Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کے محیر العقول شاہکار یہ لوگ جس چیز کو ناممکن خیال کرتے تھے پروردگار عالم اس سے بھی بہت زیادہ بڑھے چڑھے ہوئے اپنی قدرت کے نمونے پیش کر رہا ہے کہ آسمان کو دیکھو اس کی بناوٹ پر غور کرو اس کے روشن ستاروں کو دیکھو اور دیکھو کہ اتنے بڑے آسمان میں ایک سوراخ ، ایک چھید ، ایک شگاف ، ایک دراڑ نہیں چنانچہ سورہ تبارک میں فرمایا آیت ( الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ Ǽ۝ ) 67- الملك:3 ) ، اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کئے تو اللہ کی اس صفت میں کوئی خلل نہ دیکھے گا تو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہیں تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے ؟ پھر بار بار غور کر اور دیکھ تیری نگاہ نامراد اور عاجز ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی ۔ پھر فرمایا زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور بچھا دیا اور اس میں پہاڑ جما دئیے تا کہ ہل نہ سکے کیونکہ وہ ہر طرف سے پانی سے گھری ہوئی ہے اور اس میں ہر قسم کی کھیتیاں پھل سبزے اور قسم قسم کی چیزیں اگا دیں جیسے اور جگہ ہے ہر چیز کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو ۔ ( بھیج ) کے معنی خوشنما ، خوش منظر ، بارونق ۔ پھر فرمایا آسمان و زمین اور ان کے علاوہ قدرت کے اور نشانات دانائی اور بینائی کا ذریعہ ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ کی طرف رغبت کرنے والا ہو پھر فرماتا ہے ہم نے نفع دینے والا پانی آسمان سے برسا کر اس سے باغات بنائے اور وہ کھیتیاں بنائیں جو کاٹی جاتی ہیں اور جن کے اناج کھلیان میں ڈالے جاتے ہیں اور اونچے اونچے کھجور کے درخت اگا دئیے جو بھرپور میوے لادتے اور لدے رہتے ہیں یہ مخلوق کی روزیاں ہیں اور اسی پانی سے ہم نے مردہ زمین کو زندہ کر دیا وہ لہلہانے لگی اور خشکی کے بعد تروتازہ ہو گئی ۔ اور چٹیل سوکھے میدان سر سبز ہو گئے یہ مثال ہے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی اور ہلاکت کے بعد آباد ہونے کی یہ نشانیاں جنہیں تم روزمرہ دیکھ رہے ہو کیا تمہاری رہبری اس امر کی طرف نہیں کرتیں ؟ کہ اللہ مردوں کے جلانے پر قادر ہے چنانچہ اور آیت میں ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی آسمان و زمین کی پیدائش انسانی پیدائش سے بہت بڑی ہے اور آیت میں ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى ۭ بَلٰٓي اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 33؀ ) 46- الأحقاف:33 ) یعنی کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو جلا دے ؟ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀ ) 41- فصلت:39 ) ، یعنی تو دیکھتا ہے کہ زمین بالکل خشک اور بنجر ہوتی ہے ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جس سے وہ لہلہانے اور پیداوار اگانے لگتی ہے کیا یہ میری قدرت کی نشانی نہیں بتاتی ؟ کہ جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کے جلانے پر بلاشک و شبہ قادر ہے یقینًا وہ تمام تر چیزوں پر قدرت رکھتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔ 6۔ 2 یعنی ستاروں سے مزین کیا۔ 6۔ 3 اسی طرح کوئی فرق و تفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ۝ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ ۝) 67 ۔ الملک :4-3)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] اثبات توحید اور بعث بعد الموت کے دلائل :۔ اس آیت سے توحید کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ آسمان سے مراد وہ نیلگوں چھت ہے جوہر انسان کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے پر کروی شکل میں اپنے سر پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور سورج، چاند اور خوبصورت اور ننھے منے تارے اسی میں چمکتے دمکتے اور نگینوں کی طرح سجائے ہوئے نظر آتے ہیں اور کسی طاقتور دوربین کی مدد سے اوپر آسمان کی طرف نظر ڈالی جائے تو انسان حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑتا ہے۔ اسے یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے اور اس کی انتہا کہاں تک ہے اور جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جس میں کہیں کوئی وقفہ، کوئی خلا، کوئی شگاف وغیرہ نظر نہیں آتا اور اس سے دلیل اس بات پر لائی گئی ہے کہ جو ذات اتنے بڑے عظیم الجثہ کروں کو اور اس پوری کائنات کو اتنے نظم و ضبط کے ساتھ چلا رہی ہے وہ بھلا اس بات پر بھی قادر نہیں کہ وہ تمہارے زمین میں ملے ہوئے جسم کے ذرات کو اکٹھا کرکے تمہارا جسم بنا دے۔ پھر اس میں تمہاری روح ڈال کر تمہیں دوبارہ زندہ کھڑا کر دے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) افلم ینظروا الی السمآء : کفار نے جن چیزوں کو جھٹلایا ان میں سے ایک اہم چیز دوبارہ زندگی تھی، اس لئے یہاں سے اس کے کچھ مزید دلائل بیان فرمائے۔” افلم ینظروآ “ میں ” نظر “ کا معنی اگرچہ غو رو فکر بھی ہے، مگر اولین معنی دیکھنا ہے اور اس میں زیادہ زور ہے کہ ان مخلوقات کے دوبارہ زندگی پر دلالت کے لئے انہیں صرف آنکھوں کے دیکھ لینا ہی کافی ہے۔ یعنی آسمانوں کا بنانا انہیں ستاروں کے ساتھ سجانا اور زمین کو پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں بنانے والا انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ دوسری جگہ یہی بات زیادہ صریح الفاظ میں بیان فرمائی ہے :(اولم یروا ان اللہ الذی خلق السموت والارض ولم یغی بخلقھن بقدر علی ان یحی الموتی بلی انہ علی کل شیء قدیر) (الاحقاف : ٣٣)” اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ کیوں نہیں یقینا وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “ - (٢) فوقھم : یہ ” السمآئ “ سے حال ہے، یعنی ان کے لئے آسمان کو دیکھنا کچھ مشکل نہیں، نہ اس کے لئے کسی سفر کی ضرورت ہے، نہ دور بین یا کسی آلے کی، بس اوپر سر اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کی اس عظیم مخلوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔- (٣) کیف بنینھا وزینھا :” السمآئ “ سے مراد پورا عالم بالا ہے، جس میں فضا، چاند، تارے، سورج اور خیمے کی طرح چ اورں طرف سے زمین کو گھیرے میں لئے ہوئے نیلا آسمان سبھی کچھ شامل ہے۔ ” کیف “ کے ساتھ انہیں بنانے اور مزین کرنے کی کیفیت کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ ان کی بلندی، ان کی عظمت، ان کی مضبوطی، خوب صورتی اور ان کا کسی بھی خرابی یا خامی سے پاک ہونا سب ایسی چیزیں ہیں جنہیں دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ انہیں بنانے والا ہر چیز پر قادر ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ پھر آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کے اس نظام کو دیکھنے اور ان پر غور و فکر کرنے میں لوگوں کے اپنی عقل اور علم کے لحاظ سے مختلف درجے ہیں، آیت میں تمام طبقات کے لئے ہدایت کی روشنی موجود ہے۔ تفہیم القرآن میں ہے :” اس نظام کو آدمی کسی آلے کے بغیر اپنی آنکھ ہی سے دیکھ لے تو اس پر حیرت طاری ہوجاتی ہے لیکن اگر دوربین لگالے تو ایک ایسی وسیع و عریض کا ئنات اس کے سامنے آتی ہے، جو ناپید اکنا رہے ۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہز اورں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں ( ) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں کا پتا دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشاؤں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار یمل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور مشاہدے میں آئی ہے، خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہا نسان کی معلوم کائنات اس کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کارگاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان عے، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے، کائنات کے خلاق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہوجائے گی ؟ “- (٤) وما لھا من فروج :” فروج “ ” فرج “ کی جمع ہے، شگاف ، دراڑ، درز۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ملک (٣، ٤) کی تفسیر۔ تفہیم القرآن میں ہے :” یعنی اپنی اس حیرت اگنیز وسعت کیب اوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں اور سا کا تسلسل کہیں اج کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سجھا جاسکتا ہے۔ جدید زمانے کی ریڈیائی ہئیت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ ” منبع ٣ ج ٢٩٥( 3 285) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ چار ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہوں گی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے درصا یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشاندہی بھی نہیں کرس کتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور تمہارے دماغ میں کہاں سے آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہوجانے کے بعد تم سے حساب لینے کیلئے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کرسکوں گا۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کیا آسمان نظر آتا ہے ؟- (آیت) اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓا اِلَى السَّمَاۗءِ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان نظر آتا اور مشہور یہ ہے کہ یہ نیلگوں رنگ جو نظر آتا ہے یہ ہوا کا رنگ ہے مگر اس کی نفی کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ یہی رنگ آسمان کا بھی ہو، اس کے علاوہ آیت میں نظر سے مراد نظر عقلی بمعنی غور و فکر بھی مراد ہو سکتی ہے . (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَفَلَمْ يَنْظُرُوْٓااِلَى السَّمَاۗءِ فَوْقَہُمْ كَيْفَ بَنَيْنٰہَا وَزَيَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ۝ ٦- الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت .- الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - كيف - كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] .- ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - فرج - الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ- [ المؤمنون 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ- [ ق 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ- [ المرسلات 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ :- القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله .- ( ف ر ج ) الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کیا ان کفار مکہ نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو بلا ستون کے کیسا اونچا بنایا ہے اور آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا ہے اس میں کوئی رخنہ اور پھٹن شگاف اور کوئی عیب تک نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اَفَلَمْ یَنْظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآئِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنٰـہَا وَزَیَّنّٰہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ ۔ ” تو کیا انہوں نے دیکھا نہیں آسمان کی طرف جو ان کے اوپر ہے کہ ہم نے اسے کیسے بنایا ہے اور کیسے اسے مزین کیا ہے اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ “- اس آیت کی کماحقہ ّتشریح تو کوئی ماہر فلکیات ہی کرسکتا ہے ۔ بہرحال آج کا انسان خوب جانتا ہے کہ ستاروں ‘ سیاروں اور کہکشائوں کا نظام بہت محکم و مربوط ہے اور یہ کہ اس نظام میں کسی رخنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة قٓ حاشیہ نمبر :6 اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نامعقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں ۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں ۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے ۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں ۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گئے ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں ، اس لیے ان کے دعوائے نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے ۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجائے دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا رہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوئے تھے ، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی ۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے ۔ سورة قٓ حاشیہ نمبر :7 یہاں آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے ۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں ۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے ، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو ناپیدا کنار ہے ، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی ۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں ۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں ۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں ( ) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے ۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے ( ثوابت ) موجود ہیں ، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے ۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے ۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے ۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے ، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے ۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے ۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق ، جس کا نام انسان ہے ، اگر یہ حکم لگائے کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا ، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے ۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جائے گی سورة قٓ حاشیہ نمبر :8 یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا ۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے ۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295 ( 3 285 ) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی ۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے دراصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا ۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری ( ) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا ، اور یہاں انسان کے بنائے ہوئے آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے ، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں ، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بنائے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani