2۔ 1 وقر، ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات، وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسے چوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
(فالحملت وقراً :” وقراً “ بوجھ، اس پر تنوین تعظیم کے لئے ہے، بھاری بوجھ، یہ بھی ہواؤں ہی کی صفت ہے کہ پھر وہ ہوائیں سورج کی حرارت کے ساتھ سمندر سے اٹھنے والے آبی بخارتا سے بننے والے کروڑوں اربوں ٹن وزنی بھاری بادلوں کی اٹھاتی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عربی زبان میں عام طور پر جب صفات کا عطف فاء کے ساتھ ہو تو ایک تو وہ سب ایک ہی موصوف کی صفتیں ہوتی ہیں، دوسرا ان میں ترتیب ہوتی ہے، جیسا کہ سورة عادیات میں ہے :(والعدیت ضبحاً ، فالموریت قدحا، فالمغیرت صبحاً ، فاثرن بہ نقعاً ، فوسطن بہ جمعاً ) (العادیات : ١ تا ٥)” قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے ہیں پھر جو سم مار کر چنگاریاں نکالنے والے ہیں پھر جو صبح کے وقت حملہ کرنے والے ہیں پھر اس کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں۔ پھر وہ اس کے ساتھ بڑی جماعت کے درمیان جا گھستے ہیں۔ “ یہاں فاء کے ساتھ عطف سے ظاہر ہے کہ یہ اور اس کے بعد آیات میں مذکور سب صفات ہواؤں میں کی ہیں۔
فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا ٢ ۙ- فالحملت وقرا : ف عاطفہ ہے الحملت اٹھانے والیاں۔ الحاملۃ کی جمع ہے۔ حمل ( باب ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ہے معطوف ہے اس کا عطف الذریت پر ہے۔ اس سے قبل وائو قسمیہ مقدرہ ہے وقرا قائم مقام مصدر کے ہے۔ جیسے کہتے ہیں ضرب سوطا۔ یا مفعول بہ ہے۔ وقرا بمعنی بوجھ۔ اضواء البیان میں ہے۔- حامِلاتِ- والحُمُولَة : لما يحمل، والحَمَل : للمحمول، وخصّ الضأن الصغیر بذلک لکونه محمولا، لعجزه، أو لقربه من حمل أمّه إياه، وجمعه : أَحْمَال وحُمْلَان وبها شبّه السّحاب، فقال عزّ وجل : فَالْحامِلاتِ وِقْراً [ الذاریات 2] ، والحَمِيل : السّحاب الکثير الماء، لکونه حاملا للماء والحمِيل : ما يحمله السیل، والغریب تشبيها بالسیل، والولد في البطن . والحَمِيل : الكفيل، لکونه حاملا للحق مع من عليه الحق، ومیراث الحمیل لمن لا يتحقق نسبه وحَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] ، كناية عن النّمام، وقیل : فلان يحمل الحطب الرّطب أي : ينمّ.- اورحمل کی جمع احمال وحملان آتی ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بادل کو حامل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ فَالْحامِلاتِ وِقْراً [ الذاریات 2] اور پانی کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔ الحمیل بہت پانی والا بادل ۔ نیز حمیل اس کوڑا کرکٹ کو بھی کہا جاتا ہے جو سیلاب بہا کرلے آتا ہے اور اجنبی مسافر اور ضامن پر بھی یہ لفظ بولاجاتا ہے کیونکہ ضامن بھی مقروض کے ساتھ اس کی ضمانت کا بوجھ اٹھائے ہوتا ہے ۔ نیز الحمیل اس بچے کو کہتے ہیں جس کا نسب ثابت نہ ہو ۔ چناچہ میراث الحمیل کا مسئلہ ہے یعنی اس شخص کو میراث جس کا نسب متحقق نہ ہو ۔ وحَمَّالَةَ الْحَطَبِ [ المسد 4] کنایہ چغلخور ۔ فلان یحمل الحطب الرطب یعنی فلاں چغلی کھاتا ہے ۔- وقر - الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] والوَقْرُ :- الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] قيل : هو من الوَقَارِ.- وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها .- ( و ق ر ) الوقر - ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔
آیت ٢ فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا ۔ ” پھر بوجھ اٹھا کر لانے والی ہیں۔ “- ہوائیں اربوں کھربوں ٹن پانی سمندر سے اٹھا کر بادلوں کی شکل میں ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں اور پھر مختلف علاقوں میں بارش برساتی ہیں۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :1 اس امر پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ الذاریات سے مراد پراگندہ کرنے والی اور گردو غبار اڑانے والی ہوائیں ہیں ، اور اَلْحٰمِلٰتِ وِقْراً ، ( بھاری بوجھ اٹھانے والیوں ) سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی کے بخارات بادلوں کی شکل میں اٹھا لیتی ہیں ۔ یہی تفسیر حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر اور مجاہد ، سعید بن جبیر ، حسن بصری ، قتادہ اور سدی ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ حضرات سے منقول ہے ۔