29۔ 1 صرۃ کے دوسرے معنی ہیں چیخ و پکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔
[٢٣] سیدنا ابراہیم کو اسحاق کی خوشخبری :۔ جب فرشتوں نے سیدنا اسحٰق کی خوشخبری دی تو ان کا خوف جاتا رہا۔ البتہ ان کی بیوی آگے بڑھی اور تعجب سے اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر مارتے ہوئے کہا یہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بانجھ ہوں، جوانی میں بھی اولاد نہ ہوئی اور اب تو بوڑھی بھی ہوچکی ہوں۔ اب یہ کیسے ہوگی ؟
(١) فاقبلت امراتہ فی صرۃ …:” صرۃ “ صیحہ، چیخ ” صر “ یصر “ (ن) ” صریر “ القلم “ (قلم کی آواز) اور ” صربر الباب “ (دروازے کی آواز) بھی اسی سے مشتق ہے۔ ” صرۃ “ میں تنوین تعظیم کی ہے :” ای صبحہ عظیمۃ ورنہ “ ابن کثیر نے فرمایا :” صرۃ “ سے مراد اس کا ” یویلتی “ کہنا ہے جو سورة ہود (٧٢) میں مذکور ہے، یہاں اس کا قول مختصر ذکر فرمایا ہے۔” عجوز عقیم “” ای انا عجوز مقیم “ یعنی یہ بشارت سن کر اپنی عمر دیکھتے ہوئے حیرت و مسرت کے جذبات سے بےاختیار چیختی ہوئی فرشتوں کی طرف آئی۔- (٢) فصکت وجھا :” صک یصک صکا “ (ن) چہرے پر زور سے ہاتھ مارنا، جیسا کہ عورتیں تعجب کے وقت کرتی ہیں یعنی تعجب سے چہرے کو پ یٹ کر کہنے لگی کہ میں تو بڑھی ہوں، جوانی کی عمر سے بانجھ ہوں، اب خاک بچہ جنوں کی۔ - (٣) بعض لوگوں نے اس سے ماتم اور سینہ کو بی کی دلیل کشیدگی ہے، مگر یہ نہیں سوچا کہ کیا خوشی کی خبر پر بھی ماتم ہوتا ہے ؟
(آیت) فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ ۔ صرة کے معنی غیر معمولی آواز کے ہیں صریر قلم سے نکلنے والی آواز کو کہا جاتا ہے، مراد یہ ہے کہ حضرت سارہ نے جب سنا کہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچے کی پیدائش کی خوشخبری دے رہے ہیں اور یہ ظاہر تھا کہ بچہ بیوی سے پیدا ہوتا ہے، بیوی حضرت سارہ ہی تھیں تو سمجھیں کہ یہ خوشخبری ہم دونوں ہی کے لئے ہے، تو غیر اختیاری طور پر ان کے منہ سے کچھ الفاظ حیرت و تعجب کے نکلے اور کہا عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ کہ اول تو میں بڑھیا، پھر بانجھ یعنی جوانی میں بھی اولاد کے قابل نہیں تھی، اب بڑھاپے میں یہ کیسے ہوگا جس کے جواب میں فرشتوں نے فرمایا کذلک، یعنی اللہ تعالیٰ کو سب قدرت ہے، یہ کام یونہی ہوگا، چناچہ جس وقت اس بشارت کے مطابق حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کی عمر ننانوے سال اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال کی تھی (قرطبی )
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِيْ صَرَّۃٍ فَصَكَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ ٢٩- إِقْبَالُ- التّوجّه نحو الْقُبُلِ ، كَالاسْتِقْبَالِ. قال تعالی: فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] ، وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ [ الذاریات 29]- اقبال - اور استقبال کی طرح اقبال کے معنی بھی کسی کے رو برو اور اس کی طرف متوجہ ہو نیکے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ [ الصافات 50] پھر لگے ایک دوسرے کو رو ور ود ملا مت کرنے ۔ - وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ [يوسف 71] ، اور وہ ان کی طرف متوجہ ہوکر - صَرَّةٍ- والصَّرَّةُ : الجماعة المنضمّ بعضهم إلى بعض كأنّهم صُرُّوا، أي : جُمِعُوا في وعاء . قال تعالی:- فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ، وقیل : الصَّرَّةُ الصّيحةُ.- الصرۃ جماعت جس کے افراد باہم ملے جلے ہوں گویا وہ کسی تھیلی میں باندھ دیئے گئے ہیں قرآن میں ہے فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ [ الذاریات 29] ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی چلاتی آئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ صرۃ کے معنی چیخ کے ہیں ۔- فصکت : ف عاطفہ وترتیب کے لئے ہے۔ صلت ماضی واحد مؤنث غائب صک ( باب نصر) مصدر بمعنی کوٹنا۔ زور زور سے پیٹنا۔ اس نے پیٹ لیا۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- عجز - والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، - ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔- عقم - أصل الْعُقْمِ : الیبس المانع من قبول الأثر «3» يقال : عَقُمَتْ مفاصله، وداء عُقَامٌ: لا يقبل البرء، والعَقِيمُ من النّساء : التي لا تقبل ماء الفحل . يقال : عَقِمَتِ المرأة والرّحم . قال تعالی: فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات 29] ، وریح عَقِيمٌ: يصحّ أن يكون بمعنی الفاعل، وهي التي لا تلقح سحابا ولا شجرا، ويصحّ أن يكون بمعنی المفعول کالعجوز العَقِيمِ «4» وهي التي لا تقبل أثر الخیر، وإذا لم تقبل ولم تتأثّر لم تعط ولم تؤثّر، قال تعالی: إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات 41] ، ويوم عَقِيمٌ: لا فرح فيه .- ( ع ق م ) العقم اصل میں اس خشکی کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا اثر قبول کرنے سے مانع ہو چناچہ محاورہ ہے عقمت مفاصلتہ ( اس کے جوڑ بند خشک ہوگئے ) داء عقام لا علاج مرض ۔ العقیم ( بانجھ ) عورت کو مرد کا مادہ قبول نہ کرے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ عقمت المرءۃ اولرحم عورت بانجھ ہوگئی یا رحم خشک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : فَصَكَّتْ وَجْهَها وَقالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ [ الذاریات 29] اور اپنا منہ لپیٹ کر کہنے لگی کہ ( اے ہے ایک تو بڑھیادوسرے ) بانجھ ۔ اور ریح عقیم ( خشک ہوا ) میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی فاعل ہو ۔ یعنی وہ ہوا جو بادلوں کو ساتھ نہیں لاتی یا درخت کو بار دار نہیں اور یہ بھی ہو ہوسکتا ہے کہ فعیل بمعنی مفعول ہو جیسا کہ العجوز العقیم میں ہے اس صورت میں ریح عقیم کے معنی ہوں گے وہ ہوا جو کسی چیز کا اثر اپنے اندر نہ رکھتی ہو چونکہ ایسی ہوا نہ کسی چیز اثر کو قبول کرتی ہے اور نہ کسی سے متاثر ہوتی ہے اس لئے نہ وہ کچھ دیتی اور نہ ہی کسی چیز پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ أَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَ [ الذاریات 41] جب ہم نے ان پر خشک ہو اچلائی ۔ یوم عقیم سخت دن جس میں کسی قسم کا سامان فرحت نہ ہو ۔
(٢٩۔ ٣٠) اتنے میں یہ گفتگو کہیں سے سن کر ان کی بیوی حضرت سارہ پکارتی آئیں اور تعجب سے اپنے ماتھے اور چہرے پر ہاتھ مارا اور کہنے لگیں اول تو بڑھیا پھر بانچھ اس وقت بچہ پیدا ہونا بھی عجیب ہے، حضرت جبریل اور ان کے ساتھ والے کہنے لگے اے سارہ جیسا ہم نے تم سے بیان کیا ہے تمہارے پروردگار نے ایسا ہی فرمایا ہے وہ بانجھ اور غیر بانجھ کے لیے لڑکے کا حکم دیتا ہے اور جو تم سے پیدا ہونے والا ہے وہ اس سے واقف ہے۔
آیت ٢٩ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْہَہَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ ۔ ” اس پر اس کی بیوی سامنے آئی بڑبڑاتی ہوئی اور اس نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور کہنے لگی : بڑھیا بانجھ (بچہ جنے گی کیا) ؟ “- کہ میں تو ساری عمر بانجھ رہی ہوں اور اب تو میری عمر بھی ماں بننے کی نہیں رہی ‘ تو کیا اب میرے ہاں بیٹا پیداہو گا ؟
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :28 یعنی ایک تو میں بوڑھی ، اوپر سے بانجھ ۔ اب میرے ہاں بچہ ہوگا ؟ بائیبل کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو سال ، اور حضرت سارہ کی عمر 90 سال تھی ( پیدائش ، 18:17 ) ۔