تخلیق کائنات زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرما رہا ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے پیدا کیا ہے اسے محفوظ اور بلند چھت بنا دیا ہے حضرت ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ثوری اور بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنی قوت سے بنایا ہے اور ہم کشادگی والے ہیں اس کے کنارے ہم نے کشادہ کئے ہیں اور بےستون اسے کھڑا کر دیا ہے اور قائم رکھا ہے زمین کو ہم نے اپنی مخلوقات کے لئے بچھونا بنا دیا ہے اور بہت ہی اچھا بچھونا ہے تمام مخلوق کو ہم نے جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے جیسے آسمان زمین ، دن رات ، خشکی تری ، اجالا اندھیرا ، ایمان کفر ، موت حیات ، بدی نیکی ، جنت دوزخ ، یہاں تک کہ حیوانات اور نباتات کے بھی جوڑے ہیں یہ اس لئے کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو تم جان لو کہ ان کا سب کا خالق اللہ ہی ہے اور وہ لاشریک اور یکتا ہے پس تم اس کی طرف دوڑو اپنی توجہ کا مرکز صرف اسی کو بناؤ اپنے تمام تر کاموں میں اسی کی ذات پر اعتماد کرو تو تم سب کو صاف صاف آگاہ کر دینے والا ہوں خبردار اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا میرے کھلم کھلا خوف دلانے کا لحاظ رکھنا ۔
47۔ 1 السماء منصوب ہے بنینا محذوف کی وجہ سے بنینا السماء بنیناھا 47۔ 2 یعنی پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم نے اس کو اور بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہین۔ یا آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وُسْع (طاقت وقدرت رکھنے والے) تو مطلب ہوگا ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت وقدرت موجود ہے۔ ہم آسمان و زمین بنا کر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔
[٤١] کائنات کی وسعت :۔ کائنات میں بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے۔ اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ سب سے پہلے انسان ہی کو لیجئے۔ اس کی نسل بڑھ رہی ہے۔ تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بھی اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھاتے جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے۔ آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے یہاں آسمان سے مراد پہلا آسمان یا کوئی خاص آسمان نہیں بلکہ یہاں سماء سے مراد فضائے بسیط ہے جب کہ اس آیت (ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ 29 ) 2 ۔ البقرة :29) میں بھی سماء سے مراد فضائے بسیط ہے۔ جس میں لاتعداد مجمع النجوم اور کہکشائیں ہیئت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیئت دان جوں جوں پہلے سے زیادہ طاقتور اور جدید قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں توں توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔
(١) والسمآء بنینھا باید : سورت کی ابتدا سے قیامت اور جزا و سزا کے حق ہونے کا بیان چلا آرہا ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی قسمیں کھائیں اور دوبارہ زندہ کرنے پر اپنے قادر ہونے کے بہت سے دلائل پیش فرمائے، جن میں آسمان و زمین کا خصوصاً ذکر فرمایا۔ درمیان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور کفار کو تنبیہ کیلئے قیامت اور پیغمبروں کو جھٹلانے والی اقوام کے انجام بدکا ذکر فرمایا۔ منکرین قیامت کا سب سے بڑا شبہ یہ ہے کہ مرنے اور بوسیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندگی کیسے ممکن ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ اس شبہے کے رد کے لئے آسمان و زمین کا خاص طور پر ذکر فرماتے ہیں، کیونکہ انس ان کو نظر آنے والی مخلوقات میں یہ سب سے بڑے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس و لکن اکثر الناس لایعلمون) (المومن : ٥٨) ” یقینا آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ یہاں آخرت کے حق میں تاریخی دلائل ذکر کرنے کے بعد دوبارہ پھر اس کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کئے جا رہے ہیں۔ قرآن مجید اسی طرح بات کو مختلف انداز سے پھیر پھیر کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔- (٢) ” اید “ ” ید “ کی جمع کے طور پر بھی آتا ہے جس کا معنی ہاتھ ہے اور اگر یہ معنی کیا جائے کہ ” ہم نے آسمان کو ہاتھوں کے ساتھ بنایا “ تو اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہیں اور اس طرح ہیں جس طرح اس کی شان کے لائق ہے، ہم نہیں جانتے نہ جان سکتے ہیں کہ کیسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا :(ما منعک ان تسجد لما خلقت بیدی) (ص : ٨٥)” تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لئے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ؟ “ مگر یہاں ” باید “ (ادیشید “ (قوی ہونا) کا مصدر ہے اور معنی اس کا ” قوت “ ہے، تنوین اس میں تعظیم کی ہے اور (وایدنہ بروح القدس) (البقرہ : ٢٥٣) (اور ہم نے اسے روح القدس کے ساتھ قوت بخشی) بھی اسی سے مشتق ہے۔ اس مقام پر ” بائید “ کا یہ معنی طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واذاکر عبدنا داؤد ذا الاید) (ص :18)” اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر جو قوت والا تھا۔ “ یعنی اتنا عظیم آسمان بنانا نفاق کام نہیں، یہ ہماری ہی قوت ہے جس کیساتھ ہم نے اسے اس وقت بنایا جب کچھ بھی نہیں تھا، تو ہم تمہیں دوبارہ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ آسمان کے لئے ” خلقنا ھا “ کے بجائے ” بنینھا “ کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ دیکھنے میں وہ ایک خیمے کی مانند نظر آتا ہے، جس کے لئے لفظ ” بنائ “ استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر لفظ ” بنائ “ میں بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت بھی ہے کہ اتنے عظیم آسمان کو ستونوں کے بغیر بنانے والے کے متعلق تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ انسان ضعیف البنیان کو دوبارہ نہیں بنا سکے گا۔ پھر یہ کہنے کے بجائے کہ ” وبنینا السمائ “ (اور ہم نے آسمان کو بنایا) یہ فرمایا :(والسممآء بنینھا) (اور آسمان ہم نے اسے بنایا) اتنے سے لفظوں میں آسمان کا ذکر دو دفعہ فرما دیا۔ ایک لفظ ” السمآئ “ کے ساتھ اور دوسرا اس کی ضمیر ” ھا “ کے ساتھ، مقصد آسمان اور اس کی بناوٹ کی طرف اچھی طرح متوجہ کرنا ہے۔- (٣) وانا لموسعون :” موسع “” اوسع یوسع “ (افعال) سے اسم فاعل ہے، جب کوئی وسعت والا ہو، جیسا کہ فرمایا :(علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) (البقرہ : ٢٣٦)” وسعت والے پر اس کی طاقت کے مطابق اور تنگی والے پر اس کی طاقت کے مطاق ہے۔ “ وسعت کا لفظ قدرت اور فراخی دونوں معنوں کیلئے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ” واسع “ بھی ہے، فرمایا :(ان اللہ واسع علیم) (البقر ١: ١١٥)” بیشک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی وسعت کی کوئی حد نہیں، اس کا وجود، حیات، علم ، قدرت ، حکمت وغیرہ سب لامحدود ہیں۔ ” انا لموسعون “” ان “ اور ” لام “ (تاکید کے دو حرفوں) کے ساتھ اس لئے فرمایا کہ قیامت کا منکر دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت و وسعت کا منکر ہے اور بلاغت کا قاعدہ ہے کہ مخاطب جس قدر کسی بات کا منکر ہو اتنی ہی زیادہ تاکید کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔- (٤) ” اوسع یوسع “ کا ایک معنی وسیع کرنا بھی ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ” آسمان، ہم نے اسے بنایا اور یقینا ہم وسیع کرنے والے ہیں۔ “ مفسر کیلاین لکھتے ہیں :” کائنات میں بیشمار چیزیں ایسیہیں جن میں آج تک تخلیق اور توسیع کا عمل جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ (بلکہ ہر چیز کا یہی حال ہے) سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے، اس کی نسل بڑھ ریہ ہے، تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی کائنات کا شاہکار ہے۔ پھر زمین کی پیداوار بیھ اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے بڑھات جا رہے ہیں۔ اس آیت میں بالخصوص آسمان کا ذکر ہے، تو آسمان کی پیدائش کا بھی یہی حال ہے، آسمان میں لاتعداد مجمع الجوم اور کہکشائیں ہئیت دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے علم کو ہر آن چیلنج کر رہی ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ہئیت دان جو جوں پہلے سے زیادہ طاقت ور اور جدیدق سم کی دور بینیں ایجاد کر رہے ہیں تو توں اس بات کا بھی انکشاف ہو رہا ہے کہ کائنات میں ہر آن مزید وسعت پیدا ہو رہی ہے۔ سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں اور نئے نئے اجرام بھی مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے آسمان کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور ہم وسیع القدرت ہیں اور ہم نے زمین کو فرش ( کے طور پر) بنایا سو ہم (کیسے) اچھے بچھانے والے ہیں (یعنی اس میں کیسے کیسے منافع رکھے ہیں) اور ہم نے ہر چیز کو دو دو قسم کا بنایا ( اس قسم سے مراد مقابل ہے، سو ظاہر ہے کہ ہر شے میں کوئی نہ کوئی صفت ذاتیہ یا عرضیہ ایسی معتبر ہوتی ہے جس سے دوسری چیز جس میں اس صفت کی نقیض یا ضد ملحوظ ہو، اس کے مقابل شمار کی جاتی ہے، جیسے آسمان و زمین، جوہر و عرض، گرمی و سردی، شیریں و تلخ، چھوٹی و بڑی، خوش نما و بدنما، سفیدی و سیاہی، روشنی و تاریکی، وعلیٰ ہذا) تاکہ تم ( ان مصنوعات سے توحید کو) سمجھو ( اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرما دیجئے کہ جب یہ مصنوعات وحدت صانع پر دلالت کر رہی ہیں) تو تم ( کو چاہئے کہ ان سے استدلال کر کے) اللہ ہی کی (توحید کی) طرف دوڑو ( اور اول تو بوجہ دلائل مذکورہ کے خود عقل ہی اعتقاد توحید کو ضروری بتلا رہی ہے، پھر اوپر سے) میں (بھی) تمہارے (سمجھانے کے) واسطے اللہ کی طرف سے صاف طور پر ڈرانے والا ( ہو کر آیا) ہوں (کہ منکر توحید کو عذاب ہوگا، پس خوف عذاب کے اعتبار سے اعتقاد توحید اور بھی ضروری ہوگیا) اور ( پھر اور زیادہ توضیح سے کہتا ہوں کہ) خدا کے ساتھ کوئی اور معبود قرار نہ دو ( پھر تغیر عنوان کے ساتھ مضمون توحید کی وجہ سے انذار کی پھر تاکید ہے کہ) میں تمہارے (سمجھانے کے) واسطے اللہ کی طرف سے کھلا ڈرانے والا (ہو کر آیا) ہوں (آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ واقع میں بلاشبہ نذیر مبین ہیں جیسا ابھی مذکور ہوا، لیکن یہ آپ کے مخالفین ایسے جاہل ہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو کبھی ساحر کبھی مجنون بتلاتے ہیں، سو آپ صبر کیجئے کیونکہ جس طرح یہ آپ کو کہہ رہے ہیں) اس طرح جو (کافر) لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے (یعنی کل نے یا بعض نے) ساحر یا مجنون نہ کہا ہو ( آگے کفار کے اس قول (ساحر او مجنون) پر متفق ہونے سے تعجب دلاتے ہیں کہ) کیا اس بات کی ایک دوسرے کی وصیت کرتے چلے آئے تھے (یعنی یہ اجماع تو ایسا ہوگیا جیسے ایک دوسرے کو کہتے چلے آئے ہوں کہ دیکھو جو رسول آوے تم بھی ہماری طرح کہنا، آگے .... حقیقت واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ تواصی واقع نہ ہوئی تھی کیونکہ بعض قوموں سے ملی بھی نہیں) بلکہ ( وجہ اس اجماع و اتفاق کی یہ ہوئی کہ) یہ سب کے سب سرکش لوگ ہیں (یعنی سبب اس قول کا سرکشی ہے چونکہ وہ ان سب میں مشترک ہے اس لئے قول بھی مشترک ہوگیا) سو ( جب پہلے لوگ ایسے گزرے ہیں اور سبب اس کا معلوم ہوگیا کہ انہی کا طغیان ہے تو) آپ ان کی طرف التفات نہ کیجئے (یعنی ان کی تکذیب کی پروا اور غم نہ کیجئے) کیونکہ آپ پر کسی طرح کا الزام نہیں (کقولہ تعالیٰ ولا تسئل عن اصحب الجیحم) اور (اطمینان کے ساتھ اپنے منصبی کام میں لگے رہئے فقط) سمجھاتے رہئے کیونکہ سمجھانا ( جن کی قسمت میں ایمان نہیں ان پر تو اتمام حجت ہوگا اور جن کی قسمت میں ایمان ہے ان) ایمان ( لانے) والوں کو (بھی جو پہلے مومن ہیں ان کو بھی) نفع دے گا (بہرحال تذکیر میں عام فوائد اور حکمتیں سب کے اعتبار سے ہیں، آپ اس کو کئے جایئے اور کسی کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کیجئے )- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں قیامت و آخرت کا بیان اور اس کو نہ ماننے والوں پر عذاب کا ذکر تھا، ان آیات میں بھی حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان ہے جس سے قیامت اور اس میں مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر جو تعجب منکرین کی طرف سے کیا جاتا ہے اس کا ازالہ ہے، نیز توحید کا اثبات اور رسالت پر ایمان کی تاکید ہے۔- بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ، لفظ اید، قوت وقدرت کے معنی میں آتا ہے، اس جگہ حضرت ابن عباس نے اید کی یہی تفسیر فرمائی ہے۔
وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ٤٧- بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان - اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - وسع - السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ :- الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو .- ( و س ع )- اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔
(٤٧۔ ٤٩) اور ہم نے آسمان کو اپنی قدرت و طاقت سے بنایا اور ہم جو چاہیں اس کی قدرت رکھتے ہیں یا یہ کہ زمین کو رزق کے ساتھ وسیع کرنے والے ہیں اور ہم نے زمین کو پانی پر فرش کے طور پر بنایا سو ہم کیا خوب بچھانے والے ہیں اور ہم نے زمین میں ہر ایک چیز کو دو قسم کا بنایا تاکہ تم ان مصنوعات خداوندی سے توحید کو سمجھو۔
آیت ٤٧ وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ ” اور آسمان کو ہم نے بنایا اپنے ہاتھوں سے اور ہم (اس کو) توسیع دینے والے ہیں۔ “- اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ کا ترجمہ عام طور پر ” ہم بڑی ہی وسعت رکھنے والے ہیں “ یا ” ہم بڑی قدرت والے ہیں “ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن لغوی اعتبار سے اس کا یہ ترجمہ زیادہ مناسب اور زیادہ جامع ہے جو اوپر متن میں اختیار کیا گیا ہے ۔ اَوْسَع یُوسِعُ باب افعال ہے ‘ جس کا مطلب ہے کشادہ کرنا ‘ وسعت دینا۔ وَسِعَ ثلاثی مجرد ہے ‘ جس سے اسم الفاعل وَاسِعٌ آتا ہے۔ چناچہ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ کا مطلب ہے : اللہ بڑی وسعت سمائی والا ہے ‘ اس کے خزانے لامحدود ہیں۔ جبکہ مَوْسِع باب افعال سے اسم الفاعل ہے اور اس کے معنی ہوں گے : وسعت دینے والا۔ اس لحاظ سے یہاں اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کائنات کو مسلسل وسعت بخش رہے ہیں ‘ اسے وسیع سے وسیع تر کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ وہی بات ہے جو آج ہمیں سائنس کی مدد سے معلوم ہوئی ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے تک انسان کو یہ سب کچھ معلوم نہیں تھا مگر آج ہم جانتے ہیں کہ کائنات میں ہر گھڑی نئے نئے ستارے پیدا ہو رہے ہیں ‘ ہر آن نئی نئی کہکشائیں وجود میں آرہی ہیں اور یہ کائنات مسلسل پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ” “ کے اس تصور کو اقبالؔ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے : ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید - کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُنْ فَـیَکُوْن - تو اللہ تعالیٰ کی شان کُنْ فَیَکُوْنکا ظہور مسلسل جاری ہے۔ اسی مفہوم کو سورة فاطر کی پہلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط ” وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے “۔ چناچہ وہ آسمانوں کو یعنی کائنات کو مسلسل وسعت دیے جا رہا ہے۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :43 آخرت کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر اسی کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں ۔ سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :44 اصل الفاظ ہیں وَاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ ۔ موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں اور وسیع کرنے والے کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے زور سے بنایا ہے اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی ۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آ گیا کہ ہم تمہیں دو بارہ پیدا نہ کر سیکیں گے؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں ۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے؟
16: اس کا مطلب کچھ مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسا کر لوگوں کے رزق میں وسعت پیدا فرماتے ہیں۔ کچھ مفسرین نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ : ہماری قدرت بہت وسیع ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی بھی ممکن ہیں کہ ہم خود آسمان میں وسعت پیدا کرنے والے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔