18۔ 1 وقت سحر قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں ؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ّصحیح مسلم)
[١١] استغفار کرنا : اس آیت میں وقت کی بھی تعیین ہوگئی۔ یعنی وہ رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہ کر اپنے اس نیک کام پر پھول نہیں جاتے۔ بلکہ پھر بھی اللہ سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ انسان فطری طور پر خطا کار ہے۔ اس سے نادانستہ بھی کئی غلطیاں ہوجاتی ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے اور اس سے ہر حال میں بخشش طلب کرتے رہنا چاہئے۔
و بالا استحارھم یستعفرون :” اسحار “ ” سحر “ (سین اور حاء کے فتحہ کے ساتھ) رات کا آخری حصہ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ینزل ربنا تبارک و تعالیٰ کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین بیقی تلث اللیل الآخر یقول من یدعونی فاستجیب لہ ؟ من یسالنی فاعطیہ ؟ من یستغفرنی فاغفرلہ ؟ ) ) (بخاری، التھجد، باب الدعائ، والصلاۃ من آخر اللیل : ١١٣٥)” ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات ، جب رات کا آخری ثلث باقی رہ جاتا ہے، آسمان دنیا کی طرف اترنا ہے اور فرماتا ہے :” کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اسے بخشوں ؟ “
استغفار سحری کی برکات و فضائل :- وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ، (یعنی مومنین متقین سحرگاہ کے وقت اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں، اسحار، سحر کی جمع ہے، رات کے آخری چھٹے حصے کو سحر کہا جاتا ہے اس آخری حصہ شب میں استغفار کرنے کی فضیلت اس آیت میں بھی ہے، اور دوسری آیت (آیت) والمستغفرین بالاسحار میں بھی، صحاح حدیث کی سب کتابوں میں یہ حدیث مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کو آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں ( جو ان کی شان کے مناسب ہے، اس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں) اور اعلان فرماتے ہیں کہ ہے کوئی توبہ کرنے والا جس کی میں توبہ قبول کروں، ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں (ابن کثیر)- یہاں یہ بات قابل نظر ہے کہ اس استغفار سحری میں ان متقین کا بیان ہو رہا ہے جن کا حال اس سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ رات کو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، بہت کم سوتے ہیں، ان حالات میں استغفار کرنے کا بظاہر کوئی جوڑ معلوم نہیں ہوتا کیونکہ طلب مغفرت تو گناہ سے کی جاتی ہے، جن لوگوں نے ساری رات عبادت میں گزار دی وہ آخر میں استغفار کس گناہ سے کرتے ہیں۔- جواب یہ ہے کہ ان حضرات کو چونکہ حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کو پہچانتے ہیں اور اپنی ساری عبادت کو اس کے شایان شان نہیں دیکھتے، اس لئے اپنی اس تقصیر و کوتاہی سے استغفار کرتے ہیں (مظہری)
وَبِالْاَسْحَارِہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ ١٨- سحرصبح - والسَّحَرُ والسَّحَرَةُ : اختلاط ظلام آخر اللیل بضیاء النهار، وجعل اسما لذلک الوقت، ويقال : لقیته بأعلی السّحرین، والْمُسْحِرُ : الخارج سحرا، والسَّحُورُ : اسم للطعام المأكول سحرا، والتَّسَحُّرُ : أكله .- السحرۃ والسحرۃ اصل میں تو اس کے معنی آخر شب کی تاریکی کے ہیں جو دن کی ابتدائی روشنی میں مخلوط ہو ۔ پھر اس وقت کا نام ہی سحر رکھ دیا گیا ہے ۔ محاورہ ہے لقیتہ باعلی السحرین یعنی میں اسے صبح کاذب کے وقت ملا ۔ اور مسحر اس آدمی کو کہتے ہیں جو سحری کے وقت گھر سے نکلا ہو اور السحور اس طعام کو کہتے ہیں جو بوقت سحر تناول کیا جائے اور تسحر کے معنی سحور کرنے کے ہیں ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس،- والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے - اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔
آیت ١٨ وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ۔ ” اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔ “
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :16 یعنی وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اپنی راتیں فسق و فجور اور فواحش میں گزارتے رہے اور پھر بھی کسی استغفار کا خیال تک انہیں نہ آیا ۔ اس کے برعکس ان کا حال یہ تھا کہ رات کا اچھا خاصا حصہ عبادت الٰہی میں صرف کر دیتے تھے اور پھر بھی پچھلے پہروں میں اپنے رب کے حضور معافی مانگتے تھے کہ آپ کی بندگی کا جو حق ہم پر تھا ، اس کے ادا کرنے میں ہم سے تقصیر ہوئی ۔ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے الفاظ میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی نکلتا ہے کہ یہ پرسش انہی کو زیبا تھی ۔ وہی اس شان عبودیت کے اہل تھے کہ اپنے رب کی بندگی میں جان بھی لڑائیں اور پھر اس پر پھولنے اور اپنی نیکی پر فخر کرنے کے بجائے گڑ گڑا کر اپنی کوتاہیوں کی معافی بھی مانگیں ۔ یہ ان بے شرم گناہ گاروں کا رویہ نہ ہو سکتا تھا جو گناہ بھی کرتے تھے ۔ اور اوپر سے اکڑتے بھی تھے ۔
7: یعنی رات کا بڑا حصہ عبادت میں گذارنے کے بعد بھی وہ اپنے اس عمل پر مغرور نہیں ہوتے، بلکہ سحری کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استغفار کرتے ہیں کہ نہ جانے ہماری عبادت میں کون کون سی کوتاہیاں رہ گئی ہوں جن کی وجہ سے وہ عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لائق نہ ہو، اس لیے آخر میں استغفار کرتے ہیں۔