Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] فرعون سیدنا موسیٰ کو جادوگر یا دیوانہ کیوں کہتا تھا ؟ یعنی اپنی حکومت سے تعلق رکھنے والے تمام افراد اور ملازموں کو ساتھ ملا کر مشترکہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کی مخالفت اور اللہ کے حکم سے سرتابی کی پھر اپنے تمام ذرائع ابلاغ کو کام میں لاکر ملک بھر میں مشہور کردیا کہ موسیٰ یا تو جادو گر ہے یادیوانہ ہے۔ وہ جادوگر اس لیے کہتا تھا کہ اپنی قوم کو وہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے بس جادو کے کرشمے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں اور دیوانہ اس لیے کہتا تھا کہ آپ نے فرعون جیسے جابر اور قاہر فرمانروا سے کھلے الفاظ میں یہ مطالبہ کردیا تھا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے میرے ہمراہ روانہ کردو۔ وہ کبر و نخوت کا پتلا یہ سمجھتا تھا کہ اگر موسیٰ جیسا کمتر آدمی جو ہمارا قتل کا مفرور مجرم بھی ہے، مجھ سے ایسا مطالبہ کرے تو یہ اس کی دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(فتولی برکنہ وقال سحر او مجنون :” برکنہ “ میں ” بائ “ سیبیہ ہے۔ ” رکن “ کسی چیز کا سہارا اور آسرا قوت۔ یعنی اس نے اپنی سلطنت اور فوجوں کی قوت کی وجہ سے ان واضح دلائل سے منہ پھیرلیا اور حق پہچانل ینے کے باوجود ایمان لانے سے اناکر کردی اور لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) سے برگشتہ کرنے کیلئے کہنے لگا کہ یہ جادو گر ہے یا دیوانہ ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ اور ان کی فرعون کے ساتھ تفصیلی گفتگو، جس میں فرعون نے انہیں دیوانہ اور پھر جادو گر قرار دیا سورة شعراء (١٠ تا ٣٥) میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَوَلّٰى بِرُكْنِہٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ۝ ٣٩- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - ركن - رُكْنُ الشیء : جانبه الذي يسكن إليه، ويستعار للقوّة، قال تعالی: لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] ، ورَكنْتُ إلى فلان أَرْكَنُ بالفتح، والصحیح أن يقال : رَكَنَ يَرْكُنُ ، ورَكِنَ يَرْكَنُ «2» ، قال تعالی: وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] ،- ( ر ک ن ) رکن - ۔ کسی چیز کی وہ جانب جس کے سہارے پر وہ قائم ہوتی ہے استعارہ کے طور پر ذور اور قوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] اے کاش ( آج ) مجھ کو تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوئی یا میں کسبی زبر دست سہارے کا آسرا پکڑا جاتا ۔ اور رکنت الی ٰ فلان ارکن کے معنی کسی کیطرف مائل ہونے کے ہیں یہ فتح کاف کے ساتھ ہے مگر صحیح رکن یر کن ( ن) یا رکن یر کن ( س) ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] جن لوگوں نے ہماری نافرمانی کی انکی طرف نہ جھکنا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔- جُنون - : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36]- جنون - ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ 46] کہ ان کے - رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ - مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ ” تو اس نے منہ موڑ لیا اپنی شان و شوکت کے گھمنڈ میں “- وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ ۔ ” اور کہا کہ یہ ساحر ہے یا مجنون ہے۔ “- یعنی فرعون نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وہی القابات دیے تھے جو اہل مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے رہے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :37 یعنی کبھی اس نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ساحر قرار دیا ، اور کبھی کہا کہ یہ شخص مجنون ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani