Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5 6 ۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] عبادت کا وسیع مفہوم :۔ ساری کائنات میں جن اور انسان ہی تکالیف شرعیہ کی مکلف مخلوق ہے۔ ان کو میں نے دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے کہ میں ہی ان کا خالق ہوں۔ اب اگر یہ مجھے اپنا خالق تسلیم کرنے کے باوجود بندگی دوسروں کی کرنے لگیں تو ان کی حماقت کی کوئی حد ہے ؟ اور دوسرے جب وہ خالق ہی نہیں تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ بندگی کے مستحق یا معبود بن بیٹھیں۔ واضح رہے کہ عبادت کا مفہوم محض ارکان اسلام کی بجا آوری نہیں ہے جیسا کہ عوام میں مشہور ہوچکا ہے۔ بلکہ غلام ہر وقت اپنے مالک کا غلام ہے۔ اگر مالک نے کچھ کاموں پر اس کی ڈیوٹی لگا دی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مالک اسے کوئی دوسرا کام کرنے کو کہہ نہیں سکتا۔ یا ملازم ڈیوٹی کے طے شدہ کام کے علاوہ دوسرے کام سے انکار کا حق رکھتا ہے۔ لہذا بندہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کا بندہ ہے اور اسے ہر وقت اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) وما خلقت الجن و الانس الالیعبدون : اس آیت میں بتایا کہ نصیحت کیا کرنی ہے اور کون سی بات یاد دلانی ہے۔ فرمایا انہیں یاد دلاؤ کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔- (٢) عبادت کا معنی بندگی ہے۔ غلام کو عربی میں عبد اور فاسری میں بندہ کہتے ہیں۔ عبادت وہ تعلق ہے جو غلام کا اپنے مالک یا عبد کا اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے۔- (٣) کائنات کی ہر چیز رب تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے، سکیک ی مجال نہیں کہ ذرہ برابر سرتابیک ر سکے۔ وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ” کن “ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس ارادے کو ارادہ کونیہ اور اس حکم کو تکوینی حکم کہتے ہیں، فرمایا :(انما امرہ اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون) (یٰسین : ٨٢)” اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتی ہے۔ “- (٤) اکثر معاملات میں انسان اور جن بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ کونیہ اور تکوینی کے اسی طرح پابند ہیں جس طرح دوسری تمام چیزیں، ان کی پیدائش، عمر، رزق، صحت، مرض اور ان کے اعضا کے افعال اور صلاحیتوں میں ان کی مرضی کا کچھ دخل نہیں۔ البتہ دونوں کو امتحان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک حد تک اختیار عطا فرمایا ہے اور زندگی گزارنے کے لئے اپنے رسولوں کے ذریعے سے کچھ احکام دیئے ہیں کہ میں تمہارا رب ہوں اور تم میرے بندے ہو، میں تمہارا مالک ہوں اور تم میرے غلام ہو، لہٰذا تم نے میری غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو حکم شرعی اور اس ارادے کو ارادہ شرعیہ کہتے ہیں۔ انسان اس حکم کی تعمیل اور اس ارادے کو پورا بھی کرسکتا ہے اور اسے اس حکم کی نافرمانیا ور اس رادے کو پورا نہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔ اسی اختیار پر اس سے باز پرس ہوگی اور وہ ثواب یا عذاب کا مستحق بنے گا، فرمایا :(الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) (الملک : ٢)” وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کی یاد دہانی کے لئے پیغمبر بھیجے اور فرمایا :(وما خلقت الجن والانس الالیعبدون)” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کا یم گر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔ “ یعنی ان دونوں کو پیدا کرنے سے میرا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ میری عبادت اور میری بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی میرے احکام کے مطابق گزاریں۔- (٥) بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر بازار اور عدلات میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عہد۔ ہاں، اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھاناپ ینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کئے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔- (٦) رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سیپ ہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لئے عبداللہ بن عباس (رض) نے سورة بقرہ کی آیت (٢١) :(یایھا الناس اعبدوا ربکم) کی تفسیر فرمائی :” ای و خدوا ربکم “ ” یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ “ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور میں نے جن اور انسان کو ( دراصل) اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ( اور تبعاً و تکمیلاً للعبادة جن وانس کی پیدائش پر دوسرے منافع کا مرتب ہونا اس کے منافی نہیں اور اسی طرح بعض جن و انس سے عبادت کا صادر نہ ہونا بھی اس مضمون کے منافی نہیں، کیونکہ حاصل اس لیعبدون کا ارادہ تشریعیہ ہے یعنی ان کو عبادت کا حکم دینا نہ کہ ارادہ تکوینیہ یعنی عبادت پر مجبور کرنا اور تخصیص جن و انس کی اس لئے ہے کہ عبادت سے مراد عبادت بالاختیار و ابتلاء ہے اور ملائکہ میں اگرچہ عبادت ہے ابتلاء نہیں اور دوسری مخلوقات حیوانات و نباتات وغیرہ میں اختیار نہیں، حاصل ارشاد کا یہ ہے کہ مجھ کو مطلوب شرعی ان سے عبادت کرانا ہے باقی) میں ان سے (مخلوق کی) رزق رسانی کی درخواست نہیں کرنا اور نہ یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھ کو کھلایا کریں اللہ خود ہی سب کو رزق پہنچانے والا ہے ( تو ہم کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ ہم مخلوقات کی روزی رسانی ان کے متعلق کرتے اور وہ) قوت والا نہایت قوت والا ہے ( کہ اس میں عجز و ضعف اور کسی قسم کی احتیاج کا عقلی احتمال بھی نہیں تو ان سے کھانا مانگنے کا کوئی امکان ہی نہیں، یہ ترغیب ہوگئی، آگے ترہیب ہے کہ جب عبادت کا وجوب ثابت ہوگیا اور عبادت کا اہم رکن ایمان ہے تو اگر یہ لوگ اب بھی شرک و کفر پر مصر رہیں گے) تو (سن رکھیں کہ) ان ظالموں کی (سزا کی) بھی باری (علم الٰہی میں مقرر ہے) جیسے ان کے (گزشتہ) ہم مشربوں کی باری (مقرر) تھی (یعنی ہر مجرم ظالم کے لئے اللہ کے علم میں خاص خاص وقت مقرر ہے، اس طرح نوبت بہ نوبت ہر مجرم کی باری آتی ہے تو وہ عذاب میں پکڑا جاتا ہے، کبھی دنیا و آخرت دونوں میں اور کبھی صرف آخرت میں) سو مجھ سے (عذاب) جلدی طلب نہ کریں ( جیسا کہ ان کی عادت ہے، کہ وعیدیں سن کر تکذیب کے طور پر استعجال کرنے لگتے ہیں) غرض ( جب وہ باری کے دن آویں گے جن میں سب سے اشد یوم موعود یعنی قیامت ہے تو) ان کافروں کے لئے اس دن کے آنے سے بڑی خرابی ہوگی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (چنانچہ خود سورت بھی اسی وعدے سے شروع ہوتی ہے اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ، اور اس سے سورت کے آغاز و انجام کا حسن ظاہر ہے )- معارف و مسائل - جن و انس کی تخلیق کا مقصد :- وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ، یعنی ہم نے جنات اور انسان کو عبادت کے سوا کسی کام کے لئے نہیں پیدا کیا، اس میں دو اشکال ظاہر نظر میں پیدا ہوتے ہیں، اول یہ کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا اور اس کا ارادہ یہی ہے کہ یہ مخلوق اس کام کو کرے تو عقلی طور پر یہ ناممکن و محال ہوگا کہ پھر وہ مخلوق اس کام سے انحراف کرسکے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت کے خلاف کوئی کام محال ہے، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس آیت میں انسان اور جن کی تخلیق کو صرف عبادت میں منحصر کردیا گیا ہے، حالانکہ ان کی پیدائش میں علاوہ عبادت کے دوسرے فوائد اور حکمتیں بھی موجود ہیں۔- پہلے اشکال کے جواب میں بعض حضرات مفسرین نے اس مضمون کو صرف مومنین کے ساتھ مخصوص قرار دیا ہے، یعنی ہم نے مومن جنات اور مومن انسانوں کو بجز عبادت کے اور کسی کام کے لئے نہیں بنایا اور مومنین ظاہر ہے کہ عبادت کے کم و بیش پابند ہوتے ہیں، یہ قول ضحاک اور سفیان وغیرہ کا ہے اور حضرت ابن عباس کی ایک قرات آیت مذکورہ میں لفظ مومنین مذکور بھی ہے اور قرات اس طرح ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ مِنَ المُومِنِینَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ اس قرات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ مضمون صرف مومنین کے حق میں آیا ہے اور خلاصہ تفسیر میں اس اشکال کو رفع کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس آیت میں ارادہ الٰہی سے مراد ارادہ تکوینی نہیں ہے جس کے خلاف کا وقوع محال ہوتا ہے بلکہ ارادہ تشریعی ہے، یعنی یہ کہ ہم نے ان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم ان کو عبادت کے لئے مامور کریں، امر الٰہی چونکہ انسانی اختیار کے ساتھ مشروط رکھا گیا ہے، اس کے خلاف کا وقوع محال نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے تو حکم عبادت کا سب کو دیا ہے مگر ساتھ ہی اختیار بھی دیا ہے اس لئے کسی نے اپنے خداداد اختیار کو صحیح خرچ کیا، عبادت میں لگ گیا، کسی نے اس اختیار کو غلط استعمال کیا، عبادت سے منحرف ہوگیا، یہ قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بغوی نے نقل کیا ہے اور زیادہ بہتر اور بےغبار توجیہ وہ ہے جو تفسیر مظہری میں کی گئی ہے کہ مراد آیت کی یہ ہے کہ ہم نے ان کی تخلیق اس انداز پر کی ہے کہ ان میں استعداد اور صلاحیت عبادت کرنے کی ہو، چناچہ ہر جن و انس کی فطرت میں یہ استعداد قدرتی موجود ہے، پھر کوئی اس استعداد کو صحیح مصرف میں خرچ کر کے کامیاب ہوتا ہے، کوئی اس استعداد کو اپنے معاصی اور شہوات میں ضائع کردیتا ہے اور اس مضمون کی مثال وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کل مولود یولد علی الفطرة فابواہ یھودانہ او یمجسانہ (یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو (اس فطرت سے ہٹا کر کوئی) یہودی بنا دیتا ہے کوئی مجوسی، فطرت پر پیدا ہونے سے مراد اکثر علماء کے نزدیک دین اسلام پر پیدا ہونا ہے، تو جس طرح اس حدیث میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ہر انسان میں فطری اور خلقی طور پر اسلام و ایمان کی استعداد و صلاحیت رکھی جاتی ہے، پھر کبھی اس کے ماں باپ اس صلاحیت کو ضائع کر کے کفر کے طریقوں پر ڈالتے ہیں، اسی طرح اس آیت میں (اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ) کا یہ مفہوم ہوسکتا ہے کہ جن و انس کے ہر فرد میں اللہ تعالیٰ نے استعداد اور صلاحیت عبادت کی رکھی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔- اور دوسرے اشکال کا جواب خلاصہ تفسیر میں یہ آچکا ہے کہ کسی مخلوق کو عبادت کے لئے پیدا کرنا اس سے دوسرے منافع اور فوائد کی نفی نہیں کرتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝ ٥٦- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - جِنّ ( شیطان)- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] .- والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء - «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال - الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ ( سورة آل عمران 119) دیکھو تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور میں نے جن و انسان کو دراصل اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری اطاعت کیا کریں یہ حکم صرف اہل اطاعت کے لیے خاص ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر ان کو صرف عبادت ہی کے لیے پیدا کیا جاتا تو آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتے (تو مطلب یہ ہے) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے جن و انس دراصل اس لیے پیدا کیے ہیں کہ انہیں اپنی عبادت کا حکم دے اور اپنا مکلف بنائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کو اس بات کا حکم دے کہ وہ توحید الہی کے قائل ہوں گے اور صرف اسی کی عبادت کریں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ ” اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔ “- شیخ سعدی (رح) نے اس مفہوم کی ترجمانی اس طرح کی ہے : ؎- زندگی آمد برائے بندگی - زندگی بےبندگی شرمندگی - یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں تخلیق انسانی کی غایت بیان کی گئی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے عام طور پر ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس تخلیق کا سبب کیا ہے ؟ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے جس کے جواب میں ہر زمانے کے فلاسفر اور حکماء نے اپنی اپنی آراء دی ہیں ۔ یہ ان تفاصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ ایک عام شخص کے لیے تخلیق کائنات کے سبب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ضروری نہیں اور اس لاعلمی کی وجہ سے اسے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی نہیں ۔ البتہ اپنی تخلیق کی غرض وغایت کے بارے میں جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ اگر انسان کو اپنی غایت تخلیق ہی کا علم نہیں ہوگا تو گویا اس کی ساری زندگی رائیگاں جائے گی۔ چناچہ اس آیت میں بنی نوع انسان کو ان کی غایت تخلیق واضح طور پر بتادی گئی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ” بندگی “ کے لیے پیدا کیا ہے۔ - بندگی یا عبادت کے بارے میں قبل ازیں بھی میں نے کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ اس کے تین حصے ہیں : اوّلاً ہمہ تن اطاعت ‘ ثانیاً اطاعت کی روح یعنی اللہ تعالیٰ کی غایت درجے کی محبت۔ عبادت اصلاً ان دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے (اَلْعِبَادَۃُ تَجْمَعُ اَصْلَیْنِ : غَایَۃَ الْحُبِّ مَعَ غَایَۃِ الذُّلِّ وَالْخُضُوْعِ ) ۔ جبکہ تیسری چیز مراسم ِعبودیت ہے ‘ جس کی حیثیت عبادت کے ظاہر یا جسم کی ہے۔ مثلاً اللہ کے سامنے عاجزی کی حالت (قنوت) میں کھڑے ہونا (قیام) ‘ رکوع ‘ سجدہ ‘ حمدیہ کلمات ادا کرنا ‘ نماز وغیرہ مراسم عبودیت ہیں اور ان کی اپنی اہمیت ہے۔ اگر ہم عبادت کی اس تعریف (اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت) کی روشنی میں آج اپنی حالت کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت واضح ہوگی کہ ہم میں سے جو لوگ اپنے زعم میں شب و روز پابندی کے ساتھ اللہ کی عبادت پر کمر بستہ ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ دس یا پندرہ فیصد تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اس کا واضح تر مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا غالب حصہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت سے نکلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس پر کافرانہ نظام کا غلبہ ہے اور اس نظام کے تحت رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ہمہ تن اطاعت ممکن ہی نہیں ۔ ان حالات میں ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا عبادت کے تقاضوں سے کیسے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے خواہش مند حضرات اس موضوع پر میری کتب اور تقاریر سے استفادہ کرسکتے ہیں۔- آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے یہاں پر مختصراً یہ سمجھ لیں کہ مادی وعلمی لحاظ سے انسان جس قدر چاہے ترقی کرلے اگر وہ اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا بندگی کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر رہا تو انسانی سطح پر اس کی ساری زندگی بیکار اور رائیگاں ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے ان اشعار میں انسان کی اسی ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے : ؎- ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا - اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا - جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا - زندگی کی شب ِتاریک سحر کر نہ سکا

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الذّٰرِیٰت حاشیہ نمبر :53 یعنی میں نے ان کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ میری بندگی تو ان کو اس لیے کرنی چاہیے کہ میں ان کا خالق ہوں ۔ دوسرے کسی نے جب ان کو پیدا نہیں کیا ہے تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اس کی بندگی کریں ، اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ان کا خالق تو ہوں میں اور یہ بندگی کرتے پھریں دوسروں کی ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف جنوں اور انسانوں ہی کا خالق تو نہیں ہے ۔ بلکہ سارے جہان اور اس کی ہر چیز کا خالق ہے ، پھر یہاں صرف جنوں اور انسانوں ہی کے متعلق کیوں فرمایا گیا کہ میں نے ان کو اپنے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ حالانکہ مخلوقات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی کی بندگی کے لیے ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر صرف جن اور انسان ایسی مخلوق ہیں جن کو یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں ، ورنہ وہ بندگی سے منہ بھی کوڑ سکتے ہیں ، اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی بھی کر سکتے ہیں ۔ دوسری جتنی مخلوقات بھی اس دنیا میں ہیں وہ اس نوعیت کی کوئی آزادی نہیں رکھتیں ۔ ان کے لیے سرے سے کوئی دائرہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس میں اللہ کی بندگی نہ کریں یا کسی اور کی بندگی کر سکیں ۔ اس لیے یہاں صرف جنوں اور انسانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے حدود میں اپنے خالق کی اطاعت و عبودیت سے منہ موڑ کر ، اور خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے خود اپنی فطرت سے لڑ رہے ہیں ، ان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ خالق کے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں اور ان کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ جو آزادی انہیں بخشی گئی ہے اسے غلط استعمال نہ کریں بلکہ اس آزادی کے حدود میں بھی خود اپنی مرضی سے اسی طرح خدا کی بندگی کریں جس طرح ان کے جسم کا رونگٹا رونگٹا ان کی زندگی کے غیر اختیاری حدود میں اس کی بندگی کر رہا ہے ۔ عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہ مفہوم بھی اگرچہ اس میں شامل ہے ، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے ۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش ، اطاعت ، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں ۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا ، کسی اور کے احکام بجا لانا ، کسی اور سے تقویٰ کرنا ، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا ، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا ، اور کسی دوسری ہستی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 63 ۔ الزمر ، حاشیہ 2 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 30 ۔ ایک اور بات جو ضمنی طور پر اس آیت سے صاف ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جن انسانوں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو قرآن میں جن کہا گیا ہے ۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی ناقابل انکار شہادت بہم پہنچاتی ہیں ( الانعام ، 100 ، 128 ۔ الاعراف 38 ، 179 ، ہود ، 119 ، الحجر ، 27 تا 33 ۔ بنی اسرائیل ، 88 ۔ الکہف ، 50 ۔ السجدہ ، 13 ۔ سبا ، 41 ۔ صٓ ، 75 ، 76 ۔ حٰم السجدہ ، 25 ۔ الاحقاف ، 18 ۔ الرحمٰن ، 15 ، 39 ، 56 ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ، سوم ، الانبیاء ، حاشیہ 21 ۔ النمل ، حاشیہ 23 ، 45 ۔ جلد چہارم ، تفسیر سورہ سبا ، حاشیہ 24 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani