Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں اس نصیحت سے وہ لوگ یقینا فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] سعید روحوں کا نصیحت کی انتظار :۔ یعنی پیغمبر یا داعی حق کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام مسلسل پہنچاتے رہیں۔ خواہ ان کے سامنے مخالف یا ناقدر شناس ہی بیٹھے ہوں۔ اس لیے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے لاکھوں کروڑوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں جو اس دعوت کو ماننے کے لئے تیار بیٹھی ہیں اور فقط دعوت کے پہنچنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت اور سرمایہ ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ ایسے ہی لوگ اس کا دست راست بننے اور اس کے ساتھ مصائب جھیلنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وذکر فان الذکری تنفع المومنین :” ذکر یذکر تذکرۃ “ کا معنی نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی یعنی سرکشوں سے منہ پھیرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انہیں یاد دہانی اور نصیحت کرنا بھی چھوڑ دیں، بلکہ آپ انہیں یاد دہانی اور نصیحت کرتے رہیں، کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دیتی ہے اور چونکہ آپ کو معلوم نہیں کہ کون ہے جو ایمان لے آئے گا اور کون ہے جو اس سے محروم رہے گا، اسلئے آپ ایمان لانے والی سعید روحوں کی تلاش میں ہر نیک و بد، موافق و مخالف کو نصیحت جاری رکھیں، بالآخر وہ لوگ جن کی فطرت مسخ نہیں ہوئی، اس نصیحت سے فائدہ اٹھائیں گے، جیسا کہ فرمایا : (سیدکر من یخشی ، ویتجنبھا الاشقی) (الاعلی : ١٠، ١١)” عنقریب نصیحت حاصل کرے گا جو ڈرتا ہے۔ اور اس سے علیحدہ رہے گا جو سب سے بڑا بدنصیب ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٥٥- ذكر ( نصیحت)- وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته .- الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ وَّذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ” اور آپ تذکیر کرتے رہیے ‘ کیونکہ یہ تذکیر اہل ایمان کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ “- آپ تعلیم و تبلیغ کی صورت میں تذکیر و یاد دہانی کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ یہ سرکش لوگ اگر اس تذکیر کو نظرانداز کر رہے ہیں تو کچھ مضائقہ نہیں ‘ اہل ایمان کے لیے تو یہ بہت مفید ہے۔ آپ سے قرآن سن سن کر اہل ِ ایمان کے ایمان میں برابر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :52 اس آیت میں تبلیغ کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے ۔ دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں ۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں ۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت عام کا سلسلہ برابر جاری رکھے تاکہ جہاں جہاں بھی ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جائے ۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت ہیں ۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے ۔ اور انہی کو سمیٹ سمیٹ کر خدا کے راستے پر لا کھڑا کرنا اس کے پیش نظر ہونا چاہیے ۔ بیچ میں اولاد آدم کا جو فضول عنصر اس کو ملے اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے تجربے سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ جنس کا سد ہے ۔ اس کے کساد و فساد کا تجربہ ہو جانے کے بعد اسے پھر اپنا قیمتی وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہ کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے لوگ نہیں ہیں ، اور ان پر اپنی قوت صرف کرنے سے نقصان ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اس سے نفع اٹھانے والے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani