Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 یعنی اہل ایمان جب جنت کا اور اس کی نعمتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا وعدہ ہر اواب اور حفیظ سے کیا گیا تھا اواب، بہت رجوع کرنے والا یعنی اللہ کی (طرف کثرت سے توبہ استغفار اور تسبیح و ذکر الٰہی کرنے والا خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے توبہ کرنے والا، یا اللہ کے حقوق اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا یا اللہ کے اوامر نواہی کو یاد رکھنے والا گیا تھا۔ فتح القدیر

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٧] یعنی ایسا شخص جس کا معمول ہی یہ بن گیا ہو کہ اپنے ہر قسم کے حالات میں اللہ ہی کی طرف رجوع کرے اور اللہ کی رضا کے مطابق ہی عمل کرے۔- [٣٨] اس میں ہر قسم کی حفاظت اور محافظت شامل ہے۔ یعنی اپنے عہد و پیمان کی محافظت کرنے والا خواہ یہ عہد اللہ سے ہو یا لوگوں سے۔ نیز اپنی نمازوں کی نگہداشت کرنے والا ہو۔ حدود اللہ کا دھیان رکھنے والا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(ھذا ما توعدون لکل اواب حفیظ :” اواب “ ” اب یووب اوباً “ (ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے بہت رجوع کرنے والا ، جو ہر معاملے میں اللہ کی طرف بہت رجوع کرے اور کوئی قدم اپنی خواہش کی بنا پر نہ اٹھائے، اسی طرح ہر لغزش کے بعد اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ و استغفار کرے۔ ” حفیظ “ جو اللہ کے احکامات کی خوب حفاظت اور پابندی کرنے والا ہو۔ یعنی جنتیوں سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ جنت جس کا تم سے ہر ایسے شخص کے لئے وعدہ کیا جاتا تھا جو اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والا، اس کے احکام کی خوب پابندی کرنے والا ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - اواب کون لوگ ہیں ؟- لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍ ، یعنی جنت کا وعدہ ہر اس شخص کے لئے ہے جو اواب اور حفیظ ہو، اواب کے معنی رجوع ہونے والے کے ہیں، مراد وہ شخص ہے جو معاصی سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ - حضرت عبداللہ بن مسعود اور شعبی اور مجاہد نے فرمایا کہ اواب وہ شخص ہے جو خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کرے اور ان سے استغفار کرے اور حضرت عبید بن عمیر نے فرمایا کہ اواب وہ شخص ہے جو اپنی ہر مجلس اور ہر نشست میں اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگے اور فرمایا کہ ہمیں یہ بتلایا گیا ہے کہ اواب اور حفیظ وہ شخص ہے جو اپنی ہر مجلس سے اٹھنے کے وقت یہ دعا پڑھے، سبحان اللہ وبحمدہ اللھم انی استغفرک مما اصبت فی مجلسی ھذا ( پاک ہے اللہ اور اسی کی حمد ہے، یا اللہ میں مغفرت مانگتا ہوں اس برائی سے جو میں نے اس مجلس میں کی ہو)- اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اپنی مجلس سے اٹھنے کے وقت یہ دعا پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے وہ سب گناہ معاف فرما دیں گے جو اس مجلس میں سرزد ہوئے، دعا یہ ہے - سبحانک اللھم وبحمدک لآ الہ الا انت استغفرک واتوب الیک ( یعنی یا اللہ تو پاک ہے اور تیری حمد و ثنا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں - اور حفیظ کے معنی حضرت ابن عباس نے یہ بتلائے کہ جو شخص اپنے گناہوں کو یاد رکھے تاکہ ان سے رجوع کر کے تلافی کرے اور ان سے ایک روایت میں حفیظ کے معنی ہوالحافظ لامر اللہ کے بھی منقول ہیں، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کو یاد رکھے اور حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص شروع دن میں چار رکعتیں (اشراق کی) پڑھ لے وہ اواب اور حفیظ ہے (قرطبی )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِيْظٍ۝ ٣٢ ۚ- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - أوَّاب - کالتوّاب، وهو الراجع إلى اللہ تعالیٰ بترک المعاصي وفعل الطاعات، قال تعالی: أَوَّابٍ حَفِيظٍ [ ق 32] ، وقال : إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 30] ومنه قيل للتوبة : أَوْبَة، والتأويب يقال في سير النهار وقیل : آبت يد الرّامي إلى السهم وذلک فعل الرامي في الحقیقة وإن کان منسوبا إلى الید، ولا ينقض ما قدّمناه من أنّ ذلک رجوع بإرادة واختیار، وکذا ناقة أَؤُوب : سریعة رجع الیدین .- الاواب - ۔ یہ تواب کی ( صیغہ مبالغہ ) ہے یعنی وہ شخص جو معاصی کے ترک اور فعل طاعت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ ( سورة ق 32) ۔ یعنی ہر رجوع لانے اور حفاظت کرنے والے کے لئے (50 ۔ 320) ( سورة ص 17 - 44) بیشک وہ رجوع کرنے والے تھے ۔ اسی سے اوبۃ بمعنی توبہ بولا جاتا ہے - حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٣٥) اور ان سے کہا جائے گا یہ فضیلت وہ ہے جس کا تم سے دنیا میں اس طرح وعدہ کیا جاتا تھا کہ یہ ہر ایسے شخص کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کی اطاع کی طرف رجوع ہونے والا ہو اور خلوت میں احکام خداوندی یا یہ کہ نمازوں کی پابندی کرنے والا ہو، غرض کہ جو شخص اللہ کی بغیر دیکھے عبادت کرتا ہوگا اور اللہ کے پاس خلوص والی عبادت اور توحید لے کر آئے گا ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جنت میں عذاب سے مامون و مطمئن ہو کر داخل ہوجاؤ۔- اور اہل جنت، جنت میں ہمیشہ رہیں گے ان کو جنت میں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے اور ان کو دیدار خداوندی بھی نصیب ہوگا یا یہ کہ ہر ایک دن اور ہر گھڑی پر ان کے ثواب اور فضیلت میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ ” (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جس کا وعدہ تم لوگوں سے کیا جاتا تھا “- لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ ۔ ” ہر اس شخص کے لیے جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہو۔ “- یعنی اس امانت کی حفاظت کرنے والا جو ہم نے اس کے سپرد کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جو روح پھونکی ہے وہ اس کے پاس اللہ کی امانت ہے ‘ جیسا کہ سورة الاحزاب کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے : اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُط (آیت ٧٢) ” ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر تو ان سب نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا “۔ چناچہ ” حَفِیْظ “ سے ایسا شخص مراد ہے جس نے اس امانت کا حق ادا کیا اور اپنی روح کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھا۔ سورة الشعراء میں ایسی محفوظ اور پاکیزہ روح کو ” قلب سلیم “ کا نام دیا گیا ہے : یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ۔ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۔ ” جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔ سوائے اس کے جو آئے اللہ کے پاس قلب ِسلیم لے کر “۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورة الاحزاب کی آیت ٧٢ کی تشریح۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :40 اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کر لیا ہو ، جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے ، اور ہر اس چیز کو اختیار کر لے جو اللہ کو پسند ہے ، جو راہ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اٹھے اور توبہ کر کے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے ، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اس کی طرف رجوع کرنے والا ہو ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :41 اصل میں لفظ حفیظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں حفاظت کرنے والا ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اسے کے فرائض اور اس کی حرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے ، جو ان حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں ، جو اس عہد و پیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لا کر اس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو ، جو توبہ کر کے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے ، جو ہر وقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: اس بات کی نگرانی کہ میرا کوئی کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔