40۔ 1 یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت ہی کا مستحق تھا
[٣٤] یعنی جب یہ ظالم و جابر حکمران اپنے لشکروں سمیت غرق ہوگیا تو کسی نے ان کی تباہی پر آنسو نہ بہائے۔ ہر کوئی انہیں ملامت کرتا اور برے لفظوں سے یاد کرتا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس ملعون سے جان چھوٹی۔
(فاخذنہ و جنودہ فنبذنھم فی الیم…:” الا یلیم “ (افعال) ایسا کام کرنا جس پر ملامت کی جائے۔” ملیم “ مستحق ملامت، ایسا کام کرنے والا جس پر اسے ملامت کی جائے۔ یعنی وہ ایسا ظالم و سرکش تھا کہ اس کے سمندر میں لشکر سمیت غرق ہونے پر کسی نے اس کے حق میں کوئی کلمہ خیر نہیں کہا، بلکہ ہر شخص کے منہ سے اس کے لئے ملامت اور پھٹکار ہی نکلی جس نے سنا یہی کہا کہ ان کے ساتھ ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔ خس کم جہاں پاک۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فما بکت علیھم السمآء والارض) (الدخان : ٢٩)” پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین۔ “ سمندر میں پھینکے جانے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة یونس ٩٠ تا ٩٢) ، طہ (٧٧، ٧٨) اور سورة شعراء (٥٢ تا ٦٧) ۔
فَاَخَذْنٰہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ وَہُوَمُلِيْمٌ ٤٠ ۭ- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- نبذ - النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص .- ( ن ب ذ) النبذ - کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔- يم - اليَمُّ : البحر . قال تعالی: فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] ويَمَّمْتُ كذا، وتَيَمَّمْتُهُ :- قصدته، قال تعالی: فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] وتَيَمَّمْتُهُ برمحي : قصدته دون غيره . واليَمَامُ : طيرٌ أصغرُ من الورشان، ويَمَامَةُ : اسمُ امرأةٍ ، وبها سمّيت مدینةُ اليَمَامَةِ.- ( ی م م ) الیم کے معنی در یا اور سمندر کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ [ القصص 7] تو اسے در یا میں ڈال دینا یممت کذا وتیممت قصد کرنا قرآن پاک میں ہے ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء 43] تو پاک مٹی لو ۔ یممتہ بر محی میں نے اسے نیزے نشان نہ بنایا ۔ الیامم جنگلی کبوتر کو کہتے ہیں اور یمامۃ ایک عورت کا نام تھا جس کے نام پر ( صوبہ یمن کے ایک شہر کا نام الیمامہ رکھا گیا تھا ۔- لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . - ( ل و م )- لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔
سو ہم نے اس کو اور اس کے تمام لشکر کو پکڑ کر دریا میں غرق کردیا اور وہ اللہ کی جانب سے مبغوض تھا خود اپنے آپ ہی کو ملامت کر رہا تھا۔
آیت ٤٠ فَاَخَذْنٰـہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰـہُمْ فِی الْْیَمِّ وَہُوَ مُلِیْمٌ ۔ ” سو ہم نے پکڑا اس کو اور اس کے لشکروں کو اور انہیں پھینک دیا سمندر میں اور وہ ملامت زدہ تھا۔ “
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :38 اس چھوٹے سے فقرے میں تاریخ کی ایک پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے ذرا چشم تصور کے سامنے یہ نقشہ لے آئیے کہ فرعون اس وقت دنیا کے سب سے بڑے مرکز تہذیب و تمدن کا عظیم فرمانروا تھا جس کی شوکت و سطوت سے گرد و پیش کی ساری قومیں خوف زدہ تھیں ۔ ظاہر بات ہے کہ وہ جب اپنے لشکروں سمیت اچانک ایک روز غرقاب ہوا ہوگا تو صرف مصر ہی میں نہیں ، آس پاس کی تمام قوموں میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی ہوگی ۔ مگر اس پر بجز ان لوگوں کے جن کے اپنے قریبی رشتہ دار غرق ہوئے تھے ، باقی کوئی نہ تھا جو ان کے اپنے ملک میں ، یا دنیا کی دوسری قوموں میں ماتم کرتا یا ان کا مرثیہ کہتا ، یا کم از کم یہی کہنے والا ہوتا کہ افسوس ، کیسے اچھے لوگ تھے جو اس حادثہ کے شکار ہوگئے ۔ اس کے بجائے ، چونکہ دنیا ان کے ظلم سے تنگ آئی ہوئی تھی ، اس لیے ان کے عبرتناک انجام پر ہر شخص نے اطمینان کا سانس لیا ، ہر زبان نے ان پر ملامت کی پھٹکار برسائی ، اور جس نے بھی اس خبر کو سنا وہ پکار اٹھا کہ یہ ظالم اسی انجام کے مستحق تھے ۔ سورہ دخان میں اسی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ ، پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ دخان ، حاشیہ 25 ) ۔