19۔ 1 محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چناچہ مستحق ہونے کے باوجودلوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی و سماوی میں، تباہ ہوجائے۔
[١٢] مال میں سائل اور محروم کا حق :۔ اس سے مراد محض اموال زکوٰۃ نہیں، کیونکہ زکوٰۃ تو اس وقت فرض بھی نہ ہوئی تھی۔ نیز ترمذی میں واضح طور پر یہ صراحت موجود ہے۔ کہ ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہوتا ہے اور اس حق میں مانگنے والے بھی شامل ہیں اور نہ مانگنے والے بھی۔ یعنی نیک لوگ خود ان لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو محتاج ہوں۔ بیوہ عورتیں ہوں، مریض یا معذور ہوں اور کما نہ سکتے ہوں یا عیالدار ہوں مگر مانگنے سے ہچکچاتے ہوں۔ اور ان کو جو کچھ دیتے ہیں وہ ان کا حق سمجھ کر انہیں ادا کرتے ہیں۔ صدقہ و خیرات کے طور پر نہیں دیتے کہ ان سے کسی شکریہ یا بدلہ کے طالب ہوں یا بعد میں انہیں احسان جتلاتے پھریں۔ یعنی جس طرح قرض ادا کرنا ایک حق اور ضروری امر ہے۔ اور قرضہ ادا کرکے کوئی احسان نہیں جتلاتا کہ میں نے تمہارا قرضہ ادا کردیا۔ اسی طرح مالدار لوگوں کے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے۔ اگر وہ ادا نہ کرے گا تو اس کے اپنے سر پر بوجھ رہے گا۔
(وفی اموالھم حق للسآئل و المحروم : اس کی تسیر کے لئے دیکھے سورة معارج (٢٤، ٢٥) کی تفسیر۔
صدقہ و خیرات کرنیوالوں کو خاص ہدایت :- (آیت) وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ ، سائل سے مراد وہ غریب حاجت مند ہے جو اپنی حاجت لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے اور لوگ اس کی مدد کرتے ہیں اور محروم سے مراد وہ شخص ہے کہ فقیر و مفلس اور حاجت مند ہونے کے باوجود شرافت نفس کے سبب اپنی حاجت کسی پر ظاہر نہیں کرتا، اس لئے لوگوں کی امداد سے محروم رہتا ہے، اس آیت میں مومنین متقین کی یہ صفت بتلائی گئی کہ وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے وقت صرف سائلین یعنی اپنی حاجات ظاہر کرنے والوں ہی کو نہیں دیتے بلکہ ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھتے اور حالات کی تحقیق سے باخبر رہتے ہیں جو اپنی حاجت کسی سے کہتے نہیں - اور ظاہر ہے کہ مقصد آیت کا یہ ہے کہ یہ مومنین متقین صرف بدنی عبادت نماز اور شب بیداری پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ مالی عبادت میں بھی ان کا بڑا حصہ رہتا ہے کہ سائلین کے علاوہ ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھتے ہیں جو شرافت کے سبب اپنی حاجت کسی پر ظاہر نہیں کرتے مگر اس مالی عبادت کا ذکر قرآن کریم نے اس عنوان سے فرمایا (وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ) یعنی یہ لوگ جن فقراء و مساکین پر خرچ کرتے ہیں ان پر کوئی احسان نہیں جتلاتے، بلکہ یہ سمجھ کردیتے ہیں کہ ہمارے اموال خدا داد میں ان کا بھی حق ہے اور حق دار کا حق اس کو پہنچا دینا کوئی احسان نہیں ہوا کرتا، بلکہ ایک حق اور ذمہ داری سے اپنی سبکدوشی ہوتی ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ ١٩- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- المحروم : اسم مفعول واحد مذکر، وہ مسلمان رشتہ دار ، جس کا میراث سے حصہ نہ نکلتا ہو۔ بد نصیبی کی وجہ سے نادار۔ تنگ دست جس کی کمائی نہ ہو۔ سوال نہ کرنے والا۔ حیا سے نہ مانگنے والا۔ جس کو حیا نے سوال سے روک دیا ہو۔- مادہ حرم کے لئے روک، منع، بازداشت کا مفہوم لازم ہے۔ تمام مشتقات میں یہ مفہوم مشترک ہے کرم سے لازم اور ضرب سے متعدی۔ اور سمع سے کبھی لازم اور کبھی متعدی آتا ہے۔ زید بن اسلم نے کہا کہ محروم سے وہ شخص مراد ہے جس کے ( باغوں کے) پھلوں پر یا کھیتی پر یا مویشیوں کے بچوں پر کوئی ( آسمانی یا زمینی) آفت آگئی ہو۔ ( اور باغ کھیت یا جانور تباہ ہوگئے ہوں ) ۔ محمد بن کعب قرضی نے بھی یہی کہا اور اس معنی کے ثبوت میں آیت انا لمغرمون بل نحن محرومون۔ (56:66 ۔ 67) پڑھی۔
قول باری ہے (و فی اموالھم حق، اور ان کے اموال میں حق ہوتا تھا) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) ، حسن بصری اور شعبی کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ ایک حق ہے جو مال کے اندر واجب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردیتا ہے اگر وہ صدقہ وغیرہ نہیں دیتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ہے۔- ابن سیرین کا قول ہے کہ صدقہ یعنی زکوٰۃ ایک معلوم حق ہے۔ حجاج نے الحکم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زکوٰۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا ہے ۔ حجاج نے ابوجعفر سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے تاہم راویوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں مختلف روایتیں نقل کی ہیں۔ ان روایات سے دونوں گروہوں نے اپنے حق میں استدلال کیا ہے۔- حضرت طلحہ (رض) بن عبیداللہ نے اس شخص کا قول نقل کیا ہے جس نے حضور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کیا تھا کہ اس پر کون کون سی باتیں فرض ہیں۔ آپ نے جواب میں نماز، زکوٰۃ اور روزے کا ذکر کیا۔ پھر اس نے پوچھا کہ آیامجھ پر ان کے سوا اور کوئی چیز فرض ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نفی میں جواب دیا تھا۔- عمروبن الحارث نے دراج سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک فیہ ، جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دو تو مال کے سلسلے میں تم پر جو فرض ہے اس کی ادائیگی ہوجائے گی) دراج نے ابوالہیثم سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذدا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت الحق الذی یجب علیک، جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردو تو تم اپنے اوپر واجب حق کو ادا کردو گے) ۔- ان روایات سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جنہوں نے قول باری (وفی اموالھم حق معلوم) سے زکوٰۃ مراد لی ہے اور یہ کہا ہے کہ مال والے پر زکوٰۃ کے سوا اور کوئی حق نہیں ہوتا۔ ابن سیرین نے یہ استدلال کیا ہے کہ زکوٰۃ ایک معلوم حق ہے۔ اور مخالفین جن دوسرے حقوق کو واجب کرتے ہیں وہ معلوم یعنی متعین حقوق نہیں ہے۔- جو حضرات مال کے اندر زکوٰۃ کے سوا اور بھی حق واجب کرتے ہیں وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے شعبی نے فاطمہ بنت قیس سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا کہ آیا مال میں زکوٰۃ کے سوا اور بھی کوئی حق ہے ؟ آپ نے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوا وجوھکم قیل المشرق والمغرب) تا آخر آیت۔ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ تلاوت میں (واتی المال علی حبہ) کے بعد زکوٰۃ کا ذکر کیا۔- یہ حضرات حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اونٹوں کا جو مالک تنگی اور فراخی میں ان کا حق ادا نہیں کرتا اسے ایک چٹیل ، پست اور نرم زمین میں ان اونٹوں کے سامنے لایا جائے گا اور پھر یہ اونٹ اپنے پائوں تلے اسے روند ڈالیں گے۔ “ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اونٹوں کے ساتھ گایوں اور بھیڑ بکریوں کا بھی ذکر کیا۔- اس حدیث کو سن کر ایک بدوی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے پوچھا کہ اونٹوں کا حق کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا۔” بہت زیادہ دودھ دینے والی وانٹنی فائدہ اٹھانے کے لئے دے دو ۔ عمدہ اونٹنی کا عطیہ دو ، اونٹ سواری کے لئے عطا کرو اور دودھ پلائو۔ “- ابوالزبیر نے حضرت جائر (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو روایت کی ہے اس میں ذکر ہے کہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ اونٹوں کا کیا حق ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : ” سانڈ کے ساتھ جفتی کرانا، پانی لانے کے لئے اونٹ مع ڈول عاریت کے طور پردے دینا، کوئی دودھ والی اونٹنی کسی کو فائدہ اٹھانے کے لئے دے دینا، چشمے گا گھاٹ پر دودھ دوہنا اور اللہ کی راہ میں اس پر کسی کو سوار کرانا۔ “- اعمش نے معرور بن سوید سے اور انہوں نے حضرت ابوذر (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا آپ اس وقت کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ مجھے آتادیکھ کر آپ نے فرمایا۔ رب کعبہ کی قسم یہی لوگ سب سے زیادہ نقصان میں رہیں گے۔ “- میں نے عرض کیا ” کون لوگ “ آپ نے فرمایا۔ زیادہ مال ودولت والے بجز ان کے جو اتنا اتنا دیں۔ “ یہ کہتے ہوئے آپ نے دائیں بائیں اور سامنے ایک ایک لپ بھرا۔ پھر فرمایا : ” جو شخص اپنے ایسے اونٹ چھوڑ کر مرجائے جن کی اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، قیامت کے دن اس کے یہی اونٹ اسے سینگ ماریں گے اور اپنے پائوں تل روندیں گے، جب آخری اونٹ اسے روندتا ہوا گزر جائے گا تو پہلا اونٹ واپس روندنے کے لئے آجائے گا۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کو فیصلہ سنا دیا جائے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان تمام روایات پر عمل کیا جاتا ہے اور مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق کے ثبوت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ ان میں سے ایک حق وہ ہے جو بیٹے پر اپنے والدین کے اخراجات کے سلسلے میں اس پر لازم ہوتا ہے۔ جب ماں باپ ضرورت مند ہوں۔ اسی طرح رشتہ داروں کی مالی مدد بھی لازم ہوتی ہے۔- نیز بھوکے اور مجبور انسان کو اور اس شخص کو سواری کے لئے جانور دینا بھی لازم ہوتا ہے جس کا جانور ہلاک ہوگیا ہو ۔ یا اسی قسم کے دوسرے حقوق جو مذکورہ بالا صورتوں میں انسان پر لازم ہوجاتے ہیں۔- محروم کون ہے ؟- قول باری ہے (للسائل والمحروم۔ سائل اور محروم کے لئے) حضرت ابن عباس (رض) (ایک روایت کے مطابق) حضرت عائشہ (رض) ، سعید بن المسیب، مجاہد (ایک روایت کے مطابق) عطاء، ابوالعالیہ، ابراہیم نخعی اور عکرمہ کا قول ہے کہ محروم (مجازف) یعنی کم نصیب کو کہتے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ محروم اس شخص کو کہتے ہیں جو رزق کی تلاش میں رہتا ہے لیکن رزق اس کے پاس نہیں آتا۔- حضرت ابن عباس (رض) (ایک روایت کے مطابق) اور مجاہد کا قول ہے کہ جس شخص کا اسلام کے اندر، دوسرے الفاظ میں ” مال غنیمت میں “ کوئی حصہ نہ ہو وہ محروم ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ محروم وہ شخص ہے جسے کوئی مال مالدار نہیں بناتا۔ زہری اور قتادہ کا قول ہے کہ جو شخص سوال کرنے سے پرہیز کرتا اور مفلوک الحال ہوتا ہے اسے محروم کہتے ہیں۔- حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ کتے کو محروم کہتے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں جن کے نزدیک محروم سے کتا مراد ہے وہ ” معلوم حق “ سے زکوٰۃ مراد نہیں لے سکتے ۔ کیونکہ زکوٰۃ کا مال کتے کو اگر کھلا دیا جائے تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اس لئے ان کے نزدیک حق سے مراد وہ حق ہوگا جو زکوٰۃ کے سوا ہے۔- اس صورت میں کتے کو کھلانا ایک ثواب کا کام ہوگا۔ جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان فی کل ذی کبد حری اجرا، برتر جگہ والے (یعنی جانور کو کھلانے پلانے) میں اجر ملے گا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ایک شخص نے کتے کو پانی پلایا تھا اللہ تعالیٰ نے اسی نیکی پر اس کی بخشش کردی تھی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (حق معلوم) میں زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے زکوٰۃ مراد ہے کیونکہ زکوٰۃ لا محالہ واجب ہوتی ہے اور یہ ایک معلوم حق ہے اس لئے آیت سے یہی مراد لینا واجب ہے کیونکہ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آیت اس پر مشتمل ہو اور آیت کے الفاظ اسی سے عبارت ہوں۔ پھر یہ بھی جائز ہے کہ سلف نے محروم کے جتنے معانی بیان کیے ہیں وہ سب کے سب اس لحاظ سے آیت میں مراد ہوں کہ ایسے تمام افراد کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہوتا ہے۔- یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زکوٰۃ صرف ایک صنف کو دے دی جائے تو اس کی ادائیگی ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں صرف سائل اور محروم کا ذکر ہے اور آیت صدقات میں مذکور دوسرے اصناف کا ذکر نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر سائل اور محروم کے درمیان فرق رکھا ہے کیونکہ فقیر کبھی دست سوال دراز نہ کرکے اپنے آپ کو محروم بنا لیتا ہے اور کبھی لوگ اسے کچھ نہ دے کر محروم رکھتے ہیں اس لئے فقیر جب سوال نہیں کرے گا وہ سوال نہ کرکے اپنے آپ کو محروم رکھے گا اور پھر اس جہت سے اسے محروم کیا جائے گا کیونکہ فقیر دوجہتوں سے محروم ہوتا ہے اپنی ذات کی جہت سے اور لوگوں کی جہت سے۔- شعبی سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ مجھے تو محروم کے مفہوم نے لاچار کردیا ہے یعنی مجھے اس کے صحیح مفہوم کا علم نہیں ہوسکا۔
(١٩۔ ٢٠) اور ان کے مال میں سوالی اور غیر والی سب کا حق تھا اور محروم ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں جو اپنے اجر و غنیمت سے محروم ہوگیا ہو یا یہ کہ محروم سے وہ پیشہ ور آدمی مراد ہے جس کا ذریعہ معاش بہت تنگ ہو اور ایک دن کی روزی بھی اسے میسر نہ ہو۔- شان نزول : وَفِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ (الخ)- ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا تو اسے فتح اور خوب غنیمت حاصل ہوئی اس لشکر کے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسری قوم آئی تب یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ان لوگوں کے لیے جو کہ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں زمین کی کائنات میں بہت سی نشانیاں ہیں جیسا کہ درخت جانور پہاڑ اور سمندر وغیرہ اور خود تمہاری ذات میں بھی نشانیاں ہیں جیسا کہ امراض درد اور قسم قسم کی مصیبتیں یہاں تک کہ صرف ایک رستہ سے کھاتا ہے اور دو مقامات سے اس کے فضلہ کا اخراج کرتا ہے کیا تم نہیں سمجھتے کہ اللہ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں اس میں غور کرو اور آسمان سے تمہارا رزق یعنی بارش آتی ہے اور وہیں جنت موجود ہے یا یہ کہ آسمان کے پروردگار کے ذمہ تمہیں رزق پہنچانا ہے اور جو تم سے ثواب و عتاب کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
آیت ١٩ وَفِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ ۔ ” اور ان کے اموال میں سائل اور محتاج کا حق ہوا کرتا تھا۔ “- انہوں نے اس حقیقت کو قبول کر رکھا تھا کہ ان کے پاس اللہ کا دیا جو کچھ بھی ہے اس میں فقراء و مساکین کا بھی حصہ ہے اور وہ متعلقہ لوگوں کا حق ان تک پہنچایا بھی کرتے تھے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :17 بالفاظ دیگر ، ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے ، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا ۔ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا ، خواہ تھوڑا یا بہت ، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس بندہ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو ۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے شکریہ کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بار احسان ٹھہراتے ، بلکہ وہ اسے ان کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے ۔ پھر ان کی یہ خدمت خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے ، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آ جاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اس کی مدد کے لیے وہ خود بے چین ہو جاتے تھے ۔ کوئی یتیم بچہ جو بے سہارا رہ گیا ہو ، کوئی بیوہ جس کا کوئی سر دھرا نہ ہو ، کوئی معذور جو اپنی روی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو ، کوئی شخص جس کا روزگار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو ، کوئی شخص جو کسی آفت کا شکار ہو گیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کر سکتا ہو ، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کر سکتے ہوں ، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو ۔ یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے ۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے ہر اس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجائے استغفار ہی کرتے رہے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت ان پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی ۔ اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کر دیا گیا ہے ، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو ۔ ابن عباس ، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے ۔ در حقیقت اس ارشاد الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا ، زکوٰۃ ادا کر کے میں اس سے بالکل سبکدوش ہو چکا ہوں ، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے ، بھوکے ، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں ۔ اس کے بر عکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لیے جو اس کے بس میں ہو ، دل و جان سے تیار رہتا ہے اور جو موقع بھی اسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اس کے سوچنے کا یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کر چکا ہوں ، اب مزید نیکی کیوں کروں؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہوجاتا ہے ۔
8: سائل سے مراد تو وہ حاجت مند ہے جو زبان سے اپنی ضرورت کا اظہار کردے، اور محروم سے مراد وہ ہے جو حاجت مند ہونے کے باوجود کسی سے کچھ مانگتا نہیں، اس آیت میں حق کا لفظ استعمال کرکے بتادیا گیا ہے کہ انسان ان لوگوں پر زکوٰۃ وغیرہ کی شکل میں جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو انہیں پہنچانا ہی چاہئیے تھا، کیونکہ مال ودولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اور اس کا یہ حکم ہے کہ اس میں حاجت مند لوگوں کا بھی حصہ ہے۔