Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 اور بعض نے کہا ہے کہ قیامت جس روز جنت قریب کردی جائے گے دور نہیں ہے کیونکہ وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی اور کل ما ہوات فھو قریب اور جو بھی آنے والی چیز ہے وہ قریب ہی ہے دور نہیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] جنت اور دوزخ کا باہمی مکالمہ :۔ جن پرہیزگاروں کے حق میں جنت کا فیصلہ ہوجائے گا وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے جنت کو زینت اور گونا گوں نعمتوں سے آراستہ و پیراستہ دیکھ لیں گے اور اس کی خوشگوار خوشبوئیں محسوس کرنے لگیں گے اگر فاصلہ زیادہ بھی ہوگا تو اسے سمٹا کر جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا۔ جنت میں کیسے لوگ داخل ہوں گے اور دوزخ میں کیسے ؟ یہ مندرجہ ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جنت اور دوزخ آپس میں تکرار کرنے لگیں۔ دوزخ نے کہا کہ مجھ میں وہ لوگ آئیں گے جو متکبر اور جابر ہیں اور جنت کہے گی کہ مجھ میں تو کمزور اور ناتواں قسم کے لوگ داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا : تو میری رحمت ہے، میں تیری وجہ سے اپنے جن بندوں پر چاہوں گا رحمت کروں گا اور دوزخ سے فرمایا : تو میرا عذاب ہے، میں تیری وجہ سے اپنے جن بندوں کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور ان میں سے ہر ایک کو بھر دیا جائے گا۔ دوزخ تو کسی طرح نہیں بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس پر رکھ دے گا۔ تب وہ کہے گی کہ بس بس، اور بھر کر سمٹ جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا۔ رہی جنت تو اسے پر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اور خلقت پیدا کر دے گا (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(واز لقت الجنۃ للمتقین غیر بعید : قرآن کے عام اسلوب کے مطابق جہنمیوں کے ساتھ اہل جنت کا ذکر بھی فرمایا۔ یعنی متفی لوگوں کی تکریم کے لئے جنت ان کے قریب لائی جائے گی، تاکہ انہیں چلنے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑے ۔- ” غیر بعید ‘ ‘ کا لفظ تاکید کے لئے ہے ، جیسے فرمایا :(واصل فرعون قومہ وما ھدی) (طہ : ٨٩)” اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور سیدھے راستے پر نہ ڈالا۔ “ اور رسول اللہ ں نے بارش کی دعا میں فرمایا :(نافعاً غیر ضار عاجلاً غیر اجل) (ابو داؤد، صلاۃ الاستسقاء باب رفع الیدین فی الستسقاء : ١١٦٩)”(اے اللہ وہ بارش ، نفع آور ہو، کسی ضرر کا باعث نہ بنے اور جلدی آئے ، دیر نہ کرے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِيْنَ غَيْرَ بَعِيْدٍ۝ ٣١- زلف - الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] - وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] - ( ز ل ف ) الزلفۃ - اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- تَّقْوَى- والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا - [ النحل 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ ۔ ” اور جنت قریب لائی جائے گی اہل تقویٰ کے لیے ‘ کچھ بھی دور نہیں ہوگی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :39 یعنی جونہی کسی شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کی عدالت سے یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے ، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا ۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پاؤں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہو وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخول جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو ۔ بلکہ ادھر فیصلہ ہوا اور ادھر متقی جنت میں داخل ہو گیا ۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہے بلکہ خود جنت ہی اٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے ۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے ۔ جلدی اور دیر اور دوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani