17۔ 1 ھجوع کے معنی ہیں رات کو سونا۔ ما یھجعون میں ما تاکید کے لیے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش و عشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ حدیث بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا لوگو لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے (مسند احمد 5۔ 451) ۔
[١٠] محسنین کی صفات :۔ رات کو جاگنا یعنی وہ رات کا اکثر حصہ جاگ کر اللہ کی عبادت اور ذکر کیا کرتے تھے۔ اور سورة مزمل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ اگر راتیں اور دن برابر ہوں تو رات کا آدھا حصہ۔ راتیں چھوٹی ہوں تو آدھی رات سے کچھ زیادہ اور لمبی ہوں تو آدھی رات سے کچھ کم۔ اور بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں یا درمیانی حصہ میں یا آخری حصہ میں اللہ کی عبادت کی جائے۔ اور مکی دور میں یہی صورت ہوتی تھی۔ بعد میں سورة بنی اسرائیل میں تہجد کی تعیین ہوگئی۔- خ ھجع کے لغوی معنی ہے :۔ ھجع کے معنی دراصل غفلت کی نیند سونا یا گھوڑے بیچ کر سونا یا دنیا ومافیہا سے بیخبر ہو کر سونا۔ اور تہجد (ھجود) کے معنی رات کو سونا بھی اور جاگنا بھی۔ کبھی سونا کبھی جاگنا۔ (لغت اضداد) اور بظاہر اس آیت سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات کا تھوڑا ہی حصہ سوتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی یاد سے غافل اور گھوڑے بیچ کر نہیں سوتے۔ بلکہ سوتے جاگتے انہیں اللہ کی یاد رہتی ہے۔
کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون :” ھجع یھجع ھجوعا “ (ف) سونا، رتا کا سونا، ہلکا سا سونا تینوں معنوں میں آتا ہے۔” مایھجعون “ کے دو معنی کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ ” ما “ مصدر یہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ رات میں سے بہت تھوڑا حصہ سوتے تھے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب احنف بن قیس، حسن بصری اور زہری سے نقل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مزمل میں فرمایا :(یایھا المزمل ، قم الیل الا قلیلا ، نصفۃ ہ اوا نقص منہ قلیلاً ، اوزد علیہ ورثل القرآن ترتیلاً ) (المزمل : ١ تا ٣)” اے کپڑے میں لپٹنے والے رات کو ق یام کو مگر تھوڑا۔ آدھی رات (قیام کر) یا اس سے تھوڑا کم کم کرلے۔ یا اس سے زیادہ کرلے اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ “ ان آیات کے نازل ہونے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ ایک سال تک اس پر عمل کرتے رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے سورة مزمل کا آخری حصہ نازل کیا، جس میں فرمایا :(ان ربک یعلم انک تقوم ادنیٰ من ثلثی الیل و نصفہ و ثلثہ و طآئفۃ من الذین معک واللہ یقدر الیل والنھار، علم ان لن تحصوہ فتاب علیکم فاقراء و اما تیسر من القرآن، علم ان سیکون منکم مرضی واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فصل اللہ ، واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ ، فاقراء وا ماتیسر منہ) (المزمل : ٢٠)” بلاشبہ تیرا رب جانتا ہے کہ تو رتا کے دو تہائی کے قریب اور اس کا نصف اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتا ہے اور ان لوگوں کی ایک جماعت بھی جو تیرے ساتھ ہیں اور اللہ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے جان لیا کہ تم ہرگز اس کی طاقت نہیں رکھو گے، سو اس نے تم پر مہربانی فرمائی تو قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو، اس نے جان لیا کہ یقینا تم میں سے کچھج بیمار ہوں گے اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے اور کچھ دوسرے اللہ کی راہ میں لڑیں گے، پس اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔ “ تو صحیح مسلم (٧٤٦) میں مذکر عائشہ (رض) کی حدیث کے مطابق قیام اللیل جو فرض تھا، نقل ہوگیا اور اس میں تخفیف ہوگئی اور رات کے اکثر حصے کے بجائے حکم ہوا :(فاقرء و اما تیسر من القرآن) کہ جتنا قیام آسانی سے کرسکتے ہو کرلو۔ اس آیت کی تفسیر اور قیام اللیل کی فضیلت کے لئے سورة مزمل کی ابتدائی اور آخری آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- ” کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون “ کا مطلب اگر یہ کیا جائے کہ جنت میں وہ متقی جائیں گے جو رات کا تھوڑا حصہ سوتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے دائمی عمل سے اس کا مطلب کی تائید نہیں ہوتی۔ ہاں، مندرجہ ذیل حدیث کو سامنے رکھا جائے تو ” مایھجعون “ کا یہ مطلب بالکل درست ہے۔ عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :(من صلی العشاء فی جماعۃ فکانما فام نصف اللیل، ومن صلی الصبح فی جماۃ فکنما صلی الیل کلہ) (مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ العشاء والصبح فی جماعۃ : ٦٥٦ )” جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے صنف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ۔ “ میزد بحث سورة سجدہ کی آیت (١٦):(تنجا فی جنوبھم عن المصاجع) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- ” مایھجعون “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس میں ” ما “ نافیہ ہے۔ ابن کثیر نے یہ مطلب ابن عباس ، مطرف بن عبداللہ اور مجاہد سے نقل فرمایا ہے اور تفسیر ابن کثیر کے محقق و کتور حکمت بن بشیر نے طبری اور دوسری کتابوں میں مذکور ان کی سندوں کو حسن یا صحیح قرار دیا ہے۔ انس (رض) اور ابو جعفر باقر کے اقوال بھی اس پر مبنی ہیں کہ ” ما “ نافیہ ہے۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا : (لم تکن تمضی علیھم لیلۃ الا یخذون منھا ولو شیاء ) (ابن کثیر :318 8)” یعنی ان پر جو رات بھی گزرتی تھی اس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ لیتے تھے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ “ مطرف بن عبداللہ نے فرمایا :” قل لیلۃ لا تاتی علیھم الا یصلون فیھا اللہ عزوجل ، اما من اولھا و اما من اوسطھا “ (ابن کثیر :318 8)” ان پر کم ہی کوئی رات آتی تھی مگر وہ اس میں اللہ عزوجل کے لئے نماز پڑھتے تھے، یا اس کے شرع میں یا اس کے دریمان میں۔ “ مجاہد نے فرمایا :” قل مایرقدون لیلۃ حتی الصباح لایتھجدون “ (ابن کثیر :318 8)” کم ہی کئیو رات ہوتی تھی جس میں وہ صبح تک سوئے رہیں اور تہجد نہ پڑھیں۔ “ انس بن مالک اور ابوالعالیہ نے فرمایا :” کانوا یصلون بین المغرب والعشائ “ (ابن کثیر :318 8)” وہ مغرب اور شعاء کے درمیان نمازپ ڑھتے تھے۔ “ اور ابو جعفر باقر نے فرمایا :” کانوا لاینامون حتی یصلوا الغمۃ “ (ابن کثیر :318 8)” وہ جب تک عشاء نہ پڑھ لیتے سوتے نہیں تھے۔ “- ” مایھجعون “ میں ” ما “ کو نافیہ ماننے کی صورت میں ترجمہ ہوگا ” وہ سوتے نہیں تھے “ یعنی جاگتے تھے اس کے مطابق آیت کا ترجمہ ، تفسیر اور اس پر حاشیہ تفسیر ثنائی سے نقل کئے جاتے ہے :” یہ لوگ راتوں کو کس قدر جاگا کرتے اور صبح کے قوت خدا سے بخش مانگا کرتے تھے۔ “ تفسیر ہے :” ان کی نیکی کا نمونہ یہ ہے کہ یہ لوگ راتوں کو بغضر عبادت کسی قدر جاگا کرتے اور تہجد کے بعد یا شب خیزی کے بعد صبح کے قوت خدا سے بخشش مانگا کرتے تھے۔ یعنی صبح سے پہلے تھوڑی رات رہتے اٹھتے تھے اور خدا کی یاد جتنی بھی ہو سکے کر کے صبح سویرے اپنے لئے اور اپنے ماں باپ کیلئے بلکہ جملہ مومنین کے لئے استغفار کرتے تھے۔ “ حشایہ :” مایھجعون “ میں وہ لفظ ہیں۔ “ ” ھجع “ کے معنی ہیں رات کی نیند۔ قاموس میں ہے :” الھجوع النوم لیلاً ، “” ما “ نافیہ ہے، پس معنی یہ ہیں ” رات کو تھوڑا سا وقت نیند ترک کردیتے تھے۔ “ وہ تھوڑا سا وقت چاہیے نماز تہجد کا ہو، جیسے سورة نبی اسرائیل میں ہے :(ومن الیل فتھجد بہ) (بنی اسرائیل :89) نماز عشاء کا ہو جیسے :(واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفاً من الیل) (ھود : ١١٣) میں ” زلفا “ سے مراد عشاء کی نماز ہے، ممکن ہے یہی مراد ” مایھجعوکن “ سے ہو۔ واللہ اعلم) “ (ثنائی)- معارف القرآن میں ہے :” کانوا قلیلاً من الیل ما یھجعون) میں ” یھجعون “ ” ھجوع “ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی رات کو سونے کے آتے ہیں۔ اس میں مومنین متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کی مشقت اٹھاتے ہیں اور بہت کم سوتے ہیں۔ اور ابن عباس اور قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس جملے کا مطلب حرف ” ما “ کو اس میں نفی کے لئے قرار دے کر یہ بتلایا ہے کہ ” رات کو تھوڑا سا حصہ ان پر ایسا بھی آتا ہے جس میں وہ سوتے نہیں بلکہ عبادت و نماز وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے وہ سب لوگ اس کا مصداق ہوجاتے ہیں جو رتا کے کسی بھی حصہ میں عبادت کرلیں، خواہ شروع میں یا آخر میں یا درمیان میں۔ اسی لئے انس اور ابوالعالیہ نے اس کا مصداق ان لوگوں کو قرار دیا جوم غرب و عشاء کے درمیان نمازپ ڑھتے ہیں اور امام ابوجعفر باقر نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوویں وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ (ابن کثیر) “
عبادت میں شب بیداری اور اس کی تفصل :- (آیت) كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ، یہجعون، ہجوع سے مشتق ہے جس کے معنی رات کو سونے کے آتے ہیں، اس میں مومنین متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے ہیں، سوتے کم ہیں جاگتے زیادہ ہیں اور وقت نماز و عبادت میں گزارتے ہیں، یہ تفسیر ابن جریر نے اختیار کی ہے اور حضرت حسن بصری سے یہی منقول ہے کہ متقین حضرات رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کی مشقت اٹھاتے ہیں اور بہت کم سوتے ہیں اور حضرت ابن عباس، قتادہ، مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس جملے کا مطلب حرف ما کو اس میں نفی کے لئے قرار دے کر یہ بتلایا گیا ہے کہ رات کو تھوڑا سا حصہ ان پر ایسا بھی آتا ہے جس میں وہ سوتے نہیں بلکہ عبادت نماز وغیرہ میں مشغول رہتے ہیں، اس مفہوم کے اعتبار سے وہ سب لوگوں اس کا مصداق ہوجاتے ہیں، جو رات کے کسی بھی حصہ میں عبادت کرلیں، خواہ شروع میں یا آخر میں یا درمیان میں، اسی لئے حضرت انس اور ابوالعالیہ نے اس کا مصداق ان لوگوں کو قرار دیا جو مغرب و عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور امام ابوجعفر باقر نے فرمایا کہ جو لوگ عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوویں وہ بھی اس میں داخل ہیں (ابن کثیر)- حضرت حسن بصری نے احنف بن قیس سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے اپنے عمل کا اہل جنت کے اعمال سے موازنہ کیا تو یہ دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم ہے جو ہم سے بہت بلند وبالا اور ممتاز ہے وہ ایک ایسی قوم ہے کہ ہمارے اعمال ان کے درجہ تک نہیں پہنچتے کیونکہ وہ لوگ راتوں میں سوتے کم ہیں عبادت زیادہ کرتے ہیں، پھر میں نے اپنے اعمال کا اہل جہنم کے اعمال سے موازنہ کیا تو دیکھا کہ وہ اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والے قیامت کا انکار کرنے والے ہیں ( جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں محفوظ رکھا) اس لئے ہمارے اعمال موازنہ کے وقت نہ اصل اہل جنت کے درجہ کو پہنچتے ہیں اور نہ (بحمد اللہ) اہل جہنم کے ساتھ ملتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ ہمارا درجہ عمل کے اعتبار سے وہ ہے جن کا قرآن کریم نے ان الفاظ سے ذکر فرمایا ہے : خلطوا عملاً صالحا واخر سیئا، یعنی وہ لوگ جنہوں نے اچھے برے اعمال خلط ملط کر رکھے ہیں، تو ہم میں بہتر آدمی وہ ہے جو کم از کم اس طبقے کی حدود میں رہے - اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ بنی تمیم کے ایک شخص نے میرے والد سے کہا کہ اے ابو اسامہ ہم اپنے اندر وہ صفت نہیں پاتے جو اللہ تعالیٰ نے متقین کے لئے ذکر فرمائی ہے، یعنی (كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ ) کیونکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ قلیلاً من الیل ما نقوم ،” یعنی رات میں بہت کم جاگتے اور عبادت کرتے ہیں، میرے والد نے اس کے جواب میں فرمایا :- طوبی لمن رقد اذا نعس واتقی اللہ اذا استیقظ ( ابن کثیر)- ” بشارت ہے اس شخص کے لئے جس کو نیند آوے تو سو جاوے مگر جب بیدار ہو تو تقویٰ اختیار کرے یعنی خلاف شرع کوئی کام نہ کرے “- مطلب یہ ہے کہ مقبولیت عند اللہ صرف رات کو بہت جاگنے میں منحصر نہیں، جو شخص نیند سے مجبور ہو اور رات میں زیادہ نہ جاگے، مگر بیداری میں گناہ و معصیت سے بچے وہ بھی قابل مبارک باد ہے۔- یایھا الناس اطعموا الطعام و صلوا الارحام وافشوا السلام وصلوابالیل والناس نیام قد خلوا الجنة بسلام (ابن کثیر)- ” اے لوگو تم لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اور سلام ہر شخص مسلمان کو کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے “
كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَہْجَعُوْنَ ١٧- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - هجع - الهُجُوع : النّوم ليلا . قال تعالی: كانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ ما يَهْجَعُونَ [ الذاریات 17] وذلک يصحّ أن يكون معناه : کان هُجُوعهم قلیلا من أوقات اللیل، ويجوز أن يكون معناه : لم يکونوا يهجعون . والقلیل يعبّر به عن النّفي والمشارف لنفيه لقلّته، ولقیته بعد هَجْعَةٍ. أي :- بعد نومة، وقولهم : رجل هُجَعٌ کقولک : نوم للمستنیم إلى كل شيء .- ( ھ ج ع ) الھجوع کے معنی رات کو سونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ ما يَهْجَعُونَ [ الذاریات 17] اور وہ عبادت میں مشغول رہنے کے سبب رات کو بہت کم سوتے تھے ۔ اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ رات کو بہت کم سوتے تھے اور یہ بھی کہ وہ رات کو سوتے ہی نہیں تھے ۔ کیونکہ قلیل کا لفظ جس طرح نہایت تھوڑی چیز کے معنی میں آتا ہے جو کم ہونے کے برابر ہوا اس طرح کبھی نفی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ لقیتہ بعد ھجعتہ کہ میں اسے رات کو کچھ دیر سو لینے کے بعد ملا اور ھجع ( مثل قوم ) مدہوش اور بےخود آدمی کو کہتے ہیں ۔ جو ہر چیز سے غافل ہو ۔
شب زندہ داروں کی عظمت - قول باری ہے (کانوا قلیلا من اللیل ما یھجعون وہ رات کو بہت کم سوتے تھے) حضرت ابن عباس (رض) ، ابراہیم اور ضحاک کا قول ہے کہ ہجوع نیند کو کہتے ہیں۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ بہت ہی کم راتیں ایسی گزرتی تھیں جن میں وہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ قتادہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ وہ راتوں میں بہت کم سوتے تھے۔ مطرف بن عبداللہ نے کہا ہے کہ بہت کم کوئی رات ہوتی تھی جس کے اول یا وسط میں وہ نماز نہ پڑھتے تھے۔- مجاہد کا قول ہے کہ وہ ساری رات نہیں سوتے تھے۔ قتادہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل پڑھتے تھے۔ ابوحیوہ نے حسن سے روایت کی ہے کہ وہ رات کے وقت طویل نماز پڑھتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو استغفار کرتے۔- قتادہ سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے بلکہ وہ عشاء کی نماز کے وقت کا انتظار کرتے رہتے گویا عشاء کی نماز کے لئے ان کے بیدار رہنے کی نسبت سے ان کا سونا بہت کم ہوتا تھا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ صلوٰۃ اللیل پہلے فرض تھی۔ پھر سوروہ مزمل کی آیت کے ذریعے اس کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس سورت میں انہیں صلوٰۃ اللیل کی ترغیب دی گئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰۃ اللیل کی فضیلت اور اس کی ترغیب میں بہت سی روائتیں منقول ہیں۔ اعمش نے ابوسفیان سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ رات کے وقت ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ بندہ اس وقت دنیا اور آخرت کی بھلائی کی جو بھی دعا مانگتا ہے۔ اللہ اسے عطا کردیتا ہے۔ یہ گھڑی ہر رات آتی ہے۔- ابو مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذر (رض) سے پوچھا تھا کہ رات کے کس حصے میں نماز افضل ہوتی ہے ۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی سوال کیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا کہ نصف شب کی نماز اور ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ اس وقت نماز پڑھنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔- عمرو بن دینار نے عمرو بن اوس سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز دائود (علیہ السلام) کی نماز تھی۔ وہ نصف شب تک سوتے اور تہائی حصے میں نماز پڑھتے رہتے اور پھر رات کا بقیہ چھٹے حصے میں سوجاتے۔ “ حسن سے آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے۔- قول بار ی ہے (وبالا سحار ھم یستغفرون۔ اور آخر شب میں استغفار کرتے تھے) حسن کا قول ہے کہ وہ نماز کو آخر شب تک طویل کردیتے پھر بیٹھ کر دعائیں مانگتے ، گڑ گڑاتے اور استغفار کرتے تھے۔- دولتمندوں کے مال میں حقداروں کے حق محفوظ ہیں
آیت ١٧ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّـیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ ۔ ” رات کا تھوڑا ہی حصہ ہوتا تھا جس میں وہ سوتے تھے۔ “- ان لوگوں کی راتوں کا بیشتر حصہ اپنے رب کے حضور حاضری میں گزرتا تھا۔ سورة الفرقان میں ” عباد الرحمن “ کے اس معمول کا ذکر اس طرح آیا ہے : وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ۔ ” اور وہ لوگ راتیں بسر کرتے ہیں اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہوئے۔ “
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :15 مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات بھر سو کر گزار دیں اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ، کم یا زیادہ ، ابتدائے شب میں یا وسط شب میں یا آخر شب میں ، جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف نہ کریں ۔ یہ تفسیر تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرات ابن عباس ، انس بن مالک ، محمد الباقر ، مطرف بن عبداللہ ، ابوالعالیہ ، مجاہد ، قتادہ ، ربیع بن انس وغیرہم سے منقول ہے ۔ دوسرے گروہ نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ وہ اپنی راتوں کا زیادہ حصہ اللہ جل شانہ کی عبادت میں گزارتے تھے اور کم سوتے تھے ۔ یہ قول حضرات حسن بصری ، اَحنف بن قیس ، اور ابن شِہاب زُہری کا ہے ، اور بعد کے مفسرین و مترجمین نے اسی کو ترجیح دی ہے ، کیونکہ آیت کے الفاظ اور موقع و محل کے لحاظ سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے ۔ اسی لیے ہم نے ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے ہیں ۔