13۔ 1 یفتنون کے معنی ہیں یحرقون ویعذبون جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ ڈالے جائیں گے۔
یوم ھم علی النار یفتنون :” فتن یفتن “ (ن، ض) کا معنی آزمانا بھی ہے اور جلانا بھی۔ کھرے یا کھوٹے کی پہچان کے لئے سونے کو آگ میں پگھلایا جائے تو کہتے ہیں :” فتنت الذھب، “ فرمایا، وہ روز جزا اس دن ہوگا جب انہیں آگ پر رکھ کر تپایا اور جلایا جائے گا۔
يَوْمَ ہُمْ عَلَي النَّارِ يُفْتَنُوْنَ ١٣- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔
آیت ١٣ یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ ۔ ” جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے۔ “ - چونکہ مشرکین یہ سوال غیر سنجیدہ انداز میں کرتے تھے اس لیے جواب میں ان کے لیے ڈانٹ کا انداز پایاجاتا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :10 کفار کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا ، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا ، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا برا نتیجہ دیکھو گے ، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت ، آخر وہ دن کب آئے گا ؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس برے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا ۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے ، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو ، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا کہ بتاؤ ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی ۔ اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا ۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا ۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال ، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے ، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو آئے گی ۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے ، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پہلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی ۔