40۔ 1 یعنی رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کریں یا رات کی نماز (تہجد) پڑھیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا رات کو اٹھ کر نماز پڑھیں جو آپ کے لئے مزید ثواب کا باعث ہے۔ 40۔ 2 یعنی اللہ کی تسبیح کریں بعض نے اس سے تسبیحات مراد لی ہے، جن کے پڑھنے کی تاکید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض نمازوں کے بعد فرمائی ہے مثلاً 33 مرتبہ سُبْحَان اللہ 33 مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰلہ اور 34 مرتبہ اللّٰہ اَکْبَرْ وغیرہ
[٤٦] پانچ نمازوں کے اوقات :۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے پروردگار کی حمد سے مراد فرض نمازیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- خ جنت میں دیدار الہٰی :۔ سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ ایک رات ہم آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چاند کو دیکھا جو چودھویں رات کا تھا۔ عنقریب تم (جنت میں) اپنے پروردگار کو یوں بےتکلف دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ پھر اگر تم ایسا کرسکو کہ تم سے طلوع آفتاب سے پہلے کی نماز (فجر) اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز (عصر) قضانہ ہونے پائے تو ایسا ضرور کرو۔ اس کے بعد آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 98ۙ ) 15 ۔ الحجر :98) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے تین ہی نمازیں تھیں۔ فجر کی نماز، عصر کی نماز اور تہجد کی نماز اور بعض علماء اس آیت سے پانچوں نمازیں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک طلوع آفتاب سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب آفتاب سے پہلے سے مراد ظہر اور عصر کی نمازیں اور رات کی نمازوں سے مراد مغرب اور عشا کی نمازیں ہیں ۔- [٤٧] نمازوں کے بعد نوافل اور ذکر واذکار :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہر نماز کے بعد کچھ سنت اور نوافل ادا کئے جائیں۔ واضح رہے کہ رسول اللہ نے جو نماز بطور نفل ادا کی وہی ہمارے لئے سنت ہے اور ہمارے ہاں جو رکعات بطور نوافل ادا کی جاتی ہیں وہ ان نوافل سے زائد ہیں جو آپ نے ادا کئے اور جسے ہم سنت نماز کہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد کچھ ذکر اذکار اور تسبیح و تہلیل بھی کیا کیجئے۔ جیسا کہ مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) نے مجھے حکم دیا کہ ہر (فرض) نماز کے بعد تسبیح پڑھا کروں۔ آپ نے کہا (وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَاَدْبَار السُّجُوْدِ 40) 50 ۔ ق :40) کا یہی مطلب ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ایسے بہت سے اذکار صحیح احادیث سے ثابت ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف ایک اہم ذکر درج کیا جاتا ہے جس کی بہت فضیلت آئی ہے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ محتاج لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے : مالدار لوگ بلند درجات لے گئے اور ہمارا چین لوٹ لیا۔ ہماری طرح وہ بھی نمازیں ادا کرتے اور روزے رکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کے پاس پیسہ ہم سے زائد چیز ہے جس سے وہ حج، عمرہ، جہاد اور صدقہ و خیرات بھی کرلیتے ہیں جو ہم محتاج ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکتے آپ نے فرمایا : میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تم کرو تو آگے بڑھنے والوں کو پکڑ لو اور تم کو کوئی نہ پاسکے جو تمہارے پیچھے ہے اور تم اپنے زمانہ والوں میں سے سب اچھے بن جاؤ الا یہ کہ وہ بھی یہ کام کرنے لگیں۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو اور بعض روایات کے مطابق سبحان اللہ ٣٣ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور اللہ اکبر ٣٤ بار کہنا چاہئے (تاکہ سو (١٠٠) پورا ہوجائے ) (بخاری۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الذکر بعد الصلٰوۃ) اور بعض روایات میں ہے کہ جب مالدار لوگ بھی یہ ذکر پڑھنے لگے تو محتاج لوگ پھر آپ کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہ ذکر تو مالدار لوگ بھی کرنے لگے، تو آپ نے فرمایا : یہ اللہ کا فضل ہے، جتنا جسے چاہے دے دے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ایسے ذکر کا کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ زبان تو چل رہی ہو اور دل اور باتوں میں مشغول ہو۔
(آیت) وَاَدْبَار السُّجُوْدِ ، حضرت مجاہد نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ سجود سے مراد فرض نمازیں ہیں اور ادبار السجود، سے مراد وہ تسبیحات پڑھنا ہے جس کی فضیلت ہر نماز کے بعد حدیث مرفوع میں آئی ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد للہ، 33 مرتبہ اللہ اکبر اور ایک مرتبہ لا الہٰ الا اللہ وحدہ، لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ہو علیٰ کل شی قدیر، پڑھ لیا کرے تو اس کی خطائیں معاف کردی جائیں گی، اگرچہ وہ دریا کی موجوں کے برابر ہوں (رواہ البخاری و مسلم) اور ادبار السجود سے مراد وہ سنتیں بھی ہو سکتی ہیں جو فرض نمازوں کے بعد احادیث صحیحہ میں آئی ہیں (مظہری )
وَمِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ ٤٠- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
نماز مغرب وعشاء کی تاکید نیز تہجد سے کیا مراد ہے - قول باری ہے (ومن اللیل فسبحہ۔ اور رات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے) مجاہد کا قول ہے اس سے صلوٰۃ اللیل یعنی تہجد کی نماز مراد ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے مغرب اور عشاء کی نمازیں مراد لینا بھی جائز ہے۔- نمازوں کے بعد تسبیحات - قول باری ہے (وادبار السجود۔ اور نمازوں کے بعد بھی) حضرت عمر (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت حسن بن علی (رض) ، حسن بصری، مجاہد، نخعی اور شعبی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مغرب کی نماز کے بعد دو رکعتیں اور (وادبار النجوم اور ستاروں سے پیچھے بھی) سے فجر کی نماز سے پہلے دو رکعتیں مراد ہیں۔- حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی مروی ہے ۔ مجاہد نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قول باری (وادبار السجود) کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم اپنی پیشانی زمین پر رکھو تو تین دفعہ تسبیح کرو۔- ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے شروع میں جن حضرات کے اقوال نقل کیے ہیں وہ سب اس پر متفق ہیں کہ قول باری (فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب) سے نماز مراد ہے، اسی طرح (ومن اللیل فسبحہ) صلوٰۃ اللیل یعنی مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اس سے یہ واجب ہوگیا کہ (وادبار السجود) سے نماز ہی مراد لی جائے کیونکہ اس میں لفظ ” فسبحہ “ پوشیدہ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہر نماز کے بعد تسبیح مروی ہے لیکن اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ یہ آیت کی تفسیر ہے۔- محمد بن سیرین نے کثیر بن افلح سے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا حکم دیا۔ پھر ایک انصاری کو خواب میں یہ کہا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کو کہا ہے، اگر تم انہیں پچیس پچیس مرتبہ پڑھو اور ان کے ساتھ لا الہ الا اللہ پچیس مرتبہ پڑھو تو ایسا کرلو۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب اس بات کا ذکر کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” ایسا ہی کرلو۔ “- سمی نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول مالدار لوگ تمام درجات اور ہمیشہ باق رہنے والی نعمتیں سمیٹ کرلے گئے۔ “ آپ ؐ نے پوچھا : ” وہ کیسے ؟ “ انہوں نے عرض کیا۔ وہ ہماری طرح نمازیں پڑھتے اور جہاد کرتے ہیں، نیز وہ اپنے زائد مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کوئی مال نہیں ہے۔ “- یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تمہیں ایسا عمل نہ بتائوں جسے کرکے تم ان لوگوں کے مرتبے پر پہنچ جائو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور بعد میں آنے والوں سے آگے نکل جائو گے، کوئی شخص تم جیسا عمل نہیں کرسکے گا البتہ صرف وہی شخص تمہارے درجے تک پہنچ سکے گا جو یہ عمل (جو ابھی میں تمہیں بتانے والا ہوں) کرے گا۔- وہ عمل یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ “ حضرت ابوذر (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے البتہ انہوں نے ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔- حضرت کعب بن عجرہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے جس میں چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہنے کا ذکر ہے۔ ابوہارون العبدی نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے آخر میں واپس ہوتے وقت یہ پڑھتے ہوئے سنا ہے ” سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العلمین۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر آیت کے معنی کو وجوب پر محمول کیا جائے تو قول باری (فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس) کو فجر کی نماز اور (وقبل الغروب) کو ظہر اور عصر کی نمازوں پر محمول کیا جائے گا۔ اسی طرح حسن سے مروی ہے کہ قول باری (ومن اللیل فسبحہ) مغرب اور عشاء کی نمازوں پر محمول ہے۔- اس طرح یہ آیت پانچوں فرض نمازوں ک ومتضمن ہوجائے گی۔ لفظ تسبیح سے نماز کی تعبیر کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ان تمام باتوں سے پاک قرار دیا جائے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور نماز بھی قرات قرآن بھی اذکار پر مستعمل ہوتی ہے جو بعینہ تنزیہہ باری تعالیٰ ہے۔
اور رات کو بھی نماز پڑھتے رہا کیجیے یعنی مغرب و عشا یا یہ کہ تہجد اور فرض نمازوں کے بعد جیسا کہ مغرب کے بعد کی دو سنتیں ہیں۔
آیت ٤٠ وَمِنَ الَّـیْلِ فَسَبِّحْہُ ” اور رات کے حصوں میں بھی اس کی تسبیح بیان کرو۔ “- وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ ۔ ” اور سجدوں (نمازوں) کے بعد بھی۔ “- یہ گویا نماز سے فارغ ہونے کے بعد کی تسبیح وتحمید کا حکم ہے۔ نمازوں کے بعد کے اذکار کی تفصیلات احادیث میں ملتی ہیں ‘ جیسے تسبیح فاطمہ (رض) (٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ‘ ٣٣ مرتبہ الحمد للہ اور ٣٣ یا ٣٤ بار اللہ اکبر پڑھنا) کی مداومت سے متعلق احادیث میں ترغیب آئی ہے۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :51 یہ ہے وہ ذریعہ جس سے آدمی کو یہ طاقت حاصل ہوتی ہے کہ دعوت حق کی راہ میں اسے خواہ کیسے ہی دل شکن اور روح فرسا حالات سے سابقہ پیش آئے ، اور اس کی کوششوں کا خواہ کوئی ثمرہ بھی حاصل ہوتا نظر نہ آئے ، پھر بھی وہ پورے عزم کے ساتھ زندگی بھر کلمۂ حق بلند کرنے اور دنیا کو خیر کی طرف بلانے کی سعی جاری رکھے ۔ رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے ۔ طلوع آفتاب سے پہلے ۔ فجر کی نماز ہے غروب آفتاب سے پہلے ‘’ دو نمازیں ہیں ، ایک ظہر ، دوسری عصر ۔ رات کے وقت ۔ مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حواشی 91 تا 97 ۔ جلد سوم ، طہٰ ، حاشیہ 111 ۔ الروم ، حواشی 23 ۔ 24 ) ۔ رہی وہ تسبیح جو سجدے سے فارغ ہونے کے بعد کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہو سکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی ۔ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت حسن بن علی ، حضرات ابوہریرہ ، ابن عباس ، شُیبی ، مجاہد ، عکرمہ ، حسن بصری ، قتادہ ، ابراہیم نخَعی اور اَوزاعی اس سے مراد نماز مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عَمرو بن العاص اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباس کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے ۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کے جائیں ۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مالدار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہوا ؟ ۔ انہوں نے عرض کیا وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں ، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے ، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کر سکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایسی چیز بتاؤں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جاؤ گے بجز ان کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33 ۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ ، الحمد لِلہ ، اللہ اکبر کہا کرو ۔ کچھ مدت کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء ۔ ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33 ۔ 33 کے بجائے دس دس بھی منقول ہوئی ہے ۔ حضرت زید بن ثابت کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم ہر نماز کے بعد 33 ۔ 33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمد لِلہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں ۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے اگر تم 25 ۔ 25 مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لا اِلٰہ الا اللہ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اسی طرح کیا کرو ۔ ( احمد ۔ نسائی ۔ دارمی ) ۔ حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے :سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزِّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ( احکام القرآن للجصاص ) ۔ اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہیں ۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو ان کے دل کو سب سے زیادہ لگے ، چھانٹ کر یاد کرلیں اور اس کا التزام کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کونسا ذکر ہو سکتا ہے ۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان معانی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں اور پھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے ۔
16: تسبیح سے یہاں مراد نماز ہے۔ چنانچہ طلوع آفتاب سے پہلے کے الفاظ میں نماز فجر، غروب سے پہلے کے الفاظ میں ظہر اور عصر کی نمازیں داخل ہیں، اور رات کے حصوں میں تسبیح کرنے کے الفاظ میں مغرب، عشاء اور تہجد کی نمازیں۔ 17: سجدوں سے مراد فرض نمازیں ہیں، اور ان کے بعد تسبیح کرنے سے مراد نفلی نمازیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے اس کی یہی تفسیر منقول ہے (روح المعانی)