Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

جب ہم سب قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ بیت المقدس کے پتھر پر کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ اے سڑی گلی ہڈیو اور اے جسم کے متفرق اجزاؤ اللہ تمہیں جمع ہو جانے کا حکم دیتا ہے تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے ، پس مراد اس سے صور ہے یہ حق اس شک و شبہ اور اختلاف کو مٹا دے گا جو اس سے پہلے تھا یہ قبروں سے نکل کھڑے ہونے کا دن ہو گا ابتداءً ًیہ پیدا کرنا پھر لوٹانا اور تمام خلائق کو ایک جگہ لوٹا لانا یہ ہمارے ہی بس کی بات ہے ۔ اس وقت ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ہم دیں گے تمام بھلائی برائی کا عوض ہر ہر شخص کو پا لے گا زمین پھٹ جائے گی اور سب جلدی جلدی اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے مخلوقات کے بدن اگنے لگیں گے جس طرح کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ بارش سے اگ جاتا ہے ۔ جب جسم کی پوری نشوونما ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا ۔ تمام روحیں صور کے سوراخ میں ہوں گی ان کے صور پھونکتے ہی روحیں آسمان کے درمیان پھرنے لگ جائیں گی اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے عزت و جلال کی قسم ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے جسے اس نے دنیا میں آباد رکھا تھا ۔ پس ہر روح اپنے اپنے اصلی جسم میں جا ملے گی اور جس طرح زہریلے جانور کا اثر چوپائے کے رگ و ریشہ میں بہت جلد پہنچ جاتا ہے اس طرح اس جسم کے رگ و ریشے میں فوراً روح دوڑ جائے گی اور ساری مخلوق اللہ کے فرمان کے ماتحت دوڑتی ہوئی جلد از جلد میدان محشر میں حاضر ہو جائے گی یہ وقت ہو گا جو کافروں پر بہت ہی سخت ہو گا ۔ فرمان باری ہے آیت ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀ۧ ) 17- الإسراء:52 ) ، یعنی جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے جواب دو گے اور سمجھتے ہو گے کہ تم بہت ہی کم ٹھہرے ۔ صحیح مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی ۔ فرماتا ہے کہ یہ دوبارہ کھڑا کرنا ہم پر بہت ہی سہل اور بالکل آسان ہے جیسے اللہ جل جلالہ نے فرمایا آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀ ) 54- القمر:50 ) یعنی ہمارا حکم اس طرح یکبارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا اور آیت میں ہے آیت ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀ ) 31- لقمان:28 ) ، یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور پھر مارنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو سننے دیکھنے والا ہے ۔ پھر جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہمارے علم سے باہر نہیں تو اسے اہمیت نہ دے ہم خود نپٹ لیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ 97؀ۙ ) 15- الحجر:97 ) ، واقعی ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں سو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی پاکی اور تعریف کرتے رہیے اور نمازوں میں رہیے اور موت آجانے تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیے ۔ پھر فرماتا ہے تو انہیں ہدایت پر جبرًا نہیں لا سکتا نہ ہم نے تجھے اس کا مکلف بنایا ہے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ ان پر جبر نہ کرو ، لیکن پہلا قول اولیٰ ہے کیونکہ الفاظ میں یہ نہیں کہ تم ان پر جبر نہ کرو بلکہ یہ ہے کہ تم ان پر جبار نہیں ہو یعنی آپ مبلغ ہیں تبلیغ کر کے اپنے فریضے سے سبکدوش ہو جائیے جبر معنی میں اجبر کے بھی آتا ہے ۔ آپ نصیحت کرتے رہیے جس کے دل میں خوف اللہ ہے جو اس کے عذابوں سے ڈرتا ہے اور اس کی رحمتوں کا امیدوار ہے وہ ضرور اس تبلیغ سے نفع اٹھائے گا اور راہ راست پر آجائے گا جیسے فرمایا ہے آیت ( وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 40؁ ) 13- الرعد:40 ) یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمے ہے اور آیت میں ہے آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ ) 88- الغاشية:21 ) تو نصیحت کرنے والا ہے کچھ ان پر داروغہ نہیں ۔ اور جگہ ہے تمہارے ذمہ ان کی ہدایت نہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56؀ ) 28- القصص:56 ) ، یعنی تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے راہ راست پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ اسی مضمون کو یہاں بھی بیان فرمایا ہے ۔ حضرت قتادہ اس آیت کو سن کر یہ دعا کرتے ( اللھم اجعلنا ممن یخاف وعیدک ویرجو موعدک یا بار یا رحیم ) یعنی اے اللہ تو ہمیں ان میں سے کر جو تیری سزاؤں کے ڈراوے سے ڈرتے ہیں اور تیری نعمتوں کے وعدے کی امید لگائے ہوئے ہیں اے بہت زیادہ احسان کرنیوالے اور اے بہت زیادہ رحم کرنے والے ۔ سورہ ق کی تفسیر ختم ہوئی ۔ والحمد للہ وحدہ وحسبنا اللہ ونعم الوکیل ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یعنی قیامت کے جو احوال وحی کے ذریعے سے بیان کئے جا رہے ہیں، انہیں توجہ سے سنیں۔ 41۔ 2 یہ پکارنے والا اسرافیل فرشتہ ہوگا یا جبرائیل اور یہ ندا وہ ہوگی جس سے لوگ میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے۔ یعنی نفخہ ثانیہ۔ 41۔ 3 اس سے بعض نے صخرہ بیت المقدس مراد لیا ہے، کہتے ہیں یہ آسمان کے قریب ترین جگہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص یہ آوازیں اس طرح سنے گا جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آرہی ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] یہ نفخہ صور ثانی کا وقت ہوگا اور پکارنے والا فرشتہ یہ بات کہے گا کہ اے مرے ہوئے لوگو سب اپنی اپنی قبروں سے اللہ کے حکم سے زندہ ہو کر نکل آؤ اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے لئے پیش ہوجاؤ قبروں میں پڑا ہوا ہر شخص یوں محسوس کرے گا کہ کہیں قریب سے ہی یہ آواز آرہی ہے۔ موجودہ سائنسی ایجادات نے اس چیز کو بہت قریب الفہم بنادیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) واستمع…: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی بےہودہ گوئی پر صبر اور اپنی تسبیح و تحمید کا حکم دیا، اس آیت میں آپ کی تسلی کے لئے قیامت کے دن کا ذکر فرمایا کہ تھوڑا صبر کریں ان کی جزا کے لئے قیامت کا دن آیا ہی چاہتا ہے۔ ابن عطیہ نے ” استمع “ کا معنی ” انتظر “ کیا ہے، یعنی صبر کے ساتھ اس دن کا انتظار کریں…۔ اگر اس کا لفظی معنی ” کان لگا کر سن “ کیا جائے تو اس سے مراد بھی آپ کو تسلی دینا ہے کہ قیامت اتنی قریب ہے گویا اس میں پکارنے والے کی منادی کی آواز آپ کے کانوں میں آرہی ہے۔ زمخشری نے فرمایا :” واستمع یوم یناد المناد “ کا مطلب یہ ہے کہ کان لگا کر سن قیامت کے دن کا حال جو میں تمہیں بتانے لگا ہوں۔ “- (٢) یوم یناد المناد : اس سے مراد صور میں دوسری دفعہ پھونکے جانے کا وقت ہے، جب فرشتہ صور میں پھونک مار کر سب لوگوں کو قبروں سے نکل کر محشر میں جمع ہوجانے کے لئے آواز دے گا۔ دیکھیے سورة قمر (٦ تا ٨) ۔- (٣) من مکان قریب : یعنی قبروں میں پڑے ہوئے ہر شخص کو وہ آواز بالکل قریب سے آتی ہوئی سنائی دے گی۔ موجودہ سائنسی ایجادات سے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اے مخاطب تو اس اگلی بات کو توجہ سے) سن رکھ کہ جس دن ایک پکارنے والا (فرشتہ یعنی اسرافیل (علیہ السلام) بذریعہ نفخ صور مردوں کو قبروں سے نکلنے کے لئے) پاس ہی سے پکارے گا (پاس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آواز سب کو بےتکلف پہنچے گی، گویا پاس سے ہی کوئی پکار رہا ہے اور جیسے اکثر دور کی آواز کسی کو پہنچتی ہے کسی کو نہیں پہنچتی ایسا نہ ہوگا) جس روز اس چیخنے کو بالیقین سب سن لیں گے، یہ دن ہوگا (قبروں سے) نکلنے کا ہم ہی (اب بھی) جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری طرف پھر لوٹ کر آنا ہے (اس میں بھی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت کی طرف اشارہ ہے) جس روز زمین ان (مردوں) پر سے کھل جاوے گی جبکہ وہ (نکل کر میدان قیامت کی طرف) دوڑتے ہوں گے یہ (جمع کرلینا) ہمارے نزدیک ایک آسان جمع کرلینا ہے (غرض مکرر در مکرر قیامت کا امکان اور وقوع سب ثابت ہوچکا، مگر اس پر بھی جو لوگ نہ مانیں تو آپ غم نہ کیجئے کیونکہ) جو کچھ یہ لوگ (قیامت وغیرہ کے بارے میں) کہہ رہے ہیں ہم خوب جانتے ہیں (ہم خود سمجھ لیں گے) اور آپ ان پر (منجانب اللہ) جبر کرنے والے ( کر کے) نہیں (بھیجے گئے) ہیں (بلکہ صرف منذر اور مبلغ ہیں، جب یہ بات ہے) تو آپ قرآن کے ذریعہ سے (عام تذکیر سے سب کو اور خاص تذکیر نافع سے صرف) ایسے شخص کو نصیحت کرتے رہے جو میری وعید سے ڈرتا ہو (اس مفعول کی تقلید سے اشارہ ہوگیا کہ آپ اگر تذکیرہ تبلیغ عام کرتے ہیں جیسا مشاہدہ ہے لیکن پھر بھی من یخاف وعید (یعنی اللہ کی وعید سے ڈرنے والا) کوئی کوئی ہوتا ہے، پس ثابت ہوا کہ یہ آپ کے اختیار میں نہیں جب آپ کے اختیار میں نہیں پھر بےاختیار بات کی فکر کیا ) ۔- معارف و مسائل - (آیت) يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ ، (یعنی جس دن ایک پکارنے والا فرشتہ پاس ہی سے پکارے گا) ابن عسا کرنے زید بن جابر شافعی سے روایت کیا ہے کہ یہ فرشتہ اسرافیل ہوگا، جو بیت المقدس کے صخرہ پر کھڑا ہو کر ساری دنیا کے مردوں کو یہ خطاب کرے گا کہ :- ” اے گلی سٹری ہڈیو اور ریزہ ریزہ ہوجانے والی کھالو اور بکھر جانے والے بالو سن لو تم کو اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ حساب کے لئے جمع ہوجاؤ “ (مظہری)- یہ قیامت کے نفخہ ثانیہ کا بیان ہے جس سے دوبارہ عالم کو زندہ کیا جائے گا اور مکان قریب سے مراد یہ ہے کہ اس وقت اس فرشتے کی آواز پاس اور دور کے سب لوگوں کو اس طرح پہنچے گی کہ گویا پاس ہی سے پکار رہا ہے، حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ یہ آواز اس طرح سنی جائے گی جیسے کوئی ہمارے کان میں آواز دے رہا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مکان قریب سے مراد صخرہ بیت المقدس ہے، کیونکہ وہ زمین کا وسط ہے، سب طرف اس کی مسافت یکساں ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ۝ ٤١ ۙ- اسْتِمَاعُ :- الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» .- استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے - ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور محمد اس پکار کو سنیے جس دن ایک پکارنے والا آسمان کے قریب سے پکارے گا یعنی بیت المقدس کے درمیان سے پکارے گا اور یہ جگہ آسمان سے بہ نسبت تمام روئے زمین کے بارہ میل قریب ہے یا یہ کہ قریب سے پکارے گا کہ اس کی آواز سب لوگ اپنے پیروں کے نیچے سے سنیں گے۔- یا یہ کہ محمد آپ اس دن کے لیے نیک اعمال کریں یا یہ کہ جس دن صور پھونکی جائے گی آپ اس کے منتظر رہیں اور قبروں سے نکلنے کے اس حکم کو اس روز سب سن لیں گے اور یہی قبروں سے نکلنے کا دن ہوگا یعنی قیامت کا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُـنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّـکَانٍ قَرِیْبٍ ۔ ” اور کان لگائے رکھو جس دن پکارنے والا پکارے گا بہت قریب کی جگہ سے۔ “- یعنی اس دن کے منتظررہو جب صور میں پھونکا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی آواز بہت قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوگی۔ صور کی آواز ایسی زوردار اور خوفناک ہوگی کہ اس سے ہر جان دار کی موت واقع ہوجائے گی۔ اس کے بعد سب انسانوں کو زندہ کر کے محشر میں جمع کرنے کے لیے پھر صور پھونکا جائے گا۔ یہاں اسی دوسرے صور کا ذکر ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :52 یعنی جو شخص جہاں مرا پڑا ہوگا ، یا جہاں بھی دنیا میں اس کی موت واقع ہوئی تھی ، وہیں خدا کے منادی کی آواز اس کو پہنچے گی کہ اٹھو اور چلو اپنے رب کی طرف اپنا حساب دینے کے لیے ۔ یہ آواز کچھ اس طرح کی ہوگی روئے زمین کے چپے چپے پر جو شخص بھی زندہ ہوکر اٹھے گا وہ محسوس کرے گا کہ پکارنے والے نے کہیں قریب ہی سے اس کو پکارا ہے ۔ ایک ہی وقت میں پورے کرہ ارض پر ہر جگہ یہ آوز یکساں سنای دے گی ، اس سے بھی کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ عالم آخرت میں زمان و مکان کے اعتبارات ہماری موجودہ دنیا کی بہ نسبت کس قدر بدلے ہوئے ہوں گے اور کیسی قوتیں کس طرح کے قوانین کے مطابق وہاں کارفرما ہوں گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: یعنی اس منادی کی آواز ہر شخص کو بہت قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوگی۔ بظاہر یہ منادی حضرت اسرافیل (علیہ السلام) ہوں گے جو مردوں کو قبروں سے نکلنے کے لیے آواز دیں گے۔