خلیفۃ المسلمین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفے کے منبر پر چڑھ کر ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ قرآن کریم کی جس آیت کی بابت اور جس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تم کوئی سوال کرنا چاہتے ہو کر لو ۔ اس پر ابن الکواء نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ ( ذاریات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا ، پوچھا ( حاملات ) سے ؟ فرمایا ابر ۔ کہا ( جاریات ) سے ؟ فرمایا کشتیاں ، کہا ( مقسمات ) سے ؟ فرمایا فرشتے اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے ۔ بزار میں ہے ( صبیغ ) تمیمی امیر المومنین حضرت عمر کے پاس آیا اور کہا بتاؤ ( ذاریات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہوا ۔ اور اسے اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا نہ ہوتا تو میں کبھی یہ مطلب نہ کہتا ۔ پوچھا ( مقسمات ) سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا فرشتے اور اسے بھی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے ۔ پوچھا ( جاریات ) سے کیا مطلب ہے ؟ فرمایا کشتیاں ۔ یہ بھی میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا ۔ پھر حکم دیا کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں چنانچہ اسے درے مارے گئے اور ایک مکان میں رکھا گیا جب زخم اچھے ہوگئے تو بلوا کر پھر کوڑے پٹوائے ، اور سوار کرا کر حضرت ابو موسیٰ کو لکھ بھیجا کہ یہ کسی مجلس میں نہ بیٹھنے پائے کچھ دنوں بعد یہ حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا کہ اب میرے خیالات کی پوری اصلاح ہو چکی اب میرے دل میں بد عقیدگی نہیں رہی جو پہلے تھی ۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ نے جناب امیر المومنین کی خدمت میں اس کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ میرا خیال ہے کہ اب وہ واقعی ٹھیک ہو گیا ہے ۔ اس کے جواب میں دربار خلافت سے فرمان پہنچا کہ پھر انہیں مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے ۔ امام ابو بکر بزار فرماتے ہیں اس کے دو راویوں میں کلام ہے پس یہ حدیث ضعیف ہے ۔ ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر کا اپنا فرمان ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ امیر المومنین نے اسے جو پٹوایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بد عقیدگی آپ پر ظاہر ہو چکی تھی اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے واللہ اعلم ۔ صبیغ کے باپ کا نام عسل تھا اور اس کا یہ قصہ مشہور ہے جسے پورا پورا حافظ ابن عساکر لائے ہیں ۔ یہی تفسیر حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت مجاہد حضرت صعید بن جبیر حضرت حسن حضرت قتادہ حضرت سدی وغیرہ سے مروی ہے ۔ امام ابن جریر اور امام ابن ابی حاتم نے ان آیتوں کی تفسیر میں اور کوئی قول وارد ہی نہیں کیا حاملات سے مراد ابر ہونے کا محاورہ اس شعر میں بھی پایا جاتا ہے ۔ واسلمت نفسی لمن اسلمت لہ المزن تحمل عذباز لالا یعنی میں اپنے آپ کو اس اللہ کا تابع فرمان کرتا ہوں جس کے تابع فرمان وہ بادل ہیں جو صاف شفاف میٹھے اور ہلکے پانی کو اٹھا کر لے جاتے ہیں جاریات سے مراد بعض نے ستارے لئے ہیں جو آسمان پر چلتے پھرتے رہتے ہیں یہ معنی لینے میں یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہو گی ۔ اولًا ًہوا پھر بادل پھر ستارے پھر فرشتے ۔ جو کبھی اللہ کا حکم لے کر اترتے ہیں کبھی کوئی سپرد کردہ کام بجا لانے کے لئے تشریف لاتے ہیں ۔ چونکہ یہ سب قسمیں اس بات پر ہیں کہ قیامت ضرور آنی ہے اور لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس لئے ان کے بعد ہی فرمایا کہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ سچا ہے اور حساب کتاب جزا سزا ضرور واقع ہونے والی ہے ۔ پھر آسمان کی قسم کھائی جو خوبصورتی رونق حسن اور برابری والا ہے بہت سے سلف نے یہی معنی ( حبک ) کے بیان کئے ہیں حضرت ضحاک وغیرہ فرماتے ہیں کہ پانی کی موجیں ، ریت کے ذرے ، کھیتیوں کے پتے ہوا کے زور سے جب لہراتے ہیں اور پرشکن لہرائے دار ہو جاتے ہیں اور گویا ان میں راستے پڑ جاتے ہیں اسی کو حبک کہتے ہیں ، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمہارے پیچھے کذاب بہکانے والا ہے اس کے سر کے بال پیچھے کی طرف سے حبک حبک ہیں یعنی گھونگر والے ۔ ابو صالح فرماتے ہیں حبک سے مراد شدت والا خصیف کہتے ہیں مراد خوش منظر ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس کی خوبصورتی اس کے ستارے ہیں حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اس سے مراد ساتواں آسمان ہے ممکن ہے آپ کا مطلب یہ ہو کہ قائم رہنے والے ستارے اس آسمان میں ہیں اکثر علماء ہیئت کا بیان ہے کہ یہ آٹھویں آسمان میں ہیں جو ساتویں کے اوپر ہے واللہ اعلم ان تمام اقوال کا ماحصل ایک ہی ہے یعنی حسن و رونق والا آسمان ۔ اس کی بلندی ، صفائی ، پاکیزگی ، بناوٹ کی عمدگی ، اس کی مضبوطی ، اس کی چوڑائی اور کشادگی ، اس کا ستاروں کا جگمگانا ، جن میں سے بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ٹھہرے ہوئے ہیں اس کا سورج اور چاند جیسے سیاروں سے مزین ہونا یہ سب اس کی خوبصورتی اور عمدگی کی چیزیں ہیں پھر فرماتا ہے اے مشرکو تم اپنے ہی اقوال میں مختلف اور مضطرب ہو تم کسی صحیح نتیجے پر اب تک خود اپنے طور پر بھی نہیں پہنچے ہو ۔ کسی رائے پر تمہارا اجتماع نہیں ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان میں سے بعض تو قرآن کو سچا جانتے تھے بعض اس کی تکذیب کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے یہ حالت اسی کی ہوتی ہے جو خود گمراہ ہو ۔ وہ اپنے ایسے باطل اقوال کی وجہ سے بہک اور بھٹک جاتا ہے صحیح سمجھ اور سچا علم اس سے فوت ہو جاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيْمِ ١٦٣ ) 37- الصافات:163 ) یعنی تم لوگ مع اپنے معبودان باطل کے سوائے جہنمی لوگوں کے کسی کو بہکا نہیں سکتے حضرت ابن عباس اور سدی فرماتے ہیں اس سے گمراہ وہی ہوتا ہے جو خود بہکا ہوا ہو ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے دور وہی ہوتا ہے جو بھلائیوں سے دور ڈال دیا گیا ہے حضرت امام حسن بصری فرماتے ہیں قرآن سے وہی ہٹتا ہے جو اسے پہلے ہی سے جھٹلانے پر کم کس لئے ہو پھر فرماتا ہے کہ بےسند باتیں کہنے والے ہلاک ہوں یعنی جھوٹی باتیں بنانے والے جنہیں یقین نہ تھا جو کہتے تھے کہ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یعنی شک کرنے والے ملعون ہیں حضرت معاذ بھی اپنے خطبے میں یہی فرماتے تھے ، یہ دھوکے والے اور بدگمان لوگ ہیں پھر فرمایا جو لوگ اپنے کفر و شک میں غافل اور بےپرواہ ہیں ۔ یہ لوگ ازروئے انکار پوچھتے ہیں کہ جزا کا دن کب آئے گا ؟ اللہ فرماتا ہے اس دن تو یہ آگ میں تپائے جائیں گے جس طرح سونا تپایا جاتا ہے یہ اس میں جلیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جلنے کا مزہ چکھو ۔ اپنے کرتوت کے بدلے برداشت کرو ۔ پھر ان کی اور زیادہ حقارت کے لئے ان سے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا یہی ہے جس کی جلدی مچا رہے تھے کہ کب آئے گا کب آئے گا ، واللہ اعلم ۔
1۔ 1 اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔
[١] بارش سے تعلق رکھنے والی ہوائیں اور ان کی قسم :۔ ان ابتدائی چار آیات میں مختلف قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو بارش کے نظام پر دلالت کرتی ہیں۔ پہلے کچھ گردو غبار اڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر آسمان کے کسی کونے سے لاکھوں اور کروڑوں ٹن پانی کا بوجھ اٹھانے والی گھٹائیں نمودار ہوجاتی ہیں۔ پھر ٹھنڈی اور نرم ہوائیں چلتی ہیں جو بارش کی خوشخبری لاتی اور دلوں کو راحت و سرور بخشتی ہیں۔ پھر یہی ہوائیں بادلوں کو ان علاقوں کی طرف لے جاتی ہیں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا منظور ہوتا ہے اور جس قدر بارش برسانا منظور ہوتا ہے بعض مفسرین نے (فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا ۙ ) 51 ۔ الذاریات :3) سے مراد کشتیاں لی ہیں جو دھیرے دھیرے چلتی ہیں اور بعض نے سیارے جو سبک رفتاری سے محو گردش رہتے ہیں۔ اسی طرح ( فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ۙ ) 51 ۔ الذاریات :4) سے بعض مفسرین نے وہ فرشتے مراد لیے ہیں جو رزق کی تقسیم پر مامور ہیں۔ ان کے نزدیک جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کی ترتیب نیچے سے اوپر کو ہے۔ یعنی گردوغبار اڑانے والی ہوائیں تو سطح زمین پر چلتی ہیں۔ بادل اٹھانے والی ہوائیں سطح زمین سے کافی بلندی پر ہوتی ہیں۔ ستارے زمین سے بہت دور اور بلندی پر ہیں۔ اور فرشتے ان سے بھی زیادہ بلندی پر ہیں۔ ان دونوں تفسیروں میں اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو ہی ترجیح دی ہے۔
(١) والذاریت ذرواً : قسم کا مقصد کسی بات کی تاکید اور اسے سچا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی قسمیں دراصل اپنے جواب قسم کی دلیل اور شاہد ہیں جنہیں قسم کی صورت میں لایا گیا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر چار قسمیں اٹھائی ہیں۔- (٢) والذریت ذروا :” الذریت “” ذرا یذرو ذروا “ سے اسم فاعل ” ذاریۃ “ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ” ہوا کا کسی چیز کو اڑانا اور بکھیرنا “ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فاصبح ھشیماً تذروہ الریح) (الکھف : ٣٥)” پھر وہ چورا بن گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں۔ “” ذرواً “ مفعول مطلق ہے جو ” الذریت “ کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ ” الذریت “ کا لفظی معنی ہے اڑانے والیاں۔ اب ان اڑانے والویں سے مراد کیا ہے ؟ مفسرین کا اتفاق ہے کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں جو تیز چلتی ہیں تو گرد و غبار اور خس و خاشاک کو اڑا کر بکھیری چلی جاتی ہیں۔
خلاصہ تفسیر - قسم ہے ان ہواؤں کی جو غبار وغیرہ کو اڑاتی ہیں پھر ان بادلوں کی جو بوجھ (یعنی بارش کو) اٹھاتے ہیں پھر ان کشتیوں کی جو نرمی سے چلتی ہیں پھر ان فرشتوں کی جو ( حکم کے موافق اہل ارض میں) چیزیں تقسیم کرتے ہیں (مثلاً جہاں جس قدر بارش کا حکم ہوتا ہے جو مادہ ہے رزق کا وہاں بادلوں کے ذریعہ اسی قدر پہنچاتے ہیں، اسی طرح حسب حدیث رحم مادر میں بچے کی صورت میں مذکر و مونث پوچھ کر بناتے ہیں اور سکینہ اور رعب بھی تقسیم کرتے ہیں، آگے ان قسموں کا جواب ہے کہ) تم سے جس (قیامت) کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ بالکل سچ ہے اور (اعمال کی) جزا (و سزا) ضرور ہونے والی ہے ( ان قسموں میں اشارہ ہے استدلال کی طرف یعنی یہ سب تصرفات عجیبہ قدرت الٰہیہ سے ہونا دلیل ہے عظمت قدرت کی، پھر ایسی عظیم القدرت ذات کو قیامت کا واقع کرنا کیا مشکل ہے اور تفسیر ان کلمات کی جن کی آیات مذکورہ میں قسم کھائی گئی ہے درمنثور میں حدیث مرفوع سے اسی طرح نقل کی ہے جو آگے آتی ہے اور تخصیص ان چیزوں کی شاید اس لئے ہو کہ اس میں اشارہ ہوگیا مخلوق کی اصناف مختلفہ کی طرف چناچہ ملائکہ سماویات میں سے ہیں اور ریاح و سفن (کشتیاں) ارضیات میں سے اور سحاب کائنات جو یعنی فضائی مخلوقات میں سے اور ارضیات میں دو چیزیں جن میں ایک آنکھ سے نظر آتی ہے دوسری نظر نہیں آتی، شاید اس لئے آئی ہوں کہ قیامت کے متعلق ایک مضمون پر خود آسمان کی قسم ہے جیسے اوپر سماویات کی تھی یعنی) قسم ہے آسمان کی جس میں (فرشتوں کے چلنے کے) راستے ہیں (کقولہ تعالیٰ (آیت) ولقد خلقنا فوقکم سبع طرآئق، آگے جواب قسم ہے) کہ تم (یعنی سب) لوگ (قیامت کے بارے میں) مختلف گفتگو میں ہو (کوئی تصدیق کرتا ہے، کوئی تکذیب کرتا ہے، وہذا کقولہ تعالیٰ ”(آیت) عن النبا العظیم الذی ہم فیہ مختلفون “ الذی فسرہ قتادة کما فی الدر بقول مصدق بہ و مکذب اور آسمان کی قسم سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جنت آسمان میں ہے اور آسمان میں راستہ بھی ہے مگر جو حق میں اختلاف کرے گا اس کے لئے راہ بند ہوجاوے گی اور ان اختلاف والوں میں) اس (وقوع قیامت و جزا کے اعتقاد) سے وہی پھرتا ہے جس کو (بالکلیہ خیر وسعادت ہی سے) پھرنا ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث میں ہے من حرمہ فقد حرم الخیر کلہ رواہ ابن ماجہ یعنی جو شخص اس سے محروم رہا وہ ہر خیر سے محروم رہا اور اختلاف والوں کے دوسرے فریق کا یعنی تصدیق کرنے والوں کا حال اسی کے مقابلہ سے معلوم ہوگیا کہ وہ خیر وسعادت سے پھرے ہوئے نہیں، اب آگے ان پھرنے والوں کی مذمت ہے کہ) غارت ہوجائیں بےسند باتیں کرنے والے (یعنی جو قیامت کا انکار کرتے ہیں بلا اس کے کہ ان کے پاس کوئی اس کی دلیل ہو) جو کہ جہالت میں بھولے ہوئے ہیں (بھولنے سے مراد اختیاری غفلت ہے اور وہ لوگ بطور استہزا و استعجال کے) پوچھتے ہیں کہ روز جزا کب ہوگا (آگے جواب ہے کہ وہ اس دن ہوگا) جس دن (کہ) وہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے ( اور کہا جاوے گا کہ) اپنی اس سزا کا مزہ چکھو یہی ہے جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے ( یہ جواب (آیت) یوم ہم علی النار یفتنون اس طرز کا ہے جیسے کسی مجرم کے لئے پھانسی کا حکم ہوجاوے، مگر وہ احمق باوجود قیام براہین کے محض اس وجہ سے کہ اس کو تاریخ نہیں بتلائی گئی تکذیب ہی کئے جاوے اور کہے جاوے کہ اچھا وہ دن کب آوے گا، چونکہ یہ سوال محض کج روی کی راہ سے ہے اس لئے جواب میں بجائے تاریخ بتلانے کے یہ کہنا نہایت مناسب ہوگا کہ وہ دن اس وقت آوے گا جب تم پھانسی پر لٹکا دیئے جاؤ گے، آگے دوسرے فریق یعنی مومنین و مصدقین کے ثواب کا ذکر ہے کہ) بیشک متقی لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے (اور کیوں نہ ہو ؟ ) وہ لوگ اس کے قبل (یعنی دنیا میں) نیکوکار تھے (پس حسب وعدہ ہل جزآء الاحسان الا الاحسان کے ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا، آگے ان کی نیکوکاری کی قدرے تفصیل ہے کہ) وہ لوگ (فرائض و واجبات سے ترقی کر کے نوافل و تطوعات کے ایسے التزام کرنے والے تھے کہ) رات کو بہت کم سوتے تھے (یعنی زیادہ حصہ رات کا عبادت میں صرف کرتے تھے) اور (پھر باوجود اس کے اپنی عبادت پر نظر نہ کرتے تھے بلکہ) اخیر شب میں ( اپنے کو عبادت میں کوتاہی کرنے والا سمجھ کر) استغفار کیا کرتے تھے (یہ تو عبادت بدنیہ میں ان کی حالت تھی) اور (عبادت مالیہ کی یہ کیفیت تھی کہ) ان کے مال میں سوالی اور غیر سوالی سب کا حق تھا ( یعنی ایسے التزام سے دیتے تھے جیسے ان کے ذمہ ان کا کچھ آتا ہو، مراد اس سے غیر زکوٰة ہے (ہکذا فی الدر عن ابن عباس و مجاہد و ابراہیم) اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جنات و عیون کا ملنا نوافل پر موقوف ہے بلکہ یہاں اہل درجات عالیہ کا ذکر فرمایا گیا ہے) اور (چونکہ کفار قیامت کی صحت کا انکار کرتے تھے اس لئے آگے اس کی دلیل کی طرف اشارہ ہے کہ) یقین لانے (کی کوشش اور طلب کرنے) والوں کے لئے (قیامت کے ممکن اور واقع ہونے پر) زمین ( کے کائنات) میں بہت نشانیاں (اور دلیلیں) ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی (یعنی تمہارے ظاہری و باطنی احوال مختلفہ بھی دلائل ہیں قیامت کے ممکن ہونے کے، کیونکہ امور آفاقیہ و انفسیہ بالیقین داخل تحت القدرت ہیں اور قدرت ذاتیہ کی نسبت تمام ممکنات کے ساتھ یکساں ہے، اور جب کہ قیامت کے ناممکن ہونے کی کوئی دلیل نہیں تو قیامت بھی ممکنات سے ہے، پس وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے اور چونکہ ان دلائل کی دلالت بہت واضح تھی، اس لئے توبیخاً فرماتے ہیں کہ جب ایسے دلائل موجود ہیں) تو کیا تم کو (مطلوب پھر بھی) دکھلائی نہیں دیتا اور ( رہا تعین وقت وقوع کا جس کے عدم سے استدلال عدم وقوع پر کرتے تھے، سو اس کی نسبت یہ ہے کہ) تمہارا رزق اور جو تم سے (قیامت کے متعلق) وعدہ کیا جاتا ہے ( ان) سب ( کا معین وقت) آسمان میں (جو لوح محفوظ ہے اس میں درج) ہے (زمین پر اس کا یقینی علم کسی مصلحت سے نازل نہیں کیا گیا چناچہ وینزل الغیث میں بھی نہیں بتلایا گیا اور مشاہدہ بھی ہے کہ یقینی تعیین کسی کو نہیں معلوم لیکن جب باوجود تعیین وقت کا علم نہ ہونے کے رزق کا وجود یقینی ہے پھر اس عدم تعیین تاریخ سے قیامت کا عدم کیسے لازم آ گیا اور ایسے استدلال کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ما تو عدون کے ساتھ رزقکم بڑھا دیا، آگے اسی پر تفریع فرماتے ہیں کہ جب نفی کی کوئی دلیل نہیں اور اثبات کی دلیل ہے) تو قسم ہے آسمان اور زمین کے پروردگار کی کہ وہ (روز جزا) برحق ہے ( اور ایسا یقینی) جیسا تم باتیں کر رہے ہو (کبھی اس میں شک نہیں ہوتا، اس طرح اس کو یقینی سمجھو)- معارف و مسائل - سورة ذاریات میں بھی اس سے پہلی سورت ق کی طرح زیادہ تر مضامین آخرت و قیامت اور اس میں مردوں کے زندہ ہونے، حساب کتاب اور ثواب و عذاب کے متعلق ہیں۔- پہلی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کے متعلق جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا وعدہ ہے، جن چیزوں کی قسم کھائی ہے وہ چار ہیں، وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا، فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا، فَالْجٰرِيٰتِ يُسْرًا، فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۔ ایک حدیث مرفوع میں جس کو ابن کثیر نے ضعیف کہا ہے اور حضرت فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ سے موقوفاً ان چاروں چیزوں کے معنی اور مفہوم یہ بتلایا گیا ہے کہ ذاریات سے مراد وہ ہوائیں ہیں جن کے ساتھ غبار ہوتا ہے اور حاملات و قراً کے لفظی معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں، اس سے مراد بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں اور جاریات یسرا سے مراد کشتیاں ہیں جو پانی میں آسانی سے ساتھ چلتی ہیں اور مقسمات امرا سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام مخلوقات میں رزق اور بارش کا پانی اور تکلیف و راحت کی مختلف اقسام تقدیر الٰہی کے مطابق تقسیم کرتے ہیں، تفسیر ابن کثیر، قرطبی اور در منثور میں یہ روایات موقوفہ و مرفوعہ مذکور ہیں۔
وَالذّٰرِيٰتِ ذَرْوًا ١ ۙ- ذرو - ذِرْوَةُ السّنام وذُرَاه : أعلاه، ومنه قيل : أنا في ذُرَاكَ ، أي : في أعلی مکان من جنابک .- والمِذْرَوَان : طرفا الأليتين، وذَرَتْهُ الرّيح تَذْرُوهُ وتَذْرِيهِ. قال تعالی: وَالذَّارِياتِ ذَرْواً- [ الذاریات 1] ، وقال : تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] ، والذُّرِّيَّة أصلها : الصّغار من الأولاد، وإن کان قد يقع علی الصّغار والکبار معا في التّعارف، ويستعمل للواحد والجمع، وأصله الجمع، قال تعالی: ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران 34] ، وقال : ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء 3] ، وقال : وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس 41] ، وقال : إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] ، وفي الذُّرِّيَّة ثلاثة أقوال : قيل هو من : ذرأ اللہ الخلق فترک همزه، نحو : رويّة وبريّة . وقیل : أصله ذرويّة .- وقیل : هو فعليّة من الذّرّ نحو قمريّة . وقال (أبو القاسم البلخيّ ) : قوله تعالی: وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف 179] ، من قولهم : ذریت الحنطة، ولم يعتبر أنّ الأوّل مهموز .- ( ذر و )- ذروۃ السنام وذراہ ۔ کوہان کا بلند حصہ ۔ اسی سے محاورہ ہے ان فی ذراک میں تیری جناب میں باعزت ہوں ( میں تیری پناہ میں ہوں ) المذراوان سرین کے دونوں کنارے ( ولا واحد لہ ) ذرتہ الریح تذروہ وتذریہ ۔ ہوا کا کسی چیز کو بکھیرد ینا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَالذَّارِياتِ ذَرْواً [ الذاریات 1] بکھیر نے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ۔ تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں ۔ الذریۃ کے اصل معنی چھوٹی اولاد کے ہیں مگر عرف میں مطلق اولاد پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اصل میں یہ لفظ جمع ہے مگر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران 34] ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے ۔ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء 3] اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں ) سوار کیا تھا ۔ وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس 41] اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ۔ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤنگا ۔ انہوں نے کہا کہ پروردگار ) میری اولاد سے بھی ۔ ذریۃ کے اصل میں تین اقوال ہیں ۔ (1) بعض کے نزدیک یہ ذراء اللہ الخلق سے ہے یعنی اصل میں مہموز اللام ہے مگر کثرت استعمال کے سبب دویۃ وبریۃ کی طرح ہمزہ کو ترک کردیا گیا ہے ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ذرویۃ بروزن فعلیہ تھا اور ذر سے مشتق ہے ۔ جیسے قریۃ قر سے (3) ابوالقاسم البلخی کہتے ہیں ۔ کہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف 179] اور ہم نے ۔۔ جہنم کے لئے پیدا کئے ۔ میں ذرانا ذریت الحنطۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندم کو اساون کرنے کے ہیں گویا وہ اسے بھی مہموز نہیں سمجھتے ۔ - ذرو ( باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ہے۔ ذرو بمعنی اڑنا۔ اڑانا۔ پراگندہ کرنا۔ جدا کرنا۔ بکھیرنا۔ الذریت ای الریاح التی تذور التراب۔۔ ہوئیں جو مٹی یا بادلوں وغیرہ کو ادھر ادھر اڑاتی ہیں۔ ذرو ۔ ہوا کی صفات میں سے مشہور صفت ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاصبح ہشیما تذروہ الریاح ۔ (18:45) پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اٹھاتی پھرتی ہیں۔ ذروا مفعول مطلق۔ بعض کے نزدیک الذاریت سے مراد عورتیں یا ملائکہ اور دوسرے ( سماوی یا ارضی) اسباب ہیں جو روئے زمین پر مخلوق کو پھیلاتے ہیں۔ ترجمہ ہوگا : قسم ہے بکھیرنے والیوں کی جو اڑا کر بکھیرتی ہیں۔ یعنی قسم ہے ان ہوائوں کی جو خاک وغیرہ اڑاتی ہیں۔
(١۔ ٦) قسم ہے ان ہواؤں کی جو کہ لوگوں کے مقامات پر غبار اڑاتی ہیں اور پھر ان بادلوں کی قسم کھتا ہوں جو بارش کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔- پھر ان کشتیوں کی جو کہ نرمی کے ساتھ چلتی ہیں اور پھر ان فرشتوں یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت کی جو بندوں میں حکم کے مطابق چیزیں تقسیم کرتے ہیں غرض ان تمام چیزوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قیامت ضرور قائم ہوگی اور حساب و کتاب یعنی اعمال کی جزا و سزا ضرور ہونے والی ہے۔
آیت ١ وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا ۔ ” قسم ہے ان ہوائوں کی جو بکھیرنے والی ہیں جیسے کہ بکھیرا جاتا ہے۔ “- ہوائیـں بہت سی چیزوں کو بکھیرتی ہیں۔ مثلاً پودوں کے پھولوں کے زردانے ( ) ہوائوں کی مدد سے ایک پودے سے دوسرے تک پہنچ کر اسے بارور کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے درختوں کے بیج ہوائوں کے دوش پر سفر کرتے ہوئے دور دراز علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یوں ہوائیں پودوں کے پھلنے پھولنے اور جنگلات کے بڑھانے میں بھی مدد دیتی ہیں۔