5۔ 1 یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہوگیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔
[٦] پہلے اعتراض کے متعلق کفار کی بدحواسی :۔ آپ کی رسالت سے انکار اور قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کی حد تک تو سب کفار مکہ متفق تھے۔ مگر اب انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام اور قرآن کو کہیں تو کیا کہیں ؟ کیونکہ نہ پیغمبر اسلام کوئی عام آدمی تھے اور نہ قرآن کوئی معمولی اور عام کتاب تھی اور یہ باتیں سب کفار کو نظر آرہی تھیں۔ کبھی تو وہ کہتے کہ یہ نبی شاعر ہے اور یہ کتاب شاعری ہے، کبھی کہتے یہ نبی کاہن ہے اور یہ کتاب کہانت ہے، کبھی کہتے یہ نبی جادوگر ہے اور یہ کتاب جادو ہے، کبھی یہ کہتے کہ یہ قرآن تو پرانی کہانیاں ہی ہیں جنہیں یہ نبی خود ہی تالیف کرکے ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے۔ یہ متضاد اور مختلف باتیں خود اس کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں۔
(١) بل کذبوا بالحق لما جآئھم : یعنی صرف یہی نہیں کہ ان لوگوں نے اپنی جنس میں سے رسول کی آمد کو اور دوبارہ زندہ کئے جانے کو عجیب قرار دیا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب ان کے پاس حق آیا تو اسے سنتے ہی کسی غور و فکر کے بغیر جھٹلادیا۔- (٢) فھم فی امر مریج :” مرج الامر، ای اضطرب ولتبس وقسد “” امر مریج “ الجھا ہوا معاملہ۔ یعنی سوچے سمجھے بغیر جھٹلا دینے کے بعد اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں ان ک سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ وہ انہیں جھٹلانے کا کیا جواز پیش کریں، اس لئے وہ کبھی ایک بات کرتے ہیں کبھی دوسری۔ ایک بات پر انہیں قرار نہیں ہے اور وہ سخت ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے ہیں، کبھی کاہن، کبھی مجنون (پاگل) اور کبھی ساحر۔ اسی طرح قرآن کو کبھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا تصنیف کیا ہوا کلام کہتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ کوئی عجمی شخص انہیں سکھا جاتا ہے اور کبھی اسے جادو کہہ دیتے ہیں۔ الفرض، ہر موقع پر کوئی نہ کوئی بات گھڑ لیتے ہیں۔
بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاۗءَہُمْ فَہُمْ فِيْٓ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ ٥- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - مرج - أصل المَرْج : الخلط، والمرج الاختلاط، يقال : مَرِجَ أمرُهم «2» : اختلط، ومَرِجَ الخاتَمُ في أصبعي، فهو مارجٌ ، ويقال : أمرٌ مَرِيجٌ. أي : مختلط، ومنه غصنٌ مَرِيجٌ: مختلط، قال تعالی: فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] والمَرْجان : صغار اللّؤلؤ . قال : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] من قولهم : مَرَجَ.- ويقال للأرض التي يكثر فيها النّبات فتمرح فيه الدّواب : مَرْجٌ ، وقوله : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ- [ الرحمن 15] أي : لهيب مختلط، وأمرجت الدّابّةَ في المرعی: أرسلتها فيه فَمَرَجَتْ.- ( م ر ج ) اصل میں المرج کے معنی خلط ملط کرنے اور ملا دینے کے ہیں اور المروج کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ۔ مرج امرھم ۔ ان کا معاملہ ملتبس ہوگیا ۔ مرج الخاتم فی اصبعی ۔ انگوٹھی انگلی میں ڈھیلی ہوگئی مارج ( صفت فاعلی ) ڈھیلی انگوٹھی ۔ امر مریج گذمڈا اور پیچیدہ معاملہ ۔ غضن مریج : باہم گتھی ہوئی ٹہنی ۔ قرآن پاک میں ہے : فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ [ ق 5] سو یہ ایک غیرواضح معاملہ میں ہیں ۔ المرجان ۔ مونگا چھوٹا موتی ۔ قرآن پاک میں ہے : كَأَنَّهُنَّ الْياقُوتُ وَالْمَرْجانُ [ الرحمن 19] اور آٰیت کریمہ ؛مَرَجَاس نے دودریا ر واں کے جو آپس میں ملتے ہیں ۔ میں مرج کا لفظ مرج کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور جس زمین میں گھاس بکثرت ہو اور جانور اس میں مگن ہوکر چرتے رہیں اسے مرج کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] آگ کے شعلے ہے ۔ میں مارج کے معنی آگ کے ( دھوئیں سے ) مخلوط شعلے کے ہیں ۔ امرجت الدابۃ فی المرعیٰ : میں نے جانور کو چراگاہ میں کھلا چھوڑ دیا چناچہ آزادی سے چرتا رہا ۔
کافر، معرفتِ حق سے عاری بلکہ الجھنوں میں پڑا رہتا ہے - قول باری ہے (بل کذبوا بالحق لما جآء ھم فھم فی امر مریج، بلکہ ان لوگوں نے تو حق کو جس وقت وہ ان کے پاس آگیا اسی وقت صاف جھٹلادیا، غرض یہ لوگ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں)- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سے قول باری (فھم فی امر مریج) کی تفسیر میں نقل کیا کہ جو شخص حق اور سچائی کو ترک کردے گا اس کی رائے میں الجھائو پیدا ہوجائے گا اور اس کا دین گڈمڈ ہوجائے گا۔
بلکہ یہ لوگ تو رسول اکرم اور قرآن کریم کو جبکہ محمد اسے ان کے پاس لے کر آئے جھٹلاتے ہیں۔ یہ قسم کا جواب ہے کہ محمد ان کے پاس قرآن کریم لے کر آئے بلکہ یہ گمراہی یا یہ کہ متزلزل حالت میں ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ان کی حالت ہی مختلف ہے کہ بعض ان میں سے تکذیب کرتے ہیں اور بعض تصدیق کرتے ہیں۔
آیت ٥ بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ ” بلکہ انہوں نے جھٹلا دیا حق کو جب کہ وہ ان کے پاس آیا “- فَہُمْ فِیْٓ اَمْرٍ مَّرِیْجٍ ۔ ” سو اب وہ ایک بڑی الجھن میں مبتلاہو گئے ہیں۔ “- ایک طرف تو جواب دہی اور احتساب کی باتیں ماننے کے لیے ان کی طبیعتیں آمادہ نہیں اور دوسری طرف اس بارے میں قرآن کی زبان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دلائل ایسے قوی ہیں کہ انہیں جھٹلانا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بس یہی الجھن ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ اس کائنات کی ایک ایک چیز اس حقیقت پر گواہ ہے اور اس کا مربوط و مستحکم نظام بھی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس کا خالق ایک علیم و حکیم ہستی ہے ۔ پھر انسان کے اندر پائی جانے والی ” اخلاقی حس “ بھی اس کے اچھے برے اعمال کے ٹھوس اور حتمی نتائج کا تقاضا کرتی ہے جس کے لیے ایک دوسری زندگی کی ضرورت ہے۔ ان تمام حقائق و شواہد کی موجودگی میں ایک صاحب ِعقل اور ذی شعور انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ کائنات بس ” رام کی لیلا “ ہے اور انسان کی اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے۔ چناچہ منکرین آخرت کے لیے ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر چارہ بھی نہیں ‘ لیکن ان کی طبیعتیں ہیں کہ احتساب کے لیے تیار بھی نہیں۔ یہ انسان کی وہی نفسیاتی الجھن ہے جس کا ذکر غالب ؔنے اس شعر میں کیا ہے جو میں نے ابھی آپ کو سنایا ہے : ؎- جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی - ان لوگوں کے قلوب و اذہان میں منفی خیالات و نظریات اس قدر راسخ ہوچکے ہیں کہ اب ان سے پیچھا چھڑانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ دراصل انسان اپنے لڑکپن کی عمر میں جن عقائد و نظریات کا اثر قبول کرتا ہے وہ ساری عمر کے لیے اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی اس کمزوری کا نقشہ ایک انگریزی نظم میں بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ یہ نظم میں نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے زمانے میں پڑھی تھی ۔ اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ان عادات کے ” پنجرے “ کا قیدی ہے جنہیں وہ لڑکپن کی عمر میں ایک ایک کرکے اپناتا ہے۔ گویا اس پنجرے کی سلاخیں اپنے لیے وہ خود تیار کرتا ہے۔ بقول شاعر :- " "- ” اس پنجرے کی سلاخیں میں نے اس وقت تیار کی تھیں جب میں جوان تھا “۔ جوانی میں انسان کے قویٰ مضبوط ہوتے ہیں ۔ اس وقت وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر نقش کا لحجر بن جاتا ہے اور پھر اپنی باقی عمر وہ ان عادات و نظریات کا قیدی بن کر پنجرے میں قید پرندے کی مانند گزار دیتا ہے۔ چناچہ یہ منکرین آخرت بھی اپنے غلط عقائد و نظریات کے خود ساختہ پنجروں کے قیدی ہیں۔ ان پنجروں کی سلاخیں وہ اس قدر مضبوط کرچکے ہیں کہ اب انہیں توڑ کر باہر نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔
سورة قٓ حاشیہ نمبر :5 اس مختصر سے فقرے میں بھی ایک بہت بڑا مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے صرف تعجب کرنے اور بعید از عقل ٹھہرانے پر ہی اکتفا نہ کیا ، بلکہ جس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت حق پیش کی اسی وقت بلا تامل اسے قطعی جھوٹ قرار دے دیا ۔ اس کا نتیجہ لازماً یہ ہونا تھا اور یہی ہوا کہ انہیں اس دعوت اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے معاملہ میں کسی ایک موقف پر قرار نہیں ہے ۔ کبھی اس کو شاعر کہتے ہیں تو کبھی کاہن اور کبھی مجنون ۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے خود یہ چیز بنا لایا ہے ، اور کبھی یہ الزام تراشتے ہیں کہ اس کے پس پشت کچھ دوسرے لوگ ہیں جو یہ کلام گھڑ گھڑ کر اسے دیتے ہیں ۔ یہ متضاد باتیں خود ظاہر کرتی ہیں کہ یہ لوگ اپنے موقف میں بالکل الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ اس الجھن میں یہ ہرگز نہ پڑتے اگر جلد بازی کر کے نبی کو پہلے ہی قدم پر جھٹلا نہ دیتے اور بلا فکر و تامل ایک پیشگی فیصلہ صادر کر دینے سے پہلے سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے کہ یہ دعوت کون پیش کر رہا ہے ، کیا بات کہہ رہا ہے اور اس کے لیے دلیل کیا دے رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ شخص ان کے لیے اجنبی نہ تھا ۔ کہیں سے اچانک ان کے درمیان نہ آ کھڑا ہوا تھا ۔ ان کی اپنی ہی قوم کا فرد تھا ۔ ان کا اپنا دیکھا بھالا آدمی تھا ۔ یہ اس کی سیرت و کردار اور اس کی قابلیت سے ناواقف نہ تھے ۔ ایسے آدمی کی طرف سے جب ایک بات پیش کی گئی تھی تو چاہے اسے فوراً قبول نہ کر لیا جاتا ، مگر وہ اس کی مستحق بھی تو نہ تھی کہ سنتے ہی اسے رد کر دیا جاتا ۔ پھر وہ بات بے دلیل بھی نہ تھی ۔ وہ اس کے لیے دلائل پیش کر رہا تھا ۔ چاہیے تھا کہ اس کے دلائل کھلے کانوں سے سنے جاتے اور تعصب کے بغیر ان کو جانچ کر دیکھا جاتا کہ وہ کہاں گم معقول ہیں ۔ لیکن یہ روش اختیار کرنے کے بجائے جب ان لوگوں نے ضد میں آ کر ابتدا ہی میں اسے جھٹلا دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک حقیقت تک پہنچنے کا دروازہ تو انہوں نے اپنے لیے خود بند کر لیا اور ہر طرف بھٹکتے پھرنے کے بہت سے راستے کھول لیے ۔ اب یہ اپنی ابتدائی غلطی کو نباہنے کے لیے دس متضاد باتیں تو بنا سکتے ہیں مگر اس ایک بات کو سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ نبی سچا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی پیش کردہ بات حقیقت بھی ہو سکتی ہے ۔
3: یعنی کبھی کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے، کبھی کہتے ہیں کہ یہ کاہنوں کی باتیں ہیں، کبھی قرآن کریم کو شاعری قرار دیتے ہیں، اور کبھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (معاذ اللہ) دیوانہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔