22۔ 1 یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
[١٥] انسان بلکہ سب جاندار مخلوق کے رزق کا ذریعہ بارش ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ آسمان سے مراد بادل بھی ہوسکتا ہے اور نفس آسمان بھی۔ کیونکہ ہر علاقے میں جتنی بارش ہونا مقدر ہو اس کا حکم آسمان سے نازل ہوتا ہے اور ہر ایک کو اس کے مقدر کی روزی مل کے رہتی ہے کسی کے روکنے سے رک نہیں سکتی اور اتنی ہی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتی۔- [١٦] رزق انسان کو زندہ رہنے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن وہ دنیا میں کتنا عرصہ کام کرے گا اور کب اور کہاں مرے گا۔ یہ فیصلہ آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ نیز یہاں وعدہ سے مراد وعدہ قیامت، حشر و نشر، محاسبہ وباز پرس، جزا و سزا اور جنت و دوزخ بھی ہے۔ جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام آسمانی کتابوں میں دیا گیا ہے۔ قیامت اور اس سے متعلقہ امور کے سب فیصلے عالم بالا ہی میں ہوتے ہیں۔
(١) وفی السمآء رزقکم : اکثر مفسرین نے یہاں رزق سے مراد بارش لی ہے، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذین یریکم ایتہ وینزل لکم من السمآء ر زقاً (المومن : ١٣)” وہی ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق اتارتا ہے۔ “ مگر لفظ عام ہیں، اس لئے رزق سے مراد وہ سب کچھ ہے جو دنیا میں انسان کو جیتے، کھانے پیتے اور کام کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔ یعنی تمہیں جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ آسمان میں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور تمہیں وہیں سے عطا ہوتا ہے۔” فی السمآئ “ مقدم لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” تمہارا رزق آسمان ہی میں ہے۔ “ تو جب تمہارا رزق آسمان ہی میں ہے تو پھر کمائی کے لئے اتنی فکر کیوں کہ جائز و ناجائز کی تمیز بھی نہ کی جائے اور حق والوں کو حق بھی نہ دیا جائے ؟ پھر اسئل اور محروم پر خرچ کرنے میں بخل اور دریغ کیسا ؟ اور جب آتا آسمان سے ہے تو کسی پر خرچ کر کے اپنا احسان جتلانے کی کیا وجہ ؟- (٢) وما توعدون : یعنی حشر و نشر، جزا و سزا اور جنت و دوزخ وغیرہ جن کے رونما ہونے کا وعدہ تمام انبیاء کی زبانی اور تمام آسمانی کتابوں کے ذریعے سے کیا گیا ہے، ان سب کا حکم آسمان ہی سے ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں :” آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔ “ (موضح)- (٣) اس مقام پر بعض مفسرین نے کچھ لوگوں کے واقعات لکھے ہیں جنہوں نے یہ آیت سن کر کمائی ترک کردی اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہئے جنگل بیابان کی راہ لی اور وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تازہ کھجوریں اور رزق ملنے لگا۔ چناچہ طبری نے سلیمان ثوری نے کی زبانی نقل کیا ہے کہ واصل احدب نے یہ آیت ” وفی السمآء رزقکم وما توعدون “ پڑھی تو کہنے لگے ” میرا رزق تو مجھے آسمان میں نظر آرہا ہے اور میں اسے زمین میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ “ یہ کہہ کر وہ ایک خرابے میں چل یگئے۔ تین دن تک کھانے کو کچھ نہ ملا، جب تیسرا دن ہوا تو اچانک ان کے پاس تازہ کمجوروں کی ایک نوکری آگئی۔ ان کا ایک بھائی تھا، جو ان سے بھی اچھی نیت والا تھا، وہ بھی اس خرابے میں ان کے ساتھ آگیا تو ٹوکریاں دو ہوگئیں۔ ان کا یہی حال رہا، یہاں تک کہ موت نے ان کے درمیان جدائی ڈال دی۔- حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی کہانیوں نے اسلام رخ روشن مسخ کیا ہے۔ آسمان میں رزق ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آدمی کمانا ترک کر دے۔ یہ رہبانیت ہے جس کی اسلام میں گنجائش ہی نہیں، یہاں تو محنت کر کے کمانے اور دوسروں پر خرچ کرنے کی تلقین ہے، جنگلوں، یابانوں یا خانقاوہں میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف سے یا غیب سے آنے والے رزق کے انتظار کے بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے پاکیزہ ترین رقز حاصل کرنے کی ترغیب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی پوری زندگی اس کی شاہد ہے۔ آسمان والے پر رکھے اور ایک ملحہ کے لئے بھی رزق کی خاطر اس کے حکم سے سرتابی نہ کرے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ابن کثیر (رح) جیسے محقق نے کسی تنقید کے بغیر یہ کہانی نقل کردی ہے، حالانکہ طبری میں اس روایت کے راوی طبری کے استاذ محمد بن حمید رازی ہیں، جن کا ضعیف ہونا معروف ہے۔
(آیت) وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ، (یعنی آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم سے وعدہ کیا جاتا ہے) اس کے بےغبار و بےتکلف تفسیر وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں اختیار کی گئی، یعنی آسمان میں ہونے سے مراد آسمان میں لوح محفوظ کے اندر لکھا ہونا مراد ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہر انسان کا رزق اور جو کچھ اس سے وعدے کئے گئے اور اس کا جو کچھ انجام ہونا ہے وہ سب لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔- حدیث میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے مقررہ رزق سے بچنے اور بھاگنے کی بھی کوشش کرے تو رزق اس کے پیچھے پیچھے بھاگے گا جیسے موت سے انسان بھاگ نہیں سکتا ایسے ہی رزق سے بھی فرار ممکن نہیں (قرطبی)- اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ رزق سے مراد بارش ہے، اس صورت میں اس کا آسمان میں ہونا بایں صورت ہوگا کہ آسمان سے مراد یہاں جرم سٰموٰت نہ ہو بلکہ مافوق مراد ہو جس میں فضائے آسمانی بھی داخل ہے تو بارش جو بادلوں سے برستی ہے اس کو بھی فی السماء کہا جاسکتا ہے اور ماتوعدون سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔
وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ٢٢- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔
(٢٢۔ ٢٣) سو قسم ہے آسمان و زمین کے رب کی کہ تم سے جو رزق کے بارے میں بیان کیا گیا ہے وہ حق ہے اور ایسا یقینی جیسا کہ تم کلمہ طیبہ پڑھتے ہو۔
آیت ٢٢ وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ ۔ ” اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ “- اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارا رزق بھی طے شدہ ہے اور تمہارے جنت یا دوزخ میں جانے کا فیصلہ بھی اسی کی مشیت سے ہونا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :20 آسمان سے مراد یہاں عالم بالا ہے ۔ رزق سے مراد وہ سب کچھ جو دنیا میں انسان کو جینے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ اور مَا تُوْعَدُوْنَ سے مراد قیامت ، حشر و نشر ، محاسبہ و باز پرس ، جزا و سزا ، اور جنت و دوزخ ہیں جن کے رونما رہنے کا وعدہ تمام کتب آسمانی میں اور اس قرآن میں کیا جاتا رہا ہے ۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا ہی سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تم میں سے کس کو کیا کچھ دنیا میں دیا جائے ، اور وہیں سے یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ تمہیں باز پرس اور جزائے اعمال کے لیے کب بلایا جائے ۔
9: آسمان سے یہاں مراد عالم بالا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ تمہارے رزق کے فیصلے بھی آسمان میں ہوتے ہیں، اور تم سے جنت اور دوزخ وغیرہ کا جو وعدہ کیا جارہا ہے، اس کا فیصلہ بھی آسمان ہی میں ہونا ہے۔