Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

متکبر اور متجبر کا ٹھکانہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا جہنم سے وعدہ ہے کہ اسے پر کر دے گا اس لئے قیامت کے دن جو جنات اور انسان اس کے قابل ہوں گے انہیں اس میں ڈال دیا جائے اور اللہ تبارک وتعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ اب تو تو پر ہو گئی ؟ اور یہ کہے گی کہ اگر کچھ اور گنہگار باقی ہوں تو انہیں بھی مجھ میں ڈال دو ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں گنہگار ڈالے جائیں گے اور وہ زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا پس وہ کہے گی بس بس ۔ مسند احمد کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس وقت یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی تیری عزت و کرم کی قسم بس بس اور جنت میں جگہ بچ جائے گی یہاں تک کہ ایک مخلوق پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اس جگہ کو آباد کرے گا ، صحیح بخاری میں ہے جنت اور دوزخ میں ایک مرتبہ گفتگو ہوئی جہنم نے کہا کہ میں ہر متکبر اور ہر متجبر کے لئے مقرر کی گئی ہوں اور جنت نے کہا میرا یہ حال ہے کہ مجھ میں کمزور لوگ اور وہ لوگ جو دنیا میں ذی عزت نہ سمجھے جاتے تھے وہ داخل ہوں گے اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا اس رحمت کے ساتھ نواز دوں گا اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے تیرے ساتھ میں جسے چاہوں گا عذاب کروں گا ۔ ہاں تم دونوں بالکل بھر جاؤ گی تو جہنم تو نہ بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا اب وہ کہے گی بس بس بس ۔ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کے سب جوڑ آپس میں سمٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت میں جو جگہ بچ رہے گی اس کے بھرنے کے لئے اللہ عزوجل اور مخلوق پیدا کرے گا مسند احمد کی حدیث میں جہنم کا قول یہ ہے کہ مجھ میں جبر کرنے والے تکبر کرنے والا بادشاہ اور شریف لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا مجھ میں کمزور ضعیف فقیر مسکین داخل ہوں گے مسند ابو یعلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذات قیامت کے دن دکھائے گا ۔ میں سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو گا پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریفیں کروں گا کہ وہ اس سے خوش ہو جائے گا پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی پھر میری امت جہنم کے اوپر کے پل سے گذرنے لگے گی بعض تو نگاہ کی سی تیزی سے گزر جائیں گے بعض تیر کی طرح پار ہو جائیں گے بعض تیز گھوڑوں سے زیادہ تیزی سے پار ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک شخص گھٹنوں چلتا ہوا گذر جائے گا اور یہ مطابق اعمال ہو گا اور جہنم زیادتی طلب کر رہی ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا پس یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی بس بس اور میں حوض میں ہوں گا ۔ لوگوں نے کہا حوض کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی قسم اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس پر برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں جسے اس کا پانی مل گیا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا اسے کہیں سے پانی نہیں ملے گا جو سیراب کر سکے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں کوئی مکان ہے کہ مجھ میں زیادتی کی جائے؟ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں ایک کے بھی آنے کی جگہ ہے ؟ میں بھر گئی ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس میں جہنمی ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ وہ کہے گی میں بھر گئی اور کہے گی کہ کیا مجھ میں زیادہ کی گنجائش ہے ؟ امام ابن جریر پہلے قول کو ہی اختیار کرتے ہیں اس دوسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ گویا ان بزرگوں کے نزدیک یہ سوال اس کے بعد ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے اب جو اس سے پوچھے گا کہ کیا تو بھر گئی تو وہ جواب دے گی کہ کیا مجھ میں کہیں بھی کوئی جگہ باقی رہی ہے جس میں کوئی آسکے ؟ یعنی باقی نہیں رہی پر ہو گئی ۔ حضرت عوفی حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ اس میں سوئی کے ناکے کے برابر بھی جگہ باقی نہ رہے گی ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے جنت قریب کی جائے گی یعنی قیامت کے دن جو دور نہیں ہے اس لئے کہ جس کا آنا یقینی ہو وہ دور نہیں سمجھا جاتا ۔ ( اواب ) کے معنی رجوع کرنے والا ، توبہ کرنے والا ، گناہوں سے رک جانے والا ۔ ( حفیظ ) کے معنی وعدوں کا پابند ۔ حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں ( اواب حفیظ ) وہ ہے جو کسی مجلس میں بیٹھ کر نہ اٹھے جب تک کہ استغفار نہ کر لے ۔ جو رحمان سے بن دیکھے ڈرتا رہے یعنی تنہائی میں بھی خوف اللہ رکھے ۔ حدیث میں ہے وہ بھی قیامت کے دن عرش اللہ کا سایہ پائے گا جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں بہ نکلیں اور قیامت کے دن اللہ کے پاس دل سلامت لے کر جائے ۔ جو اس کی جانب جھکنے والا ہو ۔ اس میں یعنی جنت میں چلے جاؤ اللہ کے تمام عذابوں سے تمہیں سلامتی مل گئی اور یہ بھی مطلب ہے کہ فرشتے ان پر سلام کریں گے یہ خلود کا دن ہے ۔ یعنی جنت میں ہمیشہ کے لئے جا رہے ہو جہاں کبھی موت نہیں ۔ یہاں سے کبھی نکال دئیے جانے کا خطرہ نہیں جہاں سے تبدیلی اور ہیر پھیر نہیں ۔ پھر فرمایا یہ وہاں جو چاہیں گے پائیں گے بلکہ اور زیادہ بھی ۔ کثیر بن مرہ فرماتے ہیں مزید یہ بھی کہ اہل جنت کے پاس سے ایک بادل گذرے گا جس میں سے ندا آئے گی کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ جو تم چاہو میں برساؤں ، پس یہ جس چیز کی خواہش کریں گے اس سے برسے گی حضرت کثیر فرماتے ہیں اگر میں اس مرتبہ پر پہنچا اور مجھ سے سوال ہوا تو میں کہوں گا کہ خوبصورت خوش لباس نوجوان کنواریاں برسائی جائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارا جی جس پرند کو کھانے کو چاہے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا موجود ہو جائے گا مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ اگر جنتی اولاد چاہے گا تو ایک ہی ساعت میں حمل اور بچہ اور بچے کی جوانی ہو جائے گی ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں اور ترمذی میں یہ بھی ہے کہ جس طرح یہ چاہے گا ہو جائے گا اور آیت میں ہے آیت ( للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ ) صہیب بن سنان رومی فرماتے ہیں اس زیادتی سے مراد اللہ کریم کے چہرے کی زیارت ہے ۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن انہیں دیدار باری تعالیٰ ہو گا یہی مطلب مزید کا ہے ۔ مسند شافعی میں ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک سفید آئینہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جس کے بیچوں بیچ ایک نکتہ تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ جمہ کا دن ہے جو خاص آپ کو اور آپ کی امت کو بطور فضیلت کے عطا فرمایا گیا ہے ۔ سب لوگ اس میں تمہارے پیچھے ہیں یہود بھی اور نصاریٰ بھی تمہارے لئے اس میں بہت کچھ خیر و برکت ہے اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے گا مل جاتا ہے ہمارے یہاں اس کا نام یوم المزید ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ فرمایا تیرے رب نے جنت الفردوس میں ایک کشادہ میدان بنایا ہے جس میں مشکی ٹیلے ہیں جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ جن جن فرشتوں کو چاہے اتارتا ہے اس کے اردگرد نوری منبر ہوتے ہیں جن پر انبیاء علیہ السلام رونق افروز ہوتے ہیں یہ منبر سونے کے ہیں جس پر جڑاؤ جڑے ہوئے ہیں شہداء اور صدیق لوگ ان کے پیچھے ان مشکی ٹیلوں پر ہوں گے ۔ اللہ عزوجل فرمائے گا میں نے اپنا وعدہ تم سے سچا کیا اب مجھ سے جو چاہو مانگو پاؤ گے ۔ یہ سب کہیں گے ہمیں تیری خوشی اور رضامندی مطلوب ہے اللہ فرمائے گا یہ تو میں تمہیں دے چکا میں تم سے راضی ہو گیا اس کے سوا بھی تم جو چاہو گے پاؤ گے اور میرے پاس اور زیادہ ہے ۔ پس یہ لوگ جمعہ کے خواہش مند رہیں گے کیونکہ انہیں بہت سی نعمتیں اسی دن ملتی ہیں یہی دن ہے جس دن تمہارا رب عرش پر مستوی ہوا اسی دن حضرت آدم پیدا کئے گئے اور اسی دن قیامت آئے گی اسی طرح اسے حضرت امام شافعی نے کتاب الام کی کتاب الجمعہ میں بھی وارد کیا ہے امام ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ایک بہت بڑا اثر وارد کیا ہے جس میں بہت سی باتیں غریب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی ستر سال تک ایک ہی طرف متوجہ بیٹھا رہے گا پھر ایک حور آئے گی جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرے گی وہ اتنی خوبصورت ہو گی کہ اس کے رخسار میں اسے اپنی شکل اس طرح نظر آئے گی جیسے آب دار آئینے میں وہ جو زیورات پہنے ہوئے ہو گی ان میں کا ایک ایک ادنیٰ موتی ایسا ہو گا کہ اس کی جوت سے ساری دنیا منور ہو جائے وہ سلام کرے گی یہ جواب دے کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گی میں ہوں جسے قرآن میں مزید کہا گیا تھا ۔ اس پر ستر حلے ہوں گے لیکن تاہم اس کی خوبصورتی اور چمک دمک اور صفائی کی وجہ سے باہر ہی سے اس کی پنڈلی کا گودا تک نظر آئے گا اس کے سر پر جڑاؤ تاج ہو گا جس کا ادنیٰ موتی مشرق مغرب کو روشن کر دینے کے لئے کافی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ( لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ 13؀) 32 ۔ السجدہ :13) ۔ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا اس وعدے کا جب ایفا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جن و انس کو جہنم میں ڈال دے گا، تو جہنم سے پوچھے گا کہ تو بھر گئی ہے یا نہیں ؟ وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے ؟ یعنی اگرچہ بھر گئی ہوں لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لئے میرے دامن اب بھی گنجائش ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٥] قیامت کو جہنم کا کلام کرنا :۔ جہنم اگر زبان حال کی بجائے زبان قال سے بھی اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب دے تو اس میں بھی حیرت کی کوئی بات نہیں۔ اللہ جس چیز کو چاہے قوت گویائی عطا کرسکتا ہے۔ جہنم کے اس جواب سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جہنم اس قدر بڑی اور وسیع ہوگی کہ تمام مستحقین جہنم کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد بھی اس میں جگہ بچ رہے گی خواہ یہ دوزخی انسانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا جنوں اور شیطانوں سے۔ اور یہی بات درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے :- سیدنا انس کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو دوزخ یہی کہتی رہے گی کہ کچھ اور بھی ہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی، بس بس (میں بھر گئی ) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اور دوسرے یہ کہ جہنم اس دن اس قدر غیظ و غضب میں بھڑک رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے اس سوال پر وہ جواب دے گی کہ جتنے مجھ میں داخل ہونے کے مستحق ہیں سب کو لے آؤ میں آج کسی کو چھوڑوں گی نہیں

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یوم نقول لجھنم ھل امتلات …: یعنی یہ سب کچھ اس دن واقع ہوگا جب ہم جہنم سے کہیں گے کیا تم بھر گئی۔ اس کی سب سے صحیح تفسیر وہ ہے جو انس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یلقی فی النار و تقول ھل من مزید حتی یضع قدمہ فتقول قط قط) (بخاری، التفسیر، سورة ق، باب قولہ :(وتقول ھل من مزید): ٣٨٣٨)” جہنم میں لوگ ڈالے جائیں گے اور وہ یہی کہتی رہے گی، کیا کچھ اور بھی ہے ؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا تو وہ کہہ اٹھے گی، بس بس۔ “ بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق جہنم یہ بات زبان حال سے کہے گی، مگر اس تاویل کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں حقیقت ممکن نہ ہو اور یہاں تو ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے زبان دے رکھی ہے جس کی بولی اگر ہم نہیں سمجھتے تو پیدا کرنے والا خوب سمجھتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم) (بنی اسرائیل : ٣٣)” اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ “ اور فرمایا :(وقالوا لجلودھم لم شھدثم علینا قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شیئ) (حم السجدجۃ : ٢١)” اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی ؟ وہ کہیں گے ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( یہاں سے محشر کے بقیہ واقعات کا بیان ہے کہ وہ دن لوگوں کو یاد دلایئے) جس دن کہ ہم دوزخ سے (کفار کو اس میں داخل کرنے کے بعد) کہیں گے کہ تو بھر بھی گئی اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے (یہ پوچھنا شاید کفار کو اور زیادہ ڈرانے کے لئے ہو کہ جواب سن کر ان کے دل میں دوزخ کی اور بھی زیادہ ہول پیدا ہوجاوے کہ ہم کیسے غضب کے ٹھکانے پر پہنچنے ہیں جو سب کو کھا جانا چاہتا ہے اور جہنم کی طرف سے هَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ کا جواب میں غالباً اسی غیظ و غضب کا مظاہرہ ہے جو جہنم کو خدا کے دشمن کفار کے ساتھ ہے جس کا ذکر سورة ملک میں ان الفظ سے آیا ہے (آیت) وھی تفور تکاد تمیز من الغیظ، جہنم نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میرا پیٹ نہیں بھرا بلکہ مزید کی فرمائش بوجہ غیظ و غضب کے کی، اس لئے قرآن میں دوسری جگہ جو حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے (آیت) لاملئن جھنم من الجنة والناس اجمعین ( یعنی میں بھر دوں گا جہنم کو جنات اور انسانوں سے) یہ اس کے منافی نہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ سابقہ لاملئن کے لئے جنات اور انسانوں کو جہنم میں ڈالتے جاویں گے اور وہ یہی کہتا رہے گا کہ کچھ اور بھی ہے (ابن کثیر) اور (جنت کا بیان یہ ہے کہ وہ) جنت متقیوں کے قریب کردی جاوے گی کہ کچھ دور نہ رہے گی ( اور متقیول سے کہا جاوے گا کہ) یہ وہ چیز ہے جس کا تم سے (بایں عنوان) وعدہ کیا جاتا تھا وہ ہر ایسے شخص کے لئے ہے جو (خدا کی طرف دل سے) رجوع ہونے والا (اور رجوع ہو کر اعمال و طاعات کی) پابندی کرنے والا ہو (غرض یہ کہ) جو خدا سے بےدیکھے ڈرتا ہوگا اور (اللہ کے پاس) رجوع ہونے والا دل لے کر آوے گا ( ان کو حکم ہوگا کہ) اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، یہ دن ہے ہمیشہ رہنے (کے لئے حکم ہونے) کا ان کو بہشت میں سب کچھ ملے گا جو جو چاہیں گے اور ہمارے پاس ( ان کی چاہی ہوئی چیزوں سے) اور بھی زیادہ (نعمت) ہے ( کہ وہاں تک جنتی کا ذہن بھی نہ پہنچے گا جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی نعمتوں کے متعلق فرمایا کہ وہ ایسی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال آیا، ان نعمتوں میں سے ایک نعمت حق تعالیٰ کا دیدار ہے ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ۝ ٣٠- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - مِلْء) بهرنا)- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- الملأ کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٠۔ ٣١) جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے کہ جیسا کہ تجھ سے بھرنے کا وعدہ کر رکھا ہے تو بھر گئی اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے یا یہ مطلب ہے کہ وہ کہے گی کہ میں بھر گئی ہوں باقی کچھ اور بھی ہے تو اس میں ایک فرد کی بھی جگہ باقی نہ ہوگی۔ اور جنت کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں کے قریب لائی جائے گی ان سے وہ کچھ دور نہ رہے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَئْتِ ” جس دن ہم پوچھیں گے جہنم سے کہ کیا تو بھر گئی ؟ “- وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ۔ ” اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟ “- یعنی وہ کہے گی کہ ابھی تو میرے اندر بہت گنجائش ہے ۔ ابھی مزید جنوں اور انسانوں کو میرے اندر ڈالا جائے تاکہ میں بھر جائوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :38 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ میرے اندر اب مزید آدمیوں کی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اور جتنے مجرم بھی ہیں انہیں لے آیئے پہلا مطلب لیا جائے تو اس ارشاد سے تصور یہ سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو جہنم میں اس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے اس میں ایک سوئی کی بھی گنجائش نہیں رہی ، حتیٰ کہ جب اس سے پوچھا گیا کی کیا تو بھر گئی تو وہ گھبرا کر چیخ اٹھی کہ کیا ابھی اور آدمی بھی آنے باقی ہیں؟ دوسرا مطلب لیا جائے تو یہ تصور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جہنم کا غیظ اس وقت مجرموں پر کچھ اس بری طرح بھڑکا ہوا ہے کہ وہ ہل من مزید کا مطالبہ کیے جاتی ہے اور چاہتی ہے کہ آج کوئی مجرم اس سے چھوٹنے نہ پائے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم سے اللہ تعالیٰ کے اس خطاب اور اس کے جواب کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ محض مجازی کلام ہے؟ یا فی الواقع جہنم کوئی ذی روح اور ناطق چیز ہے جسے مخاطب کیا جا سکتا ہو اور وہ بات کا جواب دے سکتی ہو؟ اس معاملہ میں درحقیقت کوئی بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مجازی کلام ہو اور محض صورت حال کا نقشہ کھینچنے کے لیے جہنم کی کیفیت کو سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا گیا ہو ، جیسے کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے موٹر سے پوچھا تو چلتی کیوں نہیں ، اس نے جواب دیا ، میرے اندر پٹرول نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات بھی بالکل ممکن ہے کہ یہ کلام مبنی بر حقیقت ہو ۔ اس لیے کہ دنیا کی جو چیزیں ہمارے لیے جامد و صامت ہیں ان کے متعلق ہمارا یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ویسی ہی جامد و صامت ہوں گی ۔ خالق اپنی ہر مخلوق سے کلام کر سکتا ہے اور اس کی ہر مخلوق اس کے کلام کو جواب دے سکتی ہے خواہ ہمارے لیے اس کی زبان کتنی ہی ناقابل فہم ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: یعنی جہنم یہ کہے گی کہ میں اور لوگوں کو بھی لینے کے لیے تیار ہوں۔