[١٣] زمین میں مختلف قسم کی قدرت کی نشانیاں :۔ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور قرآن میں بار بار ان میں غور و فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ گردش لیل و نہار، یہ موسموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور، یہ بارش کا پورا نظام۔ اس سے مردہ زمین کا زندہ ہونا۔ مختلف قسم کی نباتات، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیداوار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی، زمین کے اندر مدفون خزانے، سمندروں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اور چوپایوں پر انسان بےبنیان کا تصرف اور حکمرانی۔ غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لاتعداد ہیں۔ ان سب میں قدر مشترک کے طور پر جو چیز پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر ان میں ایسا مربوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی برآمد ہونا چاہئے اور وہ نتیجہ آخرت ہے۔
(١) وفی الاضر ایت للموقنین : شروع سورت میں چار طرح کی ہواؤں کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ قیامت حق ہے، پھر اس پر آسمان کی قسم اٹھائی۔ اب ” واؤ “ کے ذریعے سے اسی کے ساتھ سلسلہ کلام جوڑ کر فرمایا :” اور زمین میں بھی یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ یہ وہی استدلال ہے جو قرآن میں قیامت حق ہونے کے لئے جا بجا موجود ہے۔ مثلاً فرمایا :(ومن ایتہ انک تری الارض خاشعۃ فاذا انزلنا علیھا المآء اھترت و ربت ، ان الذین احیاھا لمحی الموتی (حم لسجدۃ : ٣٩)” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی (بنجر) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور پھولتی ہے۔ بیشک وہ جس نے اسے زندہ کیا، یقینا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ زمین کی پہلی ساری کھیتی چورابن کر ختم ہوجاتی ہے، پھر دوبارہ نئی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے مشاہدے میں آتی ہے، اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں، صرف یقین کی ضرورت ہے۔ اس لئے اس آیت میں غور و فکر کی دعوت نہیں دی، جس طرح اس کے بعد والی آیت میں ” افلا تبصرون “ فرمایا ہے، بلکہ فرمایا :” زمین میں قین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ “ یہ اس لئے فرمایا ہ ان نشانیوں سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو یقین کرتے ہیں۔- (٢) وفی الارض ایت للموقین “ (اور زمین میں قین کرنیو الوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں) اس میں صریح ال فاظ میں یہ نہیں بتاتا کہ کس چیز کی نشانیاں ہیں، کیونکہ اس میں صرف قیامت حق ہونے ہی کی نشانیاں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی وحدانیت اور اس کی لامحدود قدرت کی بھی بیشمار نشانیاں ہیں۔ زمخشری نے فرمایا :” اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جو صانع اور اس کی قدرت و حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتی ہیں ، چناچہ زمین اپنے اوپر والی چیزوں کے لئے بچھونے کی طرح ہے، جیسا کہ فرمایا :(الذی جعل لکم الارض مھداً ) (طہ : ٥٣)” وہ جس نے تمہارے لئیز مین کو بچھونا بنایا۔ “ اور چلنے والوں کے لئے اس میں راستے اور وسیع شاہ راہیں ہیں جو اس کے کندھوں پر چلتے پھرتے ہیں اور اس کے مختلف حصے میں، جیسے میدان، پہاڑ، ریگستان، سمندر وغیرہ اور کئی ٹکڑے ہیں، مثلاً سخت، نرم، زرخیز، شور وغیرہ۔ وہ حاملہ جانور کی طرح ہے جس کے پیٹ سے بیشمار پودے، درخت اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کے رنگ، خوشبو اور ذائقے مختلف ہیں، حالانکہ سبھی ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ زمین پر رہنے والوں کی ضروریات ، ان کی صحت وب یماری کی مصلحتوں کے عین موافق ہے۔ پھر اس میں پھوٹنے والے چشمے، رنگا رنگ معدنیات اور خشکی، ہوا اور سمندر میں پھیلے ہوئے مختلف شکلوں ، صورتوں اور کاموں والے وحشی، پالتو، مفید اور زہریلے جانور اور اس کے علاوہ شمار سے باہر چیزیں ہیں جن میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ وہی دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ “
آفاق دانفس دونوں میں قدرت کی نشانیاں :- (آیت) وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ، ( یعنی زمین میں بہت نشانیاں قدرت کی ہیں، یقین کرنے والوں کے لئے) پچھلی آیات میں اول کفار و منکرین کا حال اور انجام بد بتلایا گیا ہے، پھر مومنین متقین کے حالات وصفات اور ان کے درجات عالیہ کا ذکر فرمایا، اب پھر کفار و منکرین قیامت کے حال کی طرف غور اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں ان کے پیش نظر کر کے انکار سے باز آجانے کی ہدایت ہے، تو اس جملہ کا تعلق مذکورہ سابق جملے (اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ) سے ہوا، جس میں قرآن و رسول سے انکار کا ذکر ہے۔- اور تفسیر مظہری میں اس کو بھی مومنین متقین ہی کی صفات میں داخل کیا، اور موقنین سے مراد وہی متقین ہیں اور اس میں ان کا یہ حال بتلایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت جو زمین و آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں ان میں غور و فکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کا ایمان و ایقان بڑھتا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ان کے بارے میں ارشاد ہے ( آیت) ویتفکرون فی خلق السموت وا لارض) ۔- اور زمین میں جن آیات قدرت کا ذکر فرمایا ہے وہ بیشمار ہیں، زمین میں نباتات اور اشجار و باغات ہی کو دیکھو ان کے اقسام و انواع ان کے رنگ و بو ایک ایک پتہ کی تخلیق میں کمال حسن پھر ان میں سے ہر ایک کے خواص و آثار میں اختلاف کی ہزاروں قسمیں، اسی طرح زمین میں نہریں، کنویں اور پانی کے دوسرے مرکز اور ان سے تیار ہونے والی لاکھوں انواع مخلوقات، زمین کے پہاڑ اور غار، زمین میں پیدا ہونے والے حیوانات اور ان کی ان گنت اقسام و انواع، ہر ایک کے حالات اور منافع مختلف، زمین میں پیدا ہونے والے انسانوں کے حالات مختلف قبائل اور مختلف خطوں کے انسانوں میں رنگ اور زبان کا امتیاز، اخلاق و عادات کا اختلاف وغیرہ جن میں آدمی غور کرے تو ایک ایک چیز میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے اتنے مظاہر پائے گا کہ شمار کرنا بھی مشکل ہے
وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ٢٠ ۙ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔
آیت ٢٠ وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ ۔ ” اور زمین میں (ہر چہارطرف) نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے۔ “- سورة البقرۃ ‘ آیت ١٦٤ (آیت الآیات) میں اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :18 نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آخرت کے امکان اور اس کے وجوب و لزوم کی شہادت دے رہی ہیں ۔ زمین کا اپنا وجود اور اس کی ساخت ، اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاویے پر رکھا جانا ، اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام ، اس پر مختلف موسموں کی آمد و رفت ، اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی ، اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بے شمار خزانوں کا مہیا کیا جانا ، اس کی سطح پر ایک زرخیز چھلکا چڑھایا جانا ، اس میں قسم قسم کی بے حد و حساب نباتات کا اگایا جانا ، اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بے شمار نسلیں جاری کرنا ، اس میں ہر نوع کی زندگی کے لیے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا ، اس پر انسان کو وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع و وسائل فراہم کر دینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں ، یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں ۔ جو شخص یقین کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے ۔ وہ ان میں اور سب کچھ دیکھ لے گا ، بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا ۔ مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لیے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہرگز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کا نتیجہ ہے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا ، بلکہ اسے یقین آ جائے گا کہ یہ کمال درجے کی حکیمانہ صنعت ضرور ایک قادر مطلق اور دانا و بینا خدا کی تخلیق ہے ، اور وہ خدا جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے ، اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دے ۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے آپ محاسبے کا تقاضا کرتا ہے ، جو اگر نہ ہو تو حکمت اور انصاف کے خلاف ہو گا ۔ اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لیے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے سے ، جہاں بھی وہ مرے پڑے ہوں ، اٹھا کر لا سکتا ہے ۔