد - ضرورت کی چیزوں کا پہلے سے ذخیرہ کرلینا اور یہی معنی اعداد کے ہیں عتید ( اسم فاعل ) تیار کرنے والا ( اسم مفعول ) تیار کی ہوئی چیز ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا ما لَدَيَّ عَتِيدٌ [ ق 23] یہ ( اعمال نامہ ) میرے سامنے حاضر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ ق 18] میں عتید کے معنی ہیں وہ فرشتہ لوگوں کے اعمال لکھنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ان کے لئے درد انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔
آیت ٢٥ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبِ ۔ ” جو خیر سے روکنے والا ‘ حد سے بڑھنے والا اور شکوک و شبہات میں مبتلا رہنے والا ہے۔ “
سورة قٓ حاشیہ نمبر :30 خیر کا لفظ عربی زبان میں مال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بھلائی کے لیے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کسی کا حق ادا نہ کرتا تھا ۔ نہ خدا کا نہ بندوں کا ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ بھلائی کے راستے سے خود ہی رک جانے پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتا تھا ۔ دنیا میں خیر کے لیے سدِّ راہ بنا ہوا تھا ۔ اپنی ساری قوتیں اس کام میں صرف کر رہا تھا کہ نیکی کسی طرح پھیلنے نہ پائے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :31 یعنی اپنے ہر کام میں اخلاق کی حدیں توڑ دینے والا تھا ۔ اپنے مفاد اور اپنی اغراض اور خواہشات کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھا ۔ حرام طریقوں سے مال سمیٹتا اور حرام راستوں میں صرف کرتا تھا ۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا تھا ۔ نہ اس کی زبان کسی حد کی پابند تھی نہ اس کے ہاتھ کسی ظلم اور زیادتی سے رکتے تھے ۔ بھلائی کے راستے میں صرف رکاوٹیں ڈالنے ہی پر بس نہ کرتا تھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بھلائی اختیار کرنے والوں کو ستاتا تھا اور بھلائی کے لیے کام کرنے والوں پر ستم ڈھاتا تھا ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :32 اصل میں لفظ مُرِیْب استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں ۔ ایک ، شک کرنے والا ۔ دوسرے ، شک میں ڈالنے والا ۔ اور دونوں ہی معنی یہاں مراد ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ خود شک میں پڑا ہوا تھا اور دوسروں کے دلوں میں شکوک ڈالتا تھا ۔ اس کے نزدیک اللہ اور آخرت اور ملائکہ اور رسالت اور وحی ، غرض دین کی سب صداقتیں مشکوک تھیں ۔ حق کی جو بات بھی انبیاء کی طرف سے پیش کی جاتی تھی اس کے خیال میں وہ قابل یقین نہ تھی ۔ اور یہی بیماری وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو لگاتا پھرتا تھا ۔ جس شخص سے بھی اس کو سابقہ پیش آتا اس کے دل میں وہ کوئی نہ کوئی شک اور کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتا ۔