54۔ 1 یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لئے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جھلتے ہیں۔
(فتول عنھم فما انت بملوم : یعنی جب وہ سرکشی پر اڑے ہوئے ہیں اور حق واضح ہونے کے باوجود اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تو آپ کی ذمہ داری یہ نہیں کہ انہی کے پیچھے پڑے رہیں، بلکہ آپ ان سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ آپ کا کام حق کا پیغام پہنچا دینا ہے، وہ آپ نے پہنچا دیا، اب اگر وہ اسے قبول نہیں کرتے تو آپ پر کوئی ملامت نہیں ۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٤٨) کی تفسیر۔
فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ ٥٤ ۤ ۡ- ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] ، وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] ، فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ، فإنه ذکر اللّوم تنبيها علی أنه إذا لم يُلَامُوا لم يفعل بهم ما فوق اللّوم . - ( ل و م )- لمتہ ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں ۔ وَلا يَخافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ [ المائدة 54] اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۔ اور ملوم ( ملامت کیا ہوا ) صفت مفعولی ۔ ہے اور آیت کریمہ : فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ [ المؤمنون 6] ان سے مباشرت کرنے میں انہیں ملامت نہیں ہے ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ جب ان پر ملامت ہی نہیں ہے ۔ تو اس سے زیادہ سرزنش کے وہ بالاولےٰ مستحق نہیں ہیں ۔
(٥٤۔ ٥٥) اے محمد آپ ان کی طرف التفات نہ کیجیے کیونکہ ہمارے یہاں آپ پر کسی طرح کا الزام نہیں اس لیے کہ آپ نے کامل طور پر احکام الہی کو پہنچا دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قتال کا حکم دیا۔ آپ ان کو بذریعہ قرآن کریم سمجھاتے رہیے اس لیے کہ اس طرح سمجھانا ایمان والوں کے لیے ایمان میں بھی مزید ترقی کا باعث ہوگا۔
آیت ٥٤ فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ ۔ ” پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان سے رُخ پھیر لیں ‘ آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ “- یعنی اگر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں یہاں تک آگئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر ‘ ساحر ‘ مجنون اور معُلَّم (سکھایا ہوا) تک کہہ رہے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے مسلسل اعراض کر رہے ہیں تو اب آپ بھی اپنی توجہ ان کی طرف سے ہٹالیجیے۔ آپ محکم دلائل کے ساتھ ان پر اتمامِ حجت کرچکے ہیں۔ اگر یہ لوگ راہ راست پر نہ آئے تو اس کی جواب دہی آپ سے نہیں ہوگی۔ لہٰذا آپ انہیں چھوڑ کر ان لوگوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔
سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :51 اس آیت میں دین کی تبلیغ کا ایک قاعدہ بیان فرمایا گیا ہے جس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ ایک داعی حق جب کسی شخص کے سامنے معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت صاف صاف پیش کر دے اور اس کے شبہات و اعتراضات اور دلائل کا جواب بھی دے دے تو حق واضح کرنے کا جو فرض اس کے ذمے تھا اس سے وہ سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شخص اپنے عقیدہ و خیال پر جما رہے تو اس کی کوئی ذمہ داری داعی حق پر عائد نہیں ہوتی ۔ اب کچھ ضرور نہیں کہ وہ اسی شخص کے پیچھے پڑا رہے ، اسی سے بحث میں اپنی عمر کھپائے چلا جائے ، اور اس کا کام بس یہ رہ جائے کہ اس ایک آدمی کو کسی نہ کسی طرح اپنا ہم خیال بنانا ہے ۔ داعی اپنا فرض ادا کر چکا ۔ وہ نہیں مانتا تو نہ مانے ۔ اس کی طرف التفات نہ کرنے پر داعی کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ تم نے ایک آدمی کو گمراہی میں مبتلا رہنے دیا ، کیونکہ اب اپنی گمراہی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ قاعدہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ آپ اپنی تبلیغ میں بیجا طریقے سے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے روکنا چاہتا تھا ۔ دراصل اس کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک داعی حق جب کچھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معقول طریقے سے سمجھانے کا حق ادا کر چکتا ہے اور ان کے اندر ضد اور جھگڑالو پن کے آثار دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس پر الزام رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ واہ صاحب ، آپ اچھے دعوت حق کے علمبردار ہیں ، ہم آپ سے بات سمجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں ، اور آپ ہماری طرف التفات نہیں کرتے ۔ حالانکہ ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ اپنی بحثا بحثی میں داعی کو الجھانا اور محض اس کی تضیع اوقات کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام پاک میں بالفاظ صریح یہ فرما دیا کہ ایسے لوگوں کی طرف التفات نہ کرو ، ان سے بے التفاتی کرنے پر تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جا سکتی ۔ اس کے بعد کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ الزام نہیں دے سکتا تھا کہ جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس کی رو سے تو آپ ہم کو اپنا دین سمجھانے پر مامور ہیں ، پھر آپ ہماری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔