Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] انسان کے اپنے وجود میں نشانیاں :۔ انسان کا اپنا وجود اور اس کے اندر کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے۔ جو غذا کو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی، کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے سے خارج کردیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے۔ اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہوجاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑجاتا ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتا۔ انہیں کے ذریعے انسان کے جسم کے حصے کو خون پہنچتا ہے۔ اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا بھی فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ انسان کا جسم ابتدا سے ہی حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز میں ہی ہیں۔ ان جسم کی نشانیوں میں بھی غور کرنے سے وہی دو نتائج حاصل ہوتے ہیں جو کائنات کے نظام میں غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کا سابقہ حاشیہ میں ذکر کردیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وفی انفسکم افلاتبصرون : یعنی خود تمہارے نفسوں میں دوبارہ زندہ ہونے کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں کہ مٹی اور نطفے سے لے کر موت تک ہر لمحہ موت کے بعد زندگی کا شاہد ہے، کیونکہ جسم کا ہر خلیہ جو موجود ہوتا ہے فنا ہوتا اور اس کی جگہ نیا خلیہ وجود میں آتا رہتا ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے، جس کے دوران انسان بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرف بھی منقت ہوتا رہتا ہے، مگر موت و حیات کے اس سلسلے پر غور کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ یہ بحث تفصیل کے ساتھ سورة مومنون (١٢ تا ١٦) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔- (٢) انسان کی ذات میں قیامت کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، حکمت، تدبیر، صنعت، قدرت اور دوسری صفات کی بھی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں :” انسان کا اپنا وجود اور اس کی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میں جو نشانیاں ہیں وہ کائنات اکبر کی نشانیوں سے کسی طرح کم نہیں۔ انسان کا معدہ ایک چکی ک طرح دن رات کا م میں لگا رہتا ہے، جو غذا کو پیس کر ایک مغلوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب یہ فارغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے تم بھوک کہتے ہیں۔ اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگر میں چلا جاتا ہے، جہاں اچھالنے والی، دفع کرنے والی، صاف کرنے والی ، کھینچنے والی مشینیں اورق وتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے کرنے والی کھینچنے والی مشینیں اور قوتیں کام کر رہی ہیں۔ یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں۔ فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے خارج کردیتے ہیں۔ قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر مجبور ہوجاتا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑجا ات ہے۔ پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔ پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک لاگ پورا نظام ہے۔ سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کیساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے۔ (پھر سننے ، سونگھنے، چکھنے، سوچنے، سجھنے، یاد رکھنے، محسوس کرنے، سونے، جاگنے، بولنے اور دوسرے بیشمار افعال کے نظام ہیں جن میں سے ہر ایک پر غور کیا جائے تو آدمی حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے) انسان کا جسم ابتدا ہی سے حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے ، مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز ہی میں ہیں۔ “ (تیسیرا القرآن)- (٣) ” وفی الارض ایت “ میں آفاقی آیات کا ذکر ہے اور ” وفی انفسکم “ میں انفسی آیات کا ۔ مزید دیکھیے حم السجدہ (٥٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ، اس جگہ آیات قدرت کے بیان میں آسمان اور فضائی مخلوقات کا ذکر چھوڑ کر صرف زمین کا ذکر فرمایا ہے جو انسان کے بہت قریب ہے، جس پر انسان بستا اور چلتا پھرتا ہے، اس آیت میں اس سے بھی زیادہ قریب یعنی خود انسان کی ذات کی طرف توجہ دلائی کہ زمین اور زمین کی مخلوقات کو بھی چھوڑو خود اپنے وجود اپنے جسم اور اس کے اعضاء وجوارح ہی میں غور کرلو تو ایک ایک عضو کو حکمت حق تعالیٰ کا ایک دفتر پاؤ گے اور سمجھ لوگے کہ سارے عالم میں جو آیات قدرت حق تعالیٰ کی ہیں انسان کے اپنے چھوٹے سے وجود میں وہ سب گویا سمٹ آئی ہیں، اسی لئے انسان کے وجود کو عالم اصغر کہا جاتا ہے کہ سارے عالم دنیا کی مثالیں انسان کے وجود میں موجود ہیں، انسان اگر اپنی ابتدا پیدائش سے لے کر موت تک کے پیش آنے والے حالات میں ہی غور و تدبر کرنے لگے تو اس کو حق تعالیٰ گویا اپنے سامنے نظر آنے لگیں۔- کہ کس طرح ایک انسانی نطفہ دنیا کے مختلف خطوں کی غذاؤں اور دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء لطیفہ کا خلاصہ بن کر رحم میں قرار پایا، پھر کس طرح نطفہ سے ایک منجمد خون علقہ بنا، پھر علقہ سے مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بنا، پھر کس طرح اس میں ہڈیاں بنائی گئیں، پھر ان پر گوشت چڑھایا گیا، پھر کس طرح اس بےجان پتلے میں جان ڈالی گئی اور اس کی تخلیق کی تکمیل کر کے اس دنیا میں لایا گیا، پھر کس طرح تدریجی ترقی کر کے ایک بےعلم بےشعور بچے سے ایک دانشمند فعال انسان بنایا گیا اور کس طرح ان کی صورتیں اور شکلیں مختلف بنائی گئیں کہ اربوں پدموں انسانوں میں ایک کا چہرہ دوسرے سے بالکل ممتاز نظر آتا ہے، اس چند انچ کے رقبہ میں ایسے امتیازات رکھنا کس کے بس کی بات ہے، پھر ان کی طبائع اور مزاجوں میں اختلاف اور اس اختلاف کے باوجود ایک وحدت یہ سب اس قدرت کاملہ کی کرشمہ سازی ہے جو بےمثل و بےمثال ہے۔ (آیت) فتبرک اللہ احسن الخلقین۔- یہ وہ چیزیں ہیں جن کا ہر انسان کہیں باہر اور دور نہیں خود اپنے ہی وجود میں دن رات مشاہدہ کرتا ہے اس کے باوجود بھی اگر وہ اللہ جل شانہ اور اس کی قدرت کا ملہ کا اعتراف نہ کرے تو کوئی اندھا ہی ہوسکتا ہے جس کو کچھ نہ سوجھے، اسی لئے آخر میں فرمایا افلاتبصرون ” یعنی کیا تم دیکھتے نہیں “ اشارہ اس طرف ہے کہ اس میں کچھ زیادہ عقل و سمجھ کا بھی کام نہیں، بینائی ہی درست ہو تو اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝ ٢١- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - الف ( ا)- الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع :- نوع في صدر الکلام .- ونوع في وسطه .- ونوع في آخره .- فالذي في صدر الکلام أضرب :- الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية .- فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] .- والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم .- وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة :- 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر 37] .- الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو :- أسمع وأبصر .- الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم 11] ونحوهما .- الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو :- العالمین .- الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد .- والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين .- والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو :- اذهبا .- والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ .- ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1) أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَلَسْتُ بِرَبِّكُم [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ أَوَلَا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں " کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا الْعَالَمِينَ [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ اذْهَبَا [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب : 10] فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف " اشباع پڑھاد یتے ہیں )- بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ ” اور تمہاری اپنی جانوں میں بھی (نشانیاں ہیں) ۔ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟ “- یعنی انسان کے جسم اور جسم کے ایک ایک نظام کے اندر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان نشانیوں پر غور کرے۔ مرزا بیدل ؔ نے اس خوبصورت شعر میں اسی مضمون کی ترجمانی کی ہے : ؎- ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر ِسرو وسمن درآ - تو زغنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درآ - اے انسان بڑے ستم کی بات ہے اگر تجھے تیری خواہش نفس کسی باغ کی سیر کے لیے کھینچ کرلے جاتی ہے ‘ جبکہ خود تیری اپنی چمک دمک کسی پھول سے کم نہیں ہے۔ کبھی اپنے دل کا دروازہ کھول کر اس چمن کی سیر کے لیے بھی آئو جو تمہاری روح کے اندر اللہ تعالیٰ نے مہکا رکھا ہے۔- اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی تخلیق اور اپنے وجود پر غور کرے اور اس اعتبار سے اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے۔ بقول مرزا بیدلؔ : ؎- ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش ِآدمی - اے بہارِ نیستی از قدر خود ہوشیار باش - (اس شعر کی تشریح سورة النحل کی آیت ٤٠ کے تحت بیان ہوئی ہے۔ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :19 یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں ، خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اسی حقیقت پر گواہی دینے والی بے شمار نشانیاں مل جائیں گی ۔ کس طرح ایک خورد بینی کیڑے اور ایسے ہی ایک خورد بینی انڈے کو ملا کر ماں کے ایک گوشۂ جسم میں تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی ۔ کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کر کے بتدریج بڑھایا گیا ۔ کس طرح تمہیں ایک بے نظیر ساخت کا جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا ۔ کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے ، غذا ہضم کرنے ، خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے ، فضلات خارج کرنے ، تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے ، اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے ، حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لیے سلا دینے تک کا کام خود بخود کیے جاتی ہے بغیر اس کے کہ تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو ۔ ایک عجیب دماغ تمہارے کا سۂ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کی پیچیدہ تہوں میں عقل ، فکر ، تخیُّل ، شعور ، تمیز ، ارادہ ، حافظہ ، خواہش ، احساسات و جذبات ، میلانات و رجحانات ، اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے ۔ بہت سے ذرائع علم تم کو دیے گئے ہیں جو آنکھ ، ناک ، کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں ۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ سے تم اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکتے ہو ۔ اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری اَنا کو ایک رئیس بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں قائم کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات ، محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے ، کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے ، کس چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا ۔ یہ ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سرو سامان تمہاری پرورش ، نشو ونما ، اور ترقی و تکمیل ذات کے لیے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے ۔ ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے زمین میں تم کو ذرائع دیے گئے ۔ مواقع فراہم کیے گئے ۔ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی ۔ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے ۔ تمہارے سامنے کفر و ایمان ، فسق و اطاعت ، ظلم و انصاف ، نیکی و بدی ، حق و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں ، اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے ۔ تم میں سے جس نے جس راہ کو بھی انتخاب کیا اپنی ذمہ داری پر کیا ، کیونکہ فیصلہ و انتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی ۔ ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی نیک بنا اور کوئی بد ، کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر و شرک یا دہریت کی راہ لی ، کسی نے اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکا اور کوئی بندگی نفس میں سب کچھ کر گزرا ، کسی نے ظلم کیا اور کسی نے ظلم سہا ، کسی نے حقوق ادا کیے اور کسی نے حقوق مارے ، کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک برائیاں کرتا رہا ، کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لیے جان لڑائی ، اور کوئی باطل کو سر بلند کرنے کے لیے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا ۔ اب کیا کوئی شخص جس کی ھیے کی آنکھیں بالکل ہی پھوٹ نہ گئی ہوں ، یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما نہیں ہے؟ زمین پر اس کے ہاتھوں یہ سارے ہنگامے جو برپا ہو رہے ہیں سب بے مقصد ہیں اور بے نتیجہ ہی ختم ہو جانے والے ہیں؟ کسی بھلائی کا کوئی ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی باز پرس نہیں؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہہ سکتا ہے ، یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہے کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے ۔ مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو جس طرح ، جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو حیثیت اس کو یہاں دی گئی ہے وہ یقیناً ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے ، اور جس خدا کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازماً یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو ، اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خورد بینی خلیے سے شروع کر کے اس مرتبے تک پہنچا چکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لا سکے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani