28۔ 1 ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔ 28۔ 2 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔
[٢٢] سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے خوف کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ عرب میں قبائلی دستور یہ تھا کہ اگر مہمان کھانا نہ کھائے تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی بری نیت سے آیا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ مہمانوں کے کھانا نہ کھانے سے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا ہو کہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ اس صورت سے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتے غیر معمولی حالات کے سوا انسانی شکل میں نہیں آیا کرتے لہذا آپ کو خوف لاحق ہوا کہ غالباً کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے۔
(١) فاوجس منھم خیفۃ …: اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٧٠) کی تفسیر۔- (٢) وبشروہ بغلم علیم : سورة ہود میں اس لڑکے کا نام اسحاق آیا ہے، وہ ” غلام علیم “ تھے اور اسماعیل (علیہ السلام) ” غلام حلیم۔ “ ان کا ذکر سورة صافات (١٠١) میں ہے۔ اسحاق (علیہ السلام) کو ” بغلم علیم “ فرمایا، حالانکہ ” علیم “ تو انہوں نے جوانی میں بننا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو بچے حفظ شروع کردیں انہیں آئندہ کا لحاظ کرتے ہوئے حافظ کہا جاسکتا ہے۔ (واللہ اعلم)
فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ ، یعنی ابراہیم (علیہ السلام) ان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے ان سے خطرہ محسوس کرنے لگے جس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت شرفاء کا تعامل تھا کہ مہمان کچھ نہ کچھ مہمانی قبول کرتا اور کھاتا تھا جو مہمانی اتنی بھی قبول نہ کرے اس سے خطرہ ہوتا تھا کہ یہ شاید کوئی دشمن نہ ہو جو تکلیف پہنچانے آیا ہو، اس وقت کے چوروں ظالموں میں بھی شرافت تھی کہ جس کا کچھ کھالیا پھر اس کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے، اس لئے نہ کھانا سبب خطرہ کا بنتا تھا۔
فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِيْفَۃً ٠ ۭ قَالُوْا لَا تَخَـفْ ٠ ۭ وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِيْمٍ ٢٨- وجس - الوَجْس : الصّوت الخفيّ ، والتَّوَجُّس : التّسمّع، والإيج اس : وجود ذلک في النّفس . قال تعالی: فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] فالوَجْس قالوا : هو حالة تحصل من النّفس بعد الهاجس، لأنّ الهاجس مبتدأ التّفكير ، ثم يكون الواجس الخاطر .- ( و ج س ) الوجس - کے معنی صوت خفی کے ہیں اور توجس ( تفعل ) خفی آواز سننے کی کوشش کرنے کو کہتے ہیں اور ایجاس کے معنی دل میں کوئی بات محسوس کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً [ الذاریات 28] اس وقت موسیٰ نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا ۔ لہذا وجس اس حالت کو کہتے ہیں جو کسی ( خطرہ کے بعد دل میں پیدا ہوتی ہے اور جو کسی بنتی ہے اسے ھاجس اور اس کے بعد کی حالت کو واجس کہا جاتا ہے :- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - غلم - الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ.- ( غ ل م ) الغلام - اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔
جب پھر بھی انہوں نے نہ کھایا تو ان سے ابراہیم دل میں خوف زدہ ہوئے اور سمجھے کہ کہیں یہ دشمن نہ ہوں کیونکہ اس زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے ساتھی کا کھانا کھا لیتا تھا وہ اس سے مطمئن ہوجاتا تھا غرض کہ جب فرشتوں نے حضرت ابراہیم کے خوف کو محسوس کیا تو وہ بولے ابراہیم آپ ہم سے ڈریے مت ہم آپ کے پروردگار کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرزند کی بشارت دی جو بچپن ہی سے بڑا عالم اور بڑھاپے میں بڑا حلیم اور عظیم المرتبت ہوگا یعنی اسحاق علیہ السلام۔
آیت ٢٨ فَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃًط ” تو اس نے ان کی طرف سے دل میں اندیشہ محسوس کیا۔ “- مہمانوں کے کھانا تناول نہ کرنے پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اندیشہ لاحق ہوا کہ شاید یہ لوگ میرے دشمن ہیں ‘ مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اسی لیے میرا نمک کھانے سے احتراز کر رہے ہیں۔ پرانے زمانے کے لوگ دشمنی میں بھی شرافت دکھاتے تھے ۔ اگر کسی کا نمک کھالیا جاتا تو اس کے بعد اسے نقصان پہنچانے کا نہیں سوچا جاتا تھا۔- قَالُوْا لَا تَخَفْ ط ” انہوں نے کہا : آپ ڈریں نہیں۔ “- وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ ۔ ” اور انہوں نے اسے بشارت دی ایک صاحب علم بیٹے کی۔ “- صاحب علم بیٹے سے مراد حضرت اسحاق (علیہ السلام) ہیں جن کی پیدائش کی بشارت فرشتوں نے دی ۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :26 یعنی جب ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہ بڑھے تو حضرت ابراہیمؑ کے دل میں خوف پیدا ہوا ۔ اس خوف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اجنبی مسافروں کا کسی کے گھر جا کر کھانے سے پرہیز کرنا ، قبائلی زندگی میں اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ وہ کسی برے ارادے سے آئے ہیں ۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ ان کے اس اجتناب ہی سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں ، اور چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا بڑے غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے اس لیے آپ کو خوف لاحق ہوا کہ کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے جس کے لیے یہ حضرات اس شان سے تشریف لائے ہیں ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :27 سورہ ہود میں تصریح ہے کہ یہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کا مژدہ تھا اور اس میں یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ حضرت اسحاق سے ان کو حضرت یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا نصیب ہو گا ۔
12: فرشتے چونکہ کچھ کھاتے نہیں ہیں، اس لیے انہوں نے کھانے سے پرہیز کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس علاقے کی عادت کے مطابق یہ سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہیں۔ پھر جب انہوں نے اپنے بیٹے کی خوشخبری دی تو وہ سمجھ گئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ اس لیے آیت نمبر 30 میں انہوں نے اسی حیثیت سے ان سے خطاب فرمایا۔