Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 فِتْنَۃ بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] فتنہ کا لغوی مفہوم :۔ فَتَنَ کے لغوی معنی سونا یا چاندی کو کٹھالی میں ڈال کر تپانا، گلانا اور کھوٹ معلوم کرنا ہے۔ سابقہ آیت میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور فتنۃ کا لفظ دراصل آزمائش کے معنی میں آتا ہے جس میں سختی بھی پائی جائے اور اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے معنی آزمائش، دکھ، رنج، رسوائی، شرارت، عبرت، عذاب، مرض ہے اور فتّان بمعنی شر انگیز انسان اور شیطان ہے (منجد) اس لحاظ سے اس لفظ کا ایک وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے اور دوسرا معنی عذاب لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اپنی شرارتوں کا بدلہ یا عذاب چکھو۔ - [٨] عذاب کے لئے جلدی مچانا اپنے آپ سے دشمنی ہے :۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بتانے سے انسان کو پوری سمجھ آہی نہیں سکتی۔ مثلاً جس شخص نے آم نہ کھایا ہو اسے اس کا مزہ پوری طرح ذہن نشین نہیں کرایا جاسکتا۔ ہاں اسے آم کھلا کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہے آم اور یہ ہے اس کا مزا۔ ان کافروں پر کوئی اللہ کا عذاب نہیں آیا تھا اور اگر آبھی جاتا تو ہلاک ہونے والوں کو بعد میں کیا بتایا جاسکتا ہے۔ آخرت میں چونکہ موت نہیں ہوگی۔ لہذا اس دن ان کو عذاب دے کر بتایا جائے گا کہ یہ ہے اللہ کا عذاب۔ اب اس کا مزا چکھ لو۔ یہی وہ عذاب ہے جس کے لیے تم جلدی مچاتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اسی وقت تمہیں یہ مزا نہ چکھا دیا اور مہلت دیتا رہا مگر تم تو خود اپنے دشمن تھے جو جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذوقوافتنتکم…: یہ بات انہیں ذلیل کرنے کے لئے بطور طنز کہی جائے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذُوْقُوْا فِتْنَتَكُمْ۝ ٠ ۭ ھٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ۝ ١٤- ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

تب وہاں کے محافظ انہیں کہیں گے کہ اپنے جلنے بھننے کا اور عذاب کا مزہ چکھو یہ وہی عذاب ہے جس کی تم دنیا میں جلدی مچایا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ ذُوْقُوْا فِتْنَـتَـکُمْ ط ہٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ۔ ” (اُس دن ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنی شرارت کا۔ یہ ہے وہ (عذاب) جس کی تم جلدی مچایا کرتے تھے۔ “- تم لوگ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چیلنج کیا کرتے تھے ناکہ لے آئو ہم پر عذاب اگر لاسکتے ہو ۔ چناچہ یہ ہے آج تمہارے اس مطالبے کا جواب۔ اب چکھو اس عذاب کا مزا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :11 فتنے کا لفظ یہاں دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے اس عذاب کا مزہ چکھو ۔ دوسرے معنی یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزہ چکھو جو تم نے دنیا میں بر پا کر رکھا تھا ۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجائش ہے ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :12 کفار کا یہ پوچھنا کہ آخر وہ روز جزا کب آئے گا اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا ؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے ۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے ، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا ۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جائے ۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جانے کا مطالبہ تم کر رہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

6: کافر لوگوں کو جب آخرت کے عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا۔