46۔ 1 قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود وغیرہ بہت پہلے گزر چکی ہے اس نے بھی اطاعت الٰہی کی بجائے اسکی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر اسے طوفان میں ڈبو دیا گیا۔
[٤٠] ذکر قوم نوح :۔ سیدنا نوح اور ان کی قوم کا ذکر نہایت اختصار کے ساتھ صرف ایک آیت میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس میں اس قوم کے جرم اور اس کی سزا دونوں کا ذکر آیا ہے۔ سابقہ آیات میں چند تاریخی شواہد پیش کرکے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ مکافات عمل کا قانون اس کائنات میں جاری وساری ہے۔- خ سب قوموں کے ایک جیسے جرم اور انجام سے سبق :۔ جس قوم نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کی اور اکڑ دکھائی اس کا انجام یہی ہوا کہ وہ تباہ و برباد ہو کے رہی۔ اور یہ عذاب محض ان کی گرفتاری کے حکم کا درجہ رکھتا تھا تاکہ وہ مزید جرائم نہ کرسکیں اور دوسرے لوگ ان کے مظالم سے بچ جائیں۔ رہی ان کے جرائم کی اصل سزا تو وہ قیامت کے دن مقدمہ، شہادتوں اور ثبوت جرم کے بعد دی جائے گی۔ اور یہ تاریخی واقعات، ان کا سبب اور ان کا نتیجہ سب کچھ کفار کو سنائے جارہے ہیں تاکہ وہ خود ہی سمجھ جائیں کہ اگر وہ لوگ بھی حق کی مخالفت سے باز نہ آئے تو ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔
(وقوم نوح من قبل …: رازی نے یہاں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ان پانچ اقوام کے ذکر میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انھی چیزوں کے ساتھ عذاب دیا جو ان کے وجود اورق یام کا باعث تھیں۔ وہ چار چیزیں ہیں، مٹی، پانی ، ہوا اور آگ۔ قوم لوط کھنگر مٹی کے پتھروں کے ساتھ ہلاک ہوئی، فرعون اور قوم نوح پانی کے ساتھ، عاد ہوا کے ساتھ اور ثمود آگ کے ساتھ تباہ برباد کئے گئے۔
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ٤٦ ۧ- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- فسق - فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به،- ( ف س ق ) فسق - فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
آیت ٤٦ وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَـبْلُ ط ” اور قوم نوح کو بھی اس سے پہلے (ہم نے پکڑا) ۔ “- اِنَّـہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ۔ ” یقینا وہ بھی بڑے ہی نافرمان لوگ تھے۔ “- نوٹ کیجیے یہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے سوا ان سب پیغمبروں کا ذکر آگیا ہے جن کے حالات طویل مکی سورتوں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ یعنی سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک پیغمبر کا واقعہ عموماً ایک ایک رکوع میں بیان ہوا ہے لیکن یہاں ان کا ذکر ایک ایک دو دو آیات میں آیا ہے۔ گویا بعد میں نازل ہونے والی طویل مکی سورتوں میں انباء الرسل کی تفصیل بیان ہوئی ہے جبکہ زیر مطالعہ مکی سورتوں میں ان پیغمبروں کا ذکر انتہائی مختصر انداز میں آیا ہے۔
15: ان کا تفصیلی واقعہ سورۃ ہود : 25 تا 48 میں گذر چکا ہے۔